کراچی جو کہ دنیا کے دس بڑے شہروں میں سے ایک سے اس کو "عروس
البلاد"روشنیوں کا شہر بھی کہاجاتا ہے اور بہت سے خوبصورت نام دیئے گئے ہیں
لیکن پچھلے بیس پچیس سال سے یہ شہر مسائل کا شکار ہے دن بدن آبادی تیزی کے
ساتھ بڑھ رہی ہے اور بہت مسائل سر اٹھارہے ہیں لیکن ان کا کوئی موزوں حل
تلاش نہیں کیا گیا ہے سب سے پہلے آبادی اور رہائش کا مسئلہ لوگوں نے آسمان
کو چھوتے ہوئے فلیٹ بنالیئے اور رہائش اختیار کی اس سے سب سے پہلے پانی کا
فقدان ہو گیا واٹر بورڈنے پانی کی سپلائی کی تو مگر وہ ان لوگوں کی ضرورت
کے لیئے ناکافی رہی پانی کا کاروبار اس کمی سے چمک اٹھا ٹینکرز مافیا نے
مہنگے داموں پانی بیچنا شروع کیا اور سڑکوں پر ٹینکرز ہی نظر آنے لگے جس سے
گرنے والے پانی نے نہ صرف روڈ کو خراب کر دیا بلکہ ٹریفک پر بھی اثر پڑا
نتیجتاً واٹر بورڈ جو پانی لوگوں کو فراہم کرتا تھا وہ بھی آنا بند ہو گیا
اور لوگ جو پیسے والے تھے پانی خرید لیتے اور جن کے پاس پیسہ نہیں ہے وہ
ادھر ادھر سے پانی جمع کرنے لگے مگر یہ مسئلے کا حل نہیں تھا پھر دوسرا
مسئلہ گیس کی لوڈ شیڈنگ نے کھڑا کر دیا اس سے CNGاو ر LPGدونوں صارف متاثر
ہوئے بسوں ، رکشوں اور دیگر گیس پر چلنے والی گاڑیوں کے کرایوں میں بے پناہ
اضافہ ہوا سفید پوش لوگ جو رکشوں میں سفر کرتے تھے رکشوں کرایوں کا سن کر
پریشان ہوتے اور پھر سے بسوں میں دھکے کھانے لگے اور ہمارے یہاں سڑکوں کی
خستہ حالی کے ساتھ ساتھ بسوں کی ہلتی جلتی سیٹیں، کیا کرتے لوگ انھی میں
سفر کرنے پر مجبور ہو گئے پھر صفائی کا ناقص انتظام جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر
گلیوں اور سڑکوں پر جمع سیوریج کا بدبودار پانی جو کہ سینکڑوں لوگوں کو
مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہا تھا اور لوگ بے بس اور لاچار اسی میں سے
گزرتے اور زندگی گزارتے صرف اس امید پر کہ اب یہ بہتر ہو جائے مگر یہاں بھی
کوئی پرسان حال نہیں لوگوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی رہی سہی کسر کے
الیکٹرک والوں نے پوری کر دی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے ڈیرہ ڈال لیا لائٹ
جب دل چاہے آجاتی اور پھر واپس نہ آنے کے لیے چلی جاتی لیکن کے الیکٹرک
والے باقاعدگی سے بل ضرور بھیجتے رہے نہ صرف بل بلکہ اسکے ساتھ دھمکی بھی
مگر کوئی ان سے یہ پوچھے کہ جب لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے تو بل کیوں اتنا زیادہ
آرہا ہے مگر کوئی دیکھنے اور سننے والا نہیں اور اگر کبھی اس کے دیئے ہوئے
نمبر پر کال کرو تو کے الیکٹرک والے کہتے ہیں کام ہو رہا ہے اس لیے بجلی
بند ارے لوگوں !یہ بتاؤ کیا سالہا سال کام ہوتا رہتا ہے تو لوگ اتنے نااہل
ہو کر کام ختم کر کے بجلی بحال نہیں کر سکتے مگر کیا کریں سخت گرمیوں میں
رمضان کے روزے آجاتے ہیں مگر بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عمل جاری رہتا ہے ان کی
بلا سےکوئی گرمی میں مرے یا جئے اور اگر کراچی شہر میں کبھی بارانِ رحمت
برستی ہے تو سب سے پہلے کے الیکٹرک کے ٹربائن ٹرپ ہو جاتے ہیں سارا شہر
اندھیرے میں ڈوب کر سوگ منانے لگتا ہے اور بارش کے بعد گٹر ابلنے لگتے ہیں
سڑکیں ندیاں بن جاتی ہیں اگر یہ صاف پانی ہو تو اسمیں کشتیاں تو بآسانی
چلنے لگیں اور کچھ سڑکیں تو اتنی ناقص ہیں کہ بارش کے پانی کے ساتھ ہی بہہ
جاتی ہیں کراچی کے مظلوم عوام کیا کریں ستم ظریفی کی تصویر بنے رہتے ہیں
اگر ان مسائل سے ہٹ کر دوسری طرف دیکھیں تو ہمارا نظامِ تعلیم جو کہ سسک
رہا ہے اور گورنمنٹ کے اسکول میں تعلیم کا فقدان دیکھ کر لوگ پرائیویٹ
اسکولوں کی طرف بھاگے مگر وہاں پر انہیں قدرے بہتر تعلیم تو مل رہی ہے مگر
غریب عوام داخلہ فیس ، سالانہ فیس، بوائز فنڈ، لیب فیس جیسے چارجز کا سامنا
کر رہے ہیں اگر ہمارے گورنمنٹ اسکولوں کے اساتذہ جو لائق فائق ہوتے ہیں وہ
اپنے آپ کا جائزہ لیں اور بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کریں تو لوگوں کو
پرائیویٹ اسکولوں کے دھکے نہ کھانے پڑیں مزید میں کیا لکھوں سب عقلمند ہیں
اور خدا کے آگے جواب دہ تو ضرور ہوں گے گورنمنٹ اسپتالوں کا بھی حال ان
تعلیمی اداروں سے جدا نہیں ہے لیکن ان سب کے درمیان غریب عوام پس رہے ہیں
وہ سب اسے یرغمال بنائے ہوئے جہاز کی حیثیت رکھتے ہیں جو کسی زمانے میں
دیبل کی بندرگاہ پر راجہ داہر کے آدمیوں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور
جہاز کے مسافر کسی محمد بن قاسم کا انتظار کر رہے تھے اسی طرح کراچی کے
مسائل میں پھنسے ہوئے لوگ بھی کسی ایسے حکمران کا انتظار کر رہے ہیں جو آئے
اور ان کو اس منجھدار سے نکالے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:۔
کس کس کا گلہ کیجئے کس کس کو روئے
آرام بڑی چیزہے منہ ڈھک کے سوئے
ایک اور بات وہ یہ کہ جب اتنے برے حالات میں کراچی پورے ملک کو پال رہا ہے
اگر یہاں پر ہر چیز اچھی ہو جائے سارے مسائل حل ہو جائیں تو کراچی پاکستان
کے لیے سونے کے انڈے دینے والی حقیقی مرغی بن سکتا ہے۔
مگر بقول اقبال :۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویران سے
زرا غم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
|