اس دارِ فانی میں جو بھی آیا ہے ہر ایک کو جانا ہے ، موت
ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی منکر نہیں، لیکن ظاہر ہے کہ باکمال شخصیات کا
اس دنیا سے چلے جانا باقی رہنے والوں کے لیے غم و اندوہ اور آزمائش کا سبب
ہوا کرتا ہے ۔ دارالعلوم دیوبند جو کہ بھارت کے مسلمانوں کی مرکزی دینی درس
گاہ ہے اور جس سے منسلک اکابرین کو دنیا بھر میں بزرگی حاصل ہے ، گذشتہ چند
مہینوں میں اس پر متعدد اہم شخصیات کی جدائی کے غم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں، جن
میں درجِ ذیل حضرات خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں:حضرت مولانا عبد الحق صاحب
اعظمی رحمۃ اﷲ علیہ (نائب شیخ الحدیث، متوفی 31 دسمبر 2016ء)،حضرت مولانا
کفیل احمد علوی رحمۃ اﷲ اﷲ علیہ (ناظم شیخ الہند اکیڈمی، متوفی 12مارچ
2017ء)،حضرت مولانا ازہر رانچی (رکن مجلسِ شوریٰ، 13مئی 2017ء)، حضرت
مولانا قاری سید فخر الدین صاحب رحمۃ اﷲ علیہ (ناظم شعبۂ تنظیم و ترقی، 16
مئی 2017ء)۔ابھی اِنھی غموں میں دارالعلوم اشک بار تھا کہ 23 شعبان المعظم
1438ھ یعنی 20 مئی 2017ء کی صبح سے سوشل میڈیا پر ایک اندوہ ناک خبر گردش
کرنے لگی کہ دارالعلوم دیوبند کے ایک اور قدیم استاذِ حدیث حضرت مولانا
ریاست علی صاحب بجنوری رحمۃ اﷲ علیہ ربِ حقیقی سے جا ملے ۔اﷲ تعالیٰ حضرت
موصوف کو غریقِ رحمت کرے ، انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
حضرت موصوف ایک شفیق استاذ، محقق عالمِ دین، یادگارِ سلف اور عمدہ شاعر تھے
۔ بہ حیثیت استاذ ان کی شان جاننی ہو تو ان ہزارہا قاسمیوں سے پوچھیے جنھوں
نے موصوف کے سامنے زانوے تلمذ طے کیا، ان کی شانِ علمی کا کچھ اندازہ کرنا
ہو تو ان کے تحاریر و تصانیف کا مطالعہ کیجیے اور ان کے شاعرانہ انداز سے
محظوظ ہونا ہو تو ان کے اشعار پر نظر ڈالیے ۔آپ کے ایک شاگرد نے درست لکھا
ہے کہ یوں تو اردو زبان روزِ اوّل ہی سے اپنی گونا گوں خصوصیات کی بنا پر
لوگوں کی منظورِ نظر رہی ہے اورآج اپنی بوقلمونی سے لوگوں کے ذہن و دماغ کو
مسخر کررہی ہے ۔ اس زبان کے ارتقائی سفر میں جہاں ادبا کا کردار انتہائی
روشن رہا، وہیں اس زبان کو اوجِ ثریا پر پہنچانے میں شعرا کا بھی اہم رول
رہا ہے ، بلکہ شاعری کو تو اردو ادب کی جان کہا گیا ہے ۔دبستانِ اردو کے
انھیں متنوع پھولوں میں سے ایک خوبصورت نام ”مولانا ریاست علی ظفر صاحب“ کا
بھی ہے ، آپ جہاں ایک ذی استعداد عالمِ دین، مقبول مدرس، ماہر منتظم اور
صاحبِ طرز ادیب ہیں، وہیں آپ کے ذوقِ سخن کی رفعت اور شاعرانہ عظمت لوگوں
کے دلوں پر حکم رانی کرتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔
راقم الحروف کو حضرت موصوف سے تلمذ کا شرف حاصل نہیں، البتہ اپنی تصانیف کے
مسودے حضرت کی خدمت میں پیش کرنے کا موقع ملا اور اکثر فون پر رابطہ رہا
کرتا تھا، حضرتِ والا پیرانہ سالی کے عذر کے باوجود ہمیشہ اپنی نیک دعاؤں
سے نوازتے رہتے ۔ حضرت موصوف کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی ہوگا کہ اس
مطلبی دنیا میں آج جہاں دیکھیے ان کی رحلت کے غم کا چرچہ ہے ، آخر کیوں نہ
ہو کہ علم و ہدایت و شفقت کا بادل جوارِ رحمت میں جا کر آنکھوں سے اوجھل ہو
گیا
ہر بوند ہے جس کی امرت جل، یہ بادل ایسا بادل ہے
حضرت موصوف کا نام ریاست علی، تخلص ظفرؔ، والدِ گرامی کا نام منشی علی اور
جائے پیدائش محلہ حکیم سرائے ، علی گڑھ تھا۔9مارچ 1940ء کو ولادت ہوئی،
1951ء تک پرائمری چہارم اور علی گڑھ سے ادیب کامل کی تعلیم حاصل کرنے کے
بعد 1958ء میں دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی اور 1972ء
میں دارالعلوم دیوبند میں بہ حیثیت استاذ تقرر عمل میں آیا۔ آپ کی تصانیف
میں ایضاح البخاری شرح اردو صحیح البخاری اور شعری مجموعہ نغمۂ سحر خصوصیت
سے قابلِ ذکر ہیں۔آپؒ نے دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے ساتھ ساتھ دیگر ذمے
داریاں بھی سنبھالی، من جملہ ان کے آپ 1402 ھ تا 1404ھ دارالعلوم کے موقر
رسالے ماہ نامہ دارالعلوم کے مدیر رہے ، 1405ھ میں آپ کو مجلسِ شوری نے
ناظمِ مجلسِ تعلیمی بنایا اور 1408ھ میں آپ کو شیخ الہند اکیڈمی کا نگراں
مقرر کیا گیا۔اس طرح دارالعلوم میں تقرر سے لے کر تا دمِ آخر آپ نے اپنی
پوری زندگی حدیثِ نبوی کے پڑھنے پڑھانے اور چمنِ قاسمی کو سرسبز و شاداب
کرنے میں گزار دی اور جس وقت یہ مضمون سپردِ قلم کیا جا رہا ہے اس وقت اس
مردِ مومن کی نمازِ جنازہ کی صفیں بنائی جا رہی ہوں گی۔ قابلِ رشک ہے آپ کی
زندگی کہ آپ نے شہرت کے تمام موقعوں کے باوجود نہایت شریفانہ انداز میں
سادگی کے ساتھ زندگی بسر کی اور یہ پیغام دیا
یوں سینۂ گیتی پر روشن اسلاف کا یہ کردار رہے
آنکھوں میں رہیں انوار حرم، سینے میں دل بیدار رہے
حضرت موصوف نے اپنی زندگی اسلاف کے طرز پر اس شان سے گذاری کہ اس پر جتنا
رشک کیا جائے کم ہے ۔ آپ گول مول باتیں کرنے کے عادی نہ تھے ، جس پر آپ کی
تحریریں بین دلیل ہیں۔آپ کا ویژن بھی بہت صاف تھا، تعلیم اور نصابِ تعلیم
کے متعلق جو سوالات اٹھائے جاتے رہتے ہیں اس میں بھی آپ بہت واضح نظریہ
رکھتے تھے ، ایک موقع پر اس سوال کے جواب میں کہ عصرِ حاضر میں اگر نصابِ
تعلیم میں کسی قسم کی تبدیلی ہو،تو اُس کا اصول کیا ہو گا؟ آپ نے دو ٹوک
الفاظ میں ارشاد فرمایا تھاکہ جس نصاب کو پڑھ کر حضرت مولانا نانوتوی ؒاِس
لائق ہو ئے کہ جنھیں آج معیار قرار دیا جا رہا ہے اور آپ حضرات بھی اسی
نصاب سے لائق و فائق ہوئے ،اس میں کسی طرح کی ایسی ترمیم جو ہمارے اکابر کے
نقشِ قدم سے ہٹ کر ہو گی،قبول نہیں کی جائے گی۔ (ماہنامہ دار العلوم:2004،
ص:45)
اس وقت اس سے زائد لکھنا تو ممکن نہیں، آپ کی شان میں لکھے گئے ایک مرثیے
کو سپردِ قلم کرکے بات کو ختم کرتا ہوں
[email protected]
فراست کی جہاں بانی کے فرزانے کی رحلت ہے
حریم ناز عنقا ہے صنم خانے کی رحلت ہے
سبکساری سے سینوں میں یہ کیسی آء طغیانی
اچانک کیسے برپا ہے یہاں اشکوں کی سیلانی
بہاروں کی چراگاہ میں خزاں کی آء رنجانی
سبھی غنچے ہیں پژمردہ لٹی ہے دل سلطانی
سجے تھی جس سے محفل اس زنخدانے کی رحلت ہے
وہ عاشق قول نبوی کا وہ عارف رازفطرت کا
وہ مصدر علم وحکمت کا وہ دلبر اہل حکمت کا
وہ شارح دل کی دنیا کا وہ مخزن شان وحدت کا
وہ شہ پر باغ قاسم کا وہ محور قلبی چاہت کا
خدا کے اک پیارے پیارے مستانے کی رحلت ہے
زباں کی چاشنی سے رس جہاں کانوں میں گھلتے تھے
جہاں پر رازتقدیس وفا کے خوب کھلتے تھے
تخیل کی عجب پرواز تھی بن پر کے اڑتے تھے
جہاں پر زمزمہ خیزی کے نغمے خوب سنتے تھے
شمع خاموش ہوتی ہے کہ پروانے کی رحلت ہے
نسیم بادیہ کی اشک افشانی کا چرچا ہے
صداے آہ وہو سے اک انوکھا شوربرپا ہے
ہتھیلی پر کلیجے ہیں دلوں میں کیف عنقا ہے
نشیمن زد میں آیا ہے عجب صرصر کا غوغا ہے
ہے صحراؤں پہ سناٹا کہ دیوانے کی رحلت ہے
ریاست وہ ریاست علم وفن کی جو جوارش تھے
سلف کی یاد برحق تھے زمانے کی وہ تابش تھے
ہراک خورد وکلاں پر مہربانی کی نگارش تھے
مصنف تھے محدث تھے خطابت کی وہ نازش تھے
کہ ان سارے خصائل کے ہی کاشانے کی رحلت ہے
خدایا مغفرت کردے چمن کی زیب وزینت کی
فصاحت اور بلاغت کی دوامی پیاری نکہت کی
ذہانت اور ذکاوت کی حقیقی شان وشوکت کی
سراپا علم وحکمت یعنی مولانا ریاست کی
جہاں پیتے تھے ہم طاہر اب اس میخانے کی رحلت ہے |