مبارک ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اشیاء خورد و نوش کے
نرخ آسمان کو چھونے لگتے ہیں۔ ہر طرف یہی شورو غوغا ہے۔ پریس اور عوام چیخ
چیخ کر مہنگائی کا رونا رو رہی ہیں۔
حکومت اپنی طرف سے سبسڈی دے کر نرخوں میں کمی کے ڈھنڈورے بھی پیٹ رہی ہےاور
ساتھ ہی حکومتی مشینری بھی نرخوں کی نگرانی کے لئے حرکت میں ہے۔
لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود منگائی کا جن اپنی پوری تاب کے ساتھ بھنگڑے
ڈال رہا ہے۔ حکومتی اداروں سے لے کر عوام تک ہر کوئی بے بس نظر آ رہا ہے
آخر اس کی وجہ کیا ہے۔
دکاندار سے بات کریں تو اپنا رونا شروع کر دیتا ہے کہ کیا کریں جی پیچھے سے
ہی ایسے ملتی ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے حصے کا ظلم بھی کئے جا رہا ہے اور خود
کو بری الذمہ قرار دے کر الزام دوسرے پر ڈال رہا ہے وہ دوسرا کون ہے کسی نے
آج تک دیکھا ہی نہیں۔ دوسرا ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہا۔
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اچانک ادھر رمضان کا چاند نظر آیا ادھر یک دم
نرخوں کو پر لگ گئے۔ نہ تو اتنی اچانک کوئی قلت پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی
اچانک کوئی خاص ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے۔ مانا ڈیمانڈ میں تھوڑا بہت فرق پڑتا ہے
مگر ایسا بھی نہیں کہ اتنی بڑی تبدیلی آجائے۔ اس اچانک تبدیلی کو سمجھنے
کے لئے شائد معیشت کے اصول اور علم بھی قاصرہو
اس کو سمجھنے کے لئے کوئی بہت بڑے علم پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تھوڑا
سا غور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک اس کی وجہ صرف اور صرف انسانوں کا
حوس ، کمینگی اور دین کی تعلیمات سے دوری ہے۔ ہر کوئی حوس ، لالچ اور دھوکے
میں پڑاہوا ہے۔اس حوس اور لالچ نے اس کی سوچ اور شعور پر پردہ ڈالا ہوا ہے۔
ایک طرف سے لوٹ رہا ہے تو دوسری طرف لٹ رہا ہے۔ آخر میں جمع تفریق کرکے
اسے بچتی بے ایمانی ، نحوست اور بے برکتی ہی ہے
ایک بات اور جو دیکھنے اور سمجھنے کو ملتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر کوئی حکومت کو
دوش دے رہا ہے اور حکومت اکیلے کبھی بھی اس صورتحال پر قابو نہیں پا سکتی
جب تک مظلوم عوام حکومت کا ساتھ نہ دیں۔ لہذا محض شور شرابے سے مسئلہ حل
نہیں ہوگا بلکہ کچھ سوچنا ہوگا ، عمل کرنا ہوگا اور حکومت کا ساتھ دینا
ہوگا۔
اب آتے ہیں اسطرف کہ اس مہنگائی کے جن کو کوزے میں کیسے بندکیا جائے:
سب سے پہلے تو لوگوں کےاندر شعور کواجاگر کیا جائے ان کی سوچ کو بدلا جائے
کہ زندگی کا سکون اور آسائشیں حوس اور لالچ میں نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ
بھلائی اور ایثار میں ہیں۔ محلے میں ہمسائیوں ، مسکینوں ، محتاجوں اور ر
رشتہ داروں کی ضروریات کی طرف توجہ دی جائے۔ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال
کیا جائے۔ اپنی سوچ کے زاویے اور نقطہ کو اپنی زات سے ہٹا کر دوسروں کی زات
اور ضروریات پر مرکوز کیا جائے جو رمضان کا اصل مقصود ہے۔ یہ مہینہ تو ہے
ہی بھوک اور پیاس کو برداشت کرنے کی مشق کا مہینہ ہے۔ دوسروں کے احساسات کو
سمجھنے اور جاننے کا نام روزہ ہے نہ کہ صرف بھوکے اور پیاسے رہنے کا۔ ویسے
بھی بھوک اور پیاس کے بعد کھانے کی چیزوں پر جانوروں کی طرح ٹوٹنا انسان کو
زیب نہیں دیتا ۔دیکھیں سوچنےکی بات ہے اگر ہم پورا مہینہ کھاتے ہیں تو اگر
ایک اس مہینے میں خود نہ بھی کھائیں تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹے گی بلکہ صدقہ
خیرات زیادہ سے زیادہ کیا جائے خود نہ کھا کر بھی دوسروں کو دیا جائے۔ صدقہ
خیرات اور عبادات کے اجر کا کئی گنا بڑھا دینے کا مقصد ہی یہ ہےکہ دوسروں
کو دینے کی مشق کی جائے۔ دوسرروں کو لوٹنے کی نہیں بلکہ دوسروں پر سب کچھ
لٹانے کی مشق کی جائے پھر دیکھیں کہ حقیقی لزت لوٹنے میں ہے یا لٹنے میں۔
یہ تھیں باتیں کچھ شعور اور سوچ کی مگر کچھ لوگ اور زبان سمجھتے ہیں ان کی
تربیت اور ماحول اس طرح کی باتوں کے موافق نہیں ہوتے۔ تو ایسی صورتحال سے
نمٹنے کی تدابیر زہانت سے کی جاتی ہیں اور حا لات کے رخ کو اپنی ذہانت سے
اس طرح سے موڑ دیتے ہیں کہ وہ تمھارے لئے فائدہ مند ہوجائیں۔
جن چیزوں کے نرخ بڑھائے جاتے ہیں ان میں زیادہ تر سبزیاں اور فروٹ ہوتے ہیں
اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ ان چیزوں کو عوام وقت سے پہلے محفوظ نہیں کر سکتے
کیونکہ ان کے خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور اسی چیز کو دیکھتے ہوئے مفاد
پرست لوگ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کا خریدنا
مجبوری ہے لہذا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور لوگوں کی نفسیات بھی یہ ہیں کہ جو
چیز مہنگی ہو وہ اس خدشے کے سبب کہ کہیں ختم نہ ہو جائے ضرورت سے بھی زیادہ
خریدنے لگ جاتے ہیں چہ جائے کہ ضرورت سے بھی کم خریدیں تاکہ دوسرے کے بھی
حصے آجائے۔
اب دیکھیں یہاں پر زہانت سے حالات کو اپنے فائدے میں کیسے ڈھالا جاسکتا ہے
انتہائی آسان ہے۔ جس طرح وہ چیز کے خراب ہونے کے خدشےکو مد نظر رکھتے ہوئے
عوام کو لوٹنے کی کوشش کرتا ہے ۔یہ خدشہ اسی کو لٹا دیا جائے۔ مثلاؑ اگر
عوام سبزیوں اور فروٹ کی خریداری زیادہ کی بجائے کم کردیں اور اس کی متبادل
اشیاء کو فوکس کر لیں اور تھوڑا سا انتظار کر لیں تو فروٹ اور سبزی کو
روکنا ان مفاد پرستوں کے بس کی بات بھی نہیں۔ بلکہ ایک دن کی تدبیر ان کو
اپنی خرید سے بھی کم قیمت بیچنے پر مجبور کر دے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ جن چیزوں کے نرخ زیادہ ہوں ان کی متبادل
اشیاء کو استعمال کیا جائے۔ اور وقت کی نزاکت کو ہٹ کیا جائے اگر دن کو
مہنگی فروخت کرتے ہیں تو رات تک انتظار کیا جائے اور اگر رات تک بھی ان کے
ہوش ٹکانے نہ آئیں تو ایک دن کی تاخیر سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ایک دن بھی
زخیرہ اندوز پر بھاری ہو جائے گا۔ چائنا کا ایک بہت ہی مشہور واقعہ ہے کہ
چینی کی زخیرہ اندوزی سے قیمت انتہائی زیادہ ہوگئی تو اس وقت کے بادشاہ نے
قوم کو خطاب کیا اور عوام کو ترغیب کی غرض سے اس نے تجویز دی کہ چینی کا
استعمال اگر ترک بھی کر دیا جائے تو انسان مرتا نہیں ہے اور ساتھ ہی اس نے
قسم کھائی کہ جب تک چینی سستی نہیں ہوگی وہ نہیں کھائے گا۔ اس طرح عوام نے
بھی جب اس تجویز پر عمل کیا تو ایک دن میں بازار میں چینی عام تھی مگر
خریدار کوئی نہیں تھا۔
پھر حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون کیا جائے اگر کوئی حکومت کے تعین کردہ نرخ
سے زیادہ وصول کرتا ہے تو اس کو رپورٹ کیا جائے۔ عوامی تعاون کے بغیر حکومت
اکیلی ایسی صورتحال سےنہیں نمٹ سکتی۔
یہ چند ایک تجاویز آپکے لئے فوڈ آف تھاٹ کےطور پر پیش کی گئی ہیں ۔ اگر
ہم سوچیں تو اس مصنوعی مہنگائی کے قلع قمع کے لئے بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
آپ بھی اپنی مستفید آراء کو شامل کرکے اپنے حصے کا دیا ضرور جلائیں
|