نئے صاحب عظیم ،پرانے’’ یتیم‘‘ ہوگئے

جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں ، شہر میں آنے والے نئے سی پی اوکی عظمت کو سلام کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ، وارداتئے اور ٹاؤٹ حضرات کھانے اور نذرانے کے نام پر نئے افسر کو ’’کانے‘‘ کرنے کے مشن آغاز کرچکے ہوں گے ، نئے افسر کو بتایا جائے گا کہ گوجرانوالہ میں آپ جیسا عظیم اور عالی مرتبت افسر کبھی تعینات ہوا ہے نہ ہوگا ،ایک مولوی صاحب ڈی سی آفس کی طرح سی پی او آفس میں بھی مستقل ڈیرہ لگالیں گے، موبائل ایسوسی ایشنز اور تاجر تنظیموں کے نمائندے نئے صاحب کے دفتر میں گلدستے لے کرپہنچ چکے ہوں گے یا پہنچنے ہی والے ہوں گے ، ان کا کام ہی پولیس کے بغیر نہیں چلتا ،ایک گلے سڑے نظام کی گلی سڑی،بد اخلاق اور بکاؤ پولیس کا لوگوں پر رعب و دبدبہ یقینا ایسا ہی ہونا چاہئے ،ہمارے معاشرے میں آج بھی پولیس بادشاہ ہے ،اسی لئے بڑے پولیس افسران بھی پولیس دربار لگانا پسند کرتے ہیں کھلی کچہری نہیں ، سو نئے افسر بھی یہی کام کریں گے ،پولیس کا محکمہ دوسرے کسی بھی محکمے سے بد تر اس لئے ہے کہ گیس اور بجلی کے دفتر میں رشوت دے کر ڈیمانڈ نوٹس ،سپلائی اور میٹر کی تنصیب کا کام ’’باعزت‘‘ طریقے سے ہو جاتا ہے ،اور ان میں سے کوئی محکمہ آپ کی چادر چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے کبھی نہیں آتا ،لیکن پولیس پیسے لے کر بھی کام کرے نہ کرے کوئی گارنٹی نہیں اور عزت تو کسی شہری کی محفوظ نہیں ، مال کا چڑھاوا چڑھ جائے تو یہ لوگ دندناتے ہوئے گھروں میں گھس جاتے ہیں ایسے ایس ایچ اوز تعینات ہیں کہ جو شکل سے ہی خوفناک لگتے ہیں ،تھانوں میں تفتیش اس قدر بھونڈے انداز میں کی جاتی ہے کہ بیان نہیں کی جاسکتی ،عام طور پر ایک اے ایس آئی جو ایس ایچ او سے پہلے ہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے کہ فلاں کیس میں کیا کرنا ہے دونوں پارٹیوں کو بلا کر رشوت نہ دینے والی پارٹی کی تذلیل کرتا ہے اور پھرمال کھلانے والے کے خلاف پرچہ ہو جاتا ہے ،ماورائے عدالت قتل بھی چلتے رہیں گے ، پولیس کے کہنے پرجعلی مدعی جعلی شناختیں کرتے رہیں گے ،اعلیٰ افسران کی ہدایت پر کرائم ریٹ میں کمی کے لئے اس فرسودہ طریقے سے کام لئے جانے سے پولیس اور بھی کھل کر جرائم کرنے لگتی ہے، لوگ آج بھی ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لئے پولیس کا استعمال کرتے ہیں، ایس ایچ او سے لے کر سپاہی تک تھانوں میں رشوت کا وہ بازار گرم ہے جسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی ،سائلین یا سفارش لے کر آنے والوں کو ایس ایچ او ماں بہن کی گالیاں دے یا اس سے کچھ کم پر اکتفا کرے یہ اسکی مرضی ہے لیکن شایدایس ایچ او کی بظاہرشناخت اور کم سے کم اہلیت یہی ہے کہ وہ ہر قسم کی گالیوں پر عبور رکھتا ہواور گزشتہ دنوں گوجرانوالہ شہر کے ایک ماڈل تھانے کے ایس ایچ او نے لڑائی جھگڑے کے ایک ملزم سے ہتھیار کی برآمدگی نہ ہونے کی صورت میں اسکے گھر بینڈ باجے کے ساتھ پہنچ جانے کی دھمکی دے دی یہی نہیں مذکورہ ایس ایچ او نے تھانے میں بہت سے لوگوں کی موجودگی میں پنجاب کے انتظامی سربراہ کو بھی کچھ گالیاں تبرکاََ پیش کیں تو اندازہ ہوا کہ ایس ایچ او ماڈل تھانے کا ہو یا دیہات میں تھانے کے نام پر بنے کسی عقوبت خانے کا بہر حال ایس ایچ او ہی ہوتا ہے اور تھانے کا بے تاج بادشاہ بھی وہی ہوتا ہے، اسی ماڈل تھانے میں ایک ملزم کے خلاف کیس درج نہ کرنے کا معاوضہ6لاکھ روپے طلب کیا گیا جو نہ ماننے پر اس ملزم کی ایک کیس میں ضمانت کے بعد 18 نئے کیس درج کئے گئے ، یہ ہے اس خوفناک پولیس کا چہرہ وردی کی تبدیلی کے بعد بھی اتنی ہی ڈراؤنی رہے گی جتنی موجودہ وردی کے ساتھ ہے ،ماڈل تھانوں میں واحد تبدیلی یہ ہے آدھے سوئے اور آدھے جاگے سپاہی کی بھدی آواز کی جگہ اب فون پر آپکو نسوانی آواز سننے کو ملتی ہے، یہ آواز آپکو انصاف دلانے آپکی دادرسی کرنے میں کسی کام کی نہیں ،تھانوں میں قائم فرنٹ ڈیسک محض بجٹ اجاڑنے کا ذریعہ ہیں ،ایف آئی آر اب بھی منشی ہی لکھتے اور بعد میں کمپیوٹر پر رجسٹرڈ کراتے ہیں اور رہیں گے ،پولیس افسران اب بھی اینٹی کرائم میٹنگز کی بجائے ’’کرائم میٹنگز‘‘ ہی کرتے ر ہیں گے،منشیات کے دھندے ،آنٹیوں کے اڈے اور گلی گلی جوا ء خانے چلتے رہیں گے، فرق بس اتنا ہے کہ نئے صاحب چارج سنبھالنے کے بعد عظیم اور چارج چھوڑ کر جانے والے’’ یتیم‘‘ہو گئے ہیں۔

ادھر میئر کارپوریشن شیخ ثروت اکرام جنہوں نے ذمہ داری سنبھالنے کے بعد کارپوریشن سے بدعنوانی کے خاتمے جیسے مشکل کام کا بیڑہ اٹھایا ہے اور بعض خصوصی اقدامات کے ذریعے ایسے افراد جو درحقیقت عوام سے پیسے بٹورنے والی نوٹوں کی مشینیں ہیں کو کھڈے لائن لگا دیا تھا اور انکی آمد سے کارپوریشن میں سراسیمگی پھیل گئی تھی اب بھی کرپٹ مافیا کے لئے وہ درد سر بنے ہوئے ہیں لیکن ان کا واسطہ اب شہر کی انتظامیہ کے ساتھ پڑ گیا ہے ،کارپوریشن کی دیگر ززمینوں پر با اثر افراد کے قبضوں کی کہانیاں تو ہم روز سنتے ہیں لیکن حال ہی میں شیخ ثروت اکرام کو ایک سخت قسم کا بیان اس وقت جاری کرنا پڑا جب انہوں نے شہر کی انتظامیہ کو یہ باور کرایاکہ سٹی پارکنگ پلازہ کی جگہ کارپوریشن کی ملکیت ہے اور کسی کو کارپوریشن کے وسائل پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے جس کے بعد اے ڈی سی فنانس نورش صبا ء جو گوجرانوالہ انتظامیہ کی ایک مقبول افسر ہیں نے سٹی پارکنگ پلازہ کی دوکانوں کی نیلامی رکوا دی جو ایک خوش آئند امر ہے اس ایشو کو اپنے لئے انا کا مسئلہ نہ بنانے پر وہ یقینی طور پر مبارکباد کی مستحق ہیں، یوں بھی ہٹ دھرمی اور ضد کسی مسئلے کا حل نہیں ، انتظامی افسران اگر خوش اخلاق ہوں تو عوام انکے ساتھ تعاون کرنے کو ہر وقت تیار ہوتے ہیں لیکن یہی افسران اگر سابق اے سی سٹی جیسا رویہ اختیار کر لیں تو لوگ انکی باتوں پر کان دھرنے کوتیا ر نہیں ہوتے ۔ شیخ ثروت اکرام عوام کے چنے ہوئے نمائندے ہیں وہ پوری ذمہ داری سے کہہ رہے ہیں کہ کارپوریشن کے پاس اس اراضی کے مالکانہ حقوق موجود ہیں تو انکے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کرنے میں کسی کو قباحت نہیں ہونی چاہئے ۔

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 76383 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.