تحریر: عامر شہزاد ، سرگودھا
ہم زندگی کو مختلف زاویوں سے جیتے ہیں۔ کبھی خوش ہو کر تو کبھی دکھوں میں
مبتلا ہو کر ۔ہم اکثر یہ دیکھتے ہیں جب ہمارے گھروں میں کسی کے ہاں کوئی
بچہ پیدا ہوتا ہے تو پہلے دن بچے کو ایک پیغام دیا جاتا ہے کہ یہ زندگی
تیری نہیں پرائی ہے۔ وہ پیغام اس انداز میں دیا جاتا ہے کہ ایک کان میں
اذان دیتے ہیں اور دوسرے میں اقامت کہتے ہیں۔ اس لیے نہ جنازے کی اذان ہے
نہ اقامت ہے کیوں کہ وہ تو پہلے ہی ہو چکی۔ بہترین انسان وہ ہے جو زندگی کے
دن رات کو گن کے گزارے مال کو گن کر حساب و کتاب کر کے چلنے والا، اپنی
چادر کے مطابق پاؤں پھیلانے والا کامیاب شخص ہوتا ہے ۔ ناکام شخص وہ ہے جس
کی زندگی کے دن تھوڑے اور امیدیں، خواہشیں تمنائیں زیادہ ہیں۔ انسان کی
زندگی خواہشات امیدوں اور ذمہ داریوں سے عبارت۔ اپنی زندگی میں وہ صرف اپنے
لیے ہی خواہشات اور امید رکھتا ہے لیکن بعد میں بہت جلد اسے احساس ہوتا ہے
کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں رہتا ہے جہاں اسے صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ
دوسروں کے لیے بھی بہت کچھ کرنا ہے ۔ تب اس کی خواہشات اور امیدوں میں کچھ
ذمہ داریاں شامل ہو جاتی ہیں جن میں سے اپنی شخصیت کو قابل قد راور قبول
بنانا بھی ایک اہم ضرورت کا درجہ رکھتی ہے ۔ تاہم ایسا کرتے ہوئے جہاں چند
نادانستہ اور فطری ذہنی عوامل شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں وہاں خود انسان
بھی لوگوں کو اپنا مقام بنانے کے لیے اپنی ذات کو تبدیل کرنے لگتا ہے۔ یہ
ایک ایسا حساس مرحلہ ہوتا ہے کہ اکثر اوقات انسان اپنی ترجیحات اور پسند و
ناپسند کو بھی یکسر فراموش کر بیٹھاتا ہے ۔ وہ اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں
کے لیے جیتا ہے۔ سب کچھ اس زندگی میں ہوتا اور یہ زندگی یقینا بہت مختصر ہے
اور اسے کیسے جینا ہے یہ ایک اہم سوال ہے اور اس سوال کے جواب پر غور کیا
جائے۔ تاکہ زندگی کا ایک مقصد ہو اور پھر اس مقصد کے مطابق زندگی گزاری
جائے۔ دنیا کے ہزاروں مقاصد ہو سکتے ہیں مگر زندگی کے آخر میں ایک اور مقصد
شروع ہوتا ہے اور وہ حقیقی مقصد ہے تو اس کے لیے تیاری بھی بہت ضروری ہے۔
آج سے اپنی اس زندگی کے لیے اس زندگی میں تیاری شروع کردیں۔ |