کرکٹ کے کھیل کا شمار ایک قدیم اور شریفانہ کھیل میں ہوتا
ہے، لبکن اس میں نئے فارمیٹ کی شروعات کے بعد اس میں جوئے اور سٹے بازی کو
فروغ حاصل ہوا۔ اس کھیل کا آغاز 15 مارچ 1877ء سے 19 مارچ 1877ء تک
میلبورن گرائونڈ میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان منعقد ہونے والے ٹیسٹ
میچ سے ہوا جس میں آسٹریلیا کی ٹیم نے انگلینڈ کو 45 رنز سے شکست سے دو
چار کیا۔ 1977ء کو کرکٹ کے کھیل کی صد سالہ تقریب کے موقع پر 12 سے 17مارچ
تک پہلے میچ کی یاد میں، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ میچ کا
انعقاد ہوا جس میں حیرت انگیز طور سے کینگروز نے برطانوی ٹیم کو 45 رنز سے
ہی شکست دی۔ ٹیسٹ کرکٹ کو سست رفتار کھیل کہا جاتا تھا جس کا حتمی نتیجہ
پانچ روز کے مسلسل کھیل کے بعد برآمد ہوتا تھا۔
5 جنوری 1971ء کو کرکٹ نے جارحانہ طرز اپنایا اور ایک روزہ کرکٹ میچز کی
ابتداء ہوئی۔ پہلا ایک روزہ میچ میلبورن کے تاریخی گرائونڈ میں آسٹریلیا
اور انگلینڈ کے درمیان کھیلا گیا، جو 50 اوورز پر مشتمل تھا۔ 2007ء میں
انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ نے بیس محدود اوورز کا میچ ٹوئنٹی ٹوئنٹی یا
ٹی۔ ٹوئنٹی متعارف کرایا جسے بعد میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی )
نے منظوری دے دی۔ کرکٹ کی اس جہت کا دورانیہ صرف تین گھنٹے کا ہوتا ہے جس
میں کل چالیس اوورز کرائے جاتے ہیں اور ہر اننگز نوے منٹ کی ہوتی ہے جس میں
10 سے 20منٹ کا وقفہ دیا جاتا ہے۔ پہلے آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا
انعقاد 2007ء میں جنوبی افریقہ میں ہوا جسے بھارت نے جیتا۔
1977ء میں آسٹریلیا کے میڈیا ٹائیکون کیری پیکر نے اسے خالصتاً پروفیشنل
انداز میں منظم کیا۔ کیری پیکر کے ساتھ بھاری رقومات کی پیشکش پر دنیا کے
بہترین کھلاڑیوں ویوین رچرڈز، مائیکل ہولڈنگ، ظہیر عباس، ماجد خان، ڈینس
للی، ٹونی گریگ، بیری رچرڈز اور عمران خان کے کھیلنے کے لیے معاہدے
ہوئے۔اسی طرز پر 1990ء اور 2000ء کے درمیان آئی پی ایل( انڈین پریمیئر
لیگ) سری لنکن پریمیئر لیگ، بنگلہ دیش پریمیئر لیگ اور اب پاکستان سپر لیگ
کا آغاز کیا گیاہے۔
کرکٹ کے کھیل میں مقبولیت کے ساتھ ساتھ اس میں میچ اور اسپاٹ فکسنگ اور سٹے
بازی کے اسکینڈل سامنے آتے رہتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ میں سٹے بازی کی پہلی
بازگشت 1969ء میں سنائی دی جب فاسٹ بالر سرفراز نواز نے پاکستان ٹیم کے
کپتان آصف اقبال پر الزام عائد کیا کہ کرکٹ ٹیم کے بھارت کے دورے کے دوران
ایک میچ کا ٹاس مشکوک تھا۔ 1983-84ء میں آسٹریلیا کا دورہ کرنے والی
پاکستانی ٹیم کے بیٹسمین قاسم عمر نے انکشاف کیا تھا کہ مذکورہ دورے کے
دوران ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے عوض پاکستانی کھلاڑیوں کو بھاری
رقومات کی پیشکش کی گئی تھیں۔ 1993ء میں آسٹریلوی کپتان ایلن بارڈر نے
پاکستانی ٹیم کے کپتان مشتاق محمد پر الزام لگایا کہ ان کا تعلق بکیز سے
تھا اور انہوں نے انگلینڈ سے میچ ہارنے کے لیے، انہیں پچاس ہزار ڈالر کی
پیشکش کی تھی۔ 1995ء میں آسٹریلوی کرکٹرز شین وارن، ٹم مے اور مارک وا نے
سلیم ملک پر الزام لگایا کہ انہوں نے انہیں میچ ہارنے کے عوض رقم کی پیش کی
تھی۔ اسی دوران جنوبی افریقہ اور زمبابوے کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم
میں شامل پاکستانی کھلاڑیوں وکٹ کیپر راشد لطیف اور باسط علی نے بھی سلیم
ملک پر سٹے بازی کے الزامات عائد کرتے ہوئے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ 1998ء
میں کرکٹ بورڈ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں پاکستانی کھلاڑیوں کو وسیم اکرم،
سلیم ملک اور اعجاز احمد سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا۔ ستمبر 1998ء میں
جسٹس قیوم پر مشتمل کرکٹ کے تحقیقاتی کمیشن نے سلیم ملک اور عطاء الرحمان
پر پابندی کی سفارش کی جب کہ سعید انور، وسیم اکرم، وقار یونس، مشتاق احمد
اور اکرم رضا پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ 1999ء میں عالمی کپ کے دوران بھارت
اور بنگلہ دیش کے ہاتھوں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شکست کو بھی میچ فکسنگ کا
نتیجہ قرار دیا گیا لیکن تحقیقات کے بعد تمام کھلاڑی بے قصور قرار دیے گئے۔
2010ء میں اسپاٹ فکسنگ کا سب سے بڑا اسکینڈل سامنے آیا جس میں پاکستان کے
تین مایہ ناز کھلاڑیوں کو نہ صرف پابندیوں بلکہ قید و بندکی سزا بھی
بھگتناپڑی۔ برطانوی جریدے ’’نیوز آف ورلڈ‘‘ کے تحقیقاتی رپورٹر مظہر محمود
نے ایک بھارتی سٹے باز مظہر مجید کے توسط سے برطانیہ کا دورہ کرنے والی
کرکٹ ٹیم کے خلاف گھیرا تنگ کیا۔ مظہر مجید نے ڈیڑھ لاکھ پائونڈ رشوت لے کر
برطانوی صحافی کو یقین دلایا کہ پاکستان کے تین کھلاڑی محمد آصف، سلمان بٹ
اور محمد عامر، اس کے بتائے ہوئے پلان کے مطابق کھیلیں گے۔ میچ کا نتیجہ
مظہر مجید کی جانب سے کی گئی پیش گوئی کے مطابق برآمد ہوا جس کی پاداش میں
محمد عامر کو گرفتار کر کے چھ ماہ قید کی سزا اور 5 سال پابندی کا سامنا
کرنا پڑا، ان کے ساتھی بالر محمد آصف کو ایک سال قید کی سزا اور سات سال
کی پابندی عائد کی گئی جس میں سے دو سال کی پابندی کی سزا معطل کردی گئی۔
پاکستانی ٹیم کے کپتان پر اسپاٹ فکسنگ کے کیس میں انتہائی سنگین الزامات
عائد کیے گئے۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ برطانیہ اور پاکستان کے میچ کے
دوران انہوں نے محمد عامر اور محمد آصف کو نو بال کرانے کی ہدایت کی تھی۔
انہیں اس جرم میں ڈھائی سال قید کی سزا اور دس سال پابندی کی سزا سنائی
گئی۔ ڈھائی سال قید میں گزارنے کے بعد ان کی پانچ سالہ پابندی کی سزا معطل
کردی گئی۔
حال ہی میں پاکستان سپر لیگ میں بھی اسپاٹ فکسنگ کا اسکینڈل سامنے آیا ہے
جس کے نتیجے میں پاکستان کے دو ہونہار کرکٹرز شرجیل خان اور خالد لطیف کو
’’بکیز‘‘ سے ملاقات کرنے کے جرم میں دوبئی سے وطن واپس بھیج کرمعطلی کی سزا
دی گئی ہے جب کہ ان سمیت کئی پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔
دوبئی میں رونما ہونے والے واقعے کے چند روز بعد ہی پاکستان کرکٹ ٹیم کے
ایک اور بلے باز، ناصر جمشید کو دوبئی سے لندن واپسی پر ان کی رہائش گاہ سے
گرفتار کیا گیا جب کہ ایک بکی یوسف کو ہیتھرو ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا۔
ان دونوں کے بارے میں آئی سی سی اور پی سی بی کے تحقیقاتی اداروں نے
معلومات فراہم کی تھیں، جن کی بنیاد پر برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے
مذکورہ افراد کو گرفتار کیا تھا۔ دوران حراست ان کے ویڈیو بیانات لیے گئے،
جس میں ناصر جمشید نے کہا کہ انہیں محض شبہے کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے
اور وہ اس وقت اپنی گرفتاری کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ بعد میں
ان دونوں اشخاص کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ ناصر جمشید اس سے قبل بنگلہ دیش
پریمئیر لیگ کے دوران بھی، بی پی ایل اینٹی کرپشن یونٹ کے اہل کاروں کے زیر
تفتیش رہ چکے ہیں۔بنگلہ دیش میں منعقد ہونے والے اس ٹورنامنٹ کے دوران بی
پی ایل میں اسپاٹ فکسنگ کے الزامات پر کراچی میں ایک سٹے باز ساجد خان کو
گرفتار کیا گیا تھا، جس کے موبائل فون میں سے کرکٹر ناصر جمشید کا بنک
اکاؤنٹ نمبر برآمد ہوا تھا، اس وقت وہ بی پی ایل میں چٹاکانگ کنگز کی
جانب سے کھیل رہے تھے۔ انہوں نے ابتدائی میچوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے 290رنز بنائے تھے، جب کہ آخری دو میچوں میں انہوں نے انتہائی
ناقص انداز میں بیٹنگ کی تھی اور صرف 35رنز ناسکے تھے۔ آئی سی سی کے اینٹی
کرپشن اور سکیورٹی حکام نے بھی ان سے اس ضمن میں تحقیقات کی تھیں، لیکن ان
پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا تھا۔ بعض افرادپاکستانی کرکٹرز پر میچ اور
اسپاٹ فکسنگ کے اسکینڈلز کو بھارتی سازش قرار دے رہے ہیں کیوں کہ پاکستان
سپر لیگ کے انعقاد کی وجہ سے بھارتی کرکٹ اور آئی پی ایل کےمفادات کو خطرہ
ہے۔ اس لیے اسے ناکام بنانے کے لیے بھارتی سٹہ باز سرگرم ہوگئے ہیں، لاہور
کے ایک بکی نے انکشاف کیا ہے کہ سٹہ بازی، میچ اور اسپاٹ فکسنگ کا سب سے
بڑا گڑھ بھارت میں ہے جہاں سے دنیا بھر میں ڈوریاں ہلائی جاتی ہیں جب کہ
جوئے کا ریٹ دوبئی میں طے ہوتا ہے۔ ایک میچ میں اربوں روپے کا جوا کھیلا
جاتا ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی ہر دور میں بین الاقوامی سازشوں کا
شکار رہے۔ مئی 2010ء میں پاکستانی اسپنرز دانش کنیریا کو بھی برطانیہ میں
ڈومیسٹک سیزن کے دوران بے ضابطگیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ستمبر
2010ء میں پولیس نے انہیں بتایا کہ ان کے خلاف ہونے والی تحقیقات بند کردی
گئی ہیں کیوں کہ ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوسکا ہے، کلیئرنس ملنے کے بعد
پاکستان کرکٹ بوڈ نے انہیں جنوبی افریقہ میں کھیلی جانے والی دو ٹیسٹ میچوں
کی سیریز میں شامل کرلیا۔ وہ ٹریننگ کیمپ میں پریکٹس میں مصروف تھے کہ پی
سی بی نے انہیں پریکٹس سے روک دیا اور جنوبی افریقہ جانےوالی ٹیم کے اسکواڈ
سے نکال دیا گیا۔ یہاں سے دل برداشتہ ہوکر انہوں نے قائد اعظم ٹرافی کپ کے
میچ میں حصہ لیا اور دو میچوں میں انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر
کے 18 وکٹیں حاصل کیں۔
فروری 2012ء میں وہ ایک مرتبہ پھر انگلش کرکٹ بورڈ کی طرف سے پابندی کی زد
میں آگئے۔ برطانوی کھلاڑی مارون ویسٹ فیلڈر کے خلاف اسپاٹ فکسنگ کے
الزامات پر تحقیقات کی جارہی تھیں، انہوں نے اپنے بیان میں الزام عائد کیا
کہ انہیں اس فعل کے لیے دانش کنیریا نے اکسایا تھا۔ وہ دونوں اسیکس کی ٹیم
کے ساتھ کھیلتے تھے۔ جون 2012ء میں مذکورہ دونوں کھلاڑیوں کو اسپاٹ فکسنگ
کے جرم میں ملوث قرار دے کر،انگلش کرکٹ بورڈ نے ان پر انگلینڈ اور ویلز کی
جانب سے کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کردی۔ دانش کنیریا نے انگلش کرکٹ
بورڈ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائرکردی، جس کے جواب میں ای سی بی نے ان سے
دوسری بار معذرت کرتے ہوئے اپنے نوٹ میں لکھا کہ ’’وہ کبھی بھی جوئے اور
سٹے بازی میں ملوث نہیں پائے گئے۔‘‘ اس فیصلے کے حوالے سے دانش کنیریا نے
پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام سے 2013ء میں اپنی بحالی کے لیے دوبارہ اپیل کی
لیکن پی سی بی کی طرف سے ان پر عائد، تاحیات پابندی کی سزا کا خاتمہ نہ کیا
گیا۔
میچ اور اسپاٹ فکسنگ کے حوالے سے زیادہ تر پروپیگنڈہ پاکستانی کرکٹرز کے
خلاف عالمی پیمانے پر پھیلایا گیا اور اس میں کئی شہرہ آفاق کھلاڑی ’’فکس
اپ‘‘ کردیئےگئے لیکن دیگر ممالک کے کھلاڑیوں کو ’’شک‘‘ کا فائدہ دیا گیا۔
1981ء میں آسٹریلوی کھلاڑیوں ڈینس للی اور روڈ نی مارش نے ایشیز سیریز کے
دوران میچ فکس کیا۔ 1994ء میں سری لنکا کے دورے کے دوران مارک وا اور شین
وارن پر پانچ ہزار ڈالر رشوت کے عوض میچ کی رپورٹ ایک بکی کو فراہم کرنے کا
الزام سامنے آیا لیکن دونوں کھلاڑیوں پر صرف معمولی جرمانہ کرنے پر اکتفا
کیا گیا۔ 1998ء میں یہی دو کھلاڑی بک میکر کو میچ کے دوران موسمی حالات سے
متعلق رپورٹ کی فراہمی میں ملوث پائے گئے لیکن اس مرتبہ بھی ان پر صرف
معمولی جرمانہ عائد کیا گیا۔
2000ء میں جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونئے پر دورہ بھارت کے دوران میچ
فکسنگ کا اسکینڈل منظر عام پر آیا۔ یہ اس دور میں کرکٹ کی تاریخ کا سب سے
بڑا میچ اور اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل تھا۔1999-2000ء میں بھارت نے جنوبی افریقہ
کے ساتھ ہوم سیریز کھیلی۔ سیریز کے اختتام کے بعد بھارتی پولیس نے بھارتی
کرکٹ بورڈ کے اینٹی کرپشن یونٹ کے سامنے جنوبی افریقی ٹیم کے کپتان ہنسی
کرونئے کے ایک بلیک لسٹ بکی سنجے چائولہ سے روابط کے شواہد پیش کیے۔ تفتیش
کے دوران انہوں نے پیسے لے کر میچ فکس کرنے کے جرم کا اعتراف کیا۔ اس میں
ان کے ساتھ تین دیگر کھلاڑی ہرشل گبز، نکی بویئے اور پیٹر اسٹروم بھی شامل
تھے۔ اعتراف جرم کے بعد ہنسی کرونئے پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔ انہوں
نے اس فیصلے کے خلاف اکتوبر 2001ء میں جنوبی افریقہ کی عدالت میں اپیل دائر
کی لیکن اسے مسترد کردیا گیا۔ یکم جون 2002ء کو وہ ایک فضائی حادثے میں جاں
بحق ہوگئے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس تھا جس میںکئی نامور کرکٹر کو سزائیں
دی گئیں۔ ہنسی کرونئے نے دو بھارتی کھلاڑیوں، سابق کپتان اظہر الدین، اجے
جڈیجا اور پاکستانی کپتان سلیم ملک کا نام بھی لیا تھا، ان پر بھی تاحیات
پابندی عائد کردی گئی۔ہرشل گبز نے بھی میچ فکسنگ میں ملوث ہونے اور رقم
لینے کا اعتراف کیا لیکن انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ انہیں میچ فکسنگ کے
لیے 20 سےکم رنز بنانے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن انہوں نے رقم لینے کے
باوجود 53 گیندوں پر 74 رنز بنائے تھے۔اس بیان کے بعد ان پر صرف ایک سال کی
پابندی عائد کی گئی۔
کرکٹ کی تاریخ میں بال ٹیمپرنگ، میچ اور اسپاٹ فکسنگ کے اسکینڈلز منظر عام
پر آتے رہے لیکن کرکٹ کے قانونی دائرے میں رہتے ہوئے ’’انڈر آرم بال
’’جیسا اسکینڈل بھی سامنے آیا۔ 1981ء میں بینسین اینڈ ہیجز کپ کا بیسٹ آف
فائیو کا فائنل میچ متنازع ثابت ہوا۔ اس ٹورنامنٹ میں آسٹریلیا، بھارت اور
نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ فائنل میچ کینگروز اور کیویز کی
ٹیموں کے درمیان میلبورن میں منعقد ہوا۔ اس میچ میں آسٹریلیا نے پہلے
کھیلتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 235رنز بنائے، جواب میں نیوزی لینڈ نے ہدف
کا تعاقب کرتے ہوئے 49 اوورز میں 221رنز بنائے اور اسے میچ جیتنے کے لیے
صرف 6 گیندوں پر 15 رنز درکار تھے۔ آسٹریلوی کپتان گریک چیپل نے اپنے
بھائی ٹریور چیپل کو بالنگ کرانے کی ذمہ داری سونپی۔ ان کی پہلی ہی گیند پر
رچرڈ ہیڈلی نے چوکا مارا لیکن دوسری گیند پر وہ ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ تیسری
اور چوتھی گیند پر نئے آنے والے بیٹسمین برائن ای این اسمتھ نے دو رنز
بنائے لیکن پانچویں گیند پر وہ بھی آئوٹ ہوگئے۔ اس طرح نیوزی لینڈ کے صرف
دو کھلاڑی باقی بچے تھے اور اسے ایک بال پر فتح کے لیے سات رنز اور میچ
برابر کرنے کے لیے 6 رنز درکار تھے۔ گریگ چیپل نے آسٹریلیا کو فتح دلوانے
کے لیے بالر ٹریور چیپل کو ’’انڈر آرم‘‘ گیند کرانے کی ہدایت کی، اس گیند
پر کوئی بھی بلے باز چھکا نہیں لگا سکتا تھااس لیے نیوزی لینڈ کے بلے باز
مک کینچی بھی رن لینے میں ناکام رہے اور آسٹریلیا، انڈر آرم گیند کی بہ
دولت اس کپ کا فاتح رہا۔
دنیا بھر میں سٹے باز اہم نوعیت کے میچز میں کروڑوں روپے کی شرطیں لگاتے
ہیں۔ میچ شروع ہونے سے قبل ایک ٹیم کو فیورٹ قرار دیا جاتا ہے۔ کمزور ٹیم
کی جیت کے لیے زیادہ رقم لگائی جاتی ہے۔ لیگ میچز میں اس کا رجحان کم ہے۔
پاکستان اور آسٹریلیا کے میچز کے دوران 10 کروڑ اور پاک بھارت مقابلے کے
دوران یہ رقم ایک ارب روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ کائونٹی کلب سسکیس میں بھی میچ
اور اسپاٹ فکسنگ کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ کرکٹ کے بارے میں شائع ہونے
والی کتاب ’’بکی، گیمبلر فکسر اسپائی‘‘ میں اس بارے میں حیران کن انکشافات
کیے گئے ہیں۔ کتاب کے ایک باب کے مطابق چند سال قبل کائونٹی کے پرو فورٹی
ٹورنامنٹ میں ایک میچ فکس ہوا تھا۔ بھارت کی انڈین پریمیئر لیگ میں کئی
کھلاڑی میچ، اسپاٹ فکسنگ اور سٹے بازی کے جرم کے مرتکب پائے گئے۔
2012ء میںانڈین پریمئیر لیگ کے دوران پانچ کرکٹر اسپاٹ فکسنگ میں ملوث پائے
گئے۔ آئی پی ایل کے صدر راجیو شکلا نے فوری اقدام کرتے ہوئے سرہندرا،
موہنش مشرا، امیت یادیو، شلا بھرسری ومتاوا اور ابھینائو بالی کو معطلی کی
سزا دی۔ کرکٹر موہنش مشرا کی گفتگو ٹیپ پر ریکارڈنگ کی گئی تھی جس میں اس
نے کہا تھا کہ ایک فرنچائز نے انہیں ڈیڑھ کروڑ روپےمیچ فکس کرنے کے لیے ادا
کیے تھے۔ 2013ء میں راجستھان رائلز کے کھلاڑی سری سانتھ انکیت چاون اور
اجیت چنڈیلا کو دہلی پولیس نے اسپاٹ فکسنگ کے الزام میں گرفتار کیا تھا جب
کہ اسی کے ساتھ ممبئی کی کرائم برانچ پولیس نےمیچ فکس کرنے کے لیے کھلاڑیوں
پر دباؤ ڈالنے کے جرم میںچنائے سپر کنگز کے اعلیٰ عہدیدار گروناتھ مائیاین
اور بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے صدر سری نواسن کے داماد کو گرفتار کیا۔
آئی پی ایل 2013ء میں سری سانتھ نے راجستھان رائلز کی طرف سے کنگ الیون
پنجاب کے خلاف بالنگ کراتے ہوئے ایک اوور میں 14 رنز دیئے تھے۔ انہیں اسپاٹ
فکسنگ کے جرم میں گرفتار کر کے تاحیات پابندی لگائی گئی لیکن چند ماہ بعد
دہلی ہائی کورٹ سے نہ صرف وہ ضمانت پر رہا ہوگئے بلکہ 2015ء میں اسپاٹ
فکسنگ کے الزام سے بھی بری ہوگئے۔ اجے جڈیجا پر بھی 2000ء میں میچ فکسنگ کے
الزامات میں 5سال کی پابندی لگائی گئی لیکن 2003ء میں ان پر سے پابندی
ہٹالی گئی۔ اجے شرما کو بھی میچ فکسنگ میں تاحیات پابندی کا سامنا کرنا پڑا
لیکن دیگر بھارتی کھلاڑیوں کی طرح 2014ء میں انہیں بھی تمام الزامات سے بری
کردی گیا۔ منوج پربھارکر کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے بھارت
کے ’’تہلکہ‘‘ میگزین کی تحقیقاتی رپورٹ میں میچ اور اسپاٹ فکسنگ کے بارے
میں انکشافات کیے تھے، لیکن کچھ عرصے بعد خود ہی میچ فکسنگ کے اسکینڈل کی
زد میں آگئے اور ان کے کرکٹ کھیلنے پر 5 سال کی پابندی عائد کردی گئی۔
بھارت اور ویسٹ انڈیز کے درمیان 2008ء میں ناگپور کے ایک روزہ میچ کے دوران
مارلن سموئلز کے بارے میں بھی سٹے بازوں سے روابط کا اسکینڈل سامنے آیا
اور ان پر دو سال کی پابندی عائد کردی گئی۔ پابندی ہٹنے کے بعد جب انہوں نے
دوبارہ کرکٹ شروع کی تو 2013ء میں انہیں ’’وزن کرکٹ آف دی ایئر‘‘ کے اعزاز
سے نوازا گیا۔ ہنری ولیمز جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کے وہ کھلاڑی تھے جو
2000ء میں ہنسی کرونئے کے ساتھ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں ملوث پائے گئے لیکن
جنوبی افریقن کرکٹ بورڈ کی طرف سے انہیں تمام الزامات سے صاف بچا لیا گیا۔
انہوں نے ہنسی کرونئے کے خلاف تحقیقات کے دوران اپنے بیان میں کہا تھا کہ
بھارت کے خلاف ناگپور میں کھیلے جانے والے ایک روزہ میچ میں ناقص کارکردگی
دکھانے کے عوض ہنسی کرونئے نے انہیں بھاری رقم دی تھی۔ ہنسی کرونئے کی موت
کے بعد ایک بیان میں ہنری ولیمز نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ہرشل گبز اور
ہنسی کرونئے کے خلاف کنگ کمیشن کے سامنے دیا گیا بیان وکلاء کے دبائو میں
آکر ریکارڈ کرایا تھا جو گبز اور کرونئے کو ہر قیمت پر سزا دلوانا چاہتے
تھے۔
بنگلہ دیش پریمئر لیگ بھی میچ، اسپاٹ فکسنگ اور سٹے بازی کے الزامات کی زد
میں ہے۔ 2012ء میں بی پی ایل کو میچ فکسنگ کے الزامات کا سامنا رہا، 2014ء
میں ایک سیزن کے لیے ٹورنامنٹ معطل رہا۔ 2016ء میں رنگپور اینڈرز کے کھلاڑی
جوپیٹر گھوشن نے ٹیم منیجر پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے لیگ کے
دوران میچ فکسنگ کے لیے دبائو ڈالا تھا۔ 2012ء میں بنگلہ دیشی اسپنرشریف
الحق پر کھلاڑیوں کو میچ فکس کرنے کے لیے اکسانے پر جرم میں غیر معینہ مدت
کے لیے پابندی عائد کی گئی۔ محمد اشرفل کا شمار بنگلہ دیش کے معروف کرکٹرز
میں ہوتا ہے۔ میچ فکسنگ کا الزام ثابت ہونے پر ان کے کرکٹ کھیلنے پر نہ صرف
8 سال کی پابندی عائد کی گئی بلکہ انہیں 10لاکھ ٹکا جرمانہ ادا کرنے کا بھی
حکم دیا گیا۔ اس میچ میں نیوزی لینڈ کے لوونیسنٹ پر بھی میچ فکسنگ کے الزام
میں 3 سال کی پابندی عائد کی گئی جو بعد میں اٹھا لی گئی۔ لیکن کچھ عرصے
بعد انگلش ڈومیسٹک کرکٹ میچ کے دوران اسی جرم کے دوبارہ ارتکاب کی پاداش
میں ان پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔
پاکستان سپر لیگ کی شروعات کے ساتھ ہی اسپاٹ اور میچ فکسنگ کے اسکینڈلز
سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں، پاکستانی کھلاڑیوں، پی سی بی کے عہدے داروں، پی
ایس ایل کے حکام اور کھیل کے ناقدین کے اس کے خلاف تبصرے جاری ہیں ۔ اب تک
ناصر جمشید سمیت، تین کھلاڑیوں کے خلاف تادیبی اقدامات کیے گئے ہیں جب کہ
مزید کھلاڑیوں کے خلاف تحقیقات ہورہی ہیں، لیکن ہمیں اس سلسلے میں جذبات سے
نہیں بلکہ ہوش و حواس سے کام لینا چاہیے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے انسداد
بدعنوانی یونٹ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے تحقیقاتی اداروں کو اپنے کھلاڑیوں
کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ دوبئی میں موجود عالمی
سٹے بازوں اور بکیز کا سراغ لگاکر ان کے گرد بھی گھیرا تنگ کرنا چاہیے۔
پاکستان کے کئی باصلاحیت کرکٹرز کا کرکٹ کے’’ اجارہ دار ممالک ‘‘ کی طرف
سےمیچ فکسنگ، بال ٹیپمرنگ، اسپاٹ فکسنگ اور سٹے بازی کے الزامات عائد کرنے
کے بعدپی سی بی کی جانب سے آئی سی سی کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرنے کے
بعد پابندیاں لگا کر ان کا مستقبل تاریک کردیا گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ
اس نوع کے الزامات کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں اور بے قصور کھلاڑیوں پر سے
ان الزامات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔اس بات کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ
نمایاں کارکردگی دکھانے والےپاکستانی کرکٹرزکے خلاف بال ٹیمپرنگ، میچ و
اسپاٹ فکسنگ اور سٹے بازی کے اسکینڈلز ’’بگ تھری ممالک‘‘ سے میچوں کے دوران
ہی منظر عام پر کیوں آتے ہیں، جس کے بعد آئی سی سی کا اینٹی کرپشن یونٹ
فوراً حرکت میں آجاتا ہے اور اس کے ایماء پر اقدامات کرتے ہوئے آئی سی سی
اور پاکستان کرکٹ بورڈ مذکورہ باصلاحیت کرکٹر کا کرکٹ کیرئیر تباہ کردیتا
ہے۔
|