آقا علیہ السلام نے اسلام کی اشاعت ایسے نازک وقت میں
شروع کی جب چہار جانب کفر کا بسیراتھا۔خاک دان فرشی پر کوئی رب کا نام
لیوانہیں تھا۔فاران کی چوٹی سے جب پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم نے دین ِحق
کی طرف لوگوں کو بلایاتو عالم یہ ہوگیاکہ کل تک جو لوگ حضورصلی اﷲ علیہ
وسلم کو ’’صادق الامین‘‘کہتے تھے اب وہی لوگ فقرے کَستے۔کل تک جو لوگ اپنی
ہتھیلیوں پر اپنے سرکا نذرانہ لیے حاضر رہتے اب وہیں لوگ جان لینے کے درپے
ہوگئے،کل تک جو لوگ آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی شیریں گفتگوسننے کے متمنی رہتے
اب وہیں لوگ دور بھاگ رہے تھے،جن کی راہوں میں پھولوں کی سیج سجائی جانی
چاہیے تھی اس رسول مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھا دیے
جاتے،کوئی پھبتی کَستا،کوئی نازیباکلمات کہتا،کوئی کچرا پھینک دیتا،کوئی
سجدے میں اونٹ کی اوجھڑی گردن پر رکھ دیتااور کوئی جسم رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم پر پتھر برساتا۔غرضیکہ اسلام کے ابتدائی ایام میں مسلمانوں کا یہ عالم
تھا کہ ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائیں جاتے،کبھی تپتی ہوئی ریت
پرگھسیٹاجاتا،کبھی چٹائی میں لپیٹ کر مرچی کی دھونی دی جاتی۔ہماری تاریخ
بتاتی ہے کہ ہم اپنے مسلمان ہونے تک کا اعلان نہیں کر سکتے تھے،بھوک سے
بلبلاتے،پیٹ پر پتھر باندھتے،کبھی درختوں کے پتوں اور کبھی درختوں کی
چھالوں پر اکتفا کرتے،تین سالوں تک شعب ابی طالب میں سوشل بائیکاٹ کادرد
برداشت کیا،جہاد بھی کیا توتلواروں سے نہیں بلکہ کھجوروں کی خشک چھالوں
سے۔مگر پھر رحمت الٰہی چھم چھم کرتی اپنے بندگان پر برسنے لگی،صبر کے دن کا
خاتمہ ہوا،امتحان ِ خداوندی میں صابر وشاکر رہ کر کامیاب وکامران ہوئے،
رفتہ رفتہ راہِ حق کے مسافر کشا کشاکھینچے چلے آئیں،جوق در جوق،قبیلہ در
قبیلہ اور اسلام کی باد بہاری سے اکناف عالم فیضیا ب ہوا۔جس شہرمکہ سے ہجرت
کی تھی اب اسی شہرمکہ میں فاتحانہ شان وشوکت سے داخل ہوئے۔قیصروکسریٰ میں
اسلامی پرچم بلند ہوا۔ دور ِفاروقی میں خلیفۃ المسلمین نے تمام گورنروں کے
نام اعلان نامہ جاری کیا کہ امسال کی زکوٰۃبیت المال بھیجنے کی بجائے اپنے
علاقے کے مستحقین پر خرچ کی جائے۔باوجود اس کہ گورنرِ یمن مع سازوسامان کے
مدینۂ منورہ میں حاضر ہوئے،دربارِ فاروقی کا بُلاواآیا،کیاآپ تک اعلان نامہ
نہیں پہنچا ؟جی ہاں! بر وقت پہنچا،پھر حکم عدولی کا سبب؟عرض کیا: یمن سے
نکلا اسلامی مرکز تک پہنچ گیا مگرمملکت اسلامیہ میں ایک بھی مسلمان ایسا
نظر نہیں آیا جو زکوٰۃ کامستحق ہو۔ہر کوئی مالک نصاب اور صاحبِ ثروت
ہے۔(الحمدﷲ)
سوچنے کا مقام ہے جن لوگوں کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے اناج نہیں تھا وہ لوگ
اتنے کم عرصے میں کیسے خود کفیل ہوگئے؟سبب یہ ہے کہ انہوں نے خدائی قانون
پر سختی کے ساتھ عمل کیاتھا۔انہوں نے ہر درد سہامگر نظام مصطفی کے نفاذ کے
لیے کمر بستہ رہے۔مگر آج ہم ․․․․․․․اپنے ہی کچھار میں مجبورومحصور،سب کچھ
رکھ کر قلاش،بے کس،بے بس،بے سہارے،بے چارے،قسمت کے مارے۔آخر کیوں؟انھوں نے
اپنے آپ کو سنبھالا،منصوبہ بندطریقے سے زندگی کی راہوں میں قدم بڑھایا،بے
پناہ کاوشیں کیں اور ہم اس کے بالکل برعکس۔آخر وجہ کیا ہے کہ آج ہم اکثریت
میں ہونے کے باوجود ہمارے یہاں فقیروں کی کثرت اورسطح غربت سے نیچے زندگی
گذارنے والوں کی تعداد زیادہ ہیں؟اس کی متعدد وجوہات میں سے چند وجہ یہ بھی
ہے کہ(۱) مالک نصاب صحیح طور پر اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں نکالتے ۔(۲)زکوٰۃنکالتے
بھی ہے تو مستحقین تک ان کا حق نہیں پہنچ پاتا ہے۔(۳) جو لوگ زکوٰۃ لے رہے
ہیں وہ زکوٰۃ کے مستحق ہیں ہی نہیں۔(۴) مستحق ہے بھی تو اس کا استعمال صحیح
مصرف میں نہیں کر رہے ہیں اور(۵)جو لوگ زکوٰۃ نکال رہے ہیں وہ ایک مشت کسی
ایک غریب کو مالدار بنانے کی بجائے تکڑوں میں زکوٰۃ تقسیم کرتے ہیں۔
اسلام نے زکوٰۃ کا نظام اس لیے نافذ کیاکہ مستحقین تک مالداروں کے ذریعے ان
کا حق پہنچے اور وہ اس رقم کے ذریعے کاروبار کریں،خود کفیل بنیں اور چند
سالوں میں وہ بھی زکوٰۃ دینے والے بن جائیں۔مگر افسوس!بہت سے ایسے زکوٰۃ
لینے والے ہیں جو زکوٰۃ،صدقات اور خیرات کی رقم کوصحیح مصرف میں لگانے کی
بجائے سنیماگھروں،سیر وتفریح،شراب نوشی وغیرہ میں خرچ کردیتے ہیں۔جب تک
دونوں طبقوں کی جانب سے اسلامی قانون پرعمل نہیں کیاجائے گا یمن والاپُرامن
اور خوشحال زمانہ دوبارہ نہیں آسکتا۔دولت کی مثال پانی جیسی ہے۔اگر پانی
بہتارہے تو صحت بخش اور تھم جائے تو وبائی امراض کامنبع۔اسی طرح دولت سب کے
ہاتھوں میں آتی جاتی رہے تو زمانہ پُرامن رہے گا ورنہ چوری،ڈکیتی اور نت
نئے جرائم معاشرے میں پروان چڑھیں گے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ اپنے مال کا صحیح
حساب کیاجاتا اور مکمل زکوٰۃ نکالی جاتی تاکہ مال کا میل بھی دور ہوجائے
اور اس کی افزائش بھی ہو۔مگر لوگ طرح طرح کے حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں،کوئی
زمین خریدتا ہے تو کوئی اپنے اٹکل بجّو سے رقم بچانے کی کوشش کرتا
ہے۔نتیجتاً کاروبار میں نقصان اورخسارہ ہوتا ہے،آگ لگ جاتی ہے یا چوری
ہوجاتی ہے۔معاشی بحران اور تنگی گھیر لیتی ہے۔اگر کچھ نہ بھی ہوتو قیامت کے
دن کا دردناک عذاب تو ہونا ہی ہے۔مفتی صاحب اور مستحقین کو تو بے وقوف
بنایاجاسکتا ہے مگر اس رب سے کیسے بچ سکوگے جو ہمارے اعمال کے ساتھ دل میں
پیداہونے والے تصور وخیال سے بھی واقف ہے۔خداراخدارا!اسلام کے نظام پر عمل
کرو تاکہ قوم مسلم کا ہر فرد خوشحال زندگی گزاریں۔ |