وہ نویں جماعت میں پڑھتی تھی اور وہ مزدوری کرتا تھا نہ
جانے کیسے جان پہچان ہو گئی اور دوستی بھی ہو گئی پھر یہ دوستی آہستہ آہستہ
ایک اور رشتے میں تبدیل ہونے لگی اور اُنہیں پیار ہو گیا کبھی کبھی چھپ کر
مل بھی لیتے تھے یہ بات آہستہ آہستہ کھلنے لگی اور کئی لوگ ان کے بارے میں
جان گئے مگر انکی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہاخطوط کا تبادلہ بھی ہوتا رہا
پھر لڑکے نے لڑکی کو موبائل لے کر دیا اب تو آسانی سے بات ہو جاتی تھی اور
ملاقات کا وقت بھی طے ہوجاتا تھا یہ سلسلہ کچھ عرصہ اور جاری رہا پھر گھر
والوں کو بھی پتہ چل گیا ایک دوسرے کے گھر میں آنا جانا بھی تھا لڑکے کے
گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ لڑکی اور لڑکا اگر ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں
تو کیوں ناں ان کی شادی کر دی جائے لڑکے والے رشتہ لے کر لڑکی والے کے گھر
گئے لڑکی راضی تھی اور اُسکی ماں بھی راضی تھی مگر گھر کے کچھ لوگوں کو
اعتراض تھا بات آگے نا بڑھ سکی مگر بچوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا وہ
ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا عہد کر چکے تھے اب وہ ہر قیمت پر ایک
ہونا چاہتے تھے مگر لڑکی کے خاندان والوں میں سے کچھ لوگوں کو یہ منظور نہ
تھا لڑکے کے گھر والے ایک بار پھر رشتہ لے کر گئے مگر بات نہ بن سکی لڑکی
نے ایک ملاقات میں لڑکے کو کہا کہ میں تمہارے ساتھ بھاگ جانے کو تیار ہوں
مگر لڑکے نے یہ بات نہ مانی کیونکہ دونوں کے خاندان ایک دوسرے کے قریب تھے
اور وہ نہیں چائتا تھا کہ انکی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے الگ ہوں لڑکی کی ماں
کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ معاملات ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں تو
اُس نے لڑکے کو پیغام بھیجا کہ اگر کبھی ایسا ہو جائے کہ لڑکی تمھاری طرف
آئے تو تم اُسے ہر صورت میں ہمیں واپس کرو گے لڑکا مان گیا سنا تھا کہ پیار
اندھا ہوتا ہے اور چھوٹی عمر کا پیار تو واقعی اندھا ہوتا ہے جب انسان اچھے
بُرے کی پرواہ کیئے بنا بہت کچھ کر گزرتا ہے ایک دن لڑکی لڑکے کے پاس آگئی
تو لڑکے کے خاندان والوں نے اُسے واپس بھیجنے کی سوچی تو لڑکی نے کہا کہ
میں اب واپس نہیں جاتی میں اگر واپس گئی تو وہ مجھے مار دیں گے مگر لڑکے
والوں کو وعدے کا پاس کرنا تھا اُنہوں نے ایسا کیا کہ لڑکی کو واپس بھیجا
اور لڑکی کے خاندان والوں کے سامنے قرآن پاک رکھا کہ ہم واپس تو لے آئے ہیں
مگر اب آپ اس کوکوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے اُنہوں نے کہا ٹھیک ہے کچھ
نہیں کہتے یہ تو واپس آگئے مگر جب انسان شیطان کا غلام ہو جائے تو پھرکیا
کیا جا سکتا ہے اسی لڑکی پر ظلم کے پیاڑ ٹوٹنے شروع ہو گئے اُسے مارا پیٹا
جانے لگا بھوکا رپیاسا رکھا گیا آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا وہ معصوم سی جان
تھی اور ظالموں کے ظلم تھا کب تک برداشت کر سکتی تھی پھر اُس معصوم کی جان
انتہائی بے دردی سے لے لی گئی اور ماں بے خبر رہی ہمارا قانون ثبوت نا ہونے
کی وجہ سے کچھ نا کر سکا کیا ملا اُن سفاک لوگوں کو جنہوں نے یہ سب کیا ۔کیا
اس کا یہی حل تھا جو بھی ہو جائے مگر ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ کسی کی جان
لے لیں اگر اس مسئلے کا حل نکالنا چائتے تو کئی حل تھے مگر اُنہوں نے کام
ہی تمام کر دیا۔یہ کوئی فرضی کہانی نہیں ہے جو ٹائم پاس کرنے کے لیئے لکھی
اور پڑھی جائے یہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت ہے جس سے منہ نہیں چرایا جا
سکتا ۔ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور جہاں کوئی کام غلط ہو رہا ہو تو
ہمیں بولنا چائیے ہمارے سامنے کیا کچھ ہو جاتا ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے
دیکھتے رہتے ہیں جسے ہمیں کوئی لین دین ہی نہیں اس سے۔ |