میرے ولایت کی ایک اور کہانی

میرے ولایت میں اسطرح کی کہانیاں ہر روز جنم لیتی ہیں – میرے ولایت میں بسنے والے لاکھوں تارکین وطن آج اپنی تیسری اور چوتھی نسل کے مستقبل کے حوالے سے بہت پریشان ہیں. بہت سے یاران وطن اور انکی اولادیں بیشمار بہروپیوں اور جھوٹھے پیروں کے چنگل میں پھسے ہوئے ہیں. امید کرتا ہوں پڑھنے والے میرے ولایت کی اس کہانی میں ثنا کے کردار کو سمجھ پائیں گے.

کیا تمہیں احساس ہے کہ تمھاری عمر ڈھل رہی ہے. ڈھلتی عمر اور ڈھلتی شام کا منظر ایک سا نہیں ہوتا ہے. کچھ سوچو؟ کچھ خیال کرو؟ سوال مت کرو اب سوالوں کے دن نہیں رہے. گھر بسا لو، اپنا جہاں آباد کرو تاکہ تمہیں احساس ہو کہ تم بھی اس دنیا میں ایک کھیت کی مانند ہو – وہ کھیت کہ جسکی آبیاری ہوتی ہے، جسکی لہلہاتی فصلیں اس کا حسن ہوتی ہیں – عورت کھیت ہی تو ہوتی ہے!

عورت کی ذات کے زاویے بہت حسین ہوتے ہیں........ میں بول ہی رہا تھا کہ ثناء نے مجھے ٹوکا میرے الفاظ کی روانی تھم گئی – وہ بولی " آپ بھی میری ماں کی طرح مجھے لیکچر دینے لگ گئے ہو. مجھے ابھی کوئی لیکچر نہیں سننا میں اپنی آزادی میں خوش ہوں، مجھے اپنے خواب پورے کرنے ہیں اور پھر میرے پیر صاحب بھی تو یہی کہتے ہیں !"

پیر صاحب جو کوئی عامل یا دست شناس تھے کا نام سنتے ہی میری توجہ ثناء کی باغیانہ گفتگو کی جانب مزید مبذول ہو گئی . ثنا بولی " میرے پیر صاحب نے کہا تھا اگر میں نے کسی ایسے شخص سے شادی کر لی جو مجھ سے زیادہ پڑھا لکھا ہے تو مجھے دھوکہ ہو سکتا ہے اور اگر کسی ایسے کے ساتھ میرا بندھن بندھ گیا جو میری کامیابی کے راستے میں آئے گا تو میری زندگی تباہ ہو سکتی ہے – لہٰذا کوئی اور بات کرو – دیکھو میں ایک کامیاب عورت ہوں میرے پاس علم کی کمی نہیں بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے میں نے علم حاصل کیا ہے اور پھر میرے پیر صاحب کا حساب کتاب کیسے غلط ہو سکتا ہے ؟" ثنا اپنے پیر کی باتیں قدرت کے رازوں سے حاوی بتا رہی تھی.

میرے ولایت میں ان پیروں کا بڑا راج ہے ثنا جیسے ہزاروں لوگ ان پیروں کا شکار ہیں. مجھے اس کا تجربہ اس وقت ہوا جب میں ٹی وی پہ کام کرتا تھا. ثنا جیسی ہزاروں لڑکیاں ان پیروں سے اپنے مقدر کا حال جاننے کے لیے سینکڑوں پاؤنڈ ٹیلی فون پہ خرچ کر دیتی اور سوال ان سب کا بھی یہی ہوتا کہ ہمیں اپنی آزادی کا کوئی تعویز مل جائے.

ثنا نے کہا" مجھے اپنے اچھے بڑے کا علم ہے ، تم اپنی رائے اپنے کیس ٹی وی شو یا ریڈیو پروگرام کے لیے سنبھال رکھو – میری ماں کی طرح مجھے یہ نہ بتاؤ کہ مجھے کیا کرنا ہے. میں اسی بات سے تنگ آ کر گھر سے نکلی تھی اور آج تم مل گئے- میں ایک کامیاب عورت ہوں اور میں آج کی عورت ہوں ایک کارپوریٹ عورت ! سمجھے ؟"

میں نے ثنا کی خود اعتمادی دیکھی تو لگا کہ ثنا کے دست شناس پیر نے ثنا کے مقدر کی لکیروں کو اپنی سوچ کے زیر اثر کر لیا ہے. ثنا کی ماں ایک کھیت تھی اسی لیے وہ اپنی بیٹی کو بھی ہرا بھرا دیکھنا چاہتی تھی مگر ثنا کی سوچ اسکے پیر کی مٹھی میں تھی. ثنا کو کیا احساس کہ میں اور اسکی ماں جو کہہ رہے ہیں وہی حقیقت ہے. عورت کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو جب تک اسکی ذات تنہا ہے اسکا جہاں نہ مکمل رہتا ہے مگر جب وہ کھیت بنتی ہے تو اسکی ذات اور زندگی کے پوشیدہ زاویے سامنے آتے ہیں. وہ خود بھی کھلتی ہے اور اس سے ایک نیا جہاں آباد ہوتا ہے.

رب کا نظام بڑا جمیل ہے ایسے ہی اسکے کرم ہیں وہی سب سے بڑا پیر ہے وہی بزرگ اور برتر ہے. اور پھر جب ہم اپنی طاقت کو اپنی منشا بتاتے ہیں تو فطرت سے باغی ہو جاتے ہیں. حقیقت میں یہ سب جھوٹ ہے ہمارا جھوٹ.. .....ثنا کے دست شناس نے جو کہا اس پہ ثنا کا ایمان اسقدر مضبوط تھا کہ اسکو دھوکے کا اندیشہ نہیں بلکہ اندیشے کا دھوکہ تھا .

ایک روز کسی سڑک کے کونے پہ ایک طوطے والا لوگوں کے مقدر کے کارڈ نکال رہا تھا میں ہر روز اس سڑک سے گزرتا اور لوگوں کے ہجوم کو طوطے سے اپنے مقدر کے فیصلے سنتے دیکھتا. عجیب لگا، میں نسبت اور طریقت پہ یقین رکھتا ہوں اور یہ جانتا ہوں کہ کچھ مردان حق رضائے الہی سے بہت سے بڑے بڑے کام کر جاتے ہیں مگر طوطے میں خدائی اوصاف دیکھنا میرے لیے ایک انہونی بات تھی. ایک شام میں نے طوطے والے سے پوچھا کہ اگر اسکے طوطے کو سب علم ہے تو وہ روپے دو روپے کے لیے یہاں گرد میں کیوں بیٹھا ہے .؟ طوطے والے نے ایک جملے میں وہ سب بتا دیا جو عمر بھر میرے ساتھ رہے گا اور یہی میں ثنا کو سمجھا رہا تھا – طوطے والے نے کہا " بابو جی ! جو گھر تعمیر کرتے ہیں خود جھونپڑے میں رہتے ہیں "

اب ثنا کا دست شناس، طوطے والا، ثنا کی ماں اور میں کون ٹھیک ہے یہ تو شائد رب کی ذات ہی جانتی ہے جسکی ذات سے کوئی پوشیدہ نہیں جو ہر آغاز سے پہلے ہے اور جسکی انتہا ہماری سوچوں سے بہت بلند ہے.

دست شناس نے نا جانے کیا دیکھا اور بتلایا مگر مجھے ثنا میں جنگل کا ایک جھرنا نظر آ رہا تھا جسکا حسن کسی تہمت میں چھپ چکا تھا. آٹھ گھنٹوں کی اس مسافت میں، میں اور ثنا ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں آ گئے بہت سی باتیں ہوئیں. ثنا کے دست شناس کے قصے میں ہماری رات گزر گئی. اب میں بھی تھک گیا تھا کب میری آنکھ لگی مجھے پتہ بھی نہ چلا.

ریل گاڑی اپنی آخری منزل پہ پہنچی میری آنکھ کھلی ساتھ والی سیٹ پہ ثنا نہیں تھی شائد کسی اور سٹیشن پر اتر گئی ہو گی مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ ثنا کہاں کی رہنے والی تھی خیر میں نے اپنا سامان اٹھایا ریل گاڑی سے نکالا اور ٹکٹ کے لیے جیسے ہی جیب میں ہاتھ ڈالا ایک کاغذ ملا جس پر ایک نوٹ لکھا تھا. یہ ثنا کا نوٹ تھا . ثنا نے لکھا " سر ! آپ اچھا بولتے ہیں ، میں نے آپ کے جاگنے کا انتظار کیا میرا سٹیشن آ گیا اب میں چلتی ہوں. آپ کی باتیں میرے لیے ویک اپ کال ہیں . شاید میں دست شناس اور اپنے علم پہ کیوں اتنا یقین کر بیٹھی مجھے پتہ نہیں. میں گھر لوٹ جاؤں گی اور میں کھیت بننے کے لیے تیار ہوں. آپ سے ملکر احساس ہوا کہ دست شناس کا علم محدود ہے اور میں جنگل کے جھرنے کو کبھی گمنامی کی نظر نہیں ہونے دوں گی. امید کرتی ہوں پھر کبھی مل پاؤں گی اگر ایسا نہ ہوا تو آپ سے اس رات کی ملاقات زندگی کی ایک حسین یاد کی صورت میرے ساتھ رہے گی – ثنا "
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 76440 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More