کلاس روم میں سناٹا طاری تھا۔
طلبا کی نظریں کبھی استاد کی طرف اٹھتیں اور کبھی بلیک بورڈ کی طرف۔ استاد
کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ سوال تھا ہی ایسا۔ استاد نے کمرے میں
داخل ہوتے ہی بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ پھر
اپنا رخ طلبا کی طرف کرتے ہوئے پوچھا، ’’تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو
چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دے ؟‘‘۔’’یہ ناممکن ہے ۔‘‘، کلاس کے سب سے ذہین
طالبعلم نے آخر کار اس خاموشی کو توڑتے ہوئے جواب دیا۔ ’’لکیر کو چھوٹا
کرنے کے لیے اسے مٹانا پڑ ے گا اور آپ اس لکیر کو چھونے سے بھی منع کر رہے
ہیں ۔‘‘ باقی طلبا نے بھی گردن ہلا کر اس کی تائید کر دی۔ استاد نے گہری
نظروں سے طلبا کو دیکھا اور کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر پچھلی لکیر کے
متوازی مگر اس سے بڑی ایک اور لکیر کھینچ دی۔ جس کے بعد سب نے دیکھ لیا کہ
استاد نے پچھلی لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دیا تھا۔ طلبا نے آج اپنی
زندگی کا سب سے بڑ ا سبق سیکھا تھا۔ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، ان کو
بدنام کیے بغیر، ان سے حسد کیے بغیر، ان سے الجھے بغیر ان سے آگے نکل جانے
کا ہنر چند منٹ میں انہوں نے سیکھ لیا تھا۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے اس میں اپنا موازنہ دوسروں
سے کر کے ان سے آگے بڑھنا انسان کی طبیعت میں شامل ہے۔ اس کام کو کرنے کا
ایک طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کو چھوٹا بنانے کی کوشش کی جائے۔ مگر ایسی صورت
میں انسان خود بڑ ا نہیں ہوتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے الجھے بغیر
خود کو مضبوط، طاقتور اور بڑ ا بنانے پر توجہ دی جائے۔ دوسرے اس شکل میں
بھی چھوٹے ہوجاتے ہیں ، مگر اصل بات یہ ہے کہ اس عمل میں انسان خود بڑ ا
ہوجاتا ہے۔
دوسروں سے الجھے بغیر آگے بڑھنا، خدا کی دنیا میں ترقی کا اصل طریقہ ہے۔
فرد اور قوم دونوں کے لیے دیرپا اور مستقل ترقی کا یہی واحد راستہ ہے ۔
کاش ہمارے ملک کے سیاستدان اس سبق سے سبق حاصل کریں اور دوسروں کو مٹانے،
فتح کرنے اور ہتھیار اٹھانے کی باتیں چھوڑ کر ہوشمندی اور تعمیر کی باتیں
کرنا شروع کریں۔
کاش ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور ایک دوسرے کو زلیل اور بدکردار ثابت
کرنے کے بجائے ہم ایک دوسرے کی عزت ایسے ہی کرنا سیکھیں کہ جیسی عزت ہم
دوسروں سے چاہتے ہیں اور دوسروں کا احترام اپنے اوپر واجب قرار دے لیں اور
اپنے کردار کی تعمیر پر توجہ دیں اور دوسروں کی چھوٹی چھوٹی خامیوں پر پردہ
ڈالنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ کسی کی خامیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے اس کو
سمجھانا بجھانا تو نفع دے سکتا ہے مگر کسی کی خامیوں کو اچھالتے ہوئے اس کی
عزت تار تار کرنے سے دوسرا اپنی خامیوں کو بھی درست سمجھتے ہوئے آپ سے ہی
الجھتا رہے گا اور اپنی غلطیوں پر توجہ نہیں دے سکے گا۔
جہاں رہیے اللہ کے بندوں کے لیے باعثِ آزار نہیں، باعثِ رحمت بن کر رہیے۔
یہ موضوع (چند ایک باتوں کے علاوہ) میرے ایک دوست نے مجھے ای میل کیا تھا
اس تحریر کی معنویت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ آپ بھائیوں کے
ساتھ بھی شیئر کرتا چلوں۔
والسلام |