ذمہ دار کون؟

(میاں شفیق)

پاکستان بنانے کا مقصد ایک خودمختار اور برائیوں سے پاک ملک اور اس میں آزادانہ انصاف پر مبنی زندگی گزارنا تھا ۔ ایسا ملک جہاں امیر اور غریب کیلئے برابری کا قانون ہو۔ وہ قومیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں جو انصاف نہیں کرتیں۔ مگر ہم کس طرف چل نکلے ہیں ؟ انتہائی معذرت کے ساتھ کچھ باتیں ایسی ہیں جو بہت تلخ ہیں۔ ایک ایسی قوم کے بارے میں جس کا نام پاکستانی ہے ایسی تلخ حقیقت اور ایسا کڑوا سچ لکھنے جا رہا ہوں جسے پڑھ کر آپ کو شرم کے ساتھ ندامت بھی آئے گی ۔ بتانا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں کیا کیا ہوتا ہے ؟مجھے یاد آیا کہ پچھلے دنوں حکومت نے رپورٹ جاری کی کہ اس ملک میں 50فیصد کارخانے مضر صحت گھی تیار کرتے ہیں۔ یاد آیا چند دن پہلے ملتان سے جعلی خون کی بوتلیں برآمد ہوئی تھیں ۔ اس ملک میں بکنے والا 80فیصد دودھ کیمیکلز سے تیار ہوتا ہے ۔قصابوں سے مردار گوشت پکڑا جاتا ہے۔ سیوریج کے پانی سے سبزیاں اگائی جاتی ہیں ۔ ڈاکٹرز گردے نکال کر بیچ دیتے ہیں ۔ شہد کے نام پر چینی شکر اور گڑ کا شیرہ ملتا ہے۔چالیس لوگ طیارہ حادثہ میں قتل کر دیئے جاتے ہیں اور ایم ڈی پی آئی اے کہتا ہے کہ امید تھی کہ طیارہ ایک انجن سے لینڈ کر لے گا۔ اس ملک میں تین کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں ۔ آدھی سے زیادہ آبادی خوراک سے محروم ہے ۔ حکمران الیکشن سے پہلے کئے ہوئے وعدوں کو الیکشن کے بعد جوش خطابت کا نام دے دیتے ہیں ۔ اس ملک میں جب ملزم پھانسی پر چڑھ جائے تو دو سال بعد عدالت اسے بری کر دیتی ہے ۔چار سو اسی ارب کی کرپشن کرنے والا عدالت سے باعزت بری ہو کر سونے کا تاج پہنتا ہے۔ منی لانڈرنگ پکڑنے والا انسپکٹر قتل کر دیا جاتا ہے اور ملز مہ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے ملک سے باہر چلی جاتی ہے۔ بھتہ نہ ملنے پرتین سو لوگوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے اور لوگ پھر ان کو ووٹ دیتے ہیں۔ اس ملک میں جان بچانے والی ادویات بھی جعلی ملتی ہیں۔ ٹھیکیدار ناقص مٹیریل استعمال کرتا ہے اور زلزلوں سے مرنے والوں کو اﷲ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کا ساٹھ فیصد بجٹ صرف ایک صوبے پر لگا دیا جاتا ہے۔ اور باقی لوگ اپنے حقوق کیلئے چوں بھی نہیں کرتے بلوچستان میں انسان اور جانور ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں اور اسی صوبے کے ایک بائیس گریڈکے افسر کے گھر سے ایک ارب کیش برآمداور ڈیفنس میں آٹھ بنگلے دریافت ہوتے ہیں ۔ عوام کو سرکاری ہسپتالوں سے دو سال بعد کا ٹا ئم ملتا ہے اور حکمران علاج کروانے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور پھر یہی لوگ ان کی صحتیابی کیلئے دعائیں کرتے ہیں قصور میں تین سو بچوں سے زیادتی کا مجرم اس لئے گرفتار نہیں ہواکیونکہ وہ حکومتی نمائندہ تھا۔ ایک ماں اپنے بیٹے کے قتل کا کیس یہ کہتے ہوئے واپس لے لیتی ہے کہ میری بیٹیاں جوان ہیں اور ملزم بااثرہیں سانحہ آرمی پبلک سکول کی وجہ سے دھرناختم ہوتا ہے تو ایک سیاستدان بیان دیتا ہے کہ دیکھا ہم نے کیسے مکھن سے بال کی طرح دھرنا ختم کروادیا لیکن اس قوم کو پھر بھی سمجھ نہیں آتی ۔ممتاز قادری کی پھانسی پر تو فوری عملدرآمد ہوتا ہے لیکن پکڑے گئے را ایجنٹ کی پھانسی اس قدر لیٹ کر دی جاتی ہے کہ بھارت مقدمہ عالمی عدالت میں چلوا کر پھانسی رکوا دیتا ہے

ان حالات کا ذمہ دار کون ہے؟؟کیا صرف حکمران یا ہم بھی برابر کے شریک ہیں ؟امیدوں کی بڑھتی ہوئی دولت اور غریبوں کی بڑھتی ہوئی مفلسی اس نظام کی ناکامی اور نا انصافی کا کھلا ثبوت ہے۔ آخر کب تک یہ غریب سوچتے رہیں گے کہ ان کے مسائل کا حل اسمبلی میں بیٹھے ہوئے عیاش اور رئیس لوگ نکالیں گے کب تک آخر کب تک؟ خدارا اپنے مستقبل کے بارے میں سوچئے۔ اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچئے اس ملک میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کے حالات بہتر ہوں گے انشااﷲ ضرور ہوں گے لیکن اس کیلئے ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہو گی ۔ ہمیں اجتماعی توبہ کرنی ہوگی۔ اﷲ تعالی فرماتے ہیں کہ جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ویسے تمہیں امال ملیں گے کیونکہ قدرت قوموں کے اجتماعی جرم کبھی معاف نہیں کرتی۔ کسی نے محمد بن قاسم سے پوچھا تھا کہ آپ یہاں حضرت عمر ؓ کا قانون کیوں نہیں لاگو کرتے ؟ تو محمد بن قاسم نے جواب دیا تھا کہ آپ ابوذر غفاری ؓ جیسے بن جائیں تو میں حضرت عمر ؓ کا قانون لے آتا ہوں۔ ان حالات کو بہتر کرنے کیلئے ہمیں اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ حکمران چنتے وقت بھی کچھ سوچنا چاہئے کیونکہ ایسے حکمران چنتے بھی تو ہم خود ہیں جنہوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ ہمارا قصور زیادہ ہے، حکمرانوں کا کم۔

MP Khan
About the Author: MP Khan Read More Articles by MP Khan: 107 Articles with 108272 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.