نماز کے بعد روزہ ہی وہ عبادت ہے جو بالغ ،عاقل اور
صحت مند مسلمان پر سوائے سفر کے ہر حال میں فرض ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے اس کی
فرضیت کا سبب تقویٰ قرار دیا ہے ۔تقویٰ کے حصول کے لئے یہ مہینہ بعض
خصوصیات کے اعتبار سے نیکیوں کا موسم بہار کہلاتا ہے مگر ہمارا حال یہ ہے
کہ رمضان المبارک تمام تر خصوصیات کے باوجود ہمارے اندر تقویٰ کے سواء سب
کچھ پیدا کردیتا ہے سوال پیدا ہوتا ہے کہ نہ خدا بدلا نا ہی رمضان اورنا ہی
قرآن تو پھرآخر ہماری حالت کیوں نہیں بدلتی ہے روزہ رکھنے کے باوجود بھی ؟
اﷲ تعالیٰ کتنا رحیم و کریم ہے وہ خود ہی فرماتا ہے ’’اور میری رحمت تمام
اشیاء پر محیط ہے تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرورلکھوں گا جو اﷲ سے ڈرتے
ہیں۔ (الاعراف :156)‘‘بے شک اﷲ تعالیٰ کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے نزدیک
ہے (الاعراف:56)اور اﷲ تعالیٰ مومنوں پر بہت مہربان ہے (الاحزاب:43)اﷲ نے
اپنے آپ پر رحمت فرض کر رکھی ہے ۔(الانعام:12)اور اس کی رحمت احسان کرنے
والوں کے قریب ہے (الاعراف:56) حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ میں نے رسول
اﷲ ﷺ کو فرماتے ہو ئے سنا ہے کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے جس دن رحمت تخلیق فرمائی تو
ایک سو(100)رحمت تخلیق فرمائی اور اپنے پاس نناوے رحمتیں روک لیں اور ایک (رحمت)اپنی
تمام تر مخلوق میں بھیجی پس اﷲ کے پاس جو رحمت ہے اگر کافر وہ ساری کی ساری
رحمت جان لے تو کبھی اﷲ کی جنت(کے حصول)سے مایوس نہ ہو اور اﷲ کے پاس کتنا
عذاب ہے اگر ایمان والا وہ سارے کا سارا عذاب جان لے تو جکبھی اﷲ کی جہنم
سے خود کو محفوذ نہ سمجھے ۔(صحیح البخاری ،کتاب الرقاق،حدیث نمبر 6104)ایک
اور حدیث میں آپﷺ فرماتے ہیں جب اﷲ تعالیٰ نے مخلوق تخلیق فرمائی تو اپنی
کتاب میں لکھا اور وہ اپنے آپ لکھ رہا تھا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب
رہے گی اور وہ کتاب اﷲ کے پاس عرش پر پر ہے (صحیح مسلم ،حدیث نمبر:2751)ایک
اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے اﷲ تعالی کی لامحدود رحمت کا ذکرکرتے ہو ئے
فرمایا کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور ان میں سے نناوے حصے
اپنے پاس روک لیے اور زمین میں ایک حصہ نازل فرمائی پس اسی ایک حصے میں سے
تمام تر مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہاں تک کہ ایک گھوڑی اپنے ناخن تک
اپنے بچے سے دور رکھتی ہے کہ کہیں وہ ناخن اس بچے کو تکلیف نہ پہنچائے ۔(بخاری
و مسلم )
اﷲ تعالی کی رحمت بے کراں سے متعلق سطور بالا کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو
جاتی ہے کہ اس کی رحمتِ بے کنار کسی وقت ،زمانہ اور قوم کے لئے خاص نہیں ہے
بلکہ اس کا سارا دار و مدار اس کی مخلوق پر ہے وہ جب اور جیسے اپنے آپ کو
اس رحمت کا مستحق اپنے آپ کو بنا لیں گی ویسی اور اتنی ہی زیادہ وہ اپنے
بندوں کو ڈھانپ لے گی ۔رمضان میں یہ رحمت دو بالا ہو جاتی ہے جو عام حالات
میں بھی ایک آنسو یا ایک بہانے کی منتظر میں رہتی ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے
رمضان شروع ہوتے ہی فرمایا:تمہارے پاس پاس برکتوں والا مہینہ آگیا ہے اس
میں اﷲ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے رحمت نازل فرماتا ہے ،گناہوں
کو مٹا تا ہے اور دعائیں قبول فرماتا ہے اس مہینے میں اﷲ تعالیٰ تمہارے
دلوں پر نظر فرماتا ہے اور تمہاری وجہ سے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا
ہے بد بخت ہے وہ شخص جو اس ماہ میں اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس رہا ۔حضرت
ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضورنبی کریم ﷺ نے فرمایا جب رمضان شروع ہو تا ہے
تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے
ہیں اور شیطان (زنجیروں میں ) جکڑ دئیے جاتے ہیں ۔حضرت سہیل بن سعد ؓ روایت
کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا جنت میں ایک دروازہ ہے جس سے ریان کہا جاتا ہے
،قیامت کے روز روزہ دار اس میں سے داخل ہوں گے اور ان کے سوا اس دروازے سے
کوئی داخل نہیں ہوگا ۔
رمضان المبارک کے ان متبرک ایام میں بھی اگر ہماری حالت نہیں بدلتی ہے اور
ہمارے قلب و نگاہ میں تبدیلی نہیں آئی تو پھر بھوک و پیاس کا کوئی فائدہ
نہیں ہے اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو بھوکا اور پیاسا رکھنا نہیں
چاہتا ہے بلکہ اس کا مقصد اس بھوک پیاس کے ساتھ وہ ’’طہارت‘‘ہے جو زوال کی
وجہ سے اب نایاب ہوتی جا رہی ہے ۔اصل بھوک اور پیاس نہیں بلکہ وہ تقویٰ ہے
جو حاصل کرنے کے لئے طہارت ضروری ہے اور اگر طہارت حاصل نا ہو توصرف بھوکا
اور پیاسا رہنا کوئی مطلب نہیں رکھتا ہے ۔ہاں بھوک اور پیاس کی حالت میں
باایمان انسان تقویٰ کے بہت قریب رہتا ہے ۔پھر اس کیفیت کی عملی مشق کو
دوسرے مہینے میں دراز کرنا مقصود ہے تاکہ صالحین کی ایک ایسی جماعت وجود
میں آئے جو تقویٰ کے صفت سے متصف ہو کر صالح معاشرے کی تعمیر کے لئے بنیاد
بن جائیں ۔ہمارا المیہ آج یہی ہے کہ اﷲ سے لیکر رمضان اور انسان تک سب وہی
کچھ ہے اگر نہیں ہے تو وہ ہے ان متبرک ایام کی رحمتیں اور برکتیں جن کے آتے
ہی مسلم سماج میں نئی روح داخل ہو جاتی تھی اور ان میں نئی زندگی نظر آتی
تھی ۔مسلمانوں میں رمضان ہو یا حج ایک روایت بن کر رہ گئی ہے ہماری حالت
جیسی شعبان میں ہوتی ہے رمضان کے پورے مہینے میں روزہ رکھ کر شوال میں بھی
وہی نظر آتی ہے حالانکہ نماز ،روزہ اور حج کیفیات تبدیل کرنے کا مقناطیسی
اثر رکھتے ہیں پر ہماری حالت نہیں بدلتی ہے ۔
ہمارے معاشرے کو شرک ،کفر،بدعات ،بے رحمی ،بداخلاقی اور بد کرداری نے
کھوکھلا کر رکھا ہے ۔ہم ہر وہ گناہ کرتے ہیں اور اعلاناََ کرتے ہیں جن میں
اگلوں سے صرف ایک سرزد ہونے پر فنا کردیا جاتا تھا ،اﷲ کی کریمی کا غلط
فائدہ حاصل کرتے ہو ئے ہم آپ اپنی قبر کھود رہے ہیں ۔وہ معمولی اور ہلکے
عذابوں میں مبتلا کرتے ہو ئے ہمیں مہلت دیتا ہے تاکہ ہم باز آکر اس کے خالص
بندے بن جائیں ۔ہماری یہ حالت رمضان میں بھی نہیں بدلتی ہے ہمارا آفیسر
،کلرک ،چپراسی اور ملازم رمضان میں بھی اسی طرح رشوت لیتا ہے جس طرح غیر
رمضان میں لیا کرتا ہے ۔ہم رمضان آتے ہی تمام اشیاءِ خوردونوش کی قیمتوں
میں بے تحاشہ اضافہ کرتے ہیں جبکہ غیر مسلم اپنے ہر ’’بڑے دن‘‘پر ان چیزوں
کی قیمت بہت کم کردیتے ہیں ۔حیرت یہ کہ بعض افسران ’’افطاری‘‘کے نام پر
باضابط مال وصولتے ہیں اور تو اور بعض حضرات رمضان میں رشوت کو رشوت یا
چائے کہنے کے بجائے ’’عیدی‘‘مانگتے ہیں گویا کہ وہ قوم کے ’’معصوم بچے‘‘ہیں
جو اِس ’’مالِ نجس‘‘پر پلتے ہوئے اس قدر جری ہو ئے ہیں کہ عین رمضان میں
بھی وہ پورے معاشرے میں کینسر پھیلانے سے باز نہیں آتے ہیں ۔ویسے بھی ان
چھوٹوں کا کیا قصور جس ریاست کے منتری سے لیکرسنتری تک سب فخراََ رشوت لیتے
ہوں اور وہ اپنے ماتحتوں کو چوریاں کرانے کے گُر خود ہی سکھاتے ہوں اس قوم
کی اصلاح بھوکے اور پیاسے رہنے سے نہیں ہوتی ہے ۔ہم رمضان میں نہ صرف رشوت
لیتے اور دیتے ہیں بلکہ شرک و کفر کرنے کے ساتھ ساتھ جھوٹ بھی بولتے ہیں
۔بددیانتی کے بھی مرتکب ہو جاتے ہیں ۔ملاوٹ سے بھی باز نہیں آتے ہیں اور تو
اور ظلم و جبر اور فحاشی سے بھی اپنا دامن بچانے کی کوشش نہیں کرتے ہیں تو
بے نیاز خدا کوبندوں کے بھوکے پیاسے رہنے سے کوئی مطلب نہیں ہے ۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جو آدمی روزہ
رکھتے ہو ئے باطل کام اور باطل کلام نہ چھوڑے تو اﷲ تعالیٰ کو اس کے بھوکا
پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔(صحیح بخاری،جلدنمبر 1،صفحہ نمبر:255)یعنی
روزے کے مقبول ہو نے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ
معصیات و منکرات سے بھی زبان و دہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے ،اگر کوئی
شخص روزہ رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اﷲ
تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پروا نہیں ۔(معارف الحدیث)ایک اور حدیث میں
ہے ’’بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزے کے ثمرات میں سے بھوکا
رہنے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ
ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت)کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ۔(سنن ابن ماجہ
،حدیث نمبر :1690۔سنن نسائی ،حدیث نمبر:3333)ان احادیث مبارکہ سے معلوم
ہوتا ہے کہ خالی بھوک و پیاس مطلوب نہیں ہے بلکہ بھوک و پیاس کے ساتھ ساتھ
وہ نیک اور صالح اعمال بھی واجب ہیں جو انسانیت کے لئے محمود ہیں ۔بحیثیت
مسلمان ہمیں آپ اپنا محاسبہ کرنے کی اشد ضرورت ہے اس لئے کہ ہم نے جس دین
کو قبول کیا ہے وہ دین ہمارے اوپر بعض فرائض عائد کرتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ
جوبندوں کی عبادت ،اطاعت اور فرمانبرداری سے بے نیاز ہے دوجہاں کی بہتری کے
لئے اس نے قرآنِ مقدس کو انسان کے لئے نازل کیا ۔قرآن بھی رمضان میں نازل
ہوا ہے۔رمضان کی بے شمار عظمتوں میں ایک اہم ترین عظمت ’’نزولِ قرآن ‘‘بھی
ہے ۔فرائض میں نماز کے بعد روزوں کو اہمیت دیکر یہ پیغام دیا گیا کہ جو
تقویٰ مقصود ہے وہ رمضان میں جمیع شرائط کے تحت ہی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ ہم عمل اوراخلاق سے زیادہ باتوں میں
مشغول رہتے ہیں جبکہ اﷲ تعالیٰ کو تقویٰ کے بعد عمل محبوب ہے ۔باتیں کوئی
انقلاب برپا نہیں کرتی ہیں نا ہی باتوں سے کسی قوم کی تقدیر بدل جاتی ہے
۔اﷲ تعالیٰ نے قوموں کے متعلق اجتماعی فیصلہ یہی کیا ہے کہ وہ جب تک اپنے
آپ کو نہ بدلیں تب تک اﷲ تعالیٰ بھی ان کی حالت نہیں بدلے گا گویا اگر ہمیں
اپنی حالت بدلنی ہے تو وہ ہمارے اپنے آپ بدلنے سے مشروط ہے ۔کشمیر ی قوم
اجتماعی آزمائیش میں مبتلا ہے مگر انفرادی اور اجتماعی کردار بدلنے کے لئے
تیار نہیں ہے ۔ماہ مبارکِ رمضان کے خصوصی پکیچ سے فائدہ حاصل کرنے سے بھی
ہم گریزاں ہیں ۔ہم بے شک بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں مگر اس کے ثمرات سمیٹنے
کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ہمارے لے ضروری ہے کہ ہم پہلے اپنے آ پ کو بدلیں
۔قلب و نگاہ بدل دیں ۔عقائد و اعمال کو قرآن و سنت کی ترازو میں تولیں
۔ایمان کو ٹٹولیں ۔کردار کا محاسبہ کریں تاکہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت اپنی جانب
متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل ہونے کے بعد ہمیں موجودہ مصیبت اور آزمائیش
نجات بھی ملے اور دو جہانوں کی سرخروئی بھی حاصل ہو جائے ۔یہ ذمہ داری ائمہ
،مبلغین ،واعظین اور علماء کی ہے کہ وہ عوام الناس کو حقائق سے باخبر کرکے
محاسبے اور احتساب پر ابھاریں اس لئے کہ یہ ان کی منصبی اور شرعی ذمہ داری
ہے اگر انھوں نے اسے گریز کیا تو اﷲ کے ہاں اس کے لئے جواب دہ ہوں گے ۔عام
مسلمان بھی اپنے سبھی معاملات کو صرف علماء اور واعظین تک ہی محدود نہ
رکھیں بلکہ خود بھی بحیثیت مسلمان اپنے آپ کو بدلنے کی سنجیدہ کوشش کریں
یہی رمضان کا پیغام ہے اور یہی مطلوب و مقصود بھی ہے ۔
|