تین عورتیں تین کہانیاں ایک سلسلہ چلا کرتا تھا جو
اپنے وقت کا مقبول ترین سلسلہ ہواکرتاتھا اب بھی شائد یہ اصطلاح استعمال
ہورہی ہو لیکن وہ مزاشائد اب نہ ہو جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ اب ڈراموں کا دور
ہے اور عوام ڈرامہ بھی وہی دیکھنا چاہتی ہے جو کہانی مزے دار ہو اور اسکے
کردار بھی اپنا اپنا کردار خوب
نبھا رہے ہوں۔
آجکل میرے پرانے دوست اور سینئر صحافی ’’ اپنا اپنا گریبان ‘‘کے نام سے قسط
وار کہانی لکھ رہے ہیں ۔لیکن ان قسطوں کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے ناجانے کس کس
کے گریبان میں ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ یہ تین اقساط پڑھنے کے بعد سوچا کہ کیوں
نہ اپنا موقف بھی پیش کروں۔ موصوف کی یہ کہانی پڑھنے سے قبل کچھ شہ سرخیاں
دیکھیں جن کو دیکھ کر ایسے لگا کہ جیسے کہانی انتہای تنقید پر مبنی ہے لیکن
نیچے کی تحریر میں ایسا کچھ نہیں بلکہ اسکے ڈرامائی انداز اور دل موہ لینے
والی تحریر کو پڑھنے اور محظوظ ہونے کا دل چاہتا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی
تحریر سے قبل میں نے دوسری قسط پڑھی جس میں لڑکی کسی چودھری سے ہونے والی
ملاقات سے قبل ٹیلی فونک گفتگو کی داستان سنا رہی ہے اور اس میں اس ملاقات
سے زیادہ چودھریوں کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اور جب خبر کی شہ
سرخیاں پڑھیں تو لگا کہ اس کہانی کا دی اینڈ انتہائی تشویشناک ہوگا لیکن
آخر میں پتہ چلا کہ یہ ایک سلسلہ وار کہانی ہے اور اسکا آگے بھی انتظار
کرنا پڑے گا، یہ دوسری قسط ہے جان کر حیرانی ہوئی تو پلٹ کر پہلی قسط پڑھنے
لگا اس کی بھی شہ سرخیوں میں تو جیسے قاضی صاحب نے ماحول بنا دیا اور لگا
کہ دنیا بھر کا ظلم اسی ایک مقام پر ہو رہا ہے اور شائد اس جگہ کو دنیا کے
خطرناک ترین مقامات میں سے کسی ایک کا درجہ دے دینا چاہیے پھر پتہ چلا کہ
نہیں نیچے تفصیلات میں ایسا کچھ بھی نہیں اور سب اچھا ہی بتایا گیا ہے،
قاضی صاحب نے ایک خوبصورت لڑکی سے ملاقات ایک پر لطف طریقے سے بیان کی ہے
اور اسکا مقصد کسی ایک ذات پر تنقید سے بڑھ کر کچھ زیادہ نہیں۔ چلیں
دوقسطیں مکمل ہوچکی تھیں اور میں بھی چند پڑھنے والوں کی طرح تیسری سلسہ
وار قسط کا منتظر ہوگیا تیسری قسط آئی تو اس میں پتہ چلا کہ قاضی صاحب سے
ملاقات کرنے والی لڑکی۔۔۔۔اس مقام پر جہاں چوہدری صاحب ہوا کرتے ہیں کیا
محسوس کیا وہ بتا رہی ہے، اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو کو ٹوٹوں کی شکل
میں پیش کرنے کا مقصد یا تو قاضی صاحب بتا سکتے ہیں یا پھر مجھے لگا کہ وہ
اپنے اخبار کو مقبول کرنے کے لئے ایک اچھا’’ ٹول‘‘ بنا رہے ہیں ، میرا تعلق
کیونکہ ٹی وی جرنلزم سے ہے اس لئے جانتاہوں کہ ریٹنگ بڑھانے کے لئے اس طرح
کی کہانی اور اسکو مصالحے لگانا کتنا ضروری ہوتا ہے خیر میرے دوست کی تحریر
سے ابھی تک یہ تو نہیں لگا کہ وہ تنقید برائے فن کر رہے ہیں یا تنقید برائے
اصلاح یا وہ شائد چاہتے ہی نہیں کہ یہ سب پتہ چل سکے۔کل تک قاضی صاحب کی
تحریر کی چوتھی قسط یا اﷲ کرے کہ آخری قسط چھپ چکی ہوگی، میں اب تک کی
تحریریں دیکھ کر اتنا تو کہہ سکتا ہوں کہ گزشتہ تین قسطوں کی طرح آج بھی
شائد وہ اس لڑکی کو روکے رکھیں گے کیونکہ شائد وہ نہیں چاہتے کہ اس ملاقات
کا احوال ختم ہو نہ ہی اس ملاقات میں سامنے آنے والی کہانی کااثر، چلو جو
بھی ہو ہم اﷲ تعالی سے رمضان کریم کا صدقا دے کر دعا گو ہیں کہ اﷲ تعالی
ہربیٹی کی عزت کو محفوظ رکھے اور بے ہدایتوں کو ہدایت دے کیونکہ میں نہیں
سمجھتا کہ کسی کی عزت اچھالنے سے کسی کو عزت ملتی ہے بلکہ ہم سب کو چاہیئے
کہ ہم عزتوں کی رکھوالی کریں نہ کہ انکا نام استعمال کرکے اپنا بول بالا
اور ان سے ملاقاتوں اور کسی کی خواہش پر اداروں کی تذلیل کریں، برائے
مہربانی اس تحریر کا مطلب غلط مت لیجئے گا کیونکہ یہ تنقید برائے اصلاح ہے
نہ کہ برائے فن یا تذلیل۔ |