ہر موت ایک سانحہ ہوتی ہے، خاص طور پر حادثاتی اور
غیرطبعی اموات۔ دکھ تب بھی ہوتا ہے جب کوئی شخص سفاک دہشت گردوں کا نشانہ
بنتا ہے، دل تب بھی گھائل ہوتا ہے جب کوئی ڈاکو یا راہ زن کسی کی جان لیتا
ہے، کوئی ذاتی رنجش یا مفاد کے باعث کسی کے ہاتھوں قتل ہوجائے تو اس کی جان
کی زیاں بھی آنکھیں نم کرجاتا ہے۔ اسی طرح ہر حادثہ جو جان لیوا ثابت ہو ہر
حساس آدمی کو صدمے سے دوچار کردیتا ہے، لیکن تو تب گزرتی ہے جب کوئی حادثہ
بے حسی، بدنظمی اور خودغرضی کی وجہ سے جان لیوا بن جائے، جب جان بچائی
جاسکتی ہو لیکن اسے بے قیمت سمجھ کر گنوا دیا جائے۔
اس کی جان بھی بچائی جاسکتی تھی، ایک قیمتی زندگی کا چراغ گُل ہونے سے
بچایا جاسکتا تھا، ذرا سی کوشش ایک گھرانے کو اپنا سہارے سے محروم نہ ہونے
دیتی، مگر ایسی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ چناں چہ اس کی جان حادثے کی وجہ
سے نہیں خودغرضی، بے اعتنائی، بے پروائی اور بے حسی کے ہاتھوں گئی اور دل
کو خون رلادینے والی حقیقت یہ ہے کہ اس کا قاتل کوئی دہشت گرد، ڈاکو یا راہ
زن نہیں ایک ڈاکٹر قرار پایا، اس جان کے ضیاع کا باعث ایک مسیحا بنا۔
عمرکوٹ میں پیش آنے والا یہ انسانیت سوز واقعہ ہماری معاشرتی اقدار، پیشہ
ورانہ رویوں اور اخلاقی حالت پر کئی سوالیہ نشان لگا گیا۔ ہوا یوں کہ
عمرکوٹ کے سول اسپتال میں تین خاکروبوں کو لایا گیا۔ وہ تینوں سیوریج نالے
میں صفائی کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے کہ زہریلی گیس کے باعث ان کی حالت
غیر ہوگئی، انہیں نہایت تشویش ناک حال میں اسپتال پہنچایا گیا۔ ظاہر ہے
اپنے کام کے دوران حادثے کا شکار ہونے والے ان خاکروبوں کے جسم اور کپڑے
کیچڑ اور غلاظت سے اَٹے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ٹھہرے ایک صفائی پسند اور ’’نفیس‘‘
انسان، موصوف نے صاف انکار کردیا کہ وہ گندگی میں لتھڑے ان محنت کشوں کو
نہیں چھو سکتے، کیوں کہ ان کا روزہ ہے۔ ان کا متاثرہ افراد کے لواحقین سے
مطالبہ تھا کہ انھیں نہلا دھلا کر موصوف کی خدمت میں پیش کیا جائے تاکہ وہ
پورے اطمینان سے مسیحائی کا مقدس فریضہ انجام دے سکیں۔
حادثے کے شکار ہونے والے خاکروبوں میں سے سب سے زیادہ متاثر عرفان مسیح کو
موت نے اتنی مہلت نہ دی کہ اس کے اہل خانہ اسے نہلاکر ڈاکٹر صاحب کے حضور
پیش کرسکتے، وہ جان سے گزر گیا اور اس کی موت ہمارے معاشرتی رویوں اور
اخلاقی حالت کا پردہ چاک کرگئی۔
کوئی روزہ دار ڈاکٹر صاحب سے یہ پوچھے کہ جناب! روزہ تو وہ عبادت ہے جو
ہمیں ان لوگوں کے دکھ درد سے آشنا کرتی ہے جو افلاس کے باعث بھوک کا شکار
رہتے ہیں، یہ عبادت تو ہمارے اندر عاجزی، انکساری، برابری کا احساس اور
خدمت خلق کا جذبہ بیدار کرتی اور پروان چڑھاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے
ہمارے نفس کو سدھارنے اور شخصیت کو سنوارنے کے لیے عاید کردہ اس مقدس فریضے
کا پاکیزہ نام اپنے پیشہ ورنہ فرائض سے پہلوتہی اور غفلت کے لیے استعمال
کرنا انسانیت اور اخلاقیات سے گری ہوئی حرکت ہی نہیں روزہ، رمضان اور اسلام
کی بدنامی کا باعث بننے والی مکروہ حرکت بھی ہے۔
ایک ڈاکٹر کا کام مریض کی جان بچانا ہے، اسپتالوں میں مختلف قسم کے حادثات
اور واقعات کا شکار ہونے والے افراد آتے ہیں، بُرے طرح جھلسے ہوئے جسم، کٹے
پھٹے لہولہان بدن، غلاظت میں لتھڑے ہوئے جسم․․․․ڈاکٹر اور اسپتال کا عملہ
اگر مذکورہ ڈاکٹر صاحب کی طرح صفائی پسندی اور روزے کو جواز بنالے تو ہر
روز عرفان مسیح کی طرح کتنے ہی لوگ زندگی سے محروم ہوجائیں۔ اس واقعے نے
ایک ایسے شخص کی یاد دلادی جو ان خستہ حال میتوں کو بھی غسل دیتا تھا جنھیں
ان کے اپنے بھی چھونے سے انکار کردیتے تھے۔ جی ہاں عبدالستارایدھی، عمرکوٹ
کے سانحے جیسے واقعات حیران کرجاتے ہیں کہ عبدالستار ایدھی بھی ہمارے
معاشرے کا حصہ اور ہمارے ہم وطن تھے۔
عمرکوٹ کے سول اسپتال کے مذکورہ ڈاکٹر کے رویے کا ایک پہلو پیشۂ طب کے
اصولوں اور اخلاقیات کی توہین ہے تو اس غیرانسانی اور شرم ناک رویے کا
دوسرا پہلو محنت کشوں کے اس گروہ کی توہین اور تضحیک پر مبنی ہے جو ہمارے
لیے ماحول کو صاف رکھتا اور شہروں، قصبوں دیہات اور بستیوں کو ہمارے لیے
رہنے کے قابل بناتا ہے۔ مزدوروں کے اس گروہ کو خاکروب کے نام سے جانا جاتا
ہے۔ ہم سب مل کر دن بھر جو گندگی پھیلاتے ہیں، یہ محنت کش ہی اسے صاف کرکے
زمین اور فضاء کو ہمارے رہے سانس لینے اور زندہ رہنے کے لائق بناتے ہیں۔
اگر یہ لوگ اپنا کام چھوڑ دیں، ہڑتال پر چلے جائیں تو ان کی اور ان کے کام
کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ ہوجاتا ہے، کیوں کہ کوئی اور ان کا کام بہ مشکل
ہی کر سکتا ہے۔ یہ لوگ غلاظت سے بھرے گٹر اور نالوں میں گھس کر اپنی جان
خطرے میں ڈالتے ہیں مگر اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے منہہ نہیں موڑتے۔ یہ لوگ
عزت کرنے کے لائق ہیں نہ کہ ان کی توہین کی جائے اور انہیں کم تر سمجھا
جائے۔
عمرکوٹ میں پیش آنے والا افسوس ناک واقعہ ہم سب سے تقاضا کر رہا ہے کہ ہم
اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں، یہی نہیں اس طبقے کے بارے میں اپنی رائے
اور رویے بھی تبدیل کریں جو ہم کوڑا اور گندگی پھیلانے والوں کے پھیلائے
ہوئے کچرے اور غلاظت کو صاف کرکے ہمارے لیے جینے کا سامان کرتا ہے۔
|