فلاحی ریاست کا تصور اسلامی طرز حکمرانی کا امتیاز ہے اسی
تصور کو لے کر یورپ نے عوامی فلاح و بہبود اور عوام کے حق متعین کیے اور آج
خوشحال ریاستیں ہیں پاکستان بلاشبہ ایک اسلامی جمہوری ملک ہے اور حکومت کے
بنیادی فرائض میں جہاں تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کو ان کی صلاحیت کے
مطابق روزگار دینا ہے وہاں محروم اور نادارخواتین و مرد حضرات کی نہ صرف
مالی مدد کرنا بھی حکومتی ذمہ داری ہے بلکہ ان کو کوئی ہنر سکھا کر بر سر
روزگار ہونے کے قابل بنانا اور چھوٹے کاروبار کیلئے امداد دینا ہی حکومتی
فرائض کا حصہ ہے۔
اگرچہ ہمارے ہاںاس مقصد کیلئے مختلف ادوار میں مختلف ادارے قائم کیے جاتے
رہے۔ مگر وہ کرپشن سیاست اور اقرباء پروری کی بھینٹ چڑھ گئے اور اپنے مقصد
میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ایسا ہی ایک ادارہ پاکستان بیت المال بھی ہے جیسا کہ
نام سے ظاہر ہے کہ یہ اسلامی تصور امانت و کفالت کا امین ادارہ ہے اس ادارے
کو وفاقی حکومت وسائل مہیا کرتی ہے۔اور اس کی ذمہ داریوں میں غریب نادرااور
محروم طبقے کی کفالت مالی معاونت اور قدرتی آفات میں متاثرین کی بحالی میں
مدد دینا بھی شامل ہے۔
یہ ایک نہایت ذمہ داری کا حامل ادارہ ہے کیونکہ بیت المال کے وسائل کی
دیانتداری سے حفاظت اور حقیقی مستحقین تک بہم رسائی ہی اصل فریضہ ہے جو کسی
روایتی بیورو کریٹک سوچ کے حامل افسر اور دفتری امور کو فائلوں تک سمجھنے
والے سربراہ کے بس کا 'کا م نہیں۔ اسی لیے کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی ایسی
سماجی شخصیت کو یہ ذمہ داری سونپی جائے جو نہ صرف بیت المال کے وسائل کی
دیانتداری سے نگرانی کر سکے بلکہ معاشرے میں پھیلے ہوئے سفید پوش ضرورت مند
خاندانوں کی تلاش کرکے ان کی حاجت روائی کر سکے۔ اس وقت بیت المال کے
سربراہ ایک صاحب حیثیت کاروباری شخصیت اور اعلی تعلیم یافتہ بیرسٹر عابد
وحید شیخ ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کے اس انتخاب کو ہر طبقہ کے افراد نے
تحسین پیش کی ہے کیونکہ بیرسٹر عابد وحید شیخ کی دیانتداری کسی شک و شبہ سے
بالاتر اور ان کی خاندانی تاریخ ایثار و قربانی کی ایک مثال ہے۔ غریبوں
ناداروں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا ان کی روایت ہے ایسے شخص کو بیت المال
کا امانت دار بنانا در اصل اس فلاحی ادارے کی کامیابی اور افادیت بڑھانے کا
موجب بنتا ہے۔
بیرسٹر عابد وحید شیخ نے تھوڑے ہی عرصے میں اپنے انتخاب کو درست ثابت کردیا
ہے اور اب یہ ادارہ بے وسیلہ مستحقین کی بہتر انداز میں خدمت سرانجام دے
رہا ہے۔ اسلام میں جہاں غریبوں بیواﺅں یتیموں اور مریضوں کی مدد کرنے کا
حکم دیا ہے وہاں اس بات کی ہدایت بھی کی ہے کہ ان ضرورتمندوں کو مستقل ہاتھ
پھیلانے والا فقیر نہ بنایا جائے بلکہ ان کو خود کفالت اور خود انحصاری کی
طرف لا کر اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کی تربیت و ترغیب کے ساتھ معاونت کی
جائے۔ بیت المال اس حوالے سے جامع منصوبہ بندی کے تحت کام کر رہا ہے جو
ابتدائی طور پر مالی مدد تو دیتا ہی ہے مگر چھوٹے کاروبار یا دستکاری کے
ذریعے سائلین کو خود کفیل بنانے میں تعاون بھی کرتا ہے۔ بالخصوص بیوہ اور
بے سہارا خواتین کو سلائی کڑھائی کی تربیت کے ساتھ سلائی مشین دے کر ان کے
ہاتھ سے کشکول چھین لینا ایک نہایت قابل تحسین سلسلہ ہے۔ اس طرح ہزاروں
خواتین اپنے گھروں میں باعزت طریقے سے اپنا گھر چلا رہی ہیں۔
اسی طرح یتیم بچوں کو ٹیکنیکل تعلیم یا کوئی ہنر سکھا کر ان کو پاﺅں پر
کھڑا کرنے میں مدد کرنا نادار یا معذور افراد کو وسائل دے کر کسی ایسے
چھوٹے موٹے کاروبار میں لگانا کہ وہ اپنا گھر چلا سکیں یہ ایسے منصوبے ہیں
جو معاشرے کو بھیک مانگنے یا دوسروں کی طرف ہاتھ پھیلانے سے روک کر معاشرے
کا باعزت شہری بنانا ہے اور پاکستان بیت المال اپنے سربراہ کی ہدایت کی
روشنی میں یہ فریضہ بخوبی ادا کر رہا ہے اس کے علاوہ ناگہانی آفات حادثات
اور بالخصوص دہشت گردی جیسی مشکلات کا شکار افراد اور خاندانوں کی فوری
کفالت اور ان کو دوبارہ بحالی میں مدد دینا بھی بیت المال کی اہم خدمات میں
سے ہے۔
حالیہ دور میں شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کے آپریشن
"ضرب غصب"کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کی مدد کرنا ایک بہت
بڑا مسئلہ ہے اگرچہ پاک فوج اور وفاقی حکومت براہ راست بھی ان آئی ڈی پیز
کی کفالت کر رہے ہیں مگر بیت المال بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہا
ہے۔ آئی ڈی پیز کے کیمپوں میں کھانا فراہم کرنا اور ضرورت کی دیگر بنیادی
چیزیں فراہم کرنا ایک معمول ہے۔ اسی کے ساتھ بارشوں اور سیلاب نے جو تباہی
مچائی ہے اور ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے ہیں ان کی مدد کیلئے بھی بیت المال
نے آگے بڑھ کر ہاتھ تھاما ہے متعدد کیمپ قائم کرکے ان اجڑے لوگوں کو کھانا
دوائیں اور دیگر ضروریات فراہم کی جا رہی ہیں۔
اگر خدمات کو دیکھا جائے تو پاکستان بیت المال ایک منفرد ادارہ ہے اور
بیرسٹر عابد وحید شیخ کی سربراہی میں اس ادارے نے اپنی الگ ساکھ اور پہچان
مستحکم کی ہے۔ اس پر عوام اور بالخصوص مستحقین کا اعتماد قائم ہوا ہے وفاقی
حکومت کو چاہیے کہ اس ادارے کے وسائل بڑھائے تاکہ یہ محروم طبقے کی امیدیں
پوری کرنے اور ان کو احساس اپنائیت دے کر معاشرے کا مفید شہری بنانے کی
خدمات جاری رکھ سکے بالخصوص بیرون ممالک سے آنے والی امداد اسی ادارے کے
ذریعے تقسیم کی جائے تاکہ نہ صرف اس کا استعمال درست ہو بلکہ عالمی اداروں
کا اعتماد بھی بحال ہو۔یہ صرف بیت الماک کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ تمام
مخیر حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنے مستحقین بھائیوں کی دل کھول کر مدد کریں
کیونکہ
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں |