ابوعدنان سعیدالرحمن بن نورالعین سنابلی
یہ قیامت کی دس بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔یہی وجہ ہے کہ دجال کے خروج کے
بعد کسی انسان کا ایمان لانا سودمند نہیں ہوگا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:''جب تین چیزیں
ظاہر ہوجائیں گی تو کسی ایسے شخص کا ایمان لانا مفید نہیں ہوگا جو اس سے
پہلے ایمان والا نہیں تھایا جس نے حالت ایمان میں کوئی اچھا کام نہیں کیا:
سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال کا ظاہر ہونا اور دابۃ الارض کا خروج''۔
(صحیح مسلم؍185)
دجال ایک متعین شخص ہوگا،اس پر ایمان لانا ہر مسلمان پر ضروری ہے۔دجال ایک
حقیقت ہے، اس کو فسانہ بتانا یا اس کے خروج کا انکار کرنے سے ان حدیثوں کا
انکار لازم آتا ہے جو دجال کے بارے میں مختلف حدیث کی کتابوں میں وارد
ہیں۔افسوس تو تب ہوتا ہے جبکہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودی نے دجال
سے متعلق حدیثوں کو مشکوک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ دجال کے بارے میں رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حددرجہ وہم کے شکار تھے، کیونکہ آپ نے کہا تھا کہ
دجال کا خروج میرے زمانے سے قریب ہوگا حالانکہ ساڑھے تیرہ سو سال گزرجانے
کے بعد بھی اس کا خروج نہیں ہوا۔ نعوذباللہ من ذلک، کس قدر تعجب کی بات ہے
کہ ایک انسان محض اس وجہ سے دجال کی حقیقت کا انکار کردے کہ اس کی موٹی عقل
دجال کی حقیقت کا اعتراف نہیں کرتی ہے اور کتنی حماقت کی بات ہے کہ ہم اپنی
عقل کو متہم کرنے کے بجائے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہم کا شکار
بتائیں۔ دجال کے تعلق سے رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو
ڈرایا ہے اور آگاہ کیا ہے کہ دجال کے فتنہ سے بچاؤ کے طریقے اختیار کئے
جائیں مگر افسوس صد افسوس کہ ہم میں سے بہت کم ہی لوگ دجال اور اس کے فتنہ
سے باخبر ہیں اور دجال کی صفات کو جانتے ہیں جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمان ہے:''دجال اس وقت تک خروج نہیں کرے گا جب تک لوگ اسے بھلا
نہیں دیں گے''۔(اسے عبداللہ بن احمد نے السنۃ میں روایت کیا ہے اور ہیثمی
نے (مجمع الزوائد ۷؍۶۴۶)میں صحیح قرار دیا ہے۔)
سوچنے کا مقام ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات ہمارے معاشرے
پر کس قدر ثابت آچکی ہے کہ ہم دجال اور اس کے فتنوں کا تذکرہ کبھی بھولے
سے بھی نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو پھر اس کے بارے میں انہی خرافات
کو زیر بحث لاتے ہیں جو ہمارے معاشرے میںپھیلی ہوئی ہیں۔ دجال کے بارے میں
لوگوں کے اسی غفلت کو دور کرنے کے مقصد سے یہ چند سطور قلمبند کی جارہی
ہیں، اس مقصد سے کہ اللہ تعالیٰ ہم سبھی کو دجال کے فتنہ سے بچائے ۔ ٭دجال
کائنات کا سب سے بڑا فتنہ ہے: ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا:''اے لوگو!بلاشبہ زمین میں
دجال کے فتنے سے بڑا کوئی فتنہ نہیں''۔ (سنن ابن ماجہ؍4077، اسے شیخ البانی
نے صحیح قرار دیا ہے۔)
حذٰیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے پاس دجال کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا:''فتنہ دجال سے زیادہ
مجھے تم لوگوں کے آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے کا زیادہ خطرہ ہے۔پہلے لوگوں
میں سے جو کوئی اس فتنے سے محفوظ رہا وہ دراصل محفوظ ہے اور آج تک دنیا
میں جوکوئی چھوٹا یا بڑا فتنہ ظاہر ہوا ہے وہ دجال کے فتنے کی وجہ سے ہے''۔
(مسند احمد؍3082، صحیح ابن حبان؍6807، ملاحظہ ہو: سلسلۃ الاحادیث
الصحیحۃ؍3082)
ہشام بن عامر مرفوعا روایت کرتے ہیں:''آدم علیہ السلام کی تخلیق سے قیامت
قائم ہونے تک دجال سے بڑی کوئی مخلوق پیدا نہیں ہوگی '' ۔ اورایک روایت میں
ہے :'' دجال سے بڑا کوئی فتنہ پیدا نہیں ہوگا''۔
(صحیح مسلم۷؍۲۰۷، مستدرک حاکم۴؍۵۲۸، مسند احمد۴؍۲۰-۲۱)
یہی وجہ ہے کہ ایک بار ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا دجال کے فتنہ کو
یاد کرکے روپڑیں۔
(صحیح ابن حبان؍1905، مسند احمد۶؍۷۵)
٭ تمام انبیاء نے اپنی امتوں کو دجال کے فتنے سے ڈرایا: عبداللہ بن عمر رضی
اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے
درمیان کھڑا ہوئے اوراللہ کی شان کے مطابق اس کی تعریف کی ۔پھر دجال کا
تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:''میں تم لوگوں کو اس سے ڈراتا ہوں، جتنے نبی
آئے سبھوں نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا ہے۔نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو
اس سے ڈرایا ہے لیکن اس کے بارے میں تم لوگوں کو ایک بات بتاتا ہوں جسے کسی
نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی ۔یہ جان لوکہ وہ کانا ہوگا جبکہ اللہ کانا
نہیں ہے''۔
(صحیح بخاری مع الفتح۱۳؍۸۰-۸۱، صحیح مسلم۸؍۱۹۳)
ام المومنین سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے بیان فرمایا:''تمام انبیاء کرام نے اپنی امتوں کو دجال سے ڈرایا
اور میں بھی تم لوگوں کو اس سے ڈراتا ہوں کہ وہ کانا ہوگا اور اللہ کانا
نہیں، وہ زمین میں چلے گا جبکہ زمین اور آسمان دونوں اللہ کی ملکیت ہیں۔
خبردار! مسیح دجال کی داہنی آنکھ ابھری ہوئی انگور کے مثل ہے''۔
(صحیح ابن خزیمہ؍۳۲، اسے شیخ البانی نے قصۃ المسیح ونزول عیسی علیہ الصلاۃ
والسلام و قتلہ ایاہ ص؍61میں صحیح قرار دیا ہے۔)
٭ دجال کا ظہور امت محمدیہ ہی میں ہوگا:
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:''مسیح دجال کا ظہور میری امت ہی میں ہوگا''۔ (صحیح
مسلم؍2940)
ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے خطبہ دیا۔ اس دن آپ کے خطبہ کا اکثر حصہ دجال پر مبنی تھا۔ آپ نے
فرمایا:'' سارے نبیوں نے اپنی امتوں کو مسیح دجال سے ڈرایا۔میں آخری نبی
ہوں اور تم لوگ آخری امتی ہو اور وہ یقینی طور پر تم لوگوں کے درمیان ہی
ظاہر ہوگا۔۔۔۔۔''۔
(الفتن لحنبل بن اسحق؍۳۶، قصۃ المسیح للشیخ الالبانی ص؍129)
٭ دجال کا ظہور کہاں ہوگا:
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:''یادرکھو! دجال شام یا یمن کے سمندر میں ہے۔ نہیں بلکہ وہ مشرق
کی جانب ہے، وہ مشرق کی جانب ہے، وہ مشرق کی جانب ہے۔ پھر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے ساتھ مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔
(صحیح مسلم؍2942سنن ابوداود؍4325)
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:''دجال خلہ سے نکلے گاجو ملک شام اور ملک عراق کے درمیان ایک راہ
ہے، وہ فساد پھیلاتا پھرے گا دائیں طرف اور بائیں طرف زمین، چنانچہ اے اللہ
کے بندوں! مضبوط رہنا۔۔۔۔۔''۔
(صحیح مسلم؍2937، مسند احمد؍17779)
ابوبکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:''دجال مشرق کی ایک سرزمین خراسان سے خروج کرے گا۔ اس کی پیروی ایسی
قومیں کریں گی جن کے چہرے موٹی ڈھالوں کی طرح چپٹے ہوں گے''۔
(سنن ترمذی؍2237، سنن ابن ماجہ؍4123، اسے شیخ البانی نے ''الصحیحۃ؍1591''
میں صحیح قرار دیا ہے۔)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:'' ۔۔۔۔۔۔ دجال اصبہان کے علاقے یہودا سے خروج کرے
گا۔۔۔۔''۔
(صحیح ابن حبان؍1905، مسند احمد۶؍۷۵، اسے شیخ البانی نے قصۃ المسیح ص؍۶۰میں
صحیح قرار دیا ہے۔)
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:''دجال اصبہان کے علاقے یہوداہ سے نکلے گا اور اس کے ساتھ ستر ہزار
یہودی ہوں گے''۔
(صحیح مسلم؍2944)
ظہور کے وقت دجال کی کیفیت کیا ہوگی؟:
دجال کا ظہور انتہائی غصے کی حالت میں ہوگا: نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں
کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ابن صیاد سے مدینے کے کسی راستے میں ملے
اور اس سے کوئی ایسی بات کہی جس سے وہ غصہ میں آکر پھول گیا حتی کہ پوری
گلی کو بھردیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس
پہنچے ۔ انہیں اس واقعہ کی خبر مل چکی تھی لہذا انہوں نے کہا: اللہ تم پر
رحم فرمائے، تم ابن صیاد سے کیا چاہتے تھے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ دجال کسی غصہ کی وجہ سے ظہور پذیر
ہوگا''۔
(صحیح مسلم؍2932)
دجال کب ظہور پذیر ہوگا؟ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :'' دجال اس وقت خروج کرے گا جب
میراث تقسیم نہیں کی جائے گی اور مال غنیمت پر خوش نہیں ہوا جائے گا''۔
(المعجم الکبیر للطبرانی۲۰؍۴۰۱؍۹۵۳، شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان رومیوں سے جنگ کریں
گے اور فتح حاصل کرلیں گے۔اس کے بعد وہ مال غنیمت تقسیم کررہے ہوں گے کہ
ایک زور سے چیخنے والا انسان آئے گا اور کہے گا کہ ان کے اہل و عیال میں
دجال ظاہر ہوچکا ہے تو وہ لوگ اپنے ہاتھوں میں موجود سبھی چیزوں کو پھینک
دیں گے اور اس کا رخ کریں گے اور سب سے پہلے دس سواروں کو اس کی خبر لانے
کے لئے روانہ کریں گے۔
(صحیح مسلم؍2899)
دجال کی صفات:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار حدیثوں میں دجال مسیح کے صفات
بتائے ہیں جن کی بنیاد پر ایک مومن پہچان جائے گا کہ یہ شخص دجال ہے ۔
انہی صفات میں چند درج ذیل ہیں:
۱-
دجال کانا ہوگا، اس کی بائیں آنکھ مٹی ہوئی ہوگی، آنکھ کی جگہ موٹا ناخن
ہوگاجیسے سبز رنگ کا چمک دار ستارہ ہو، اس کی داہنی آنکھ پھولی ہوئی انگور
جیسی ہوگی، نہ زیادہ ابھری ہوئی اور نہ ہی زیادہ دبی ہوئی ہوگی :-
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اوراللہ کی شان کے مطابق اس کی تعریف
کی ۔پھر دجال کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:''۔۔۔۔۔۔۔میں تم لوگوں کو اس
کے بارے میں ایک بات بتاتا ہوں جسے کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی ۔یہ
جان لوکہ وہ کانا ہوگااور اللہ کانا نہیں ہے''۔
(صحیح بخاری مع الفتح۱۳؍۸۰-۸۱، صحیح مسلم۸؍۱۹۳)
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:''میں دجال کی ایک ایسی پہچان بتاتاہوں جسے مجھ سے پہلے کے لوگوں
نے نہیں بتائی ہے۔ وہ یہ ہے کہ دجال کانا ہوگا اور اللہ کانا نہیں ہے''۔
(مسند احمد۱؍۱۷۶و ۱۸۲، السنۃ للامام عبداللہ بن احمد بن حنبل؍۱۳۷)
بعض روایتوں میں دجال کے بارے میں وارد ہے کہ دجال کانا ہوگا ، اس کی بائیں
آنکھ مٹی ہوئی ہوگی، آنکھ کی جگہ موٹا ناخن سا ہوگا،جیسے سبز رنگ کا
چمکدار ستارہ ہو، نہ تو زیادہ ابھری ہوئی اور نہ ہی زیادہ دبی ہوئی۔
(مسند احمد ، المعجم الکبیر والمعجم الاوسط بحوالہ قصۃ المسیح الدجال
ص؍131)
.۲
دجال پراگندہ بال ہو گا:-
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:''دجال بائیں آنکھ سے کانا ہوگا،
گھنے بالوں والا ہوگا اور اس کے ساتھ جنت اور جہنم ہوگی۔اس کی جہنم دراصل
جنت ہوگی اور اس کی جنت درحقیقت جہنم ''۔
(صحیح مسلم؍2934)
۳.
دجال کا سر پچھلی جانب سے کچھ گنجا ہوگا:-
ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
بیان کرتے ہیں:''اس (دجال) کا سر پچھلی جانب سے کچھ گنجا ہوگا۔وہ کہے گا کہ
میں تمہارا رب ہوں تو جس نے کہا تو جھوٹا ہے، تو ہمارا رب نہیں ہوسکتابلکہ
ہمارا رب اللہ ہے، ہم نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع کیا اور ہم
تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں تو اس پر اس کا کوئی زور نہیں چلے''۔
(مسند احمد۵؍۴۱۰، مستدرک حاکم؍8551، امام حاکم اورامام ذہبی نے اسے صحیحین
کی شرط پر قرار دیا ہے اور شعیب ارناؤوط نے صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو:
الصحیحۃ للألبانی؍2808)
۴.
دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان ''کافر-ک ،ف، ر-'')لکھا ہوگا:-
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:''دجال کانا ہے اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا
ہوگا۔پھر اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجے کرکے بتایا: ''ک ، ف، ر
''اور اسے ہر مسلمان پڑھ لے گا۔
(صحیح مسلم؍2933)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اسے
ہر مومن پڑھ لے گا چاہے وہ پڑھا لکھا ہوگا یا ان پڑھ ہوگا''۔
(صحیح مسلم؍2934)
۵.
دجال نوجوان، گھنگھریالے بال والا، انتہائی سفید اور چمکدار،پستہ قد،چلنے
میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان فاصلہ ہوگااور اس کا سر افعی سانپ کے مثل
ہوگا: -
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:''دجال نوجوان گھنگھریالے بالوں والا ہوگا، اس کی آنکھ پھولی
ہوئی ہوگی، وہ عبدالعزی بن قطن سے انتہائی مشابہ ہوگا''۔
(صحیح مسلم؍7373)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے دجال کے بارے میں فرمایا:''دجال کانا، انتہائی سفید اور چمکدار ہوگا، اس
کا سر افعی سانپ کے مانند ہوگا، وہ لوگوں میں سے عبدالعزی بن قطن کے مشابہ
ہوگا''۔
(التعلیقات الحسان علی صحیح ابن حبان؍6758مسند احمد۱؍۲۹۹، ملاحظہ ہو :
الصحیحۃ؍1193)
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:''میں دجال کے بارے میں تمہیں اتنی باتیں بتاچکاہوں کہ مجھے اندیشہ
ہواکہ تم اسے یاد نہ رکھ سکوگے(تویاد رکھو) مسیح دجال پستہ قد ہوگا، چلنے
میں اس کے دونوں پاؤں کے بیچ فاصلہ رہے گا، اس کے بال گھنگھریالے ہوں
گے۔۔۔۔۔''۔
(سنن ابوداود؍4320، اسے شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)
۶.
دجال بے اولاد ہوگا:-
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک بار مکہ میں ابن صیاد
کے ساتھ تھا۔ اس نے کہا:لوگوں نے میرے بارے میں نہ جانے کس کس طرح کی باتیں
اڑادی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں دجال ہوں لیکن یہ بتاؤ کہ کیا تم نے رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہیں سناکہ دجال بے اولاد ہوگا۔میں
نے کہا:ہاں، بالکل سنا ہوں۔ اس نے کہاکہ میرے تو بچے ہیں۔۔۔۔۔۔
(صحیح مسلم؍2927)
۷.
دجال ایک انسان ہی ہوگا:-
موجودہ زمانے کے کم علم مفکرین اور جاہل دانشوران نے دجال کے بارے میں ایسی
ایسی مضحکہ خیز باتیں کہی ہیں جو حدیثوں کی روشنی میں انتہائی غلط قرار
پاتی ہیں۔بعض لوگوں نے امریکہ کو تو بعض نے اسرائیل کو دجال بتایا ہے
حالانکہ سچ یہ ہے کہ دجال ایک انسان ہی ہوگا۔چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ میں
نے خواب میں ایک موٹے شخص کو دیکھا جو سرخ تھا اس کے بال گھنگھریالے تھے،
ایک آنکھ سے کانا تھا، اس کی ایک آنکھ انگور کی طرح پھولی ہوئی تھی،
لوگوں نے بتایا کہ یہ دجال ہے، اس کی صورت عبدالعزی بن قطن سے بہت ملتی
تھی''۔
(صحیح بخاری؍7128)
نیز عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث میں گزرا کہ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے دجال کے صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دجال مرد ہے ،
پستہ قد ہے، گھنگھریالے بالوں والا ہے ، کانا ہے ،دبی ہوئی آنکھ والا ہے،
نہ تو وہ ابھری ہوئی ہوگی اور نہ تو اندر کو دھنسی ہوئی ، اگر تمہیں کوئی
التباس ہو جائے تو یہ جان رکھو کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے ۔ (سنن
ابوداود؍4312، صحیح الجامع؍2459)
تفصیل، ان شاء اللہ جاری ہے
|