اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں روزے کی فرضیت کابنیادی
مقصدحصول تقویٰ کوبیان فرمایاہے ۔علمائے کرام فرماتے ہیں کہ تقویٰ ایک دلی
کیفیت اور روحانی ووجدانی کمال کانام ہے،جس کے حاصل ہونے کے بعدانسان کے
لیے نیک اعمال اختیارکرنااوربرے کاموں سے بچناآسان ہوجاتاہے۔اﷲ تعالی کی
عبادت،رسول اﷲ ﷺکی اطاعت،نفسانی خواہشات پرقابو،شیطان کے مکروفریب کامقابلہ
اورانسانی ہمدردی وایثارجیسی صفات وکمالات اس کی عادت وطبیعت بن جاتے
ہیں۔یہ ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ رمضان المبارک کے روزے،نماز تراویح اور
دیگر عبادات انسان میں تقوے کایہ جوہر نہ صرف پیداکرتی بلکہ آئندہ کے لیے
بھی اس کے لیے راہ تقوی پرگامزن رہنے کوسہل وآسان بنادیتی ہیں۔اس مہینے میں
سرکش شیاطین کے قیدکیے جانے اورہمہ وقت برسنے والی رحمت کی برکھانیزاعمال
کی قدر میں اضافے اور ماحول میں روحانیت کی آمیزش کی وجہ سے عمل کی راہیں
بھی ہرطالب صادق کے لیے بآسانی کھل جاتی اوربرسوں کے فاصلے دنوں میں طے
ہوجاتے ہیں۔روزہ حصول تقوی کاایک سریع الاثرنسخہ بلکہ ذریعہ ہے۔اس میں کی
جانے والی عبادات کے ذریعے بندہ مومن میں وہ صفات پیداہوجاتی ہیں کہ پھر
سال کے باقی مہینوں میں بھی نفسانی وشیطانی خطرات سے حفاظت رہتی ہے۔
رمضان المبارک کاپورامہینہ اﷲ تعالی نے مسلمانوں کے لیے موسم بہار اور
نیکیوں کاسیزن بنایاہے،جس میں ہرنیک عمل کااجر 70گنابڑھ جاتاہے اورنوافل کی
ادائیگی فرائض کی ادائیگی کے برابر شمار ہوتی ہے۔اس مہینے کے ابتدائی
10دنوں میں خصوصی رحمتوں کی موسلادھاربارشیں مسلسل برستی ہیں،جوابتدائی
10دنوں کے بعداپنے ساتھ مغفرت عامہ کوبھی شامل کرلیتی ہیں اورآخری 10دنوں
میں توجہنم سے آزادی کے پروانے 4قسم کے انسانوں کے علاوہ ہر کس وناکس کو
عمومی طور پرملناشروع ہوجاتے ہیں۔ان بدنصیبوں میں والدین کے نافرمان،رشتے
داروں سے ناتاتعلق توڑنے والے،شراب جیسی ام الخبائث کے عادی اوراپنے دل میں
دوسروں کے لیے کینہ رکھنے والے شامل ہیں۔بعض روایات میں سودی لین دین کرنے
والوں کا بھی ذکرآیا ہے۔
رمضان المبارک کے مہینے کواﷲ رب العزت نے روزے جیسی عظیم عبادت کی ادائیگی
کے لیے مقررفرمایاہے۔روزہ ایک ایساعمل ہے،جس کے متعلق اﷲ تعالی نے یہ روح
پرور خبرمخبرصادق حضرت محمدمصطفیﷺ کی زبان وحی ترجمان سے اپنے بندوں کو دی
ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کابدلہ میں خود ہوں۔اس میں کیا شبہ ہوسکتا
ہے کہ جس کو خوداﷲ تعالی مل جائیں،اسے دولت دوجہاں کی بھلا کیاخواہش ہوسکتی
ہے؟اس موقع پر ہارون الرشید کی کنیز کی وہ حکایت ذہن میں رکھنی چاہیے جب اس
نے تمام درباریوں کے برعکس خودبادشاہ پر ہاتھ رکھاتھااور کہا تھاکہ مجھے اس
سلطنت کی دوسری کسی چیز کی طلب نہیں،کیوں کہ اگر مجھے بادشاہ سلامت مل جاتے
ہیں تو اس سلطنت کی ہرچیز میرے لیے محض گردراہ ہے ،تصورکیجیے!ایک کنیز
کوبادشاہ پر اس قدرنازہے،توان کی خوش نصیبی کاکیاٹھکاناہوگاجن کے لیے اصدق
الصادقین ﷺکی زبان مبارک سے رب العالمین اتنابڑامژدہ سنارہے ہیں ۔
رمضان کی اس حصوصیت کے باوجود اگر ہماری اجتماعی حیات میں کوئی قابل ذکر
تبدیلی نہیں آتی تو اس میں قصورہمارااپناہے کیوں کہ ہم نے اس روحانی
ایئرکنڈیشن میں بھی گناہوں،برائیوں اورخلاف شرع امور کے دروازے،کھڑکیاں اور
روشن دان کھول رکھے ہیں،پھر ہمیں گلہ اس روحانی روشن دان سے نہیں ،بلکہ
اپنے طرزعمل سے ہوناچاہیے۔ہم سرے سے روزہ نہ رکھیں یاروزہ رکھ کر اس
کااحترام نہ کریں دونوں صورتوں میں ہم روزے اور رمضان کے روحانی
فوائدوثمرات سے کماحقہ فائدہ حاصل نہیں کرسکتے،اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ
دواجن شرائط کے ساتھ کارآمدہوتی ہے،ہم نے ان کاالتزام ہی نہیں
کیا۔خودتصورکیجیے اس مریض کی شفاکی توقع کی جاسکتی ہے،جودواکے ساتھ ساتھ
پرہیز بھی نہ کرے بلکہ زہر بھی پھانکتارہے۔کیارحمت للعالمین ﷺکے یہ فرامین
ہمارے ہی لیے نہیں جن میں آپ ﷺنے ارشادفرمایاہے کہ:بہت سے روزہ داروں
کوسوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
غفلت سے سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے طلب صادق کے ساتھ کمر ہمت باندھ
لیجیے۔کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جواس مبارک مہینے کی قدرکرتے ہوئے اپنے
لمحات کوقیمتی بناتے ہیں اوراپنے نامہ اعمال کوکثرت تلاوت،کلمہ طیبہ کے
کثرت ذکر،اپنے گناہوں پرتوبہ واستغفار،جنت کی طلب اورجہنم سے پناہ پرمشتمل
دعاں اور نماز پنجگانہ وصلوتراویح میں تلاوت قرآن کی ا زاول تاآخرسماعت،نفل
نمازوں کے اہتمام،ادعیہ ہائے نیم شبی اورہر قسم کے صغیرہ وکبیرہ
گناہوں،روزہ گزاری کے نام پررواج پاجانے والے ہرقسم کے کھیلوں،ہرطرح کی
لہوولعب باتوں،کاموں،حرکات،بالحصوص کان ،آنکھ،پیٹ اوردیگر جملہ اعضاوجوارح
سے تعلق رکھنے والے گناہوں،بسیارخوری اورہمہ خوری جیسی ممنوعہ چیزوں الغرض
تمام منہیات کے اجتناب کے ذریعے روشن وپرنور بناتے ہیں۔ایسے ہی لوگ ہوتے
ہیں،جن کے لیے اﷲ تعالی نے اپنے پاک نبی ﷺ کی زبان مبارک سے یہ مژدہ
سنایاہے کہ:میں ان کاہوں،یہی لوگ ہیں کہ جن کے منہ کی بو اﷲ تعالی کومشک
وعنبر سے زیادہ پیاری ہے،یہی لوگ ہیں کہ جن کے جنت کاایک دروازہ باب الریان
مخصوص ہے،یہی لوگ ہیں کہ جن کے لیے جنت میں عالی شان محلات تیار کیے گئے
ہیں،یہی لوگ ہیں کہ جن کے اعزاز میں جنت کومزین کیاجاتاہے،یہی لوگ ہیں کہ
جن کی دعاں پرآمین کہنے کے لیے نورانی مخلوق فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی جاتی
ہے،یہی لوگ ہیں کہ جن کی مغفرت کے شب وروز فیصلے ہوتے ہیں،ہاں ہاں یہی ہیں
وہ خوش نصیب کہ جن کے لیے رمضان کی آخری رات لیلالجائزہ یعنی انعام کی رات
قراردی گئی ہے۔
ان کی عظمت کو وہ نفس وشیطان کے بے دام کے غلام کیاجانیں جواس مقدس مہینے
میں بھی جانوروں کی طرح دن بھر زبان چلاتے اور اس ماہ مقدس کے تقدس کوپامال
کرکے رب ذوالجلال والاکرام کے غضب کو دعوت دیتے رہتے ہیں،معمولی معمولی
بہانوں سے اس عظیم ترین فریضے کاقتل کرتے بلکہ دراصل اپنی عاقبت خراب کرتے
رہتے ہیں،ان کادعوی ایمان ان کی سرمستی بلکہ خرمستی پرماتم کرتا رہتاہے۔ان
میں بھی سب سے بڑے مجرم وہ ہیں ،جن کوخودتوروزہ رکھنے کی سعادت ملتی نہیں
،الٹاروزے داروں کوطعن وتشنیع کانشانہ بناکراپنے ایمان کو بھی خطرے میں ڈال
دیتے ہیں،کاش ان کومعلوم ہوتاکہ ان کی یہ باتیں زہر میں بجھاہواوہ مہلک
ترین تیر ہیں ،جن کاہدف درحقیقت وہ نہیں ،جن سے وہ یہ باتیں کہہ رہے ہیں
،بلکہ اس کااثران ہی کے ایمان کوگھائل کررہاہے۔رہے ان کے مخاطب روزے
دار،تووہ ان حرماں نصیب گستاخوں کااس دن مذاق اڑائیں گے،جب ان گستاخوں کے
لیے اﷲ تعالی کے غضب وعذاب کے فیصلے ہوں گے اور وہ جنت کی نعمتوں میں مگن
ان کے انجام بدکانظاراکررہے ہوں گے۔اﷲ تعالی ہمیں اس ماہ مبارک کی قدر کرنے
اوراس کے ہرلمحے اورہرشب وروز کوقیمتی بنانے کی توفیق عطافرمائے۔آمین! |