مجھے بڑا افسوس تھا۔ ایک چھوٹی سی پھول سی بچی جس کی کل
عمر ابھی فقط پندرہ بیس دن تھی ، میرے آنکھوں کے سامنے دم توڑ گئی۔ میں
افسوس کرنے اس کے گھر گیا تھا مگر گھر والوں کی باتیں سن کر اور پریشان ہو
گیا۔ مجھے اس کے گھر والے ہی اس کے قاتل نظر آئے۔ مجھے غصہ بھی آیا اور
افسوس بھی ہوا ۔مگر جہالت زندہ باد۔ آپ کڑھ سکتے ہو ۔ اپنا دل جلا سکتے ہو۔
ان کے حال پر ماتم کناں ہو سکتے ہو۔ مگر ان عقل کے دشمن لوگوں کو سمجھانا
کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس گھر کا ایک بزرگ بچی کی موت بارے ساری کہانی سنا
رہا تھالوگ سر ہلا رہے اور حکم ربی کہہ کر اسے تسلی دے رہے تھے۔
ایک دن پہلے چھٹی تھی۔ میں اخبارات کا ڈھیر سامنے رکھے پڑھنے میں مصروف تھا
کہ میرے ایک محلے دار ، جو ایک مزدور ہے، کی بیٹی روتی ہوئی آئی کہ انکل
میری بھانجی سخت بیمار ہے اسے فوراً ہسپتال لے کر جانا ہے کوئی گاڑی نہیں
مل رہی، آپ اگر گاڑی پر لے جائیں تو مہر بانی ہو گی۔۔ میرے گھر سے مین روڈ
تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر ہے اور کوئی بھی رکشا یا ٹیکسی لینے کے لئے یہ ڈیڑھ
کلومیٹر پیدل طے کرنا ہوتا ہے۔میں نے بیٹے کو آواز دی اور اسے فوراً جانے
کا کہا۔جواب ملا کہ چند منٹ میں تیار ہو کر آتا ہوں۔ اسی لمحے بچی کی ماں
بھی روتی ہوئی آ گئی کہ میری نواسی مر رہی ہے ۔ جلدی سے گاڑی پر چلڈرن
ہسپتال لے چلیں۔موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے میں نے بیٹے کا انتظار کرنے
کی بجائے چابی پکڑی، فوراً گاڑی نکالی او ر قریب ہی ان کے گھر سے بچی اور
اس کے ماں باپ کو لے کر تیزی سے چلڈرن ہسپتال کو چل پڑا۔ فاصلہ کافی تھا
اور بچی کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔راستے میں رش قدرے کم تھا۔ میں نے گاڑی
بہت بھگائی۔ مگر کلمہ چوک کے قریب پہنچے تو بچی کی سانسوں کی ڈور اکھڑ
گئی۔ہم چونکہ بہت قریب پہنچ چکے تھے اس لئے تصدیق کے لئے چلڈرن ہسپتا ل
جانا بہتر سمجھا۔ بچی کو لے کر ہسپتال کے اندر گئے۔ ڈاکٹر حضرات نے بچی کی
موت کی تصدیق کر دی ۔ کہا کہ آپ نے آنے میں بہت دیر کر دی۔ اور ہم بچی کی
نعش لے کر سوگوار واپس آ گئے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ موت کا اک دن معین ہے اور اسے ہر حال میں
آنا ہوتا ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ حضرت سلیمان کے پاس ایک شخص آیا کہ موت کا
فرشتہ اس کے تعاقب میں ہے اور اس کی جان لینا چاہتا ہے۔اس نے حضرت سلیمان
سے درخواست کی کہ چونکہ وہ مرنا نہیں چاہتا اس لئے ہوا کو جو آپ کے کنٹرول
میں ہے حکم دیں کہ مجھے اڑا کر یہاں سے دور ہندستان کی سر زمین پر چھوڑ آئے
تاکہ میں موت کے فرشتے سے محفوظ ہو جاؤں۔ حضرت سلیمان نے ہوا کو حکم دیااور
ہوا اس شخص کو وہاں سے دوراس کے پسندیدہ مقام پر چھوڑ آئی۔ کچھ دیر بعد
حضرت سلیمان کے پاس موت کا فرشتہ بھی آ گیا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم
ابھی تھوڑی دیر پہلے فلاں شخص کی جان لینا چاہتے تھے۔ موت کے فرشتے نے کہا
کہ نہیں آج تو میں نے اس کی جان نہیں لینی تھی ۔ اﷲ رب العزت نے مجھے کل
یہاں سے دورہندستان کی سرزمین میں اس کی جان لینے کا حکم دیا ہے۔ میں حیران
ہو کر اسے دیکھ رہا تھا کہ وہ آج یہاں پھر رہا ہے۔
انسان اشرف المخلوقات ہے اور اﷲ نے عقل اور شعور اسی لئے عنایت کی ہیں کہ
انسان ان کا بروقت استعمال کر لے تو صورت حال مختلف ہو سکتی ہے۔اس بچی کا
بھی بروقت علاج ہو جاتا تو امید تھی کہ اﷲتعالی اسے زندگی دے دیتے۔ وہ بزرگ
فرما رہے تھے کہ بچی اچھی بھلی تھی ۔ تین دن پہلے بخار ہوا۔ معمولی بخار
تھا۔ ہم شاہ صاحب کے پاس لے گئے۔ انہوں نے دم کیا تو صحیح ہو گئی۔رات صحیح
گزری مگر صبح پھر تیز بخار ہو گیا۔ ہم دوبارہ شاہ صاحب کے پاس لے کر گئے۔
شاہ صاحب کی مہربانی انہوں نے بڑی دیر تک بچی کو دیکھا۔ کہنے لگے کسی دشمن
نے اس پربڑا سخت جادو کر دیا ہے ۔ میں کوشش کرتا ہوں۔باقی زندگی تو اﷲنے
دینی ہے۔ اس کے بعد شاہ صاحب نے آدھ گھنٹے سے زیادہ وقت تک پڑھائی کی ۔ بچی
کے جسم کے ایک ایک حصے کو پڑھ کر پھونکتے رہے۔تعویز بھی لکھ کر دیا۔ اور
دعا کا وعدہ بھی کیا۔ انہوں نے بڑی کوشش کی مگر کسی ظالم نے ایسا سخت جادو
کیا تھا کہ بچی بچ نہیں سکی۔ ویسے پڑھتے وقت ان کا چہرہ دیکھ کر مجھے
اندازہ ہو گیا تھا کہ اب بچی نہیں بچے گی۔
میں نے پوچھا کہ شاہ صاحب علاج کرنے کا کچھ لیتے ہیں۔ نہیں نہیں وہ کچھ
نہیں لیتے۔ اپنی خوشی سے کوئی نذر نیاز کے لئے ان کے ساتھ ڈیرے پر بیٹھے
بندوں کو دے د ے تو اس کی مرضی۔اﷲ کے نیک بندے ہیں اتنا لوگوں کا خیال کرتے
ہیں اس لئے لوگ بھی کچھ نہ کچھ دے جاتے ہیں۔ آپ نے کیا دیا۔ میں نے فوراً
پوچھا۔ کہنے لگے ، غریب آدمی ہیں ہم نے کیا دینا تھا۔ پہلے دن صرف چار سو
دئیے تھے اور دوسرے دن پندرہ سو روپے ۔دو دن میں صرف پھونکیں مارنے کے انیس
سو روپے تم نے لٹا دئیے۔ جناب ان کے ڈیرے پر لوگ لاکھوں لئے پھرتے
ہیں۔ہمارے پیسے تو معمولی رقم ہے۔ وہ پھر بتانے لگا کہ شاہ صاحب نے آتے
ہوئے ہمیں کہا کہ ساتھ ڈاکٹر کو بھی دکھا دو۔چنانچہ وہ بچی کو محلے کے
عطائی ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ بھلا ہو اس عطائی ڈاکٹر کا اس نے خود علاج کرنے
کی بجائے چلڈرن ہسپتال جانے کا مشورہ دیا ۔ مگر دیر ہو چکی تھی۔
میں روز اپنے ارد گرد ایسے واقعات دیکھتا ہوں اور مجھے افسوس ہوتا ہے۔ ہم
اپنی جہالت کے سبب اپنا بہت بڑا نقصان کر لیتے ہیں،یہ جھاڑ پھونک اور جادو
ٹونہ مارکہ پیر فقیر اور یہ عطائی ڈاکٹر روز بندوں کو مارتے یا مرنے والی
سٹیج پر لے آتے ہیں۔ وہ سب جھوٹ بولتے ہیں اور ہماری جہالت کہ ہم ان کے کہے
پر اعتبار کرتے ہیں۔ حکومتی سطح پر ان کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم خود ان
کے پاس مرنے جاتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ وہ جن کے گھر میں بھوک کے علاوہ کچھ
نہیں ہوتا وہ ادھار لے کر بھی انیس سو روپے ان جعلسازوں کی نذر کر آتے ہیں۔
اس سارے مسئلے کا واحد حل تعلیم کا فروغ ہے اور اصل مجرم ہمارے حکمران ہیں۔
جو تعلیم کے بارے نعرے بازی تو بہت کرتے ہیں مگر عملی طور پر تعلیم پر GDP
کا بہت کم خرچ ہوتا ہے۔
|