مورخ اِس بات کا فیصلہ کرئے گا کہ جب ہر طرف
دہشتگردی کا عفریت تھا اُس وقت مرد قلندر جناب سرفراز نعیمیؒ نے دہشت گردوں
کو للکارا۔اور پھر تاریخ میں امر ہو گے۔ امن کی خیرات جو اِس معاشرئے کو
میسر آئی ہے اِس میں جناب ڈاکٹر سرفراز نعیمی ؒکا بھی بنیادی کردار
ہے۔پاکستان اور پاکستان سے باہر جامعہ نعیمیہ کو اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ اپنی
شہادت سے چند روز قبل جامعہ نعیمیہ میں اپنے ایک خطبے میں ڈاکٹر سرفراز
نعیمی شہید نے ایک دہشتگرد مسلک کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا
تھا۔ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی ناظم اعلی جامعہ نعیمیہ و تنظیم المدارس
پاکستان نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ آج پاکستان میں چند انتہاء پسند دہشت
گرد اپنی شریعت نافذ کر رہے ہیں، اولیا اﷲ کے مزاروں، درباروں اور مشائخ کو
شہید کرنے کے بعد بے حرمتی کی جا رہی ہے، یہ اہلسنت سواد اعظم کی غلطی ہے
کہ سنی کے نام پر دھوکہ دینے والے تکفیری، خارجی گروہ کی روک تھام نہیں کی
ہم نے مزارات کو مالی مفادات کا ذریعہ بنا رکھا ہے اگر نظریاتی کام کرتے تو
ایسی صورتحال پیش نہ آتی۔ ہر سنی عالم دین کام کرنا شروع کر دے تو ہم پھر
اس ملک میں سواد اعظم بن سکتے ہیں۔سانحہ جامعہ نعیمیہ وطن عزیز میں تکفیری
دہشت گردی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جب 12جون2009بروز جمعہ کو نماز جمعہ کے
فورا بعد جامعہ نعیمیہ میں ایک انتہا پسند خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے
سے اڑ ا دیاجس کے نتیجے میں جامعہ نعیمیہ کے سربراہ اور ملک عزیز کی معروف
مذہبی، دینی اور سیاسی شخصیت ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی سمیت پانچ قیمتی
جانیں ضائع ہوگئیں۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب انتہائی صلح جو، معتدل المزاج
اورمتوازن شخصیت کے مالک تھے، آپ اختلافی مسائل میں شدت پسندی کی بجائے
رواداری اور اعتدال پسندی کے قائل وفاعل تھے، انہوں نے مملکت خدادا د
پاکستان میں جاری طالبان کی دہشت گردی کی مخالفت میں 21جماعتوں پر مشتمل
ایک اتحاد تشکیل دیا تھا․جس پر ان کو قتل کی دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔ عام
آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر اہم دینی شخصیت ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی
کے اہم معاملے پر مٹی ڈال دی گئی ہے تو ہمار ے حکومتی ادارے عام لوگوں کے
ساتھ کیا سلوک کرتے ہونگے۔ مسئلہ صرف ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے قاتلوں کو
پکڑنے کا نہیں، بلکہ اسلام کے نام پر بدمعاشی کرنے والے اس ٹولے انکے فکری
سرپرستوں کو بے نقاب کرنیکا ہے۔ دہشتگردی کے زور پر اسلام کی تعبیر کا حق
قبول کر لیا تو پھر اسلام کی شکل کیا بن کر رہ جائے گی۔ بندوق کے زور پر
مرضی کا اسلام مسلط کرنے والے یہ گروہ خوارج کا تسلسل ہیں، ان کو پنپنے کا
موقعہ دینا اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کرنے اور قوم کو تباہی سے دوچار
کرنے کے مترادف ہے ۔لوگو! جہاد اور فساد میں فرق ہوتا ہے۔ صحابہ نے جو کیا
وہ جہاد تھا۔ اور جو کچھ ایک عرصہ پہلے ہوتا رہا اور جوکچھ لوگ آج صحابہ کے
نام پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ جہاد نہیں فساد ہے۔ڈاکٹر مفتی سرفراز
نعیمی،مفتی محمد حسین نعیمی کے بیٹے تھے۔ جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور ان
کی زیر نگرانی و سرپرستی میں چلتا رہا۔ جامعہ نعیمیہ مفتی صاحب کے بیٹے
علامہ راغب حسین نعیمی کی سر پرستی میں اپنا علمی مشن جاری رکھے ہوئے ہے۔
آج تک ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کے قاتلوں کو کٹہرے میں نہ لایا جا سکا۔
مفتی محمد حسین نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید، موجودہ وزیر اعظم میاں
محمد نواز شریف کے قریبی دوست تھے۔ برطانوی اخبار ’دی ٹائمز‘ کو انٹرویو
میں انہوں نے طالبان کو اسلام کے نام پر ایک دھبہ قرار دیتے ہوئے حکومت کی
جانب سے انہیں تباہ کرنے کی ہر کوشش کی حمایت کا اعلان بھی کیا تھا اور کہا
تھا کہ وہ ’پاکستان کو بچائیں گے‘۔ مرحوم لال مسجد کے مہتم غازی عبدالرشید
کی مخالفت کرنے والے علماء میں بھی شامل رہے اور ساتھ ساتھ وہ امریکی و
سعودی پالیسیوں کے بھی ناقد تھے۔پچپن سالہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی پاکستان میں
اہلِ سنت والجماعت کے تقریباً چھ ہزار مدارس کی تنظیم کے گزشتہ دس برس سے
ناظم اعلٰی تھے۔ وہ اپنے والد علامہ مفتی محمد نعیمی کے انتقال کے بعد
جامعہ نعیمیہ کے مہتمم بن گئے تھے۔ اس مدرسے میں اس وقت چودہ سو کے قریب
طلبہ زیر تعلیم ہیں اور اس کی پانچ شاخیں بھی ہیں۔ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے
رشتے داروں کا کہنا ہے کہ انہیں کی طرف سے کافی عرصے سے دھمکیاں مل رہی
تھیں جنہیں جمعہ کو عملی جامہ پہنا دیا گیا۔ مرحوم نے سوگواران میں ایک
بیٹا اور پانچ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے ابتدائی تعلیم اسی
مدرسے نعیمیہ میں ہی حاصل کی جہاں انہیں دھماکے میں ہلاک کیا گیا۔ بعد ازاں
انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے معروف
اسلامی درس گاہ جامعہ الازہر مصر سے بھی ایک کورس کر رکھا تھا۔مفتی پاکستان
مفتی منیب الرحمان مرحوم ڈاکٹر سرفراز کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔ ان کے مطابق
مرحوم کی قائدانہ صلاحیتیوں اور ان کی حق گوئی ان کے دشمنوں کو قبول نہیں
تھیں لہذا انہیں قتل کیا گیا۔مفتی منیب کے مطابق ’مرحوم سادہ مزاج، سادہ
لباس اور سادہ وضع قطع کے انسان تھے۔ وہ موٹر سائیکل پر بھی گھومتے پھرتے
تھے اور پروٹوکول میں یقین نہیں رکھتے تھے‘۔راقم سے اکثر اُن کی ملاقات
رہتی ۔ اﷲ پاک اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ۔ |