کوئی تجزیہ کار مسلمانوں کی زبوں حالی اور پسماندگی کو
موضوع بناکر اگر آنسوبہاتا ہے تو موجودہ صورتحال کے تناظر میں اسے کفران
نعمت ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ تازہ ترین سروے رپورٹیں بتاتی ہیں کہ گذشتہ
دس سالوں کے اندر مسلمانوں میں مختلف شعبہ ہائے حیات میں آگے بڑھنے کی
رفتار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔خاص طور سے تعلیمی میدان میں ہونے والی
ترقیات تو ایسی ہیں جسے کوئی بھی انسان جو دیدہ ٔ بینا رکھتا ہے بہ آسانی
دیکھ سکتا ہے ۔ایس ایس سی اور ایچ ایس سی کے نتائج بھی اس بات کی تصدیق
کرتے ہیں کہ مسلم طلباء و طالبات دونوںنے ہی ترقیات کی جانب تیزی سے قدم
بڑھائے ہیں ۔ ایک عام سروے کے مطابق ۵ ؍سے ۱۹؍برس کے طلباءمیں حصول تعلیم
کے تعلق سے جو اضافہ ہوا ہے اس کا فیصد ۳۰؍کی عدد کو پار کرگیا ہے۔اس
سےکہیں زیادہ خوش کن بات یہ ہے کہ یہ اضافہ مسلم لڑکوں میں ۴۵؍فیصد تک پہنچ
گیا ہے جبکہ لڑکیاں مزید پیش قدمی کرتی ہوئی ۵۴؍فیصد کے نشانے کو چھورہی
ہیں۔ایک فلاحی تنظیم جو خاص طور سے تعلیمی معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتی
ہے اس نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میں
ایچ ایس سی اور ایس ایس سی ٹاپ طلباء کی جو فہرست ترتیب دی ہے اس میں پچاس
فیصد مسلم لڑکیوں کو منتخب کیا ہے اور یہ انتخاب ،نتائج میں ان کی خاطر
خواہ پیش رفت کی بنیاد پر کیا گیا ہے نہ کہ ان کے اقلیتی طبقہ سے تعلق
رکھنے کے سبب اور نہ ہی کسی اور جذبہ ٔ ترحم کےعوض ۔
ٹاپ ۱۰؍میں جگہ بنانے والی ان لڑکیوں میں ملک کی مختلف ریاستوں سے تعلق
رکھنےوالی مسلم طالبات شامل ہیں ۔اس فہرست سے یہ نتیجہ نہ نکالاجائے کہ
تعلیمی دوڑ میں مسلم لڑکے بہت پیچھے ہیں،بلاشبہ ان میں بھی جذبہ ٔ مسابقت
بڑھا ہے اور ماضی کے مقابلے انہوں نے بھی کافی پیش قدمیا ں کی ہیں اس کے
باوجودیہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی ترقیاتی رفتار لڑکیوں کی بہ نسبت بہر حال
کم ہے۔ یہ تفاوت بھی مٹ سکتا ہے بشرطیکہ وہ پوری ذمہ داری اور مستعدی کے
ساتھ ہمت اور الوالعزمی کا مظاہرہ کریں ۔سول سروسیز امتحانات ۲۰۱۶کے نتائج
میں مسلم طلباءکے بڑھتے ہوئے کامیابی کے گراف نے بھی اس تصور کو یقین
میںبدل دیاہے اوراب وہ دن دور نہیں جب وہ برادران وطن کے شانہ بشانہ کھڑے
رہ کر اس ملک میں اپنی علمی لیاقتوں کا لوہا منوالیں ۔سال رواں میں یوپی
ایس سی امتحانات کے نتائج نے مسلم امیدواروں کیلئے امیدوں کے سیکڑوں چراغ
روشن کردیئے ہیں ۔اس مرتبہ کئی سالوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے اور
تقریباً۴۸؍مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، جن میں اگر ایک طرف گلبرگہ کے شیخ
آصف تنویر ہیں جنہیں ۲۵واں رینک ملا ہے تو دوسری طرف اترپردیش کے امبیڈکر
نگر ضلع کے دور افتادہ علاقے سمن پور مچھلی گاؤں سے تعلق رکھنے والی حسین
زہرا بھی شامل ہیں جنہوں نےیوپی ایس سی میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے
۔حسین زہرا حال ہی میں انڈین ٹیلکام سیکٹر کی ٹریننگ کرکے کناڈا سے لوٹی
ہیں۔۲۰۱۳۔۲۰۱۴ ء میں بتدریج ڈپٹی ایس پی اور اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر منتحب
کی جاچکی تھیں لیکن انہوں نے تہیہ کرلیا تھا کہ انہیں آئی اے ایس کیلئے
منتخب ہونا ہے بالآخر انہوں نے یہ خواب بھی پورا کرلیا ۔ان کے والد حسن
رضا کے مطابق حسین زہرا کی کامیابی ان کی انتھک محنت اور جدوجہد کا نتیجہ
ہے اور یقیناً اللہ بھی جد وجہد کرنے والوں کی کوششوں کو کبھی رائیگاں نہیں
کرتا ۔ان کی اس کامیابی پر آج نہ صرف گھر کے لوگ بلکہ پورے گاؤں اور دیگر
علاقوں کے لوگ بھی بے حد خوش ہیں اور جگہ جگہ جشن منائے جارہے ہیں ۔امبیڈکر
نگر کی اس دختر آہن نے نہ صرف آئی اے ایس بننے کا اپنا دیرینہ خواب پورا
کیا بلکہ اس نے اپنی تمام ہم عصر طالبات میں حصول تعلیم کی ایک نئی جوت
جگادی ہے جس کی خیرہ کن چمک دور دور تک پھیل گئی ہے ۔چراغ سے چراغ جلنے کا
محاورہ اسی موقع کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔
خوش کن بات یہ بھی ہے کہ سال رواں ۲۰۱۶کے ملک بھر میں سو ٹاپ طلباء میں ۱۰؍
مسلم طلباء بھی شامل ہیں ۔اس ضمن میں ملک بھر میں پھیلے مختلف کوچنگ اداروں
کی ستائش نہ کرنا نا انصافی کہی جائے گی جنہوں نے پوری ذمہ داری اور تندہی
کے ساتھ طلباء کی بھرپور رہنمائی کی اور انہیں اس بلند مقام پر پہنچایا
۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریشی ڈینشیل کوچنگ اکیڈمی میں تربیت پانے والےجن
۲۷؍امیدواروں نے اس سال ۲۰۱۶ میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہےان میں سے پانچ
آئی اے ایس کیلئے منتخب کئے گئے اور ایک طالبہ بسمہ قاضی سمیت ۲؍ نے آئی
پی ایس میں جگہ بنائی ہے جبکہ دیگر نے ریوینیو ، کسٹم ، ریلوے اورملک کے
کچھ دوسرے اعلیٰ محکموں میں اپنی اہمیت ثابت کی ہے ۔عجیب با ت ہے کہ
امتحانات کے اتنے حیرت انگیر اور خوش کن نتائج ایک ایسے وقت میں ہمیں مل
رہے ہیں جب ہمارا نوجوان طبقہ خصوصاً طلباء و طالبات کیلئے موبائل کے بغیر
ایک قدم بھی چلنا محال ہے اگر یہ لت چھوٹ جائے اور ان کے ہاتھوں میں موبائل
کے بجائے قلم اور کیلکولیٹر آجائے تو آنے والے وقتوں میں یہی نتائج کس
قدر خوشگوار اور مسرت بخش ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ۔
بصورت دیگر واٹس ایپ ، انٹر نیٹ ، ٹویٹراور یوٹیوب کا منفی استعمال جو تباہ
کن نتائج دکھا سکتا ہے ہمیں اس طوفان سے بچنے کی تیاری بھی قبل از وقت
کرلینی ضروری ہے ۔اس تعلق سے ایک اور بات بھی سمجھنی ضروری ہے کہ ہماری
کمیونٹی میں کچھ ایسے بھی لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جنہوں نے
تعلیم کو تجارت گاہ بنالیا ہے ، ادارے اور اسکول کھولنے کا ان کا مقصد صرف
اور صرف حصول زر ہے یا پھر اپنے اثر ورسوخ میں اضافہ کرنا ،ان کی نگاہیں
طلباء کے کریئر سے زیادہ اپنی ذات اور خاندان کے کریئر پر ہوتی ہیں ۔دینی
علوم کے احیاو ترویج کے نام پر انگلش میڈیم اسکولوں کا اجراء اور پھر
ڈونیشن کے نام پر خطیر رقومات کی طلبی کے اس تیزی سے بڑھتے رجحان پر روک
لگانا ضروری ہے تاکہ ملت کا یہ کارواں صحت مندی کے ساتھ اپنا تعلیمی سفر
جاری رکھ سکے ۔ |