تحریر: اریشہ خان ، گکھڑ
ہم لوگ اسکول کالج اس لیے جاتے ہیں تا کہ پڑھ لکھ کے اچھی نوکری حاصل کر
سکیں۔ ہم تعلیم حاصل کرنے نہیں بلکہ صرف ڈگری کے حصول کیلئے پڑھتے ہیں۔ یہی
تو وجہ ہے جہاں تعلیم زیادہ ہو گئی ہے وہاں جہالت بھی۔ جیسے جیسے کتب بڑھتی
جا رہی ہیں ویسے ویسے تعلیم کا اثر بھی کم ہوتا نظر آ رہا ہے کیونکہ کہ
ہمارا مقصد تعلیم ہی ٹھیک نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ انگریزی ہمارے لیے معیار ہے
یہ جانچنے کا کہ کون کتنا قابل ہے۔ ابھی کہ میرے نزدیک تو انگریزی ایک زبان
ہے نہ کے علم۔
اور کسی بھی زبان میں ماہر ہونا جتنی قابل فخر بات ہے اس سے زیادہ قابل فخر
بات کسی علم میں ماہر ہونا ہے۔ کوئی بھی زبان سیکھنا غلط بات نہیں ہوتی ہاں
کسی ایسی زبان میں طلبہ کو تعلیم دینا جو ان کی زبان نہیں اور جسے وہ اچھی
طرح نہیں جانتے یقینا غلط ہے اور یہاں تو یہ حال ہے زیادہ تر کتابیں
انگریزی زبان میں ہیں اب جب طلبہ اسے پڑھتے ہیں تو پہلے تو انہیں یہ سمجھنا
پڑھتا ہے کہ یہ لکھا کیا ہے پھر وہ سبق اور پھر کسی کے پاس کتنا علم ہے یہ
تو ہمارے لیے بالکل معنی نہیں رکھتا بلکہ ہر بات کو ڈگری سے تولتے ہیں۔ہم
بچوں کو کبھی بھی یہ نہیں کہتے کہ اچھی تعلیم حاصل کرو بلکہ یہی کہا جاتا
ہے کہ اچھے نمبر حاصل کرو۔ جب ان کی ذہن سازی ہی ایسے کی جانی ہے تو پھر وہ
بھی صرف نمبروں کے حصول کے لئے پڑھتے ہیں۔ بہت سے لوگ رٹا لگاتے ہیں کیونکہ
چاہئے تو صرف نمبر ہی ہوتے ہیں نا اور پھر کچھ لوگ تو نقل سے کام چلاتے ہیں
کیونکہ مسئلہ تو صرف مارکس کا ہے۔
اگر ہم طلبہ کو یہ علم حاصل کرو تو یقینا ایسا نہ ہو کیونکہ علم ہم کسی سے
لے تو سکتے ہیں مگر چوری نہیں کر سکتے اور جب علم حاصل کریں گے تو ہی یہ
جہالت ختم ہو گی۔ صرف کتابوں کے زیادتی سے ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہمارے چھوٹے
بچوں کا بیگ بھی دیکھیں تو کتابوں سے بھرا ہوتا ہے اور ماں باپ صرف اس بات
پہ خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ انگریزی بولتا ہے، انگریزی پڑھتا ہے۔
مگر انگریزی میں وہ کیا پڑھتا ہے یہ دیکھنے کا ان کے پاس وقت نہیں۔ یہ
پرائیویٹ اسکولز والے خدا کی پناہ آدھی بکس تو یہ صرف اس لیے لگاتے ہیں کہ
انہیں ان میں سے پرافٹ ملتی ہے ان میں کیا لکھا ہوتا ہے یہ تو انہیں بھی
نہیں پتا ہوتا۔
اور جو بقایا جو آدھی ہوتی ہیں ان کا بھی ادب سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہی
وجہ ہے کہ وہ ادب جو کبھی ہماری پہچان ہوا کرتا تھا اب نہیں رہا۔ چھوٹے
چھوٹے بچے بڑوں کے ساتھ ایسے پیش آتے ہیں جیسے بڑے وہ ہوں۔ مگر اس میں ان
کی بھی کوئی غلطی نہیں ایک چیز جو انہیں سکھائی نہیں جاتی جسے وہ جانتے
نہیں ہیں وہ کیسے کر سکتے ہیں۔ ہمیں جب مجھے تھوڑا سا پڑھنا آیا تو ماما
میرے لیے بچوں کے میگزین لے آتی تھیں۔ دادا جان تو اکثر ہم بچوں سے یہ سنتے
بھی تھے اور جس کی املاء کی غلطیاں کم ہوتیں اسے باقاعدہ انعام بھی ملتا
تھا۔ اس سے ایک تو ہمیں باقاعدہ مطالعہ کی عادت بھی ڈل گئی دوسرا ہماری
اردو بھی قدر بہتر ہو گئی۔ مگر آج کل کے بچوں کو تو مطالعہ کا کوئی پتا ہی
نہیں صرف درسی کتابیں ہی جیسے تیسے پڑھتے ہیں اور بس۔ نہ سیرت طیبہ پڑھی نہ
صحابہ کرام کے واقعات کہ جن سے ادب ملتا زندگی گزارنے کا طریقہ ملتا مگر
بات تو پھر وہی ہے ہم اپنے اصل سے بھٹک گئے ہیں۔ ہمارا معیار تعلیم بدل گیا
ہے یاں یوں کہہ لیں کے معیار زندگی۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ جہالت دور ہو تو ہمیں معیار تعلیم بدلنا ہو گا۔ صرف
کتابیں ہی نہیں سوچ بھی بدلنی ہو گی یہ ہی واحد حل ہے کہ ہم کامیاب ہو
سکیں۔ اپنی تعلیم کا ایک معیار بنائیں۔ طلبہ کا مقصد تعلیم تبدیل کریں۔
انہیں بتائیں کہ تعلیم صرف مارکس کے حصول کے لیے نہیں حاصل کی جاتی اس کو
حاصل کرنے کا کوئی اور مقصد بھی ہے۔ نہ صرف انہیں ایک شعبہ میں ماہر بنایا
جائے بلکہ اسے ایک مہذب اور با اخلاق شہری بھی بنایا جائے اور انہیں کسی
بھی شعبے کے انتخاب کے لیے مجبور نہ کیا جائے۔ یہاں اکثر دیکھا گیا ہے کی
طالب علم کے مضامین کا انتخاب ان کے والدین کرتے ہیں اس کا اپنا کیا رجحان
ہے اس کو نہیں دیکھا جاتا ہے اور جب کسی کام میں دلچسپی نہ ہو تو وہ اس طرح
اچھے طریقے سے نہیں ہو سکتا جیسے اس کا حق ہوتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی
ہے اپنے پیشے کے انتخاب کا حق انہیں خود دیا جائے تاکہ وہ اس میں ماہر ہو
کہ اپنے ساتھ ساتھ ملک ملت کا نام بھی روشن کر سکیں۔
|