نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کا معمول رہا کہ آپ
رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف خوب اہتمام کیساتھ فرمایا کرتے اور اسی سنت
کریمہ کو زندہ رکھتے ہوئے امہات المومنین رضی اﷲ عنہن بھی اعتکاف کرتی رہیں۔
اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف سے یکسو اور سب سے منقطع ہوکر بس اﷲ سے لو
لگا کر اس کے در پہ پر بیٹھ جانا، اور سب سے الگ تنہائی میں اس کی عبادت
اور اسی کے ذکر و فکر میں مشغول رہنا، یہ خواص بلکہ اخص الخواص کی عبادت ہے۔
اس عبادت کے لئے بہترین وقت رمضان المبارک اور خاص کر اس کا آخری عشرہ ہی
ہوسکتا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ’’ رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ والہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے ، دنیا دار
فانی سے پردہ فرماجانے تک آپ کا یہ معمول رہا، آپ کے بعد آپ کی ازواج
مطہرات اہتمام سے اعتکاف کرتی رہیں‘‘ ( بخاری شریف)۔ نزول قرآن سے پہلے
سرکا ردوعالم کی طبیعت مبارک میں سب سے یکسو اور الگ ہوکر تنہائی میں اﷲ
تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکروفکر کا جو بے قراری والا جذبہ پیدا ہوا تھا
جس کے نتیجہ میں آپ مسلسل کئی کئی مہینے غار حرا میں خلوت نشینی کرتے رہے،
یہ گویا آپ کا پہلا اعتکاف تھا اور اس اعتکاف ہی میں آپ کی روحانیت اس مقام
تک پہنچ گئی تھی کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوگیا۔
چنانچہ حرا کے اس اعتکاف کے آخری ایام ہی میں اﷲ ربّ العزت کی طرف سے حضرت
جبرئیل ؑ سورۂ اقرأ کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے تحقیق یہ ہے کہ یہ
رمضان المبارک کا مہینہ اور اس کا آخری عشرہ تھا، اور وہ رات شب قدر تھی،
اس لئے بھی اعتکاف کے لئے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا انتخاب کیا گیا۔
روح کی تربیت و ترقی اور نفسانی قوتوں پر اس کو غالب کرنے کے لئے پورے
مہینے رمضان کے روزے تو تمام افراد امت پر فرض کئے گئے گویا کہ اپنے باطن
میں روحانیت کو غالب اور بہیمیت کو مغلوب کرنے کے لئے اتنا مجاہدہ اور
نفسانی خواہشات کی اتنی قربانی توہر مسلمان کے لئے لازم کردی گئی کہ وہ اس
پورے محترم اور مقدس مہینے میں اﷲ کے حکم کی تعمیل اور اس کی عبادت کی نیت
سے دن کو نہ کھائے نہ پیئے، اور اس کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے گناہوں بلکہ
فضول باتوں سے بھی پرہیز کرے اوریہ پورا مہینہ ان پابندیوں کے ساتھ گزارے
پس یہ تو رمضان المبارک میں روحانی تربیت و تزکیہ نفس کا عوامی اورضروری
کورس مقرر کیا گیا ہے۔ اور اس سے آگے اﷲ تعالیٰ سے تعلق میں خصوصی ترقی
پیدا کرنے کے لئے اعتکاف رکھا گیاہے ۔ اس اعتکاف میں اﷲ کا بندہ سب سے کٹ
کر اور سب سے ہٹ کر اپنے مالک و رازق کے در پر پڑجاتا ہے ، اسی کو یاد کرتا
ہے اسی کے دھیان میں رہتا ہے اس کی تسبیح و تقدیس کرتا ہے اس کے حضور میں
توبہ و استغفار کرتا ہے، اپنے گناہوں اور قصوروں پر روتا ہے اور رحیم و
کریم مالک سے رحمت و مغفرت مانگتا ہے اس کی رضا اور اس کا قرب چاہتا ہے۔
اسی حال میں اس کے دن گزرتے ہیں ،اور اسی حال میں اس کی راتیں۔ ظاہر ہے کہ
اس سے بڑھ کر کسی بندے کی سعادت اور کیا ہوسکتی ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم اہتمام سے ہر سال رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے تھے۔ ازواج
مطہرات اپنے حجروں میں اعتکاف فرماتی تھیں، اور خواتین کے لئے اعتکاف کی
جگہ ان کے گھر کی وہی جگہ ہے جو انہوں نے نماز پڑھنے کی مقرر کر رکھی ہو،
اگر گھر میں نماز کی کوئی خاص جگہ مقرر نہ ہو تو اعتکاف کرنے والی خواتین
کو ایسی جگہ مقرر کرلینی چاہئے۔
حضرت سلیمان فارسی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو
سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ دیا اور اس میں آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا’’ اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ
فگن ہو رہا ہے ، اس مبارک مہینہ کی ایک رات ( شب قدر ) ہزار مہینوں سے بہتر
ہے۔ اس مہینے کے روزے اﷲ تعالیٰ نے فرض قرار دیئے ہیں اور اس کی راتوں میں
بارگاہ خداوندی میں کھڑا ہونے ( یعنی نماز تراویح پڑھنے ) کو نفل عبادت
مقرر کیا ہے ( جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے ) جو شخص اس مہینے میں اﷲ کی رضا
اور اس کا قرب حاصل کرنے کیلئے کوئی غیر فرض عبادت ( یعنی سنت یا نوافل )
ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور
اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے 70 فرضوں کے برابر ہے۔‘‘
اعتکاف کا ایک بڑافائدہ یہ بھی ہے اعتکاف کے دوران شب قدرکی عبادت یقینی
طور پر بندے کو نصیب ہوجاتی ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ
سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے
تھے۔ ایک سال آپ اعتکاف نہیں کرسکے تو اگلے سال بیس دن تک اعتکاف فرمایا۔ (ترمذی)
حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی اس روایت میں یہ مذکورنہیں ہے کہ ایک سال اعتکاف نہ
ہوسکنے کی کیا وجہ پیش آئی تھی۔جبکہ سنن نسائی اور سنن ابی داؤد میں حضرت
ابی بن کعب کی ایک حدیث مروی ہے اس میں تصریح ہے کہ ایک سال رمضان کے عشرۂ
اخیر میں سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو کوئی سفر کرنا پڑگیا تھا اس کی
وجہ سے اعتکاف نہیں ہوسکا تھا اس لئے اگلے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف
فرمایا۔ اور صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی روایت سے مروی ہے
کہ جس سال سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا وصال ہوا اس سال کے رمضان میں
بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا تھا۔ یہ بیس دن کا
اعتکاف غالباً اس وجہ سے فرمایا تھا کہ آپ کو یہ اشارہ مل چکا تھا کہ
عنقریب آپ کو اس دنیا سے اٹھالیا جائے گا ،اس لئے اعتکاف جیسے اعمال کاشغف
بڑھ جانا بالکل قدرتی عمل تھا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ فرمایا کہ معتکف کے لئے شرعی
دستور اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ نہ مریض کی عیادت کو جائے نہ نماز جنازہ میں
شرکت کے لئے باہر نکلے نہ عورت سے صحبت کرے نہ بوس و کنارکرے اور اپنی
ضرورتوں کے لئے بھی مسجد سے باہر نہ جائے سوائے ان ضرورتوں کے جو بالکل
ناگزیر ہیں (جیسے پیشاب پاخانہ ) اور اعتکاف (روزہ کے ساتھ ہونا چاہیے)
بغیر روزہ کے اعتکاف نہیں، اور مسجد جامع میں ہونا چاہیے ، اس کے سوا نہیں۔
(سنن ابی داؤد)آجکل ہر اس مسجد میں اعتکاف کیا جاسکتا ہے جہاں پر نماز کی
ادائیگی ہوتی ہے اس طرح آجکل رفع حاجت کے لیے مسجد کے مخصوص حصوں میں بیت
الخلا موجود ہیں اس لیے اب مسجد سے باہر نکلنا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں
ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ
والہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ (اعتکاف کی وجہ سے)
گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کا نیکیوں کا حساب ساری نیکیاں کرنے والے
بندے کی طرف جاری رہتا ہے ،اور نامہ اعمال میں لکھا جاتا رہتا ہے۔ (ابن
ماجہ) یعنی جب بندہ اعتکاف کی نیت سے اپنے آپ کو مسجد میں مقید کردیتا ہے
تو اگرچہ وہ عبادت اور ذکروتلاوت کے راستہ سے اپنی نیکیوں میں خوب اضافہ
کرتا ہے لیکن بعض بہت بڑی نیکیوں سے وہ مجبور بھی ہوجاتا ہے، مثلاً وہ
بیماروں کی عیادت اور خدمت نہیں کرسکتا جو بہت بڑے ثواب کا کام ہے، کسی
لاچار مسکین یتیم اوربیوہ کی مدد کے لئے دوڑ دھوپ نہیں کرسکتا، کسی میت کو
غسل نہیں دے سکتا، جو اگر ثواب کے لئے اور اخلاص کے ساتھ ہو تو بہت بڑے اجر
کا کام ہے، اسی طرح نماز جنازہ کی شرکت کے لئے نہیں نکل سکتا میت کے ساتھ
قبرستان نہیں جاسکتا، جس کے ایک ایک قدم پر گناہ معاف ہوتے ہیں اور نیکیاں
لکھی جاتی ہیں۔ لیکن اس حدیث میں اعتکاف کرنے والے کو بشارت سنائی گئی ہے
کہ اس کے حساب اور اس کی نامہ اعمال میں اﷲ تعالیٰ کے حکم سے وہ سب نیکیاں
بھی لکھی جاتی ہیں جن کے کرنے سے وہ اعتکاف کی وجہ سے مجبور ہوجاتا ہے ،
اوروہ ان کا عادی تھا۔ لیکن اﷲ پاک ان محروم نیکیوں کا نعم البدل بہت بڑے
اجر کی شکل میں عطاء فرماتے ہیں ۔ دعا ہے کہ اﷲ ربّ العزت ہمیں آخری عشرہ
رمصان کے اعتکاف کی توفیق عطاء فرمائے ، جوکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی
مبارک سنت ، لیلتہ القدر جیسی مبارک رات کی عبادت کے حصول کا ذریعہ اوراﷲ
تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کاباعث ہے۔
٭……٭……٭ |