اﷲ رب العزت کے لئے ہی تمام تعریف ہے جو تمام کائنات
کا رب ہے۔ اس نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے انبیائے کرام کو مبعوث
فرمایا کہ اﷲ کی کتاب کے احکام بتائیں۔ مقصد یہ تھا کہ اﷲ کے دین کی
بالادستی قائم ہو اور لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ انہیں پتانہیں چلا کہ اﷲ کی
عبادت و فرماں برداری کیسے کی جاتی ہے۔دنیامیں بہت سے پیغمبر آئے انہوں نے
اﷲ کے بندوں تک اس کا پیغام پہنچایا اور اپنی زندگی کا عملی نمونہ پیش کیا
مگر کچھ عرصے بعد ان کی تعلیمات ختم ہوگئیں، یا ان میں بہت سی غلط باتوں کی
آمیزش ہوگئی اور ان کی زندگی و تعلیمات کو لوگ بھلا بیٹھے ۔لیکن یہ امتیاز
و اعجاز صرف رحمت للعالمین کو حاصل ہے کہ آپ کا لایا ہوا پیغام قرآن مجید
اسی شکل میں حرف بہ حرف محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا۔ اسی طرح آپ کی
حیات طیبہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو جزویات تک
آپ کی سیرت میں موجود ہے۔
آپ کی سیرت پراتنی زیادہ کتابیں اور مضامین لکھے گئے ہیں کہ ان کا شمار
ممکن نہیں۔ قرآن مجید میں آپ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں اﷲ کا ارشاد ہے:
وَاِنَّکَ لعلیٰ خُلُقٍ عَظِیْم(القرآن سورۃ القلم،آیت ۴)ترجمہ: اور بے شک
تمہاری خو بو (خلق) بڑی شان کی ہے۔ (کنزالایمان)
آپ ﷺ کے طریقے کو اﷲ تعالیٰ نے اسوۂ حسنہ قرار دیا۔چنانچہ ارشاد باری
تعالیٰ ہے:(ترجمہ)بے شک تمہارے لئے اﷲ کے رسول (ﷺ)میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
اس کے لئے جو اﷲ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اﷲ کو یاد کرے ۔ اس
میں شک نہیں کہ آپ کی زندگی انسانیت کے لئے ایک نمونہ کامل کی حیثیت رکھتی
ہے۔اﷲ نے آپ ﷺ کو رحمت للعالمین بناکر مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ کی خوبیوں کو
قرآن کریم میں بیان فرمایا۔ بے شمار خوبیوں میں رحمت للعالمین ہونا یہ سبھی
کے لئے باعث رحمت و افتخار ہے۔
وہ ہر عالم کی رحمت ہیں کسی عالم میں رہ جاتے ٭ یہ ان کی مہربانی ہے کہ
یہ عالم پسند آیا
اپنے حبیب کے بارے میں رب نے فرمایا۔ القرآن ، سورۃ الانبیاء، آیت ۱۰۷)
ترجمہ: اور ہم نے تمہیں نہیں بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔(کنز
الایمان) صحیح مسلم میں ہے کہ :ایک موقع پر اصحاب ِ رسول ﷺ نے عرض کیا کہ
آپ ان کا فروں کے لئے بددعا کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، میں لعنت کرنے والا بنا
کر نہیں بھیجا گیا ہوں بلکہ رحمت و ہدایت ہوں۔ آپ ﷺ کی نجی زندگی کا ایک
پہلو یہ ہے کہ آپ نے اپنے متعلقین اور اصحاب کے ساتھ لطف و کرم ، محبت و
مؤدت اور نرمی کا برتاؤ کرتے تھے۔ آپ ﷺ کے مزاج میں سختی نام کونہ تھی۔
یہاں تک کہ آپ اپنے دشمنوں پر شفقت و محبت سے پیش آتے ۔ سیرت رسول میں بہت
سے واقعات موجود ہیں۔ بخاری شریف تیسری جلد باب المغازی میں ہے،حضور ﷺ ایک
جنگ سے واپس آئے اور ایک ببول کے درخت کے سایہ میں قیلولہ فرمانے لگے۔ اتنے
میں ایک اعرابی آیا ۔ آپ ﷺ کی آنکھ کھلی تو دیکھا اعرابی تلوار کھینچے ہوئے
سرہانے کھڑا ہے اور کہہ رہا ہے’’من یمنعک منی‘‘ آپ کو ہم سے کون بچائے
گا؟رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا:مجھے اﷲ تعالیٰ بچائے گا۔ اس کے بعد اس کے
ہاتھ سے تلوار گر گئی اور حضور ﷺ نے تلوار اٹھائی اور فرمایا :اب تو بتا کہ
تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟پھر وہ کانپنے لگااور لرزنے لگا اور حضور ﷺ سے
معذرت خواہ ہوا۔ پھر حضور ﷺ نے اسے چھوڑ دیا اور معاف فرمادیا۔ اس کے بعد
وہ اپنی قوم میں گیا اور کہنے لگا۔میں تمہارے پاس سب سے بہتر شخص کے پاس سے
آیا ہوں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس شخص نے آپ ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ اور
شان عفو و درگزر سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر لیا اور اسی کے سبب بہت سے
افراد نے اسلام قبول کیا۔ سیرت رسول ﷺ میں ایسے انمول واقعات بہت سے ہیں۔
اسلام آپ ﷺ کے اخلاق و عفو و درگزر سے پھیلا ہے تلوار کے زور سے نہیں۔ آپ ﷺ
کی نرم مزاجی عفو و درگزر کو قرآن کریم نے جابجا بیان کیا ہے اور اس وصف،
خوبی (Quality)کو اﷲ نے رحمت قرار دیا ہے۔ ارشاد باری ہے: فَبِمَا رَحْمَۃٍ
مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّاغَلِیْظَ الْقَلْبِ
لَانْفَضُّوْ مِنْ حَوْلِکَ․․․․․․․الخ ۔(القرآن ، سورۃ آل عمران، آیت
۱۵۹)ترجمہ:تو کیسی کچھ اﷲ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب! تم ان کے لئے نرم دل
ہو اور اگر تند مزاج ،سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے
تو تم انہیں معاف فرماؤ۔(کنز الایمان)فتح مکہ کون نہیں جانتا کہ اس دن رسول
اﷲ ﷺ کا عفوو درگزر کتنا اعلیٰ تھا۔ تما م تاریخوں میں اس واقعہ کو آپ
پائیں گے ۔ صحابہ نے فرمایا :آج بدلہ لینے کا دن ہے۔ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا
:آج معاف کرنے کا دن ہے اور آپ نے عام معافی کا اعلان فرمایا۔ آپ کے اس
معافی کا اثر یہ ہوا کہ کثیر تعداد میں لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوکر
کلمہ توحید پڑھے ۔ یہ تھا آپ کا اخلاقِ کریمانہ۔
بیعت رضوان:فتح مکہ کی بنیاد تو بیعت رضوان یعنی صلح حدیبیہ کے دن ہی پڑ
گئی تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے فتح کی بشارت سنائی۔ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتَحًا
مُّبِیْنَا۔ ترجمہ: اے نبی ﷺ ،ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کردی۔ آگے اور
ارشاد باری ہے۔القرآن سورۃ فتح ،آیت ۱۸،ترجمہ: بے شک اﷲ راضی ہوا ایمان
والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اﷲ نے جانا جو ان
کے دلوں میں ہے توان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام
دیا۔ (کنزالایمان) صلح حدیبیہ دس سال کے لئے ہوئی تھی۔ مگر ۶۳۰عیسوی کے
بالکل شروع میں مشرکین مکہ کے اتحادی قبیلہ بنو بکر مسلمانوں کے اتحادی بنو
خزاعہ پر حملہ کیا اور کئی آدمی قتل(شہید) کر دئے۔ اسی دوران مکہ کے مشرک
قریش نے چہروں پر نقاب ڈال کر بنو بکر کی مدد کی مگر یہ بات راز نہ رہ سکی۔
یہ صلح حدیبیہ کا اختتام تھا۔ مسلمان اس وقت تک بہت طاقتور ہوچکے تھے۔ ابو
سفیان نے بھانپ لیا تھاکہ اب مسلمان اس بات کا بدلہ لیں گے ۔ اس لئے اس نے
صلح کو جاری رکھنے کی کوشش کی۔ مدینہ طیبہ کادور ہ کیا۔ ابو سفیان اپنی
بیٹی ام حبیبہ کے گھر پہنچا، جو اسلام لے آئی تھیں اور حضور ﷺ کی زوجہ
تھیں۔ جب وہ بستر پر بیٹھنا چاہا تو حضرت ام حبیبہ نے بستر اور چادر کو
لپیٹ دیا اور ابو سفیان کو بیٹھنے نہ دیا۔ اس نے حیران ہوکر پوچھا کہ بستر
کیوں لپیٹا گیا تو حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا نے جواب دیا کہ آپ مشرک ہیں
اور ناپاک ہیں اس لئے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ آپ رسول اﷲ ﷺ کی جگہ
بیٹھیں۔ ابو سفیان نے حضور ﷺ سے صلح کی تجدید کے لئے رجوع کیا۔ رسول اﷲ ﷺ
نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اسی دوران قبیلہ بنو خزاعہ کے لوگوں نے حضور ﷺ سے
مدد کی فریاد کی۔ بنو خزاعہ حضور ﷺ کے پاس اپنے ایک شاعر عمرو ابن خزاعہ کو
بھیجاجس نے دردناک اشعار پڑھے اور بتایاکہ وہ’’ وتیرہ ‘‘کے مقام پر رکوع و
سجود میں مشغول تھے تو مشرکین مکہ نے ان پر حملہ کر دیااور ہمار ا قتل عام
کیا۔ حضور ﷺ نے کہا ہم تمہاری مدد کریں گے۔
جنگ کی تیاری:حضور ﷺ نے روانگی کا مقصد بتائے بغیر اسلامی فوج کو تیار کیا
اور مدینہ و قریبی قبائل کے لوگوں کو بھی ساتھ ملا لیا۔ لوگوں کے خیال میں
صلح حدیبیہ ابھی قائم تھی۔ اس لئے کسی کے گمان میں نہ تھا کہ یہ تیاری مکہ
جانے کے لئے ہے۔حضور ﷺ نے مدینہ سے باہر جانے والے تمام راستوں میں نگرانی
بٹھا دیا تاکہ یہ خبر قریش مکہ کے جاسوس باہر نہ لے جا سکیں ۔ حضور ﷺ نے
دعا فرمائی کہ اے خدایا!آنکھوں اور خبروں کو قریش سے پوشیدہ کردے تاکہ ہم
اچانک ان کے سروں پر ٹوٹ پڑیں ۔۱۰؍رمضان ۸ ھ کو روانگی ہوئی۔ کسی کو معلوم
نہ تھا کہاں جانا ہے۔ تیز رفتاری سے ایک ہفتہ کے اندر مدینہ سے مکہ کا
فاصلہ طے ہوگیا۔ مکہ سے کچھ فاصلے پر ’’مرالظہران‘‘ کے مقام پر لشکر ِ
اسلام خیمہ زن ہوگیا۔ لوگوں کو معلوم ہوچکا تھا کہ مکہ کا ارادہ ہے۔
جنگ: جنگ تو ہوئی نہیں۔ مختصر احوال یوں مطالعہ فرمائیں کہ مراالظہران کے
مقام پر حضور ﷺ نے تاکید فرمائی ۔لشکر کو بکھیر (پھیلا)دیا جائے اور آگ
جلائی جائے تاکہ قریش مکہ یہ سمجھیں کہ لشکر بہت بڑا ہے اور بری طرح ڈر
جائیں اور اس طرح شاید بغیر خون ریزی کے مکہ فتح ہوجائے۔ یہ تدبیر کارگر
رہی ۔ مشرکین کے سردار ابو سفیان نے دور سے لشکر اسلام کو دیکھا ۔اس سے ایک
شخص نے کہا کہ شاید یہ بنو خزاعہ کے لوگ ہیں جو بدلہ لینے آئے ہیں۔ ابو
سفیان نے کہانہیں ان کے پاس اتنے لوگ کہاں ۔ ابو سفیان حضور ﷺ سے پناہ لینے
کے لے آپ کے چچا حضرت عباس کی پناہ میں چل پڑا۔ کچھ لوگوں نے اسے مارنا
چاہا مگر چونکہ عباس بن مطلب نے پناہ دے رکھی تھی اس لئے باز آئے۔ آقا ﷺ نے
کہا کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ایک خدا کو تسلیم کرو اور تم یہ جانو کہ
میں خدا کا پیغمبر ہوں ۔ اس پر ابو سفیان نے کہا مجھے اس میں تردد ہے کہ آپ
رسول ہیں ۔اس کو پناہ دینے والے عباس بن مطلب سخت ناراض ہوئے ۔ فرمایا اگر
تو اسلام نہ لایا تو تیری جان کی ضمانت نہیں۔ حضور ﷺ نے پورے لشکر کو اس کے
سامنے سے گزارا۔اس پر ہیبت بیٹھ گئی، مرعوب ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ
ابوسفیان لوگوں کو اطمیان دلا سکتا ہے کہ جو کوئی اس کی پناہ میں آجائے
امان پائے گا۔ جو شخص اپنے ہتھیار رکھ کر اس کے گھر چلاجائے ،دروازہ بند کر
لے یا مسجد الحرام میں پناہ لے وہ سپاہِ اسلام سے محفوظ رہے گا۔ اس کے بعد
ابو سفیان کو رہا کر دیا گیا، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے مکہ جاکر اسلامی
لشکر کی عظمت بتاکر مکہ والوں کو خوب ڈرایا۔ حضور نے لشکر کو چار دستوں میں
تقسیم کیا اور مختلف سمتوں سے شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا اور تاکید کی
کہ جو تم سے لڑے اس کے علاوہ کسی سے جنگ نہ کرنا۔ چاروں طرف سے شہر گھر گیا
اور مشرکین کے پاس ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا۔صرف ایک چھوٹے
سے گروہ نے لڑائی کی جس میں صفوان بن امیہ بن ابی خلف اور عکر مہ بن ابی
جہل شامل تھے۔ ان کا ٹکراؤ خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کی قیادت والے دستہ سے
ہوا۔ مشرکین کے ۲۸؍آدمی انتہائی ذلت سے مارے گئے۔ لشکر اسلام انتہائی
فاتحانہ طریقہ سے شہر مکہ میں داخل ہوا جہاں سے آٹھ سال پہلے حضور ﷺ کو
ہجرت کرنا پڑی تھی۔ کچھ آرام کے بعد حضور ﷺ مجاہدین کے ہمراہ کعبہ کی طرف
روانہ ہوئے۔ کعبہ پر نظر پڑتے ہی گھوڑے پر سواری کی ہی حالت میں حجر اسود
کو بوسہ دیا۔ آپ ﷺ تکبیر بلند کرتے تھے اور لشکر اسلام آپ ﷺ کے جواب میں
تکبیر بلند کرتا ۔ کعبہ میں داخل ہونے کے بعد آپ ﷺ نے تمام تصاویر کو نکال
دیا جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تصویر بھی شامل تھی اور تمام بتوں
کو توڑدیا۔ آپ ﷺ نے حضرت علی ابن ابی طالب کو اپنے مبارک کا ندھوں پر سوار
کیا اور بتوں کو توڑنے کا حکم دیا اور اپنے ہاتھوں سے بھی توڑتے رہے ۔ یہاں
تک کہ کعبہ کو شرک کی تمام غلاظتوں سے پاک کر دیا۔ فتح مکہ بھی ماہ رمضان
جیسے مبارک مہینے میں ہوا۔۲۰؍رمضان المبارک ۸؍ہجری بمطابق جنوری ۶۳۰عیسوی
کو ہوا۔اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے بارے میں ارشاد فرمایا: اِنَّا
فَتَحْنَا لَکَ فَتَحًا مُّبِیْنَا۔اے نبی ﷺ ،ہم نے تم کو کھلی فتح عطا
کردی۔اس موقع پر آپ ﷺ اپنی مبارک زبان سے یہ کہتے جاتے تھے۔ وَقُلْ جَاءَ
الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔(القرآن ،
سورہ بنی اسرائیل، آیت ۸۱) ترجمہ: اور فرماؤ حق آیا اور باطل مٹ گیا ۔ بے
شک باطل کو مٹنا ہی تھا۔ (کنزالایمان)
ایک صحابی رسول عبد اﷲ بن رواحہ نعتیہ اشعار پڑھ رہے تھے۔ آج مکہ پر ستارہ
صبح طلوع ہوا ہے۔ آج ہمارے درمیان ہمارے نبی ﷺ ہیں جو خدا کی کتاب کی آیات
تلاوت کرتا ہے۔ آج ہم ان سے بدلہ لیں گے جنہوں نے ہمارے نبی ﷺ کو جلا وطنی
پر مجبور کیا تھا۔ رسول رحمت ﷺ نے فرمایا :نہیں آج اہلِ مکہ کو امن و آزادی
کی بشارت ملنے والی ہے۔ آپ نے عام معافی کا اعلان فرمایا ۔ عام معافی کے
اعلان نے دشمنوں پر ایسے اثرات ڈالے کہ وہی خون کے پیاسے دین کے بدترین
دشمن سب آپ پر ایمان لے آئے ۔ آپ پر جان چھڑکنے لگے ۔ ایسے پاکباز اور خدا
ترس اور ایسے عاشق رسول بن گئے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ آقا
ﷺ کا اخلاقِ کرمیانہ تھا۔ لہٰذا ہم تمام امتیوں کو آقا ﷺ کی اتباع کرتے
ہوئے حسن اخلاق اور عفوو درگزر کو اختیار کرنا چاہئے۔
اﷲ ہم تمام کو توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین! |