رمضان المبارک کی پرلطف ساعتوں میں یہ دوسرا موقع ہے کہ
پاکستانی کرکٹ ٹیم سرفراز ہوئی، پہلی دفعہ عمران خان کی قیادت میں پچیس سال
قبل آسٹریلیا میں بیس رمضان المبارک کو پاکستان نے کرکٹ کی دنیا کا سب سے
بڑا ایونٹ یعنی ورلڈ کپ جیتااور اب بائیس رمضان المبارک کو آئی سی سی کے
تحت ہونیوالی آخری چمپینز ٹرافی جیت لی۔ آئی سی سی ذرائع کے مطابق آئندہ سے
چمپئنز ٹرافی نہیں ہوگی ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان اوول کے کرکٹ گراؤنڈ
میں ہونیوالے فائنل مقابلے کے حوالے سے دنیا بھر میں تجسس پایاجاتا تھا
تاہم دوباتوں پر تقریباً ماہرین کرکٹ میں اتفاق پایاجاتاتھا کہ بھارتی کرکٹ
ٹیم کاغذ پر پاکستانی ٹیم سے بیحد مضبوط ہے، اس کی طویل بیٹنگ لائن کسی بھی
بڑے ہدف کامقابلہ کرسکتی ہے اورکسی بھی ٹیم کو بڑا ہدف دے سکتی ہے۔ دوسری
بات یہ کہ پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین باؤلنگ لائن اپ موجود ہے اس لائن
میں فاسٹ باؤلروں کے علاوہ بہترین سپنرز بھی شامل ہیں -
موازنہ کرنے والے کہتے رہے کہ بھارت کی اوپری بیٹنگ لائن اپ کے تین چار بڑے
بلے بازوں کوہلی، روہت شرما،شیکھر دھون، یوراج سنگھ اورمہندرا سنگھ دھونی
کیلئے کسی بھی بڑے ہدف کو حاصل کرنا مشکل نہیں ہوگا ۔ کہنے والوں کی بات
بھی درست لیکن اگر بھارتی کرکٹ کی تاریخ کامطالعہ کیاجائے تو ماضی میں بھی
بھارتی بیٹنگ لائن اتنی ہی مضبوط ہوا کرتی تھی لیکن باؤلنگ کی صورتحال ویسی
ہی رہتی تھی جو آج ہے، بہترین سپنرز موجود لیکن فاسٹ باؤلنگ کے حوالے سے
انڈیا کاہاتھ ہمیشہ سے تنگ رہا ہے۔گویا بھارت ہمیشہ بیٹنگ کے زور پر ہی میچ
جیتا یا ہارا ۔ چمپئن ٹرافی کافائنل بھی بلے بازوں کامقابلہ ثابت ہوا جس
میں بھارت کے نامی گرامی بلے باز پاکستانی باؤلنگ کے سامنے ریت کی دیوار
ثابت ہوئے دوسری جانب پاکستانی بیٹسمینوں نے ماضی کی یاد تازہ کرتے ہوئے
رنزوں کاپہاڑ کھڑاکردیا۔
اگر چمپئن ٹرافی کی جیت کو نوجوان کھلاڑیوں کاتحفہ قرار دیا جائے توبیجا نہ
ہوگا ۔ سرفراز کی قیادت میں فخر زمان، بابر اعظم، حسن علی،شاداب خان نے فتح
میں اپنابھرپور حصہ ڈالا خاص طورپر نوجوان اوپنر فخرزمان کے حوالے سے
کہاجارہاہے کہ طویل عرصہ بعد پاکستان کو ایک اچھا اوپنر میسرآیا ہے کئی
ماہرین کے مطابق فخرزمان ،دوسرے سعیدانور ہیں۔فخرزمان کے کھیلنے کا انداز
سعید انوراور ایڈم گلکرسٹ (آسٹریلیا) کی بیٹنگ کاحسین امتزاج ہے، اسے یقینا
چمپئن ٹرافی کی ایجاد قرار دیاجاسکتا ہے۔ حسن علی اپنے بھرپور باؤلنگ کے
انداز سے ٹورنامنٹ میں چھائے رہے، شاداب خان اٹھارہ سالہ نوجوان کھلاڑی،
دوران فائنل دنیائے کرکٹ کے بڑے بڑے سورماجس کی تعریف کرتے تھکتے نہیں تھے۔
کہاگیا کہ اس نوجوان کا اعتماد دیکھ کر کہیں سے نہیں چھلکتا کہ وہ پہلی بار
اتنے بڑے ایونٹ میں شامل ہے ۔ خاص طورپر انہوں نے یوراج سنگھ کے حوالے سے
پراعتماد میں ریویو کا مطالبہ کیا وہ بذات خود لائق تحسین ہے انہیں یقین
تھا کہ بال پہلے یوراج سنگھ کے پیڈ کو چھونے کے بعد بیٹ کو لگی ہے ،حالانکہ
ایمپائر پاکستانی ٹیم کی اپیل کو مسترد کرچکے تھے مگر اس نوجوان کو پورا
یقین تھا سو اس نے کپتان سے ضد کرکے ریویو کی بات منوالی اورپھر ری پلے نے
اس کی بات کا پکاثبوت فراہم کردیا۔
فائنل کے دوران انڈین میڈیا جس دوسرے کھلاڑی کی سب سے زیادہ تعریف کرتارہا
وہ محمدعامر تھے، انڈین ماہرین کے مطابق محمدعامر سے ہی بھارتی بیٹنگ خطرہ
محسوس کررہی تھی اوراس نے اپنے پہلے چھ اوورز میں جس اندازمیں انڈین بیٹنگ
کی کمر توڑی اس کی مثال کم کم دیکھنے کوملتی ہے ۔ایک ایسی وکٹ جس پر نہ تو
انڈین فاسٹ وسپن باؤلر بال کو ٹرن یاسوئنگ کرانے میں ناکام رہے اسی
پرمحمدعامر، جنید خان، شاداب خان اوردوسرے پاکستانی باؤلرز نے گیند کو
دونوں جانب گھماکر اپنی مہارت ثابت کردی۔ ایک اوربات کہ جب بھارت کے چھ
کھلاڑی محض 58رنز پرآؤٹ ہوگئے تھے تو پاکستانی ٹیم ریلیکس ہوگئی، پھر
عمادوسیم کے اوورکی پانچ گیندیں فخر زمان سے کرائی گئیں جبکہ شاداب کی
باؤلنگ پر بھی فیلڈر ریلیکس دکھائی دے رہے تھے جس کافائدہ ہردیک پانڈیا نے
خوب اٹھایا اور پھر چھ فلک شگاف چھکے ماردئیے ، اگر وہ رن آؤٹ نہ ہوتاتو
شاید انڈین ٹوٹل زیادہ بھی ہوسکتاتھا ۔ یقینا 58 سکورپر چھ کھلاڑیوں کے آؤٹ
ہونے کے بعد پاکستانی ٹیم کو ریلیکس نہیں ہوناچاہئے تھا خیررات گئی بات گئی۔
اس ٹورنامنٹ کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں پرانعامات کی بھرمارہوگئی اور
پھرایسے ایسے ریکارڈ نوجوانوں نے اپنے نام کئے جو پہلے کسی اورکے نام تھے۔
تاہم ایک بات نہ صرف پاکستان بلکہ بھارتی ماہرین بھی تسلیم کررہے ہیں کہ
سرفراز نے باؤلنگ اورفیلڈنگ کی تبدیلی اور باؤلرز کے استعمال کا بروقت اور
برموقع کیا جس کاہی اثر تھا کہ صرف پہلا میچ(جو بھارت کے ساتھ ہی کھیلاگیا
) کے علاوہ باقی ماندہ میچوں میں پاکستانی باؤلرز نے سری لنکا، جنوبی
افریقہ، انگلینڈ اور پھر بھارت کو پورے اوورز نہ کھیلنے دئیے اور پچاس
اوورز سے قبل ہی پوری کی پوری ٹیم پویلین بھجوادی۔ یقینا یہ ٹیم ورک کا ہی
نتیجہ اور کپتانی کی عمدہ مثال ہے۔
صاحبو! پاکستانی ٹیم نے پہلے کھیلتے ہوئے 339 رنز کا ہدف مقررکیاتو ہمارا
اندازہ تھا کہ بھارتی ٹیم یہ دباؤ برداشت نہیں کرپائے گی کیونکہ ماضی میں
بڑے بڑے ناموں کے ہوتے ہوئے بھی نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک کے خلاف
بھاری ہدف کاتعاقب کرتے ہوئے بھارتی بیٹسمین دل ہاربیٹھے۔ سنیل گواسکر سے
لیکر سچن ٹنڈولکر تک۔ ایک سے ایک بڑانام ،بھرپور عالمی ریکارڈز کے حامل یہ
بیٹسمین دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے یہ الزام نہیں بلکہ
ماضی کا ٹریک ریکارڈ ہمارے الفاظ کی بھرپور تائید کیلئے کافی ہے۔ یہی کچھ
فائنل میں بھی ہوا ، سکور بورڈ پر چمکتا 339 ہندسہ ہی بھارتی بیٹنگ لائن کی
تباہی کاباعث بنا ۔اگر انڈین اننگز دیکھنے کاموقع ملے تو روہت شرما، کوہلی
،یوراج سنگھ کے چہرے کے تاثرات ہی دیکھ لیں ،ابتدائی اوورز ہی میں ان کے
چہرے سے شکست عیاں تھی۔ آخری بات کہ کرکٹ ایک بال کاکھیل قرار پاتاہے اور
جیت اسی کی ہی ہوتی ہے جو اُس دن بہترین کھیل کا مظاہرہ کرے چاہے وہ سٹار
ہویا نوجوان کھلاڑی،یقینا فائنل بھی سٹارز سے بھری ٹیم اور جذبوں کے حامل
نوجوان کھلاڑیوں کے درمیان تھا جس میں فتح جذبے کو ملی ۔ یقینا تجربہ اپنی
جگہ اہمیت رکھتا ہے لیکن تجربہ اگر فتح کے جذبے سے خالی ہو تو پھر اس تجربے
کا حال بھی انڈین بیٹنگ، باؤلنگ جیسا ہوتاہے- |