والی بال کے کھیل کا شمار دنیا کے دوسرے
مقبول ترین کھیلوں میں کیا جاتا ہے، پہلے نمبر پر فٹ بال ہے۔ یہ کھیل بھی
دنیا کے دیہی اور شہری علاقوں میں کھیلا جاتا ہے ، ان میں وہ ممالک بھی
شامل ہیں جہاں اس کھیل کو سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہوسکی لیکن عوام میں
پذیرائی حاصل ہے اور وہاں کے گلی کوچوں میںلوگ نیٹ لگا کر اسے کھیلتے
ہیں۔یہ دو ٹیموں کا کیھل ہے، جس میں ہر ٹیم تین تین کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی
ہے اور اس کے مقابلے کا فیصلہ پوائنٹس کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ امریکا سے شروع
ہونے والا یہ کھیل پاکستان اور بھارت میں بھی خاصا مقبول ہے، جب کہ پاکستان
1958میں اس کا ایشین چیمپئن رہ چکا ہے۔ اس کھیل کے چند دل چسپ حقائق ذیل
میں پیش کیے جارہے ہیں۔
والی بال کا کھیل 1895میں’’ ہولیاک میساچوسٹس‘‘، امریکا میں ولیم جی مورگن
نے روشناس کرایا تھا۔ ان کے خیال میں باسکٹ بال بہت محنت طلب اور متشدد
کھیل تھا اس کی بہ نسبت والی بال کا کھیل مہذبانہ طور سے کھیلا جاتا ہے۔
والی بال کا پہلا میچ 7؍جولائی 1896میں اسپرنگ فیلڈ کالج امریکا میں کھیلا
گیا۔ اس لحاظ سے اس کھیل کی تاریخ 121سال قدیم ہے۔ساٹھ کی دہائی تک یہ محض
علاقائی سطح کا کھیل تھا لیکن 1964 میںٹوکیو اولمپکس میں اسے سرکاری طور سے
شامل کرکے عالمی سطح پر متعارف کرایا گیا۔
1984میں اولمپک مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتنے والے والی بال کے کھلاڑی نے
جنوبی کوریا کے اولمپک گیمز میں بھی دوسری مرتبہ طلائی تمغہ حاصل کیا۔
اس کھیل میں 1996کے سال میں دو افراد کے درمیانمقابلے کا اہتمام کیا گیا۔
اس کھیل کی انفرادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کھلاڑی 300مرتبہ بال کو دوسرے
ہاف میں پھینکنے کے لیے اچھلتے ہیں جو ایک کمال کی بات ہے۔ والی بال کے
کھیل کی مردوں کی پہلی عالمی چیمپئن شپ 1949میں جبکہ خواتین کی عالمی
چیمپئن شپ کا انعقاد 1952میں کیا گیا۔ اس کھیل میں چند خصوصیات ٹینس اور
ہینڈبال کے کھیل سے لی گئی ہیں۔
بیچ والی بال کا پہلا میچ دو کھلاڑیوں کے درمیان 1930میں کھیلا گیا۔ اس
کھیل کیلئے خصوصی طور سے پہلی گیند 1900میں بنائی گئی۔
والی بال کا سب سے طویل دورانیہ کا کھیل کنگسٹن شمالی کیرولینا میں کھیلا
گیا جو 75گھنٹے 30منٹ پر محیط رہا۔
والی بال کے کھیل کی ایجاد کے وقت اس کا نام ’’منٹونیٹ‘‘ رکھا گیا تھا۔ چند
سالوں کے بعد ایک میچ ہو رہا تھا کہ اس کے مؤجد مورگن نے کھیل کے مبصرین
کو کہتے سنا کہ کھلاڑی نیٹ کے اوپر سے ایک دوسرے کے پیچھے اور سامنے
پھینکنے کے لیے’’والی انگ‘‘ کر رہے ہیں۔ یہ لفظ انہیں اتنا پسند آیا کہ
انہوں نے اس کا نام منٹونیٹ سے تبدیل کر کے ’’والی بال‘‘ رکھ دیا۔
1976میں ’’ول راجر اسٹیٹ بیچ‘‘ پر ’’اولمپیا ورلڈ چیمپئن شپ آف والی بال‘‘
کے نام سے پہلے پروفیشنل بیچ والی بال ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا۔
1947میں والی بال کی بین الاقوامی تنظیم ’’فیڈریشن انٹرنیشنل ڈی والی بال‘‘
(FIVB)کا قیام عمل میں آیا جس کے بعد اس کھیل کا شمار بین الاقوامی کھیلوں
میں ہونے لگا۔
1924میں پیرس اولمپکس کے موقع پر پہلی مرتبہ والی بال کے کھیل کو بھی ایک
’’غیر سرکاری‘‘ کھیل کے طور پر شامل کیا گیا۔ اس کے بعد 1964تک اس کھیل کی
اولمپک مقابلوں میں شمولیت غیر سرکاری کھیل کے طور پر ہوتی رہی۔ 1964میں
والی بال کی ٹیموں نے سرکاری طور پر شرکت کی۔
والی بال اولمپک کا واحد کھیل ہے جس کے کھلاڑیوں کو زیادہ پیراہن پہننے کی
ممانعت ہے۔
والی بال کا کھیل حقیقتاً ان ڈور گیم ہے۔ 1920میں کیلی فورنیا کے ساحل پر
بیچ والی بال کے کھیل کا انعقاد کیا گیا۔
1928میں امریکا میں والی بال کی پہلی ٹیم بنائی گئی اور اسی سال امریکا
میںپہلی قومی چیمپئن شپ کا انعقاد کیا گیا۔
1930میں سانتامونیکا میں پہلی مرتبہ دو کھلاڑیوں کے درمیان بیچ والی بال کے
مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔
1947میں فیڈریشن آف انٹرنیشنل ڈی والی بال نے مردوں کی والی بال ٹیم کیلئے
قواعدوضوابط طے کئے جس کے بعد اس کھیل کے عالمی چیمپئن شپ مقابلوں کا
انعقاد کیا گیا۔
1983میں والی بال کے کھلاڑیوں کی عالمی تنظیم ’’دی ایسوسی ایشن آف والی
بال پلیئرز‘‘ قائم کی گئی۔
1996میں اٹلانٹا کے ساحل پر پہلی مرتبہ بیچ والی بال کے مقابلے میں
کھلاڑیوں کو تمغات سے نوازا گیا۔
1971میں والی بال کے ’’ہال آف فیم‘‘ ہالیوک میساچوسٹسی میں قیام عمل میں
آیا جس میں 100کے قریب کھلاڑیوں، کوچز، کھیل کے حکام اور کھیل کا انعقاد
کرنے والے اداروں کو ہال آف فیم کے اعزاز سے نوازا گیا۔
اس کھیل میں عورتوں اور مردوں دونوں کیلئے والی بال کا کورٹ 30x60فٹ کا
ہوتا ہے۔
اس کے نیٹ کی اونچائی مردوں کیلئے 7.11فٹ جبکہ عورتوں کی ٹیم کیلئے 7.4فٹ
ہوتی ہے اور یہ نیٹ ایک میٹر چوڑا ہوتا ہے۔
1896میں والی بال کا کھیل باسکٹ بال کی گیند سے کھیلا جاتا تھا، 1898میں اس
کے لیئے علیحدہ بال بنائی گئی۔
امریکی والی بال کھلاڑی کارچ کرالے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے 1984اور
1988کے اولمپکس مقابلوں میں ان ڈور والی بال میں دو طلائی تمغے جیتے جبکہ
1992میں سینڈ پلیئر کی چیمپئن شپ جیتنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
1996-1992اور 2000کے اولمپکس کھیلوں میں کیوبا کی خاتون کھلاڑی نے ان ڈور
گیمز میں طلائی تمغے جیتے۔
سمندر کی ریت پر ہونے والے بیچ والی بال اولمپک مقابلوں میں کیری واش جیتگز
اور مسٹی مے ٹیمر کی جوڑی نے 2008,2004اور 2012کی چیمپئن شپ جیتی۔
سانتامونیکا کے ساحل پر 1920میں پہلابیچ والی بال کلب قائم ہوا۔
1930میں بیچ والی بال کا کھیل یورپ میں شروع ہوااس کھیل کا کورٹ ان ڈور
والی بال کورٹ کے مقابلے میں چھوٹا ہوتا ہے جبکہ اس میں جو گیند استعمال
ہوتی ہے وہ ان ڈور والی بال کے مقابلے میں ہلکی اور زیادہ بڑی ہوتی ہے۔
ان ڈور والی بال ٹیموں میں چھ کھلاڑیوں میں مقابلہ ہوتا ہے جبکہ بیچ والی
بال کی ٹیم ایک، ایک کھلاڑی پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں تین سیٹ کھیلے جاتے
ہیں اور ہر سیٹ 21پوائنٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔
1960میں امریکی کھلاڑی بیٹلز نے لاس اینجلس کے سورنٹو کے ساحل پر جو میچ
کھیلا اس میں اس کے حریف امریکی صدر، جان ایف کینیڈی تھے۔
1955میں امیچر والی بال ایسوسی ایشن آف گریٹ بریٹن اور شمالی آئرلینڈکا
قیام عمل میں آیا جب کہ 1980میں اسے برٹش والی بال فیڈریشن میں تبدیل کر
دیا گیا۔
برطانیہ میں 1985سے 1991تک باقاعدگی سے اس کے سالانہ مقابلوں کا انعقاد
ہوتا رہا۔ 1992میں برٹش کی قومی ٹیم قائم کی گئی جس میں کل وقتی کوچ کا
تقرر کیا گیا جب کہ شیفیلڈ میں اس کا ٹریننگ سینٹر کھولا گیا۔ 1992میں پہلی
مرتبہ برطانیہ کی والی بال ٹیم کو اولمپک مقابلوں میں شرکت کیلئے بھیجا
گیا۔
1996کے اولمپکس مقابلوں میں برطانیہ کی دو خواتین والی بال کھلاڑیوں ایمنڈا
گلوور اور آڈرے کوپر نے شرکت کی۔ اس وقت تک برطانیہ میں بیچ والی بال کا
کوئی تربیتی مرکز نہیں تھا اس لئے مذکورہ کھلاڑیوں کو ایمسٹرڈیم میں تربیت
حاصل کرنے کیلئے بھیجا گیا اورانہوں نے اسی سال اولمپکس مقابلوں کیلئے
کوالیفائی کرکے دنیا کے تجربہ کار کھلاڑیوں کو حیران کردیا۔
آسٹریلیا میں والی بال کے کھیل کا باقاعدہ آغاز 60کی دہائی میں ہوا اور
1963میں آسٹریلین والی بال فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا جو آسٹریلیا میں
والی بال کے کھیل کی نگرانی کرنے والی قومی تنظیم ہے، جسے والی بال
آسٹریلیا بھی کہتے ہیں۔ والی بال کی عالمی تنظیم اے وی ایف کی نگرانی میں
آسٹریلیا کی والی بال کی مختلف تنظیموں کے مقابلے ترتیب دیئے جاتے ہیں۔
مذکورہ ملکی تنظیموں میں کوئنز لینڈ والی بال ایسوسی ایشن، اسٹیٹ والی بال
نیو سائوتھ ویلز، والی بال اے سی ٹی، والی بال ناردرن ٹیریٹری، والی بال
سائوتھ آسٹریلیا، والی بال تسمانیہ، والی بال وکٹوریہ، والی بال ویسٹرن
آسٹریلیا شامل ہیں۔ 1964سے 1996 تک آسٹریلین والی بال ٹیم، اولمپک
مقابلوں میں کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی۔ 2000میں اس نے پہلی مرتبہ شرکت
کی اور کوارٹر فائنل تک رسائی حاصل کی، 2008اور 2016میں بھی یہ اولمپک
مقابلے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی، اسی طرح 1982میں ایف آئی وی بی ورلڈ
چیمپئن شپ میں شرکت کی اور 22ویں پوزیشن پر رہی۔ اس کے بعد 2014کی ورلڈ
چیمپئن شپ کے صرف دوسرے مرحلے تک پہنچنے میں کامیاب رہی۔ ورلڈ کپ مقابلوں
میں بھی آسٹریلین والی بال ٹیم کا یہی حال رہا۔ ایشین چیمپئن شپ مقابلوں
میں 1975سے شرکت کی اور 2007میں پہلی مرتبہ چیمپئن شپ کا اعزاز حاصل کیا
جبکہ 1999اور 2001میں دوسری پوزیشن پر رہی۔
امریکا میں 1927میں یونائیٹڈ اسٹیٹس والی بال ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں
آیا اور 1947میں ایف آئی وی بیکی بین الاقوامی تنظیم کا بنیادی رکن بنا۔
1964کے اولمپک میں امریکا کی والی بال ٹیم نے شرکت کی۔ 1984میں لاس اینجلس
اور 1988میں سیؤل اولمپکس میں امریکا نے طلائی جب کہ1992میں اٹلانٹا میں
ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ 2008میں بیجنگ اولمپکس
میں برازیل کو شکست دے کر ایک مرتبہ پھر طلائی تمغہ حاصل کیا۔ 2012میں لندن
میں اٹلی کے مقابلے میں کوارٹر فائنل میں ہار کر مقابلے سے باہر ہو
گیا۔فرانس میں ہونے والے 1986میں ورلڈ چیمپئن شپ مقابلے میں امریکا نے
طلائی تمغہ حاصل کیا۔ 1994میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ امریکا کی والی بال ٹیم
نے 2015کے عالمی کپ میں حصّہ لیا اور ارجنٹائن کو شکست دے کر عالمی کپ کا
اعزاز حاصل کیا۔ 1985میں امریکی ٹیم نے پہلا عالمی کپ جیتا تھا۔ امریکی ٹیم
کو ورلڈ لیگ میں دو طلائی تمغے جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔
یورپی ممالک میں بھی یہ کھیل خاصا مقبول ہے اور یورپی ممالک کی مشترکہ
تنظیم کی سرپرستی میں براعظم کے مختلف ممالک کی والی بال ٹیموں کے درمیان
میچوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔امریکا سے شروع ہونے والے اس کھیل کو 1914میں
پہلی جنگ عظیم کے دوران امریکی فوجیوں نے مشرقی یورپ میں متعارف
کرایا،1963میں رومانیہ کے شہر بخارسٹ میں یورپین والی بال کنفیڈریشن کے نام
سے یورپ کی والی بال کھیلنے والے ممالک کی ٹیم کا قیام عمل میں آیا۔ آج
کل اس کا صدر دفتر لگسمبرگ میں واقع ہے۔
فرانس کی نیشنل والی بال ایسوسی ایشن، کنفیڈریشن کی فعال رکن ہے۔ 2015میں
اسے یورپین چیمئن شپ جیتنے کا اعزاز حاصل ہے جب کہ ورلڈ لیگ میں بھی اس کی
ٹیم نے چانی کا تمغہ حاصل کیا۔ اولمپک میں اس کی کارکردگی خراب رہی اور
1964سے اب تک صرف تین مرتبہ اولمپک مقابلوں کے لیے کوالیفائی کرسکی اور
آٹھیوں، نویں اور گیارہویں پوزیشن پر براجمان ہوئی۔ ورلڈ چیمپئن شپ میں اس
کی ٹیم نے 1949سے حصہ لینا شروع کیا لیکن صرف دو مرتبہ ، 2002اور 2014میں
سیمی فائنل مرحلے تک رسائی حاصل کرسکی۔ ورلڈ لیگ کے مقابلوں میں 2006میں
دوسری پوزیشن حاصل کی۔
برطانیہ میں یہ کھیل بیسوی صدی کے اوئل میں رائج ہوا، وہاں یہ کھیل انگلش
والی بال ایسوسی ایشن مے زیر اہتمام کھیلا جاتا ہے جو نیشنل والی بال کے
لیگ میچوں اور نیشنل ناک آوٹ کپ کے مقابلوں کا انعقاد کراتی ہے۔
جنوبی کوریا میں یہ کھیل 1949سے کھیلا جارہا ہے اور وہاں ساؤتھ کوریا مینز
والی بال ٹیم ، بین الاقوامی ٹورنامنٹس اور دوستانہ میچوں میں اپنے ملک کی
نمائندگی کرتی ہے۔ 1984میں لاس اینجلس میں منعقد ہونے والے اولمپک گیمز میں
کورین والی بال ٹیم نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پانچویں پوزیشن
حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ عالمی چیمپین شپ کے مقابلوں میں اس کا کھیل خراب
رہا۔1970میںاس نے عالمی مقابلوں کے لیے کوالیفائی کیا لیکن بعد ازاں اسے
ڈراپ کردیا گیا۔ 1978میں یہ عالمی چیمپئن شپ میں چوتھا درجہ حاصل کرنے میں
کامیاب رہی۔ ورلڈ کپ مقابلوں میں صڈڈظ میں اس نے چھٹی پوزیشن حاصل کی۔
ایشین چیمپئن شپ میں 1989، 1993،2001،2003 میں اس نے طلائی تمغے حاصل کیے
جب کہ 1975،1979اور 2013میں رنر اپ رہی۔ ایشین گیمز میں بھی کوریا کی ٹیم
1978،2002،اور 2006میں فاتح رہی۔ 2014میں اس نے اے وی سی کپ جیتا۔
والی بال کا کھیل بھارت کے تمام ملک میں بہ شمول دیہی اور شہری علاقوں میں
خاصا مقبول ہے،وہاں یہ کھیل لیگ کی سطح پر کھیلا جاتا ہے اور اسکے مقابلوں
کا انعقاد بنگلور، چنائے، حیدرآباد میں ہوتا ہے، جن میں مذکورہ تین شہروں
کے علاوہ کرناٹک اور کیرالا کی ٹیمیں بھی حصہ لیتی ہیں۔ 2003 میں بھارت کی
جونئیر ٹیم نے ورلڈ یوتھ چیمپئن شپ میں دوسری پوزیشن جیتی تھی۔ ایشیا میں
بھارتی والی بال ٹیم کی پانچویں اور عالمی درجہ بندی میں 39ویں پوزیشن ہے۔
پاکستان میں والی بال کے کھیل کا آغاز 1954سے ہوا۔ 1955میں پاکستان والی
بال فیڈریشن قائم کی گئی جس کے بعد اس کے قومی سطح کے مقابلوں کا انعقاد
ہونے لگا، اسی سال پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور عالمی والی بال فیڈریشن
نے پاکستان والی بال فیڈریشن کی تنظیم کی سرکاری طور سےمنظوری دی۔ پچاس
اورساٹھ کی دہائی کے دوران پاکستان کی والی بال ٹیم کو ایشیائی ممالک میں
بلند مقام حاصل تھا۔ 1955سے 1958تک پاکستان میں والی بال کے مقامی سطح کے
ہی ٹورنامنٹ کرائے گئے جن میں نئے کھلاڑیوں نے انتہائی جوش و خروش کے ساتھ
حصّہ لیا۔ 1958میں پاکستان کی ٹیم نے ایران کا دورہ کیا جہاں اس نے حریف
ٹیم کو پانچ میچوں کی سیریز میں شکست فاش سے دوچار کرکے ایشین چیمپئن شپ کا
اعزاز حاصل کیا۔ 1962میں جکارتہ میں ہونے والے ایشین گیمز میں کانسی کا
تمغہ جیتا۔ 1989میں بھی ایشین چیمپئن شپ میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ان
مختصر کامیابیوں کے بعد قومی والی بال ٹیم روبۂ زوال ہونا شروع ہوئی اور
تمغوں کی دوڑ میں کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی۔ 2008میں پاکستان جونیئر
ٹیم نے ایران میں ہونے والی چیمپئن شپ میں ایشیاء کی صف اوّل کی ٹیموں
جاپان، جنوبی کوریا، چین اور ایران کو شکست سے دوچار کیا۔ سرگودھا اور فیصل
آباد میں والی بال کے کھیل کو نئی شکل دے کر ’’تھوپی بال‘‘ کے نام سے
کھیلا جاتا ہے۔ اس کھیل میں پلاسٹک کی وہ گیند استعمال کی جاتی ہے جس سے
بچّے فٹ بال کھیلتے ہیں۔ |