پاکستان کی فتح ' بھارتی شرم سار

بھارت کے شدت پسند ، انتہا پسند وں دیکھا تم نے یہ ہے پاکستان جس نے ’اوول‘ کے تاریخی گراؤنڈ میں تمہاری کرکٹ ٹیم کی ایسی درگد بنائی کہ تمہاری سات نسلیںیاد رکھیں گی۔ کھیل کو کھیل ہی رکھنا چاہیے لیکن تم نے میدان سجنے سے پہلے ہی ایسی بھڑکیں مارنا شروع کردیں تھیں ، انتہائی گھٹیازبان استعمال کی گئی ، یہ اسی بڑائی کا نتیجہ ہے کہ بھارت کی ٹیم کو زلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ بھارتی کھلاڑیوں، صحافیوں اور سوشل میڈیا نے میچ سے قبل ہی پاکستان اور پاکستانی ٹیم کے بارے میں ایسا ماحول پیدا کردیا تھا کہ جیسے کرکٹ میچ نہیں بلکہ دونوں ممالک میدان جنگ میں آمنے سامنے ہونے جارہے ہوں۔ بھارتی انتہاپسندوں کو یہ نہیں معلوم کے پاکستان کسی بھی محاز پر بھارت کے سامنے ہوتا ہے تو مقابلا تو میدان میں ہورہا ہوتا ہے لیکن پاکستانی قوم کی دعائیں اپنے کھلاڑیوں کے لیے کی جارہی ہوتی ہیں۔ اتوار 18جون 2017 کو برطانیہ کے اوول گراؤنڈ میں چیمپئز ٹرافی کے فائنل میچ میں بھارت کو شرمناک شکست دی۔ بظاہر یہ کرکٹ ٹیم کا مقابلہ تھا لیکن جب تک مقابلہ جاری رہتا ہے کھلاڑی اپنی جگہ جان کی بازی لگارہے ہوتے ہیں ادھر پاکستان کا ہر فرد اپنی ٹیم کی کامیابی کے لیے اللہ سے دعا گو ہوتا ہے۔ ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم تو آخر میں کھڑی تھی ، پہلا مقابلہ بھارت سے ہوا جس میں بھارت نے پاکستان کو شکست دی۔ بھارت کی اس فتح نے یہ سمجھ لیا کہ پاکستانی ٹیم کی اب کوئی حیثیت نہیں اور اس میں دم خم نہیں وہ اسے بہت آسانی سے پچھاڑ دے گا۔ لیکن اللہ نے پاکستانی ٹیم کو یکے بعد دیگر فتح سے ہم کنار کیا اور فائنل مقابلہ اپنے روایتی حریف بھارت سے ہی ہونا ٹہرا۔ بھارت کی ٹیم اور بھارتی کمنٹیٹر اورمیڈیا تجزیہ نگاروں نے سمجھ لیا کہ اب تو بھارت کی فتح یقینی ہے اس لیے کہ بھارت پاکستان کو پہلے مقابلے میں شکست دے چکا تھا ۔اس وقت پاکستانی ٹیم ٹورنامنٹ میں 8 ویں نمبر پر تھی۔ اپنے اسی گھمنڈ اور غرور میں پاکستان کے بارے میں طرح طرح کے گھٹیا جملے اور طنزیہ فقروں سے نوازا گیا ۔ اللہ کو بھارتیوں کا یہ غرور پسند نہیں آیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھارتی ٹیم بیٹنگ اور بالنگ میں پاکستانی کھلاڑیوں کے سامنے ڈھیر ہوگئی شرمندگی، ندامت ، خجالت اور خفت اس کا مقدر ٹہری۔

فتح کا جشن منانا ، خوشیاں منانا ، مبارک باد دینا، میچ پر تبصرہ کرنا لازمی امر تھا۔ چنانچہ پاکستان میں گھر گھر خوشی کے شادیانے بجنے لگے اور بھارت میں صف ماتم بچھ گئی۔ پاکستانیوں نے میٹھائیاں تقسیم کیں تو بھارتیوں نے ماتم ، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگے، یہ نعرے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر میں بھی جشن منا یا گیا ، لوگوں نے نعرے لگائے۔ بھارت کے انتہا پسندوں کو یہ کیسے گوارہ ہوسکتا تھا ، چنانچہ پاکستان کے حق میں نعرے بازی کرنے والوں کو گرفتار بھی کیا گیا ۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف، صدر مملکت، چیف آف آرمی اسٹاف ، عمران خان، آصف زرداری الغرض ہر ایک نے پاکستانی کھلاڑیوں کی تعریف کی اور انہیں انعام و اکرام سے نوازنے کا اعلان بھی کیا۔ ملک ریاض ایسے کاموں میں اپنے آپ کو آگے رکھتے ہیں انہوں نے بھی کھلاڑیوں کے لیے پلاٹ دینے کااعلان کیا۔ وزیر اعظم پاکستان نے ہر کھلاڑی کو ایک ایک کروڑ دینے کا اعلان کیا۔ یہ تو اچھی بات ہے پاکستان کا نام روشن کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ سوشل میڈیا پر کسی نے یہ اچھی بات کہی کہ یہ رقم پاکستان کے خزانے سے دینے کے بجائے کرکٹ بورڈ کے بنک میں جو رقم موجود ہے اس میں سے یہ رقم ادا کی جائے۔ بات مناسب اور معقول ہے، اس کا بوجھ پاکستانی قوم کے خون پسینے کی کمائی جو حکومت مختلف ٹیکس لگا کر جمع کرتی ہے اس میں سے نہ دی جائے۔ انعام دینے پر کوئی اعتراض نہیں ، انعام و اکرام سے ہر صورت نوازنا چاہیے ۔ہماری ٹیم کے سب کھلاڑی اس کے مستحق بھی ہیں

پاکستانی ٹیم کی فتح پر پاکستانیوں کے علاوہ دنیا بھرمیں کرکٹ سے وابستہ کھلاڑیوں،کمنٹیٹرز،تجزیہ نگاروں،کالم نگاروں کی رائے اور تجزیے سامنے آئے۔میر ی ذاتی رائے میں پاکستانی ٹیم کے بارے میں سب سے بہترین رائے، بہترین تجزیہ بلکہ یادگاری تجزیہ برطانیہ کے عظیم کمنٹیٹر ’روب اسمتھ‘(Rob Smyth)کا ہے ۔ اسمنتھ کاکہنا ہے کہ ’میں تو سمجھتا تھا کہ پاکستانی ٹیم اسپورٹس کی تاریخ کی سب دلچسپ ٹیم ہے لیکن اب میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ نوع انسانی کی سب سے زیادہ دلچسپ ٹیم ہے۔روب اسمتھ نے پاکستانی ٹیم کے کپتان کو چیمین آف چیمپینز بھی قرار دیا‘‘۔ اسمتھ کا مکمل تجزیہ پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ماہر کرکٹر پاکستانی ٹیم کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے۔ ذیل میں اس کا تجزیہ درج ہے۔
"I used to think that Pakistan were the most interesting team in the history of sport. I now realise that they're the most interesting team in the history of mankind. There ability to teleport between farce and genius is unparalled, and at best they are like watching sport. Nothing makes a blind bit of sense, key characters appear out from now here, supernatural forces are at work and inanimate objects can talk. All you can do in run with the mood and the madness. This captain is different. He is not glamorous. Is not shy to express himself in rustie and broken English in front of cameras, even to the extent of consciously creating humor about his lack of fluency in English language with least regard to his star image with Lollywood or Bollywood crowd, he very proudly holds his infant son in his arms and affectionately shares jubilation and smiles with his hijab wearing wife standing in mid of Oval ground with her after the spectacular win. These images are flashed on screen before he walks up to the victory stand to receive the Championship trophy. He is hafiz-e-Quran and how we know why this singular honor has been bestowed upon him during Ramadan. He is different but he is
Campion of the Champions.
رمضان کی برکتیں ، قوم کی دعائیں اور کھلاڑیوں کی محنت کا ثمر پاکستانی قوم کو ملا۔ کپتان کا حافظِ قرآن ہونا ، اس کی شریک سفر کا حجاب میں ہونا سب باتیں پاکستانی ٹیم کی فتح کی جانب اشارہ کرتی ہیں شاید اس کا ادراک پاکستانی کرکٹر اور کمنٹیٹر رمیز راجہ کو ہوگیا تھا اس نے پاکستانی ٹیم کی جیت کی پیشنگوئی کردی تھی۔ میچ پاکستان کے علاوہ دنیا میں دیکھا گیا جہاں جہاں پاکستانی موجود ہیں سب نے دلچسپی سے میچ دیکھا ۔ مکہ المکرمہ میں پاکستانیوں نے اس میچ کو انتہائی دلچسپی سے دیکھا ، کھیل دیکھتے بھی رہے اور پاکستان کی جیت کی دعائیں بھی کرتے رہے۔ ایسے بابرکت جگہ پاکستان کی فتح کی دعائیں ہورہی ہوں تو کیسے فتح نصیب نہ ہوتی، مکہ المکرمہ میں میچ دیکھنے والے میرے پوتے صائم عدیل کی رائے تھی کہ’ پاکستان کے کھلاڑیوں نے محنت تو بہت کی لیکن اس دن قسمت پاکستانی ٹیم کا ساتھ دے رہی تھی، اس لیے کہ پاکستان کے بعض کھلاڑیوں کے کیچ چھوٹے، بال وکٹوں کو لگی لیکن بیلز نہیں گری اس لیے کریس پر موجود رہے تاہم پاکستان کے بعض کھلاڑیوں نے شاندار بیٹنگ کی اور بعض بولرز نے بہترین بالنگ کی جس سے پاکستان کو فتح حاصل ہوئی‘۔ بھارت کے کپتان نے ٹاس جیتا اور یہ سمجھتے ہوئے کہ بھارتی ٹیم پاکستانی بیٹسمینوں کو سو دو سو کے اندر چلتا کریں گے پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ پاکستانی کھلاڑیوں میں فخر زماں نے سینچری اور دیگر بیٹسمینوں نے بھارت کو338کا ٹارگیٹ دیا، یہ ٹورنامنٹ میں کسی بھی ٹیم کا سب زیادہ اسکور تھا۔ اب تو بھارت کے ہوش اڑ گئے، لیکن پھر بھی ان کا خیال تھا کہ بھارتی بیٹسمین آسانی سے اسکور کر لیں گے۔ لیکن پاکستانی بالروں نے بھارتی بلے بازوں کو ایک ایک کر کے کریس سے واپس پویلین بھیج دیااور پوری ٹیم30.3اوورز میں 158پر ڈھیر ہوگئی اور پاکستان کو 180رنز سے فتح حاصل ہوئی۔ جرمنی میں مقیم ارحم عاصم کے مطابق ’اگر کوئی اور مضبوط ٹیم بھی ہوتی تو وہ دن پاکستان کا دن تھا اسے ہر صورت میں فتح ہونی ہی تھی، پاکستانی بیٹسمینوں نے اچھا اسکورکیا جب کہ بالروں نے بھارتی کھلاڑیوں کو سٹ پٹ میدان سے دوڑا دیا‘۔ پاکستان کی فتح کو دنیا میں ہر جگہ سراہا گیا ، تعریف کی گئی جب کہ اس موقع پر بھارت میں اداسی، بددلی، مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ بھارت کے تجزیہ نگار وں کے پاس کوئی جواز نہیں تھا، اس لیے وہ آئی بائیں شائیں کرتے رہے اوراب بھی اسی قسم کے راگ الاپ رہے ہیں۔ البتہ بھارتی کیپٹن نے کچھ معقول باتیں کیں۔بھارتی پہلے ’موقع موقع‘ کرتے رہے اب ’دھوکہ دھوکہ‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ حسن اتفاق ہے کہ 1992میں رمضان المبارک میں ہی پاکستان نے کرکٹ ورلڈ کب جیتا اس وقت عمران خان پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے۔ یہ اعزاز اور فخر عمران خان نے پاکستان کو کپتان کی حیثیت سے دلایااور اب چیمپئز ٹرافی بھی رمضان المبارک میں پاکستان کے حصہ میں آئی ، ٹیم کی قیادت نوجوان کھلاڑی حفیظ نے کی۔پاکستانی ٹیم کے تمام کھلاڑی قابل مبارک باد ہیں۔
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278536 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More