الوداع مصباح اور یونس MIS YOU

کرکٹ ٹیم کے دوریکارڈ ساز کھلاڑیوں کا کیریئرتاریخی انداز میں اختتام پذیر ہوا
ویسٹ انڈیز کےڈومینیکا گراؤنڈمیں دو عظیم کھلاڑیوں کو’’ بلوں کی چھاؤں‘‘ میں رخصت کیا گیا

گزشتہ دنوںویسٹ انڈیز کی سرزمین پر پاکستان کے دو مایہ ناز کرکٹرز کے کیریئر کا اختتام جتنے شاندار انداز میں ہوااور آخری ٹیسٹ میچ میںآؤٹ ہونے کے بعد دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے انہیں جس قدر خوب صورت طریقےسے وداع کیا وہ کرکٹ کی تاریخ کا ایک یادگار باب بن گیا ہے۔ کرکٹ کے کھیل کی ابتدا سے اب تک لاتعداد کھلاڑی کارہائے نمایاں انجام دینے اور نئے ریکارڈ قائم کرنے کے بعد کھیل سے ریٹائر ہونے کے بعد گھر لوٹ گئے، جن میں گیری سوبرز، سر ڈان بریڈمین، سنیل گواسکر، سچن ٹنڈولکر، حنیف محمد، جاید میاں داد اور شاہدآفریدی جیسے لیجنڈشامل ہیں، لیکن کسی بھی کرکٹر کی رخصتی اتنے فقید المثال انداز میں عمل میں نہیں آئی ۔ ڈومینیکا ٹیسٹ میںچوتھے روز آؤٹ ہو کر جب کپتان مصباح الحق پویلین کی جانب واپس ہونے لگے تو یونس خان نے انہیں گلے لگا لیاجب کہ ویسٹ انڈیز کےکھلاڑیوں نےفرداً فرداً ان سے مصافحہ کیا۔ اس موقع پر ان کے ساتھی کرکٹرز بھی گراؤنڈ میں آگئے تھے اور انہوں نے انہیں ’’بلوں کی چھاؤں‘‘ میں رخصت کیا۔اپنا آخری ٹیسٹ کھیل کر آؤٹ ہونے کے بعد پویلین کی جانب لوٹنے والےبیٹسمین یونس خان کے ساتھ بھی رخصت کرنے کا یہی خوب صورت انداز اختیار کیا گیا۔اس سےقبل جب کھیل کے تیسرے دن وہ بیٹنگ کیلئے میدان میں آئےتو میزبان ٹیم کے کھلاڑیوں نے انہیں اسی والہانہ طریقے سے گارڈ آف آنرپیش کیا اور ان کا پرتپاک انداز میں گراؤنڈ میں استقبال کیاگیا۔ اس موقع پر اسٹیڈیم کے انکلوژرز میں جگہ جگہ پوسٹر لگائے گئے تھے جن میں مصباح اور یونس کے نام کو مختصر کرکے لکھا ہوا تھا، MIS YOU ۔کہیں’ ’شکریہ یونس خان، شکریہ مصباح الحق‘ ‘، لکھا تھا تو کہیں’ ’آپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا‘‘ تحریر تھا۔کھیل کے دوران سارا دن دنیا بھر کے ٹی وی چینلز، ان تحریروں کو بار بار دکھاتے رہے۔ان کی گراؤنڈ سے واپسی کے وقت تماشائیوں نے ان کا ہاتھ ہلا کر خیر مقدم کیا۔ لوگوں کی اتنی محبت اور کرکٹ کے کھیل سے اپنی زندگی کا سولہ سالہ پرانا ناتہ ختم ہونے کا تصور کرکے مصباح الحق آبدیدہ ہوگئے تو وی آئی پی انکلوژر میں موجود ان کی اہلیہ عظمی خان سے رہا نہ گیا اور انہوں نےاپنے شوہر کی طرف ایک ہوائی بوسہ اچھال کر انہیں دلاسہ دیا۔ ویسٹ انڈیز میں کھیلی جانے والی یہ سیریز اس اعتبارسے بھی یادگار رہے گی کہ اس میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے مصباح الحق اور یونس خان کے ساتھ کھیلتے ہوئے کئی منفرد ریکارڈ قائم کیے۔ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان گزشتہ 60سالوں کے دوران 16ٹیسٹ سیریز کا انعقاد ہوا جن میں پچاس سے زائد میچز کھیلے گئے جن میں دونوںٹیموں نے پانچ پانچ سیریز جیتیں جب کہ چھ برابر رہیں۔پاکستان کرکٹ ٹیم اب تک سات مرتبہ ویسٹ انڈیز کا دورہ کرچکی ہے لیکن کسی بھی پاکستانی کپتان کو کالی آندھی کو اس کےہوم گراؤنڈ میں شکست دے کرٹیسٹ سیریزجیتنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا۔ مصباح الحق پاکستان کےپہلے کپتان ہیں جنہوں نے یہ کارنامہ انجام دیاہے۔ اس کے علاوہ وانہوں نے کالی آندھی کے خلاف تین ٹیسٹ میچز میں فتح یاب رہنے کا بھی کارنامہ انجام دیا جس کے بعد کرکٹ کے ریکارڈ میں وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے ایشین کرکٹ کے پہلے کپتان بن گئے، اس سے قبل 2011میں ان کی قیادت میں پاکستان ی ٹیم نے ایک اور رواں سال دو ٹیسٹ میچوں میںفتح حاصل کی تھی۔ گزشتہ برس ویرات کوہلی کی قیادت میں بھارتی کرکٹ ٹیم نے دو ٹیسٹ میچوں میں فتح حاصل کی تھی۔ ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر حالیہ سیریز کے دوران یونس خان نے 10ہزار رنز اور مصباح الحق نے 5000رنز مکمل کرنے کا بھی کارنامہ انجام دیا جب کہ یونس خان نے10وکٹیں لینے کا بھی منفرد اعزاز حاصل کیا۔
28؍مئی 1974کو میاں والی میں پیدا ہونے والے مصباح الحق جنہیں کرکٹ کے نقاد ’’مسٹر ٹک ٹک‘‘ بھی کہتے تھے، حقیقتاً کئی مرتبہ ’’ماسٹر بلاسٹر‘‘ بیٹسمین بھی ثابت ہوئے، جنہوں نے ایک تیز ترین سینچری اوربرق رفتار نصف سینچری بنانے کا کارنامہ بھی انجام دیا اور انہیں یہ انفرادیت بھی حاصل رہی کہ انہوں نے ایک روزہ کرکٹ میچوں میں بغیر سینچری اسکور کیے سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں وہ 56میچوں میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کا فریضہ انجام دے چکے ہیں، جن میں سے 29 میں گرین شرٹس فتح یاب ہوئی ، 20ہارے جب کہ 11ہار جیت کے بغیر ختم ہوئے،جس کی وجہ سے ان کا شمار پاکستان ٹیم کے کامیاب ترین کپتانوں میںہوتا ہے۔مصباح الحق نے اپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز 8 مارچ، 2001ء میں نیوزی لینڈکے خلاف ٹیسٹ میچ سے کیا۔انہیں کرکٹ کیریئر کے دوران عروج و زوال کا سامنا رہا۔ ابتدائی ایام میں ان کی کارکردگی ناقص رہی اور آسٹریلیا کے خلاف تین ٹیسٹ میچوں میںان کا انفرادی اسکور بیس رنز سے زیادہ نہ بڑھ سکا جس کی بنا پر انہیں ٹیم سے باہر کردیا گیا۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد پی سی بی سلیکٹرزکوایسےبلے باز کی تلاش تھی جو اننگز میں مڈل آرڈر بیٹسمین کی حیثیت سے مستحکم انداز میںبلے بازی کر سکے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کو دوبارہ کھیلنے کا موقع دیا،اس سے قبل انھوں نے پاکستان ٹیم کی طرف سے آخری مرتبہ 2004ء میںمیچ کھیلا تھا۔ا نہیں2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں محمد یوسف کی جگہ ٹیم اسکواڈمیں شامل کیا گیا۔ اس ٹورنامنٹ کے دوران ان کے جوہر کھل کر سامنے آئے۔عالمی کپ کے اس مقابلےمیں پاکستانی ٹیم نے مصباح الحق کی جارحانہ بیٹنگ کے باعث فائنل میچ تک رسائی حاصل کی۔لیکن فائنل میںجب اسےبھارت کے ہاتھوں سخت ہزیمت کا سامنا تھا ،پاکستان کے صف اول کےبلے باز آؤٹ ہوکر پویلین واپس لوٹ گئے تھے، مصباح الحق جو مڈل آرڈر بیٹسمین کی حیثیت سے بیٹنگ کے لیے آئے تھے، کریز پر موجود تھےانہوں نے جارحانہ شاٹس کھیلتے ہوئے ٹیم کو فتح کے قریب پہنچا دیا۔ میچ کے آخری لمحات میںجب پاکستان کو میچ جیتنے کے لیے چارگیندوں پر صرف 6 رنز درکار تھے، انہوں نے وننگ شاٹ کھیلنے کے لیے چھکا لگانے کی کوشش میں بلند و بالا شاٹ کھیلا جو بدقسمتی سے بھارتی کھلاڑی سری سانتھ کے ہاتھ میں آکر گرا اور وہ کیچ آؤٹ ہوگئے اورپاکستانی ٹیم عالمی کپ ہار گئی۔ لیکن مصباح الحق ٹورنامنٹ کے دوران سب سےزیادہ رنز بنانےوالے پاکستانی ٹیم کے پہلے اور ٹورنامنٹ کے تیسرےکھلاڑی قرار پائے۔ انہوں نےاس ٹورنامنٹ میں 7 میچوں کے دوران 218رنز اسکور کیے تھے۔انہوں نے 7 میچوں میں 50.55کی اوسط سے 218 رنز اسکور کیے اور ٹورنامنٹ کے تیسرے سب سے زیادہ اسکور کرنے والے کھلاڑی رہے۔عالمی کپ کے بعد آئی سی سی کی عالمی درجہ بندی میں ٹی ٹونئٹی فارمیٹ میں وہ پہلی پوزیشن پر براجمان ہوئے۔2008میں انہیںنہ صرف قومی ٹیم کا نائب کپتان مقرر کیا گیا بلکہ پہلے درجے کا کنٹریکٹ بھی ملا۔ پاکستانی ٹیم کے دورہ بھارت کے موقع پر شعیب ملک کے زخمی ہونے کی وجہ سے انہیں ان کی جگہ ایک روزہ میچوں کا نائب کپتان مقرر کیا گیا۔ 2010میں دورہ آسٹریلیا میں قومی ٹیم کی شکست کی ساری ذمہ داری مصباح الحق پر ڈالتے ہوئے انہیں کرکٹ کے تمام فارمیٹس سے باہر کردیا گیا جس سے دل برداشتہ ہوکر وہ کھیل سے ریٹائرمنٹ لینےپر غور کرنے لگے۔ اسی سال قومی ٹیم انگلینڈ کے دورے پر گئی، جہاں بعض کھلاڑیوں کے خلاف اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل منظر عام پر آیا جس میں ملوث ہونے پر کپتان سلمان بٹ سمیت محمد آصف اور عامر خان پر پابندی عائد کردی گئی، جس کے بعد ٹیم میں قیادت کے خلاء کو پر کرنے کے لیے حیرت انگیز طور پر مصباح الحق کو واپس بلا کر کپتان بنادیا گیا۔ ان کی قیادت میں قومی کھلاڑیوں نے ویسٹ انڈیز کے دورے کے موقع پر اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور وارنر پارک میں ہونے والے ٹیسٹ میں فتح حاصل کی۔ مصباح الحق نے اس میچ میں چار سال کے بعد اپنی پہلی ٹیسٹ سینچری بنائی۔ اس سیریز کے بعد انہیں شاہد آفریدی کی جگہ محدود اوورز کے کھیل ٹی ٹوئنٹی کی قیادت کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی۔ ان کی کپتانی میں قومی ٹیم نے آٹھ ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے جن میں سے چھ جیتے اور دو میں شکست ہوئی۔ انہوں نے آخری ٹی ٹوئنٹی سیریز 2012ء میںانگلینڈ کے خلاف کھیلی، جس میں مجموعی طور پر ٹیم کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی اور پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق کھلاڑیوں کی طرف سے مصباح الحق کو اس ہزیمت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیاجس کی وجہ سے انہیں ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی کپتانی سے ہٹا دیا گیا۔انہوں نے محدود اوورزکےتمام فارمیٹ سے علیحدگی اختیار کرکے اپنی توجہ صرف ٹیسٹ کرکٹ پر مرکوز کرلی اور 2016میں ان کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے 1988کے بعد پہلی مرتبہ عالمی درجہ بندی میںاولین مقام حاصل کیا،پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام کی طرف سے اس کامیابی کا سارا کریڈٹ مصباح الحق کی قیادت کے کھاتے میں ڈالا گیا۔
’’مسٹر ٹک ٹک‘‘ کہلانے والے مصباح الحق نے اپنی ماسٹر بلاسٹر بیٹنگ کی بہ دولت کئی کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ انہوں نے چھ مرتبہ ناٹ آؤٹ سینچریز بنائیں ۔2007ء میں بھارت کے خلاف ایڈن گارڈنز کلکتہ اور چناسوامی اسٹیڈیم بنگلور میں انہوں نے بالترتیب 161اور 137رنز بنائے اور ناٹ آؤٹ رہے۔2011میں وارنر پارک سینٹ کیٹ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ کھیلتے ہوئےوہ 102رنز بنا کر ناٹ آؤٹ واپس آئے۔ 2014میں متحدہ عرب امارات کے شیخ زائد اسٹیڈیم میں آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز کے دوران 101رنز اوراسی سال دوبئی کرکٹ اسٹیڈیم ابوظبی میں انگلینڈ کے خلاف 102رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہنے کا کارنامہ انجام دیا۔ انہوں نے صرف 24منٹ میںابوظبی میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلتے ہوئے 21گیندوں پر تیز ترین نصف سینچری بنائی، اس سے قبل ٹیسٹ کرکٹ میں تیز ترین ففٹی کا عالمی ریکارڈ جنوبی افریقی بیٹسمین جیکس کیلس کے پاس تھا۔ انہوں نے 56گیندوں پر سینچری اسکور کرکے ویسٹ انڈیز کے بلے باز ویوین رچرڈز کا برق رفتار سینچری بنانے کا ریکارڈبھی برابر کردیا۔پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہونے والی حالیہ میچوں کے بعد پاکستان، ٹیسٹ رینکنگ میںترقی کرکے چوتھے نمبرپر آگیا ہے۔ مصباح الحق ایشیاء کے واحدکپتان ہیں جنہوں نے جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کو اس کے ہوم گراؤنڈ پر شکست دی۔ وہ پاکستان ٹیم کے دوسرے کپتان تھے جن کی قیادت میں پاکستان نے کر کٹ کا ایشیا کپ جیتا۔ وہ آٹھویں پاکستانی کھلاڑی ہیں جنہوں نے دونوں اننگز میں سینچریاں اسکور کیں۔ ان کا شمار دنیا کے دوسرےزائد العمر کھلاڑی میں ہوتا ہے جنہوں نے 41سال کی عمر میں انگلینڈ کے خلاف سینچری بنانے کا کارنامہ انجام دیا، اس سے قبل یہ اعزازبرطانوی کرکٹر جیفرے بائیکاٹ کے پاس تھا۔ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے سب سے زیادہ چھکے لگانے کا اعزاز بھی انہی کے پاس ہے۔ وہ پہلے پاکستانی کپتان ہیں جن کی قیادت میں 2012میں یو اے ای میں منعقد ہونے والی ٹیسٹ سیریز میں برطانیہ کو مکمل طور سے وائٹ واش شکست دی۔ وہ برصغیر کے پہلے کپتان ہیں جن کی قیادت میں کرکٹ ٹیم نے 11ٹیسٹ سیریز جیتی ہیں، اس سے قبل بھارت نے سارو گنگولی اور مہندرا سنگھ دھونی کی قیادت میں 9سیریز میں فتح حاصل کی تھی۔ وہ پہلے پاکستانی کرکٹر ہیں جنہیں 2016میںانٹرنیشنل کرکٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے آئی سی سی اسپرٹ ایوارڈ سے نوازا گیا، انہیں یہ ایوارڈ اپنی ٹیم کو کرکٹ کے پانچ روزہ فارمیٹ میں پانچویں سے پہلے در جے پر پہنچانے کاکارنامہ انجام دینے پر دیا گیا۔2014 میں انہیں پاکستانی حکومت کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس کا صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔انہیں 2017کا وزڈن کرکٹ ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔ شنید ہے کہ کرکٹ میں ان کی طویل خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے بی سی پی کی جانب سے ان کا نام آئی سی سی ایمپائر کے طور پر پیش کیا جائے گا۔
ڈومینیکا ٹیسٹ کےبعد، رخصت ہونے والے دوسرے کرکٹر یونس خان 29 نومبر، 1977ء کو فاٹاکے شہر مردان میں پیدا ہو‎ئے۔1987میں اپنے والدین کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے۔ بچپن سے کرکٹ کے کھیل کی طرف رجحان تھا، نو عمری میں کلب کرکٹ جوائن کی اور ملیر جیم خانہ کی طرف سے کھیلنے لگے ۔انہوں نے راشدلطیف کی نگرانی میںاس کھیل کی تربیت حاصل کی اورراشد کے مشوروں کاان کے کھیل میں خاصا عمل دخل رہا ہے۔انہوں نے کرکٹ کے بنیادی اسرارورموزیونس کو سکھائےاورانہیں بین الاقوامی سطح کی کرکٹ کھیلنے کی جانب راغب کیا۔انہوں نے 2000ء میں سری لنکا کے خلاف ایک روزہ میچ کھیل کراپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز کیا ، جب کہ ٹیسٹ کرکٹ کی ابتدا بھی سری لنکا کے خلاف اسی سال کی۔ 2003ء کے عالمی کپ کے بعد بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ کے خلاف ون ڈے سیریز میں ناقص کارکردگی کی بناء پر انہیں ٹیم سے باہر کردیا گیا۔ 2004میں سری لنکن ٹیم کے پاکستان کے دورے کے موقع پر انہیں پاکستانی ٹیم میں واپس بلایا گیا اور وہ کراچی ٹیسٹ کے دوران ون ڈے پوزیشن پر کھیلے۔ اسی سال آسٹریلیا اور بھارت کے دورے میں انہوں نے اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب سے زیادہ رنز اسکور کیےاور ٹیسٹ کرکٹ میں 4000رنز بنانے والے جاوید میاں داد کے بعد دوسرے کرکٹر بن گئے۔ 2005ء میں ان کا نام آئی سی سی کی فہرست میںسال کے بہترین ٹیسٹ کرکٹرز میں شامل کیا گیا۔2005ء میں ویسٹ انڈیز میں کھیلی جانے والی ون ڈے سیریز میں ان کی قیادت میں قومی ٹیم نے پہلا ایک روزہ میچ جیتا، اس سال دورہ بھارت کے بعد انہیں قومی ٹیم کا نائب کپتان مقرر کردیا گیا۔ 2006ء میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے موقع پر پی سی بی نے انضمام الحق کو معطل کیا تھا ، اس کی جانب سے یونس خان کو قائم مقام کپتان کی چیثیت سے اس عالمی ٹورنامنٹ کے دورا ن ٹیم کی قیادت سنبھالنے کی پیشکش موصول ہوئی جسے انہوں نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ’’وہ ڈمی کپتان نہیں بننا چاہتے‘‘۔اس کے اگلے روز بورڈ حکام نے کپتان کی حیثیت سے ان کی تقرری کا باقاعدہ اعلان کردیا۔پاکستان چیمپئنز ٹرافی کا صرف ایک میچ ہی جیت سکا اور وہ مقابلے سے باہر ہوگیا۔انضمام الحق کی معطلی ختم کرکے انہیں دوبارہ کپتان بنا دیا گیا۔
ورلڈ کپ 2007ء کے آخر میں انضمام الحق نے استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد2008ء میںیونس خان کوکرکٹ کے تینوں فارمیٹ میں ٹیم کا مستقل کپتان بنا دیا گیا۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے لارڈز کے میدان میںسری لنکا کو شکست دے کر آئی سی سی ٹی-20ٹرافی جیتی۔2009ء میں پاکستان کی ٹی -20 ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی قیادت کی ۔بہ حیثیت کپتان ان کی کارکردگی شاندار رہی، انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں ٹرپل سینچری 313رنز اسکور بنا کر منفرد ریکارڈ قائم کیا ، وہ محمد یوسف، جاویدمیاں داد اور انضمام الحق کے ساتھ ایک سال میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑیوں کی صف میں شامل ہوگئے۔2009میں آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں وہ پہلی پوزیشن پربراجمان تھے۔پاکستانی ٹیم کے قائد کی حیثیت سےیونس خان نے نوجوان کھلاڑیوں کی صلاحیتیں اجاگرکرنےکے لیے سخت محنت کی۔ کرکٹ کےمیدان میں وہ ایک اولوالعزم کمانڈرکی طرح نظر آئے، سلپ کورڈن ہویا بیٹنگ کےدوران پارٹنرشپ،ان کےمشورے ہمیشہ جیت کا سبب بنے۔
اکتوبر 2009ء میں بعض کھلاڑیوں کی طرف سے ان پر میچ فکسنگ کے الزامات عائد کیے گئے، جن کی تحقیقات کے لیےسینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ، اس صورت حال سے دل برداشتہ ہوکر انہوں نے کپتانی سے استعفی دے دیا، لیکن تحقیقات کے نتیجے میں وہ بے گناہ ثابت ہوئے جس کے بعد بی سی پی چیئرمین نے ان سے استعفی واپس لینے اور ٹیم کی قیادت سنبھالنے کی استدعا کی جو انہوں نے مشروط طور سے قبول کرلی، لیکن کچھ عرصے بعد ان کی جگہ محمد یوسف کی کپتان کی حیثیت سے تعیناتی کردی گئی۔2010میں انہیں اور محمد یوسف کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر معطل کردیا گیالیکن تین ماہ بعد دونوں کھلاڑیوں کی معطلی ختم کردی گئی۔ 2014ء میں سری لنکا کے دورے کے موقع پر جب پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میںانتہائی کم اسکور پر آؤٹ ہوکرایک ایک کرکے پویلین کی طرف لوٹے ، انہوں نے 177رنز بنا کر قومی ٹیم کی پوزیشن مستحکم کردی جس کی وجہ سے انہیں مردبحران کا خطاب دیا گیا ۔سری لنکا کی ٹیم خلاف ٹیسٹ میچ میں دوسری اننگر میں سینچری اسکور کرنے کے بعد وہ ’’دوسری اننگز‘‘ میں سب سے زیادہ پانچ سینچری بنانے والے دنیا کے پہلے بیٹسمین بن گئے، اس سے قبل سنیل گواسکر اور رکی پونٹنگ کے پاس دوسری اننگز میںچار سینچریاں اسکور کرنے کا اعزازتھا۔فرسٹ کلاس کرکٹ میں انہوں نے اپنی پچاسویں سینچری مکمل کی اور وہ 15000رنز بنانے والے فرسٹ کلاس کرکٹر بن گئے۔وہ پاکستان کے واحد کھلاڑی ہیں جنہیں ٹیسٹ میچز میں چھ ڈبل سینچریاں بنانے کا اعزاز حاصل ہے جب کہ وہ قومی ٹیم کے پہلے کرکٹر ہیں جنہوں نے ٹیسٹ میچز میں 100کیچز پکڑنے کا اعزازبھی حاصل کیا۔ویسٹ انڈیز کے خلاف تیسرے ٹیسٹ کے دوران ہی یونس خان ٹیسٹ سیریز میں 10 کیچ لینے والے پہلے پاکستانی کھلاڑی بن گئے۔ انہوں نے بشو کا کیچ لے کر یہ اعزاز اپنے نام کیا۔ اس سے قبل ایک سیریز میں یوسف اور توفیق عمر نے 9 ، 9 کیچ لینے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔اس سال سڈنی ٹیسٹ میں 175رنز ناٹ آؤٹ بنا کر انہوں نے نہ صرف اپنی چونتیسویں سینچری مکمل کی بلکہ وہ دنیا کے گیارہ ممالک میں سینچری بنانے والے واحد بیٹسمین بن گئے ہیں۔ اُن سے قبل بھارت کے راہول ڈریوڈنے دس ممالک میں سینچری بنانے کا اعزاز حاصل کیاتھا۔ ان گیارہ ملکوں میں دس ٹیسٹ کھیلنے والے ملک اور گیارہواں نیوٹرل وینیو،متحدہ عرب اَمارات ہے۔سڈنی ٹیسٹ میں سینچری بنانے کے بعد وہ ٹیسٹ میچوںمیں سب سےزیادہ سینچریاں اسکور کرنے والے بیٹسمینوں کی فہرست میں چھٹی پوزیشن پر ویسٹ انڈیز کے برائن لارا، سری لنکا کے مہیلا جے وردھنے اور بھارت کے لٹل ماسٹر سنیل گواسکر کے ساتھ شامل ہیںجب کہ سچن ٹنڈولکر 51سینچریاں بنا کر سب سے آگے ہیں۔انہوں نے ملک و بیرون ملک کے علاوہ نیوٹرل وینیو پر کرکٹ کھیلتے ہوئے پچاس سے زائد کی اوسط سے رنز اسکور کیے ہیں، یہ کرکٹ کی ریکارڈ بک میں ایسا اعزاز ہے جو کم ہی کرکٹرز کے حصے میں آیا ہے۔ وہ اب تک 118ٹیسٹ میچز کھیل چکے ہیں جن میں انہوں نے 10,099رنز اسکور کیے ۔ ٹیسٹ کرکٹ میں تیرہ بیٹسمینوں کو دس ہزار سے زائد رنز بنانے کا اعزاز حاصل ہے جن میں اب یونس خان بھی شامل ہوگئے ہیں۔وہ حنیف محمد اور انضمام الحق کے بعد پاکستان کے تیسرے اور دنیا کے 23ویں بیٹسمین ہیں جنہوں نے ٹرپل سینچری اسکور کرنے کا ریکار ڈقائم کیا ، جب کہ اب تک دنیا کے 30کھلاڑی ٹرپل سینچری اسکور کرچکے ہیں جن میں پاکستان کے اظہرعلی 29ویں نمبر پر موجود ہیں جنہوں نے اکتوبر 2016 میں دوبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں ویسٹ انڈیز کے خلاف یہ کارنامہ انجام دیا تھا ۔ سر گیری سوبرز1958اوربرطانیہ کےویلی ہومنڈ 1933ء میں ناٹ آؤٹ ٹرپل سینچری بنا چکے ہیں جب کہ ویسٹ انڈیز کے بیٹسمین برائن لارا دنیا کے واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے 1994ء میں ٹرپل سینچری بنانے کے دس سال بعد’’ فورتھ سینچری ‘‘ناٹ آؤٹ بنانے کا ایسا ریکارڈ قائم کیا جسے دنیا کا کوئی بیٹسمین نہیں توڑ سکا۔ویسٹ انڈیز کے دورے کے اختتام پر برطانیہ میں لارڈز کرکٹ گرائونڈ میں پاکستان کے سابق لیجنڈ کرکٹر کے اعزاز میں ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا،جس میں پاکستان کی ایک روزہ کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد، محمد حفیظ، محمد عامر ، شان مسعود، وہاب ریاض، کوچ مکی آرتھر، فیلڈنگ کوچ، بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور اور اسسٹنٹ کوچ شاہد اسلم نے شرکت کی۔تقریب کے دوران کرکٹ کے سب سے معتبر جریدے وزڈن کے نمائندے نے سابق ٹیسٹ کپتان یونس خان کو وزڈن کی خصوصی کتاب بھی دی۔اختتامی سیشن میں یونس خان نے لارڈز میوزیم کےمہتمم کو اپنا کرکٹ بیٹ اوردستانے پیش کیے، جویادگار کے طور پر میوزیم میں رکھے جائیں گے۔سال رواں میںبھارت کے ویرات کوہلی جب کہ پاکستانی کرکٹرز یونس خان اور مصباح الحق کووزڈن کے 5بہترین کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل کیا گیاہے۔ اس سے قبل پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان، وقار یونس، وسیم اکرم اور جاوید میاں داد بھی وزڈن کرکٹرز میں شامل رہ چکے ہیں۔برطانیہ میں ہر سال کھیلوں سے متعلق ایک کتاب شائع کی جاتی ہے، جس کے بانی جان وزڈن اور ایڈیٹر لارنس بوتھ ہیں۔ وزڈن کرکٹرز المناک کتاب کا پہلا ایڈیشن 1864 میں شائع کیا گیا تھا اور رواں سال شائع ہونے والا 154 واں ایڈیشن ہے ، وزڈن کرکٹرز المناک میں اُن کھلاڑیوں کو شامل کیا جاتا ہے جو برطانیہ کے اسپورٹس گراؤنڈزمیں یادگار پرفارمنس یا پھر گیم چینجر کارکردگی پیش کرچکے ہوں۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.