*صدقۂ فطر روزوں کی تکمیل مثل سجدۂ سھو*

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ• وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ (الاعلٰی:14/15)
بے شک مراد کو پہنچا جوستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کرنماز پڑھی-
نزھۃ المجالس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں''اگراللّٰہ عزوجل کو امت محمدی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر عذاب کرنا مقصود ہوتا توان کو رمضان اور سُورہء قُلْ ھُوَ اللّٰہ شریف ہرگز عنایت نہ فرماتا ۔(نُزْہَۃُ المجالِس،ج١،ص٢١٦)
اسی لیے تو اللہ کے رسول نے فرمایا،
( لو يعلم العباد ما في رمضان لتمنت أمتي أن يكون رمضان السنة كلها ) (أبو يعلى 9/180 وأخرجه ابن خزيمة 1886 والبيهقي في الشعب)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر بندوں کو معلوم ہوجاتا کہ رمضان کیا چیز ہےتو میری امت تمنا کرتی کہ پورا سال رمضان ہی ہو
اس ماہ مبارک میں رب تعالی نے عبادتوں کا موقع عطا فرمایا اور فرض عبادت پر ستر درجہ زیادہ ثواب عطا فرمایا اور تو اور اگر اس عبادت میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو اس کی تکمیل کا طریقہ بھی عبادت کی شکل میں عطا فرمادیا،
روزہ دار سے جو لغویات اور فضول حرکتیں سرزد ہوتی ہیں۔ فطرانہ ان سے روزوں کی تطہیر کرتا ہے اور مساکین کی خوراک کا ذریعہ ہے، جو شخص نماز عید سے پہلے ادا کر دے اس کی طرف سے یہ قبول کر لیا جاتا ہے مگر جو بعد نماز ادا کرے، اسے عام دیئے جانے والے صدقہ کا ثواب ملتا ہے، فطرانہ کا نہیں (اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ) روزے زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتے ہیں جب تک فطرانہ کی ادائیگی نہ ہو اسی لیے علماء نے فرمایا صدقۂ فطر "سجدۂ سہو"کی طرح ہے کہ روزہ کی کوتاہیوں کو اس کے ذریعے دور کیا جاتا ہے، حدیث پاک میں اس کی بہت تاکید آئی ہے
(فرض رسول الله زكاة الفطر من رمضان صاعًا من التمر أو صاعاً من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين، •أن النبي صلى الله عليه و سلم أمر بزكاة الفطر أن تؤدّى قبل خروج الناس إلى الصلاة•
[ متفق عليه عن ابن عمر ، دارقطني ،2/140،بيهقي ،4/162]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کاصدقۂ فطر ایک صاع خرما یا جو غلام وآزاد مرد وعورت چھوٹے اور بڑے مسلمان پر مقرر کی،، اور یہ حکم فرمایا کہ صدقۂ فطر نماز کو جانے سے پیش تر ادا کردیں،
* صدقۂ فطردراصل رمضان المبارک کے روزوں کا صدقہ ہے تاکہ لغو اور بے ہودہ کاموں سے روزے کی طہارت ہو جائےاوران کوتاہیوں کی تلافی بھی جو رمضان میں روزہ دار سے سرزد ہوگئی ہیں۔ روزہ کی حالت میں بندہ نے جن گناہوں اور ممنوعات کا ارتکاب کیا ہے، ان سے پاکی۔ (المغنی: ۳؍۵۶)۔اور ساتھ ہی غریبوں، ناداروں کی عید کا سامان بھی اور روزوں سے حاصل ہونے والی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا ہوجائےاصل حکمت فقراء و مساکین کا تعاون، انھیں عید کی خوشیوں میں شامل کرنا اور ان میں یہ احساس پیدا کرنا کہ مسلم معاشرہ عید کے دن ان کے لئے اپنے جذبات اخوت کا اظہار کرتا ہے۔
قال ابن عباس رضي الله عنهما : فرض رسول الله صلي الله عليه وسلم زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساكين( أبو داود ،2/111 ،حاكم ،1/568 )
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے روزوں کو لغو اور بے حیائی کی بات سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کو کھلانے کے لیے صدقۂ فطر مقرر فرمایا،
۲ھجری میں رمضان کے روزے فرض ہوئے اور اسی سال عید سے دو دن پہلے صدقۂ فطرکا حکم دیا گیا۔(درمختار، ج۳، ص۳۶۲ )
روایتوں میں آتا ہے کہ رمضان کے اختتام کو دو دن باقی تھے کہ سورۃ اعلیٰ کی یہ آیات نازل ہوئیں: ’’قد افلح من تزکی وذکراسم ربہ فصلیٰ‘‘ (الاعلی: ۱۴؍۱۵)۔ ’’بِلاشبہ کامیاب ہوا وہ شخص جو اپنے آپ کو باطن کی گندگیوں اور کدورتوں سے پاک کرلیا اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی‘‘۔ ان آیات کے سلسلہ میں کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف عن ابیہ عن جدہ کی روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مصداق صدقہ فطر بتایا۔ (احکام القرآن للجصاص، ۳؍۴۷۳)۔
قران کی آیت بھی اس کے خصوصیت اور بھلائی پر دال ہے
سئل رسول الله رسول الله صلى الله عليه وسلم عن هذه الاية ( قد افلح من تزكى وذكر اسم ربه فصلى ) فقال : ( انزلت فى زكاة الفطر ) .
حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے اس آیت کریمہ کے بارے میں سوال کیا گیا
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ• وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ (الاعلٰی:14/15)
بے شک مراد کو پہنچا جوستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کرنماز پڑھی۔
تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’یہ آیت صدقہ فطر کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘( صحیح ابن خزیمہ،الحدیث، 4/90)
ابن سعد نے "طبقات ابن سعد میں ایک روایت نقل فرمائی "قالوا :فرض صوم رمضان بعد ما حولت الكعبة بشهر ، على رأس ثمانية عشر شهرا من الهجرة ، وأمر في هذه السنة بزكاة الفطر ، وذلك قبل أن تفرض الزكاة في الأموال
" رمضان کا روزہ تحویل قبلہ کے ایک مہینہ بعد فرض کیا گیاجو کہ ہجرت کے اٹھارہ مہینے بعد ہوا اور اسی سال صدقۂ فطر کا حکم ہوا یہ اموال میں زکاۃ نافذ ہونے سے پہلے ہوا،
عن عمر بن شعيب عن ابيه عن جده:ان النبي صلي الله عليه وسلم بعث مناديا ينادي في فجاج مكة"الا إن صدقةالفطرواجبة علي كل مسلم مدان من قمح اوصاع ممن سواه من الطعام(ترمذي، 2/151
ترمذی میں ہیکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بھیجا کہ مکہ کے گلی کوچوں میں اعلان کردے کہ صدقۂ فطر واجب ہے
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم-: "أغنوهم في هذا اليوم" وفي رواية البيهقي :أغنوهم عن طواف هذا اليوم ،(دار قطني،2/152 ،بيهقي،4/175)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس دن سوال کی حاجت سے فقیر کو بے نیاز کردو، بیقہی کی روایت میں ہیکہ اس دن مانگتے پھرنے سے انھیں بے نیاز کردو
بدائع الصنائع میں إمام أبو حنيفة سے منقول ہیکہ صدقۂ فطر میں روپیہ پیسہ نقد دینا بھی جائز ہے"لأن الواجب في الحقيقة إغناء الفقير، لقوله -صلّى الله عليه وسلم -: «أغنوهم عن المسألة في مثل هذا اليوم» والإغناء يحصل بالقيمة، بل أتم وأوفر وأيسر؛ لأنها أقرب إلى دفع الحاجة، فيتبين أن النص معلل بالإغناء. بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع)/129)، الجوهرة النيرة:(2/9
اس لیے کہ در حقیقت واجب عید کے دن فقیر کو مانگے کی حاجت سے بے نیاز کرنا مقصود ہے کیونکہ حدیث پاک میں ہے : «أغنوهم عن المسألة في مثل هذا اليوم»
اس دن سوال کی حاجت سے فقیر کو بے نیاز کردو، اور اغناء قیمت دینے سے حاصل ہوجاتی ہے بلکہ یہیزیادہ تام اور آسان ہے کیونکہ ضرورت پوری کرنے کے لیے نقد روپیہ زیادہ مددگار ہے
اس کی ادائیگی میں دیری نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جلد ادا کرنے میں کئی حکمتیں موجود ہیں،
عن ابن عباس – رضي الله عنهما– قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم- قال: فرض زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساكين من أداها قبل الصلاة فهي زكاة مقبولة ومن أداها بعد الصلاة فهي صدقة من الصدقات ،( أبو داود (2/111، ابن ماجه ،حاكم )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے ( عید کی ) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا
لہذا نیکیوں میں سبقت کرنے والے بندوں کی پیروی کریں اور زائد انعام کے حقدار بھی بن جائیں جبکہ ہمارے وہ روزے جو ہماری رب تعالی کی بارگاہ میں سفارش کرنےوالے ہیں صعود الی القبولیت کی منزل پر بھی پہنچنے سے معلق رہتے ہیں
عن جریر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:صوم شهررمضان معلق بين السماء والارض , ولا يرفع الا بزكاة الفطر، ( ،مختصر الترغیب والترھیب ص90،91،تاریخ بغداد ، 9/122)
حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:رمضان کا روزہ آسمان و زمین کے درمیان معلق رہتا ہے، جب تک صدقۂ فطر نہ ادا کیا جائے اوپر نہیں چڑھتا،
تو روزہ جب بارگاہ رب العالمین میں نہ پہنچے گا تو ہمارے لیے شفیع کیسے بنے گا کیونکہ حدیث پاک میں ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،روزہ اور قُراٰن بندے کیلئےقیامت کے دن شفاعت کریں گے۔روزہ عرض کرے گا،اے ربّ ِکریم عزوجل! میں نے کھانے اور خواہشوں سے دن میں اسے روک دیا، میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔ قُرآن کہے گا ، میں نے اسے رات میں سونے سے باز رکھا،میری شفاعت اس کے لئے قبول کر ۔ پس دونوں کی شفاعتیں قبول ہوں گی۔''
(مُسند امام احمد٢،/٥٨٦)
اس کو ادا کرنے سے یہ نہ سوچا جائے کہ مال میں کمی آئیگی بلکہ فضل رب پھوار بن کر برسے گا
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم… أما غنيكم فيزكيه الله وأما فقيركم فيرد الله عليه أكثر مما أعطاه (أحمد ،5/432،وأبوداود، والحاكم )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو تمہارے مالدار ہیں اللہ تعالیٰ(صدقۂ فطردینے کی وجہ سے)انہیں پاک فرما دے گا اور جو تمہارے غریب ہیں تواللّٰہ عَزَّوَجَلَّ انہیں اس سے بھی زیادہ دے گا۔
اسی وجہ سے علماء نے غریبوں کو بھی یہ ترغیب دلائی کہ روزے کی مقبولیت کے حصول کے لیے خود بھی صدقۂ فطر ادا کریں اگرچہ اکر مستحق ہیں تو لے بھی سکتے ہیں مگر اس کا یہ فائدہ حاصل کرنا ہے تو ادا کرلو رب تعالی تو زیادہ دینے کا وعدہ فرما ہی رہا ہے،
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں جن پر مَیں قسم کھاتا ہوں وہ یہ ہیں:
مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِّنْ صَدَقَۃٍ وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلَمَۃً صَبَرَ عَلَیْھَا اِلَّا زَادَہُ اللہُ بِھَا عِزًّا وَّلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْئَلَۃٍ اِلَّا فَتَحَ اللہُ عَلَیْہِ بَابَ فَقْرٍ (ترمذی، ابواب الزہد، ۲۳۰۳) بندے کا مال صدقے سے کم نہیں ہوتا، اور جس بندے پر ظلم و زیادتی کی جائے اور وہ اس پر صبر کرجائے تو لازماً خدا اس کی عزت بڑھاتا ہے، اور جس بندے نے سوال کا دروازہ کھولا، خدا اس کے لیے فقروافلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال : ( قال الله : أَنْفِق يا ابن آدم أُنْفِق عليك ) (رواه البخاري ومسلم )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے ابن آدم! تو (میرے ضرورت مندوں پر) خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔
یعنی تو اگر لوگوں پر خرچ کرے گا تو میں تجھے مفلس نہ ہونے دوں گا بلکہ میری بخشش تجھ پر مزید ہوگی
بہر حال اس کے مقاصد پرنظر رکھتے ہوئے یعنی ضرورت مندوں کی حاجت عید کو پورا کرنے کےلیے اسے عید کے دن سے قبل بھی ادا کیا جاسکتا ہے صحابۂ کرام کا معمول بھی یہ رہا ہے
عُمَرَ -رضي الله عنهما- يُعْطِيهَا الَّذِينَ يَقْبَلُونَهَا ، وَكَانُوا يُعْطُونَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ))( رواه البخاري رقم الحديث (1440)
ابن عمر رضی اللہ عنہما صدقہ فطر ہر فقیر کو جو اسے قبول کرتا، دے دیا کرتے تھے۔ اور لوگ صدقہ فطر ایک یا دو دن پہلے ہی دے دیا کرتے
عن نافع : أن عبد الله بن عمر كان يبعث بزكاة الفطر إلى الذي تجمع عنده قبل الفطر بيومين أو ثلاثة (أخرجه مالك في الموطأ (1/285
نافع سے روایت ہیکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ صدقہ فطر عید سے دو یا تین دن پہلے سرکاری طورپر صدقہ وصول کرنے والوں کے حوالے کردیتے تھے۔(صحیح بخاری،الزکوٰۃ:۱۵۱۱)
اسی لیے امام اعظم اس کو تو بہت پہلے ہی دینے کی اجازت دیتے ہیں کیونکہ یہ بھی زکاۃ فطر ہے
وقال أبو حنيفة : ويجوز تعجيلها من أول الحول ; لأنها زكاة فأشبهت زكاة المال(فتح القدیر: ۲؍۴۰)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اس (یعنی صدقۂ فطر)کے دینے کا وقت واسع ہے عید الفطر سے پہلے بھی دے سکتا ہے اور بعد بھی، مگر بعد کو تاخیر نہ چاہیے بلکہ اَولی یہ ہے کہ نمازعید سے پہلے نکال دے کہ حدیث میں ہے صاحب نصاب کے روزے معلق رہتے ہیں جب تک یہ صدقہ ادا نہ کرے گا۔(فتاویٰ ٰرضویہ،ج۱۰،ص۲۵۳)
یہ کن پر واجب ہے،
زَکٰوہُ الْفِطْرِ فَرَض عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ حُرِّ وَعَبْدٍ ذَکَرِ وَاُنْثٰی مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ. (دار قطنی)
“صدقہ فطر، مسلمان مردو عورت، آزاد و غلام سب پر فرض ہے“ ۔
جو شخص اُوپر کے نصاب کا مالک ہو، اس پر اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے فطرہ ادا کرنا واجب ہے۔ اگر نابالغ اولاد کا اپنا مال ہو تو ان کے مال میں سے ادا کیا جائے گا۔ بیوی اپنا صدقہ فطر خود ادا کرے گی، لیکن شوہر اگر اپنی بالغ اولاد اور بیوی کی طرف سے ادا کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (ھدایہ: ۱؍۱۶۸)۔ اس سلسلہ میں ضابطہ یہ ہے کہ صدقہ فطر ان تمام لوگوں کی طرف سے نکالنا ضروری ہے جو آدمی کے زیر پرورش ہوں اور ان پر اس کو پوری ولایت حاصل ہو۔ جس میں نابالغ محتاج لڑکے و لڑکیاں دونوں شامل ہوتے ہیں۔ صحیح العقل بالغ لڑکے گو محتاج اور اپاہج ہوں، باپ پر ان کا صدقہ نکالنا ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح یتیم پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کا صدقہ دادا، نانا کے ذمہ نہیں ہے۔ (بدائع الصنائع: ۲؍۶۹)۔
ھدایہ میں وضاحت سے فرمایا
صَدَقَة الْفِطْرِ وَاجِبَة عَلَی الْحُرِّ الْمُسْلِمِ اِذَا کَانَ مَالِکًا لِمَقْدَارِ نِصَابٍ فَاضِلًا عَنْ مَسْکِیْنِه وَثِیَابِه وَاَثَاثِه وَفَرَسِه وَسَلَاحِه وَعَبِیْدِہٖ(ھدایہ)
’’یعنی صدقۃ الفطر ہر اس آزاد مسلمان پر و اجب ہے، جو مکان، پارجات، گھر کے اثاثے، گھوڑے، ہتھیاروں اور خدمت کے غلاموں کے علاوہ کسی قسم کے نصاب کا مالک ہے۔‘‘
مالک نصاب مرد اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بچّوں کی طرف سے اور اگر کوئی مجنون (یعنی پاگل )اولاد ہے(چاہے پھر وہ پاگل اولاد بالغ ہی کیوں نہ ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صدقۂ فطر ادا کرے۔ہاں ! اگر وہ بچّہ یامجنون خود صاحب نصاب ہے تو پھراُ س کے مال میں سے فِطْرہ اداکردے۔(عالمگیری، ۱/۱۹۲)
یعنی جس کے پاس عیدکی نماز سے پہلے اتنا مال موجود ہو جتنا زکوۃ فرض ہونے کےلیے مقرر ہے وہ ایک دن کی خوراک کے علاوہ ہو تواس پر صدقۂ فطر واجب ہے سال گزرنا ضروری نہیں ہے
اِسلام میں صدقہ فطر کی مقدار اتنی رکھی گئی ہے کہ اُمت کی غالب اکثریت اسے بخوبی ادا کرسکے،اس کی جو مقدار احادیث میں مذکور ہوئیں ان سب کا ماحصل یہ نکلتا ہیکہ کھانے پینے کا سامان یا اس کی قیمت وغیرہ اتنی دی جائے کہ کم از کم ایک غریب آدمی کے دو وقت پیٹ بھرنے کا نتظام ہوسکے لیکن گیہوں وغیرہ کی قیمتوں میں کمی زیادتی کے سبب صدقۂ فطر کی رقم میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے لہذا ہر آدمی جس قیمت کا گیہوں کھاتا ہیکہ اس کے ہی حساب سے
موجودہ زمانے میں تقریبا"دو کلو پینتالیس گرام یا سینتالیس گرام -" اسی گیہوں سے جو خود کھاتے ہیں نہ کہ دینے کے وقت راشن وغیرہ کا گیہوں یا کم قیمت کا گیہوں دیں ایسا ہرگز نہ کریں، اس کی قیمت کا اندازہ لگا کر کچھ زیادہ ہی دے، کیونکہ خیرو عافیت سے روزے مکمل ہونے اور عید کی خوشی نصیب ہونے پر جتنا زیادہ ہوسکے صدقات واجبہ کے علاوہ دینا چاہیے اور اس میں اپنے قرابت داروں، رشتہ داروں ضرورت مند کو پہلے ترجیح دو اس میں دو اجر ہے
کیونکہ زکوٰۃ اور سب صدقات اپنے عزیزوں قریبوں کو دیناافضل ہےاور دوگنااجرکاباعث ہے، زینب ثقفیہ زوجہ عبدﷲبن مسعود اور ایک انصاریہ عورت رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین دراقدس پر حاضر ہوئیں اور حضرت بلال رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی زبانی عرض کرابھیجا کہ کیاہم اپنے صدقات اپنے اقارب کودیں، حضوراقدس صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
لھما اجران اجرالقرابۃ واجرالصدقۃ۔(صحیح مسلم ، ١/٣٢٣)
ان کے لیے دو٢ثواب ہوں گے ایك ثواب قرابت داری اور دوسرا صدقہ کرنے کا ثواب،
ایک اور روایت میں نبی کریم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:الصدقۃ علی المسکین صدقۃ وعلیٰ ذی الرحم ثنتان،صدقۃ وصلۃ۔(جامع الترمذی، ١/٨٣ابن خزیمۃ و ابن حبان، حاکم )
مسکین کو دینا صرف ایک صدقہ ہے اور رشتہ دار کو دینا دوہرامقام ایک صدقہ کرنا اوردوسرا صلہ رحم بھی،
اللہ رب العزت ہمارے صدقات وخیرات کو ہمارے روزوں کی پاکی کا ذریعہ بنائے اور ہمارےصوم و صلوۃ کو اپنے مقبول بندوں کی مقبول عبادتوں کے صدقے قبول فرمائے، آمین
Irfan raza misbahi
About the Author: Irfan raza misbahi Read More Articles by Irfan raza misbahi: 15 Articles with 34394 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.