ہر بار ثالث ہی کی تلاش کیوں ، خود بھی تو باہمی امور پر
تبادلہ خیال کیاجاسکتا ہے دونوں جانب ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی کا مستقبل
وابستہ ہے جہاں ہوش کا عنصر کم اور جوش کا خبط زیادہ دیکھاگیا ہے ،تناؤ
حکمت عملی کی ضد ہے کامیابی کی کہانی کا مرکزی کردار آرپار کی قیادت کو خود
ادا کرنا ہوگا بڑی قوتوں سے ثالثی کی توقع عبث ہے آگ کو مزید آگ کی تپش سے
نہیں بجھایا جا سکتا اس کیلئے پانی درکار ہوتا ہے چاہے وہ گدلاہی کیوں نہ
ہو ۔
پاکستان اور ہندوستان کرکٹ کے دلدادہ ممالک ہیں، کرکٹ آرپار یکساں مقبول ہے
دونوں ممالک کی کرکٹ ٹیموں کے نصیب پر رشک آتا ہے جب ان دو ممالک کے درمیان
آپس میں میچ کھیلاجارہا ہو تو ایک مشاعرے کے سا سماں پیدا ہو جاتا ہے جس
طرح شاعر ایک ایک مصرے پر داد حاصل کرتا ہے اسی طرح کھلاڑی ہر گزرنے والی
گیند پر ’’واہ واہ‘‘ کی داد حاصل کر رہا ہوتا ہے اگر باؤلر اچھی گیند پچ
کردے تو اس کی بلے بلے ہو جاتی ہے اور اگر کوئی بلے باز گیند کو باؤنڈری کا
راستہ دکھا دے تو بلے باز کی چاندی ہو جاتی ہے ، مگر اس براہ راست ’’مشاعرے‘‘
میں’ جناب صدر کی اجازت سے ‘والا ماحول نہیں ہوتا مگر میچ کی ہر گھڑی کسی
زندہ دل مشاعرے کا رنگ ٹپک رہا ہوتا ہے جہاں شائقین کرکٹ کھلاڑیوں پر دل
کھول کر داد و اہ کر رہے ہوتے ہیں
برصغیر میں بسنے والے شائقین کرکٹ کے رویوں میں آپس میں زمین آسمان کا فرق
ہے پاکستانی شائقین ذرا معتدل رویے کے ساتھ کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں ،
ہندوستان کے شائقین اپنی ٹیم کی شکست کا بدلہ اپنے کھلاڑیوں کے گھروں کی
توڑ پھوڑ کرکے لیتے ہیں ، بنگالی شائقین اپنی ٹیم کی حالت پتلی ہونے پر فی
کس گیند کے حساب سے آنسو بہاتے ہیں ، ہندوستان میں صف ماتم اسی وقت بچھ گئی
تھی جب پاکستان نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرانی کے ایک پول میچ میں ، جو کوارٹر
فائنل کا درجہ اختیار کر چکا تھا ، سری لنکا کو شکست دے کر سیمی فائنل
کیلئے کوالیفائی کر لیا تھا ہندوستان کی اشتعال انگیزی اور مایوسی کا اگر
جائزہ لینا مقصود ہو تو مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و
بربریت سے باآسانی کیاجاسکتا ہے ، مقبوضہ کشمیر کے علاقوں ، پلوامہ ،
شوپیاں ، اسلام آباد ، کولگام اور پامپور میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی تاریخی
فتح کا جشن منانے پر قابض بھارتی فوج کشمیریوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا
رہی ہے ۔ ہندوستانی ٹیم کی شکست فاش کے بعد سے ظلم و جبر کا سلسلہ اور بھی
بڑھ نکلا ہے قابض بھارتی افواج کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے
وجہ یہ ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھارتی سورماؤں کے زبردست دانت کھٹے کیے
ہیں ۔ ہندو بنیئے کو اپنی ٹیم کی ہار ہضم نہیں ہورہی ، سارا ہندوستان چیخ
چیخ کر یہ کہہ رہا ہے ’’ جو نہ ہونا تھا بتدریج وہی خوب ہوا‘‘کرکٹ کو جینٹل
مین گیم کہا جاتا ہے مگر ہندوستان اور پاکستان کے میچ کیلئے ’’روایتی حریف‘‘
کی اصطلاح کس انشاء پرداز نے سرقہ کی اب یہ سوچنا بیکار ہے جتنا گلیمر اور
تیزی اس کھیل میں آچکی ہے اس کو ’’شریفوں کا کھیل ‘‘ کچھ کم بھی سمجھاجائے
تو اس سے اس کھیل کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا، پاکستان اور ہندوستان کے
درمیان بہتر تعلقات استوار کرنے کیلئے کرکٹ کو بطور ’’ڈپلومیسی ٹول ‘‘
استعمال کیاجاتا رہا ہے 1987ء میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی میں
آئے روز اضافہ ہو رہا تھا جب ہندوستان کی بے جا اشتعال انگیزی حد سے بڑھنے
لگی تو اس وقت کے صدر پاکستان اور آرمی چیف ضیاء الحق دونوں ممالک کی کرکٹ
ٹیموں کے درمیان جے پور میں ہونے والے ٹیسٹ میچ کو دیکھنے کیلئے دہلی
ائیرپورٹ پر اترے یہاں دنیا کو خیر سگالی کا اچھا تاثر دینے کیلئے راجیو
گاندھی کو نہ چاہتے ہوئے بھی صدر ضیاء الحق کا استقبال کرنا پڑا تھا ، ضیاء
الحق کا بھارت کا یہ دورہ کوئی معمول کا دورہ نہیں تھا مگر کرکٹ ڈپلومیسی
کا سہارا لیکر سرحدی حالات کو معمول کی سطح پر لانا تھا ، دوسری طرف سویت
فورسز اور افغانستان کے درمیان بھی حالات کشیدہ ہو چکے تھے ، ضیاء الحق نے
راجیو گاندھی پر کھلے لفظوں میں واضع کر دیا تھا کہ اگر ہندوستان اشتعال
انگیزی سے باز نہ آیا تو دنیا ہلاکوخان اور چنگیز خان کو بھول جائے گی
یہ’’تسلی‘‘ ہوجانے پر ہندوستان اشتعال انگیزی سے باز آگیا تھا ، ضیاء الحق
کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پرویز مشرف اور یوسف رضا گیلانی نے بھی کرکٹ
ڈپلومیسی کا سہارا لے کر امن بحال کرنے کی کوشش کی مگر مستقل بنیادوں پر
کوئی افاقہ نہ ہو سکا ۔ حال ہی میں دونوں ممالک شنگائی تعاون تنظیم کے
مستقل رکن کا درجہ حاصل کر چکے ہیں دونوں جانب سے مبارکباد کے پیغامات بہم
پہنچائے جارہے ہیں ، بغل میں چھری منہ میں رام رام والا محاورہ ہندوستان پر
صحیح معنوں میں صادق آتا ہے ۔ آئے روز لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی اس کا
معمول بن چکا ہے مگر پاکستانی سپاہ قدم بقدم اس کے دانت کھٹے کر رہی ہے ،
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ کشمیر کا تصفیہ ہے ، جب
تک اسے کشمیریوں کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل نہیں
کر لیاجاتا کشیدگی کی لہر کو روکنا اتنا آسان نہیں ، عالمی مبصر وفد کو
مقبوضہ کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے وہاں نہ آنے کی اجازت دینا
ہندوستان کی کھلی ہٹ دھرمی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان
کرکٹ سیریز ایک عرصہ سے منقطع ہے باہمی سیریز کی بحالی کیلئے شہریار خان
ہندوستان گے تو ہندوستان کا ان کے ساتھ کیے جانے والا ’’حسن سلوک ‘‘ ساری
دنیا نے دیکھا ، امن کی بحالی کیلئے کرکٹ ڈپلومیسی اپنی جگہ، مگر مسئلہ
کشمیرسمیت دوسرے حل طلب معاملات کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا اس پر مستزادیہ
کہ برصغیر کے خدمتگار جہالت ، بے روزگاری ، تعلیم اور لوگوں کے علاج و
معالجے پر توجہ دیں تو حقیقی معنوں میں خطہ کی تقدیر بدل جائے ۔ |