علم اور تعلم

استاد ادارہ اور انتظامیہ یہ ایسی کڑیاں ہیں جن پہ تعلیم کی عمارت کھڑی ہے ایک کا بھی تعطل اس عمارت کر لرزا دیتا ہے ۔ایسا ہی کچھ جی سی لیہ کیمپس کے طلباء کے ساتھ ہوا ۔امتحانوں کی فراغت کے بعد گورنمنٹ شیڈول کی چھٹیوں کے مزے لیتے چار ہزار طالبعلموں کو یہ خبر دہلا گئی کہ hec کی طرف سے نوٹیفیکیشن آیا ہے کہ ان کے امتحانات دوبارہ ہونگے۔۔بیشتر طلبہ دور دراز علاقوں سے حصول تعلیم کے لیے آئے تھے۔طلبہ میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔جی سی یونیورسٹی سب کیمپس لیہ کے 28ڈیپارٹمنٹس کے چار ہزار سے زائد طلباء نے مئی کے پہلے ہفتے میں اپنےاپنےڈیپارٹمنٹ میں امتحان دے دیا تھا۔ جس پر یونیورسٹی نے طلباء کو ہوپ سرٹیفکیٹ بھی جاری کر دیئے تھے۔ لیکن متعدد ڈیپارٹمنٹس کے اساتذہ کو یونیورسٹی سب کیمپس کی جانب سے تنخواہ ادا نہیں کی گئی ۔ جس پر اساتذہ نے طلباء کے امتحانی نتائج روک لئے ۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کو دوبارہ امتحانات دینے کے لئے کہا اور دوبارہ امتحانات کی تاریخ 7جولائی مقرر کی ہے۔ جس پر یونیورسٹی طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے چوبارہ روڈ ٹی ڈی اے چوک کو ٹائرجلا کر بلاک کر دیا ۔ یونیورسٹی ڈائریکٹر قیصر عباس بھٹی نے سٹوڈنٹس سے مذاکرات کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ وہ معاملہ حل کریں گے جس پر طلبہ نے ان سے یقین دہانی کے لیے کہ کب تک معاملہ حل ہو جائے گا تاریخ مانگی تو یونیورسٹی ڈائریکٹر نے انہیں کہا کہ اگر آپ میری بات کی یقین نہیں کرتے تو آپ جو احتجاج کرنا چاہتے ہیں کر لیں اس دھمکی پر طلباء نے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی ۔ طلبہ سے اظہارِ یکجہتی کے لئے مختلف سیاسی رہنماؤں جن میں چوہدری اصغر علی گوجر جماعت اسلامی ، ملک ہاشم حسین سہو تحریک انصاف اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کامران روحانی بھی شامل ہیں۔ کامران روحانی نے سٹوڈنٹس کو یقین دلایا کہ وہ ان کے مسئلہ کے حل تک ان کے ساتھ رہیں گے ملک ہاشم حسین سہو نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ طلبہ سے زیادتی کریں ۔ چوہدری اصغر علی گوجر نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ طلباء وطالبات کے مستقبل نہ کھیلے بھاری بھرکم فیسیں وصول کرکے اساتذہ کو تنخواہیں نہ دینا اور طلباء سے دوبارہ امتحان کا مطالبہ سراسر ناجائز ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں ۔

بے شک طلباء کے لیے دوبارہ امتحان دینا مشکل امر ہے سو ان کا احنجاج بھی اپنی جگہ درست ہے۔لیکن معاملات ہمیشہ ٹیبل ٹاک سے ہی حل ہوا کرتے ہیں ۔طلباء کو انتظامیہ کا موقف بھی سننا چاہییے۔ایف ایم 89 پہ بھی اس مسئلے کو اٹھایا گیا کہ آخر ایسا کیوں ہوا کہ سٹوڈنٹ سڑکوں پہ آگئے ۔اس پہ یونیورسٹی ڈائریکٹر نے کہا کہ اگر یونیورسٹی کھلی ہوتی تو ایسی نوبت نہ آتی کیونکہ فیس ٹو فیس بات اور ہوتی ہے ۔اور سوشل میڈیا کے تھرو پھیلی بات اور ہوتی ہے۔مذید سوالوں کے جواب میں انہوں نے کہا کہ معاملات میں بگاڑ اس غلط فہمی کی وجہ سے بھی آیا کہ بچوں کو باور کروایا گیا کہ آپ کو مڈ ٹرم کے امتحان بھی دینے ہونگے جب کے ایسا نہیں ہے۔صرف اینول امتحانات کی بات ہو رہی ہے ۔قیصر بھٹی صاحب نے بیشتر سوالوں کے جواب میں اس ایشو کی وضاحت کی ان کے مطابق ہم نے جی سی مین کے امتحانی شیڈول کے مطابق امتحانات لیے تھے کیونکہ ہم اسی شیڈول کو فالو کرتے ہیں ۔بعد میں ہمیں ان کی طرف سے نیو شیڈول ملا سو ہم ان کے نئے طریقہ کار کے مطابق چلنے کے لیے یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ایک طرح سے اس میں سٹوڈنٹس کی بہتری ہے اور دیگر سوالات جو یونیورسٹی کی ڈگری پہ اٹھائے جاتے ہیں اس کا بھی جواب ہے کہ سب hec کی نگرانی میں ہوتا ۔۔ان کا کہنا تھا کہ وہ بچوں کی ذہنی کیفیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان کے ساتھ ہیں ۔اب آخری قدم Hec کے نام خط لکھا گیا اور ساری صورتحال سے آگاہ کر کے گذارش کی گئی کہ اس حکم امتناعی پہ نظر ثانی کرتے ہوئے طلبہ کو ذہنی کوفت سے بچایا جائے۔اب دیکھیں یہ اونٹ۔کس کروٹ۔بیٹھتا ہے۔

میرے خیال میں اگر hec اس دفعہ قوم کے معماروں کا خیال کرے اور نرمی برتتے ہوئے دوبارہ امتحان نہ لے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے ۔بصورت دیگر حالات دو دھڑوں میں بٹ جائیں گے۔اور اس طرح امتحان دینے والے طلبہ دل جمعی سے تعلیم حاصل کرنے کے بجائے فقط فارمیلٹی پوری کریں گے اور اس کے اثرات نتائج پہ مرتب ہو نگے۔۔اور یونیورسٹی کی ساکھ بھی متاثر ہو گی۔لہذا ایک درست اور مثبت قدم ہی انتظامیہ اور طلباء میں باہم پیدا ہونے والے خلا کو دور کر سکتا۔۔