رواں سال عید پاکستانی قوم کے لیے دوہری خوشیاں لے کر
آئی، ایک خوشی تو اللہ تعالی کی طرف سے اپنے روزہ دار بندوں کے لیے انعام
ہوتا ہے لیکن دوسری خوشی قومی ٹیم نے آئی سی سی چیمپئنزٹرافی جیت کر قوم
کو عیدکے تحفے کی صورت میں دی۔ 20جون 2017کا دن پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ
یادگار رہے گاکیوں کہ اس دن 22واں روزہ تھا اور گرین شرٹس کرکٹ کے میگا
ایونٹ کے فائنل مقابلے میںاپنے روایتی حریف بھارت سے نبرد آزما تھی۔اس نے
بھارت کو 180 رنز کے تاریخ کے سب سے بڑے مارجن سے شکست دے کرپہلی مرتبہ
ٹرافی اپنے نام کی ۔ اس سے قبل 25مارچ 1992کو میلبورن کرکٹ گراؤنڈ پرقومی
ٹیم نے انگلینڈ کو ہرا کر پہلی مرتبہ کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا تواس روز
بھی رمضان المبارک کی 22ویں تاریخ ہی تھی اور کپتان عمران خان نے قوم کو
عید کا تحفہ عالمی کپ کی جیت کی صورت میں دیا تھا۔
چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد جہاں پاکستانی قوم خوشی کے شادیانے بجا رہی تھی،
وہیں بھارت میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی، کرکٹ کے شائقین نے بھارتی ٹیم کی
شکست کے بعد ٹی وی سیٹس توڑ ڈالے، بھارتی کھلاڑیوں کےپوسٹر پھاڑ دیئے جب کہ
بھارت کے دو شہروں میں پاکستانی جیت پر فتح کا جشن منانے والے 15مسلمانوں
کو گرفتار کرلیا گیا۔ اوول اسٹیڈیم میں پاکستان ٹیم کے ٹرافی جیتنے کے بعد
وہاں موجود پاکستانی شائقین نے خوشی سے نعرے لگانے شروع کیے تو بھارتی
شہریوں نے اس پر شدید ردعمل کا ظہار کیاجب کہ ایک شخص طیش میں آکر جشن
منانے والوں سے لڑنے کے لیے آگے بڑھا۔ برطانوی پولیس نے گراؤنڈ میں آکر
بھارتی تماشائیوں کو گراؤنڈ سے باہر نکالا جب کہ بعض پولیس اہل کار
پاکستانی شائقین کے ساتھ جشن میں شریک ہوگئے۔ بھارتی کھلاڑیوں نے بھی منفی
رد عمل کا مظاہرہ کیا اورفاسٹ بالر محمد شامی پاکستانی تماش بین سے لڑنے کے
لیے ان کی طرف بڑھے جنہیں ان کے ساتھی کھلاڑیوں نے قابو میں کیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ قومی ٹیم آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کرنے
والی عالمی رینکنگ میں 8 ویں نمبر پر موجود سب سے کمزور ترین ٹیم تھی۔کرکٹ
کے بزرجمہروں کا بھی یہی خیال تھا کہ پاکستان ٹیم گروپ اسٹیج سے بھی آگے
نہیں بڑھ سکے گی کیوں کہ بھارت اس چیمپئن شپ کا دو مرتبہ کا فاتح اور دفاعی
چیمپئن تھا ۔ لیکن پاکستان ٹیم نےنہ صرف بھارت سے گروپ میچ میں شکست کے
بعدایک نئے عزم کے ساتھ کھیلتے ہوئے اپنی جیت کا تسلسل شروع کیا بلکہ بگ
تھری کی دو دیوپیکر ٹیموں کوشکست دے کر کرکٹ کی تاریخ کااچھوتا کارنامہ
انجام دیا، ساتویں چیمپئنز ٹرافی، شاید اس عالمی ٹورنامنٹ کا آخری ایڈیشن
ثابت ہو کیوں کہ بگ تھری کے اہم رکن بھارت کو یہ شکست ہضم نہیں ہورہی اور
وہ اسپورٹس مین اسپرٹ کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس ٹورنامنٹ کوختم
کرانے کے درپے ہوگیا ہے۔ آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ رچرڈسن بھارتی
دباؤ کا شکار ہوکر اس عالمی ٹورنامنٹ کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا کہنا
ہے کہ کرکٹ کے عالمی کپ کا انعقاد ہر چارسال بعد ہوتا ہے، ا س لیے ایک روزہ
کرکٹ کے دو عالمی ٹورنامنٹس کی ضرورت نہیں ہے، اس کی جگہ ہر دو سال بعد وہ
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے انعقادمیں دل چسپی رکھتے ہیں۔
کرکٹ کے عالمی کپ کے بعد چیمپئنز ٹرافی ٹورنا منٹ آئی سی سی کے صدر جگ
موہن ڈالمیا کے ذہن کی اختراع تھی جس کا مقصد ورلڈ ٹورنامنٹ سے قبل ٹیسٹ
کرکٹ کھیلنے والے ممالک کو یکجا کرنا اور عالمی کرکٹ تنظیم کے لیے پیسے کا
حصول تھا۔ اس کا آغاز 1998 میں ’’’آئی سی سی ناک آؤٹ‘ ‘ کے نام سے
افتتاحی ٹورنامنٹ کا انعقاد کر کے بنگلہ دیش میں کیا گیا،لیکن اس کی ٹیم
اپنے ہی ملک میں منعقد ہونے والے عالمی مقابلے کے لیے کوالیفائی نہ کرسکی
۔جنوبی افریقہ نے فائنل میچ میں ویسٹ انڈیز کو 4 وکٹوں سے شکست دے کرآئی
سی سی ناک آؤٹ کا پہلا مقابلہ جیت لیا۔اس سلسلے کادوسرا ٹورنامنٹ 2000
میں کینیا میں منعقد ہوا ۔نیوزی لینڈکی ٹیم نے نے فائنل میں کرس کینز کی
عمدہ بیٹنگ کی بدولت بھارت کو 4 وکٹوں سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام
کیا۔سری لنکا میں 2002 میں یہ ایونٹ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے نام سے
منعقد ہوا جس میں فائنل میچ کے دوران مسلسل بارش کے سبب میزبان ملک سری
لنکا اور بھارت کوچیمپئنز ٹرافی کا مشترکہ حق دار قرار دیا گیا۔چوتھی آئی
سی سی چیمیئنز ٹرافی 2004 میں انگلینڈ اور ویلز میں منعقد ہوئی اور فائنل
میچ میں ویسٹ انڈیز نے میزبان انگلینڈ کو 2 وکٹوں سے شکست دے کرفتح حاصل
کی۔پانچواں ٹورنامنٹ 2006 میں بھارت میں منعقد ہوا۔ فائنل مقابلے میں دفاعی
چیمپئن ویسٹ انڈیز کا مقابلہ آسٹریلیا سے ہوا جس میں آسٹریلیا نے اپنی
حریف ٹیم کو 8 وکٹوں سےشکست دے کر ٹرافی جیت لی۔2009میںآئی سی سی چیمپئن
شپ جنوبی افریقہ میں منعقد ہوئی جس میں آسٹریلیا نے فائنل میچ میں نیوزی
لینڈ کو 6 وکٹوں سے شکست دے کر اپنے ٹائٹل کا دفاع کیا۔ 2013 میں انگلینڈ
اور ویلز میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ میںبھارت نے سنسنی خیز مقابلے کے
بعد میزبان ملک انگلینڈ کو 6 رنز سے شکست دے کر فتح حاصل کی۔اس ٹورنامنٹ کو
اب تک 6 ٹیموں نے اپنے نام کیا ہے جو آئی سی سی کے کسی بھی بڑے ایونٹ کو
جیتنے والی ٹیموں کی اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ بھارت اور آسٹریلیا یہ
ٹائٹل 2 مرتبہ اپنے نام کر چکے ہیں جب کہ سب سے زیادہ 15میچ جیتنے کا اعزاز
بھی بھارت کے پاس ہے۔
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں اس سے قبل پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں تین
مرتبہ مدمقابل آچکی ہیں جن میں سے دو میں گرین شرٹس جب کہ ایک میچ میں
ہندوستانی ٹیم نے فتح حاصل کی۔2004اور 2009کے ٹورنامنٹ میں پاکستان نے
بھارتی ٹیم کو شکست سے دوچار کیا جب کہ 2013میںانگلینڈ اور ویلز میںمنعقد
ہونے والایہ ٹورنامنٹ پاکستان کے لیے تلخ تجربہ ثابت ہوا۔اس ٹورنامنٹ میں
جب پاکستانی ٹیم بھارت کے خلاف میچ کیلئے میدان میں اتری تو وہ نفسیاتی
دباؤ کا شکار تھی کیوں کہ اپنے ابتدائی دو میچ ہار کروہ پہلے ہی ایونٹ سے
باہر ہو چکی تھی۔ویسٹ انڈیز کے خلاف 170 اور جنوبی افریقہ کے خلاف 167 رنز
پر ڈھیر ہونے والی پاکستانی بیٹنگ لائن بارش سے متاثرہ میچ میں ایک مرتبہ
پھر بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی۔بارش کے سبب میچ کو 40 اوورز تک محدود
کردیا گیا اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ بھارت کے کپتان مہندرا سنگھ دھونی نے
ابر آلود موسم اور گیلی وکٹ پر ٹاس جیت کر پاکستانی ٹیم کو بیٹنگ کی دعوت
دی جو ہماری بیٹنگ لائن کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی اور پاکستان بیٹسمین یکے
بعد دیگرےپویلین واپس لوٹ گئے ۔بھارت نے مطلوبہ ہدف پورا کرکے پاکستان کو
شکست سے دوچار کردیااور وہ بہ مشکل گروپ اسٹیج تک ہی پہنچ پایا جب کہ بھارت
نے میزبان ملک کو شکست دے کر ٹرافی جیت لی۔
آئی سی سی کےساتویں ایڈیشن کا پہلا میچ یکم جون2017 کوگروپ اے کی ٹیم
بنگلہ دیش اور انگلینڈ کے مابین کھیلا گیا جس میں بھارت کو آٹھ وکٹوں سے
شکست ہوئی۔2؍جون کو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا میچ بارش کی نذر ہوکر ہار
جیت کے بغیر ختم ہوگیا۔ 5؍جون کو ایک مرتبہ پھر آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کا
میچ بارش کی نذر ہوکر بغیر ہار جیت کے ختم ہوا۔6جون کو برطانیہ اور نیوزی
لینڈ کے درمیان میچ ہوا جو برطانیہ نے 87رنز سے جیت لیا۔ 9جون کو نیوزی
لینڈ کا مقابلہ بنگلہ دیش سے ہوا جس میں بنگلہ دیش نے نیوزی لینڈ کو 5وکٹوں
سے شکست دی۔ 10جون کو آسٹریلیا اور برطانیہ کے درمیان میچ کھیلا گیا، اس
میں بھی بارش آسٹریلیا کی بدقسمتی کا سبب بنی اور اس کی حریف ٹیم نے یہ
مقابلہ چالیس رنز سے جیت لیا۔
گروپ بی میں 3جون کو پہلا میچ جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے مابین کھیلا
گیا، جسے جنوبی افریقہ نے 96رنز سے جیت لیا۔ 4جون کو بھارت اور پاکستان کے
درمیان میچ میں اس نے گرین شرٹس کو 124رنز سے ہرایا۔ اس میچ میں پاکستانی
کھلاڑیوں میں بدنظمی اور قیادت کا فقدان نظر آیا۔ یووراج سنگھ سمیت کئی
اہم بیٹسمینوں کے کیچز چھوڑ کر بھارتی ٹیم کی فتح کی راہ ہموار کی گئی۔
پاکستان کی بیٹنگ لائن بھی بھارتی بالرزکے ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور کوئی
بھی کھلاڑی جم کر نہیں کھیل سکا۔قومی ٹیم کے نوجوان کھلاڑی حسن علی نےفائنل
میچ میںپاکستان کی فتح کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں بتایا بھارت
کے خلاف ناقص کارکردگی کی وجہ سے انہیں جنوبی افریقہ کے خلاف میچ کے دوران
تماشائیوں کی تنقید کا نشانہ بننا پڑا اورانہیںگالیاںتک دی گئیں ، آئی سی
سی چیمپینز ٹرافی میں بھارت کے ہاتھوں شکست نے پاکستانیوں کو انتہائی
افسردہ اور غم و غصے میں مبتلا کر دیا تھا کیونکہ قومی ٹیم بغیر کسی مزاحمت
کے انتہائی بدترین طریقے سےشکست سے دوچار ہوئی تھی۔ اس میچ میں حسن علی نے
انتہائی اہم کیچ چھوڑا تھا جبکہ باؤلنگ اور بیٹنگ کےشعبے میں بھی و ہ
کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے تھے۔
لیکن 7جون کو پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ کے مقابلے میں جیت کا جذبہ لے کر
میدان میں اتری اور اس نےپروٹیز کو 19رنز سے ہرادیا۔ 8جون کو بھارت اور سری
لنکا کے درمیان کھیلا جانے والا میچ سری لنکا نے سات وکٹوں سے جیت لیا۔
11جون کو جنوبی افریقہ اور بھارت کے درمیان جب کہ پاکستان اور سری لنکا کے
درمیان کوارٹر فائنل مقابلہ ہوا، جس میں بھارت نے جنوبی افریقہ کو 9وکٹوں
اور پاکستان نے سری لنکا کو 3وکٹوں سے شکست دے کر سیمی فائنل کے کوالیفائی
کرلیا۔ آسٹریلیا کوارٹر فائنل مقابلے میںانگلینڈ سے شکست کھا کر سیمی
فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔ 14 جون کو سیمی فائنل میں پاکستان اور انگلینڈ
آنے سامنے ہوئے جس میں گرین شرٹس نے انگلینڈ کو آٹھ وکٹوں سے شکست دے کر
فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا جب کہ 15جون کو بھارت اور بنگلہ دیش کے
درمیان سیمی فائنل کے مقابلے میں بھارت نے بنگال ٹائیگرز کو 9وکٹوں سے شکست
دی۔
آئی سی سی ٹورنامنٹ کا آخری مرحلہ 20جون کواوول گراؤنڈ لندن میں بھارت
اور پاکستان کے درمیان منعقد ہوا۔کرکٹ کے تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ ایک
عرصے سے پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے ملک میںکرکٹ میچوں کا انعقاد کرنے میں
ناکام رہا ہے اور اسے جلاوطنی کی صورت حال میں نیوٹرل وینیو پر کرکٹ میچوں
کی میزبانی کرنا پڑتی ہے جب کہ پاکستان کرکٹ کے بعض اعلی عہدیدار بھارتی
ٹیم کو پاکستان میں کھلانے کے لیےاتنے بے تاب ہیں کہ ان کی طرف سے ہر جائز
و ناجائز مطالبات ماننے کے لیے تیار ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا
جارہا تھا کہ کہیں وہ سرکاری سطح پر قومی ٹیم ہارنے کے لیے سگنل دے
کربھارتی ٹیم کو فتح سے ہم کنار نہ کرادیں۔لیکن یہ سارے خدشات بے بنیاد
ثابت ہوئے اور پاکستانی کھلاڑی دو ہفتے قبل ہارنے والی ٹیم کے مقابلے میں
بالکل مختلف روپ میںبھارتی ٹیم کے مدمقابل آئےاور انہوں نےفائنل مقابلے
میںاسےکھیل کےہر شعبے میں فلاپ کردیا۔ بھارتی کپتان ویرات کوہلی نے ٹاس جیت
کر پاکستان کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی ، ان کے ذہن میں شاید پاکستان کی
بولنگ اٹیک چھایا ہوا تھا اورپاکستانی کھلاڑیوں کی بیٹنگ لائن کی کارکردگی
کا انہیں اندازہ نہیں تھا لیکن گرین شرٹس نے جب شاٹس کھیلنا شروع کیے تو ان
کی بیٹنگ بھارتی کرکٹرز کے لیے بھیانک خواب سے کم نہ تھی۔ پاکستان کی اننگز
کی خصوصیت فخر زماں کی سنچری تھی ۔اوپننگ جوڑی فخر زمان نے 128جب کہ اظہر
علی 59رن بنا کر آؤٹ ہوئے۔ انہوں نے ٹیم کوجو آغاز فراہم کیا اس کی وجہ
سے پاکستان اس چیمپئن شِپ کا سب سے بڑا سکور کرنے میں کامیاب ہو
گیا۔پاکستانی فاسٹ بالروں کی صلاحیتیوں کی توساری دنیا معترف تھی لیکن بیٹس
مینوں کی کارکردگی کا کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ آخری دس اوور زمیں
پاکستان نے 91رنز بنائے۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کا ساتھ قدرت نے بھی
دیا۔جب اظہر علی اور فخر زماں نے بیٹنگ کا آغاز کیاتو چوتھے ہی اوور میں
فخر زماں بھمرا کی گیند پر وکٹ کے پیچھے کیچ ہو گئے تھے، لیکن ریویو میں جب
ری پلے میں دیکھا گیا تو یہ نو بال تھی جو شاید کسی میگا ٹورنامنٹ کی سب سے
مہنگی نو بال ثابت ہوئی اور نئی زندگی ملنے کے بعد دونوں کھلاڑیوں نے ٹیم
کو ایک اچھا اسٹینڈ فراہم کیا۔محمدحفیظ نےصرف 37گیندوں پر 57رنز ناٹ آؤٹ
بنائے، جن میں تین چھکے بھی شامل تھے۔ دوسری جانب عماد وسیم نے 21 گیندوں
پرناٹ آؤٹ 25 رنز بنائے۔ |