پاکستان کے قومی کھیل ہاکی اور گلیمر سے بھرپور کرکٹ کے
کھیل کا عروج و زوال جاری ہے۔ انگلینڈ میں حال ہی میں ختم ہونے والی
چیمپئنز ٹرافی کا فائنل جیتنے سے پہلے پاکستان ون ڈے کرکٹ کی ریٹنگ میں
آٹھویں نمبر پر تھا اور اس وقت اسے یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر وہ آٹھویں نمبر
سے پھسل کر نویں نمبر پر چلا گیا تو شاید اسے کوالیفائی راؤنڈ کھیلنا پڑے
گا ۔ ویسے اب سننے میں یہ آرہاہے کہ ولڈکپ میں ٹیموں کی تعداد بڑھائی جارہی
ہے جس کے باعث کوالیفائی راؤنڈ کا خطرہ شاید ٹل جاتا ۔ کرکٹ اور ہاکی دونوں
کھیلوں سے مجھے عام پاکستانی سے زیادہ دلی لگاؤ اسلئے بھی ہے کیونکہ میں
دونوں کھیل سکول، کالج، یونیورسٹی، ویٹرن، شہر کی سطح تک کھیلتا رہاہوں۔
ہاکی میں 1980ء میں گورنمنٹ کالج نمبر1 ڈی آئی خان کی جس ٹیم نے پہلی اور
آخری مرتبہ انٹر کالجز میں چیمپئن شپ صوبہ سرحد جیتی میں اسکا ممبر تھا۔
جامع سکول کی ٹیم میں پانچ سال کھیلا جس نے کئی اچھے کھلاڑی پیدا کئے جن
میں بلال بھٹی پاکستان کی ٹیم کے کیمپ کیلئے اسی کی دہائی میں چنا گیا ۔
اسی طرح کرکٹ میں انٹر یونیورسٹی چیمپئن شپ کراچی، لاہور میں کھیلا ویٹرن
کرکٹ میں پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹرز کرنل نوشاد خان ، فرخ زمان ، علی ضیاء،
ذاکر خان، صفور رانا، ندیم عباسی و دیگر کئی فرسٹ کلاس کھلاڑیوں کیساتھ
پنڈی، اسلام آباد، پشاور، ایبٹ آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، لاہور، ڈیرہ
اسماعیل خان وغیرہ میں کھیل چکا ہوں۔ ان دو کھیلوں کے علاوہ میں وہ واحد
کھلاڑی ہو ں جو انٹر یونیورسٹی چیمپئن شپ میں بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس میں اپنی
یونیورسٹی اور اضلاع کی نمائندگی کرچکاہوں۔ کھیلوں سے بچپن سے لگاؤ تھا اور
ہے ۔ ہماری ہاکی ٹیم کا زوال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے ۔ ستر اور اسی
کی دہائیوں میں ہماری سکول اور کلب کی سطح کی ہاکی اتنی مضبوط اور معیاری
تھی کہ ہماری آج کی شہر کی سطح کی ہاکی اسکا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ لوگوں کی
دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ گراؤنڈ میں تل رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔
سکولوں، کالجوں کے درمیان مقابلے ایسے ہوتے تھے جیسا انڈیا اور پاکستان کے
درمیان کوئی مقابلہ ہورہا ہو۔ گلیوں، چھوٹے بڑے میدانوں میں ہاکی، کرکٹ
کھیلی جاتی تھی۔ ہمارے تعلیمی اداروں کو کھیلوں کے فروغ کیلئے فنڈز مہیاکئے
جاتے تھے ۔ ہرپاکستانی کو ہاکی کے کھلاڑیوں کانام معلوم تھا ۔ ہاکی کی
پرموشن کے باعث کھیل کا معیار اعلی تھا۔ کرکٹ، ہاکی، اسکوائش کے کھلاڑیوں
کو اداروں میں اچھی Jobs دی جاتی تھیں۔ اب سب کچھ الٹ ہوگیاہے۔ خاص کر ہاکی
کا کھیل جو ہمارا قومی کھیل ہے کیساتھ ہم نے سوتیلی ماں والا سلوک کیا۔
گراس روٹ کی سطح سے کھیلو ں کی سرپرستی ختم ہوگئی۔ جسکے باعث کھلاڑیوں کی
پیداوار کم ہونا شروع ہوئی اور حالت یہ ہوئی کہ اب پاکستان جو کبھی اولمپک
، ورلڈکپ، ایشین گیمز، چیمپئنز ٹرافی کافاتح گرینڈ سلیم ہولڈر تھا اب
تیرھویں نمبر پر ہے اور اسکے باعث کوئی اعزاز نہیں ہے۔ حالیہ ورلڈ کپ
ڈائرکٹ کوالیفائنگ راؤنڈ میں 10ٹیموں میں سے ہم نے ساتویں پوزیشن حاصل کی
سوائے سکاٹ لینڈ اور چین کے سب نے ہم کو بری طرح شکست دی۔ ہمارے روایتی
حریف بھارت نے ہمیں دو مرتبہ شکست دی۔ دونوں شکستیں بڑے واضح فرق سات ایک
اور چھ ایک سے ہوئیں جسکے باعث اب ہم نے ڈائریکٹ ورلڈ کیلئے انٹری کا موقع
گنوادیا اور اب ہمیں کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑے گا۔ حالانکہ اب حکومت کی
جانب سے بجٹ کا مسئلہ بھی درپیش نہیں ہے لیکن حالت یہ ہوگئی ہے ۔ ضرورت اس
امر کی ہے کہ فوری طورپر قومی کھیل ہاکی کو سکول، کالج، یونیورسٹی، اضلاع
کی سطح پر ہنگامی بنیادوں پر شروع کیاجائے تاکہ نئے کھلاڑی پیدا ہوسکیں۔
کھلاڑیوں کو اداروں میں اچھی نوکریاں دی جائیں اگر ہاکی کی زبوں حالی کا
سلسلہ ایسے ہی جاری رہا اور ہم نے دیگر کھیلوں کی طرح اس کھیل کو سیاست اور
نااہلیوں سے پاک نہ کیا تو ہم عالمی درجہ بندی میں وہاں پہنچ جائیں گے جہاں
ہماری فٹبال ہے۔ عید سے قبل ہماری کرکٹ ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی کو پہلی مرتبہ
جیت کر 20کروڑ پاکستانیوں، 30کروڑ ہندوستانی اور کشمیری مسلمانوں کو مسرت
کا وہ موقع فراہم کیا جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ وہ ٹیم جو آٹھویں
نمبر پر بنگلہ دیش سے بھی پیچھے تھی، جسکا نام فیورٹ کی لسٹ میں نہ تھا، نے
اعلی قائدانہ صلاحیتیوں ، قوم کی دعاؤں اور اپنے بہتر جارحانہ کھیل کے باعث
ساؤتھ افریقہ، سری لنکا، انگلینڈ اور بھارت کی ٹیم کے دانت کھٹے کئے۔ 1992ء
کے ورلڈ کپ کی فتح کے بعد یہ کرکٹ کے کھیل میں یہ جیت ہمیں مدتوں یاد رکے
گی اور ہمارے خون کو گرماتی رہے گی۔ خاص کر فائنل میں روایتی حریف بھارت کو
180رنز سے شکست دیکر بھارتی کرکٹ کے پنڈتوں، فلم سٹارز، کمنٹیٹرز کے منہ
بند کردئیے۔ بھارتی جو اپنی ٹیم کو 100 فیصد فاتح قرار دے چکے تھے، کو اتنی
بری شکست کی امید نہ تھی۔ اسی جیت نے دنیا بھر میں جہاں کرکٹ کھیلی اور
سمجھی جاتی ہے پاکستانی ٹیم کی دھاک بٹھادی۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی
لینڈ، جنوبی افریقہ، بھارت، ویسٹ انڈیز و دیگر ممالک کے مبصر ہماری ٹیم کے
گن گارہے ہیں۔ اس جیت سے نہ صر ف ہماری رینکنگ آٹھویں نمبر سے چھٹے نمبر پر
آگئی ، ہمارے کپتان سرفراز احمد کو ون ڈے کی ورلڈ الیون کا بھی کپتان
بنادیا گیا جبکہ اس الیون میں ہمارے چار کھلاڑیوں کو شامل بھی کیا گیا ہے۔
اب ہماری کرکٹ کا معیار بھی بہتر ہوگا۔ نوجوان نسل میں اس کھیل سے مزید
دلچسپی پیدا ہوگی۔ ٹیسٹ اور ٹی ٹونٹی کرکٹ میں ہمارا معیار پہلے ہی بہتر
تھا لیکن تینوں فارمیٹ میں بہتری آئے گی۔ سرفراز اینڈ ٹیم نے لوڈشیڈنگ،
گرمی ، بے روزگاری، مہنگائی، دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام کی ستائی ہوئی
عوام کو جیت کا تحفہ دیکر کسی حد تک ان کے لئے خوشیوں کا سامان پیدا کیا ہے
اﷲ کرے کہ ہم دیگر کھیلوں جن میں ہاکی، اسکوائش قابل ذکر ہیں میں بھی اپنا
کھویا ہوا مقام حاصل کرلیں لیکن اس کیلئے حکومتی سطح پر سرپرستی، میرٹ کی
ضروت ہے۔ جب تک ہم اپنی نچلی سطح کی نرسری کو دوبارہ چالو نہیں کرتے ہمارے
کھیل کے میدان آباد نہیں ہوتے ۔ ہم اپنے کھلاڑیوں کو عالمی معیار کی
سہولیات فراہم نہیں کرتے ہمارے خواب پورے نہ ہوں گے۔ ہمیں اپنے کھیلوں کو
کرپشن اور سیاست سے بھی پاک کرنا ہوگا۔ تعلیمی ادارے نرسری کیلئے بہترین
مواقع فراہم کرتے ہیں ہمیں ان اداروں میں تمام کھیلوں کی سرپرستی کرنا پڑے
گی۔ بصورت دیگر ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی دنیائے کھیل کی داستانوں میں۔ |