بسم اللہ لرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پوجتا ہوں اس بت بے داد گر کو میں ؟ غالب 115
کتنا غریب دل یہ کتنا امیر تعلق
میرا غریب دل یہ تیرا امیر تعلق امتیاز
میں نے جب شعور کی سرحدوں میں قدم رکھا تو شاید پہلا ادراک مجھے " محبت "
کا ہی نصیب ہوا ۔ مگر بدقسمتی یا خوش قسمتی سے " محبت " کا یہ ادراک
امیرانہ تھا اور دل میرا غریبانہ جیسا کہ ابتدا ہی میں میں نے اپنے شعر میں
لکھا ۔مگر میرا غریبانہ دل کبھی بھی اس امیرانہ محبت کو نہ پاسکا ۔ محبت
میں نا برابری ہمیشہ ہی رہی ۔ میں نے جس کی طرف بھی التفات کرنا چاہا ،
دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہا تو اس نے سب سے پہلے میرے اسٹیٹس کو دیکھا بعد
میں مجھے دیکھا ۔ تو یہ ہمیشہ ہی ایک کشمکش ،میرے دل اور اسٹیٹس کی جنگ رہی
کبھی بھی محبت کا روپ نہ دھار سکی ۔ ممکن ہے کہ اگر میرا اسٹیٹس بھی ان ہی
جیسا ہوتا تو دو پہلو تھے ایک یہ کہ میں بھی محبت کے بجائے ان کے اسٹیٹس کو
ہی دیکھتا تو یہ محبت نہ ہوتی کاروبار ہوتا! دوسرا پہلو یہ کہ ان سے شادی
کر کے چار پانچ بچوں کا باب ہوتا !! ! یوں میری "محبت " کا انجام ہوتا !!!
میرے دل نے بھی "محبت اور مذہب "کی جنگ لڑی ہے ۔ دنیا کا کوئی بھی دل اس سے
خالی نہیں ہے یہاں تک اللہ کے سب سے مقرب ، برگزیدہ اور معصوم عن الخطا
پیارے بندے پیغمبروں ؑ نے بھی لڑی ہے ۔ یعقوبؑ، یوسف ؑ کی محبت میں اپنی
بینائی کھو چکے ہیں۔ اب لوگ اس کی جان کے چلے جانے سے ڈر رہے ہیں :
﷽
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ
عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَنِيْ بِهِمْ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ
الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ 83 وَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَقَالَ يٰٓاَسَفٰى عَلٰي
يُوْسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيْمٌ 84
قَالُوْا تَاللّٰهِ تَفْتَؤُا تَذْكُرُ يُوْسُفَ حَتّٰى تَكُوْنَ حَرَضًا
اَوْ تَكُوْنَ مِنَ الْهٰلِكِيْنَ 85 قَالَ اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ
وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
86 يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ وَلَا
تَايْـــــَٔـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ
مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ 87 فَلَمَّا
دَخَلُوْا عَلَيْهِ قَالُوْا يٰٓاَيُّهَا الْعَزِيْزُ مَسَّنَا وَاَهْلَنَا
الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجٰىةٍ فَاَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ
وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِيْنَ 88
(یوسف)
یعقوب علیہ السلام فرمانے لگے بلکہ تم نے اپنے دل سے ایک بات بنا لی ہے سو
صبر ہی کروں گا جس میں شکایت کا نام نہ ہوگا (مجھ) کو الله سے امید ہے کہ
ان سب کو مجھ تک پہنچا دے گا (کیونکہ) وہ خوب واقف ہے بڑی حکمت والا
ہے۔)83( اور ان سے دوسری طرف رخ کر لیا اور کہنے لگے ہائے یوسف علیہ السلام
افسوس اور غم سے (روتے روتے) ان کی آنکھیں سفید پڑ گئیں اور (غم سے جی ہی
جی میں) گھٹا کرتے تھے ۔ (84) بیٹےکہنے لگے بخدا ( معلوم ہوتا ہے) تم سدا
کے سدا یوسف علیہ السلام کی یادگاری میں لگے رہو گے یہاں تک کہ گھل گھل کر
دم بلب ہوجاؤ گے یا یہ کہ بالکل مر ہی جاؤ ۔ (85) یعقوب علیہ السلام نے
فرمایا کہ میں تو اپنے رنج و غم کی صرف الله سے شکایت کرتا ہوں اور الله کی
باتوں کو جتنا میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔ (86) اے میرے بیٹو جاؤ اور
یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائی کو تلاش کرو اور الله کی رحمت سے ناامید
مت ہو بے شک الله کی رحمت سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو کافر ہیں ۔ (87)
پھر جب یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے کہنے لگے اے عزیز ہم کو اور ہمارے
گھر والوں کو (قحط کی وجہ سے) بڑی تکلیف پہنچ رہی ہے اور ہم کچھ یہ نکمی
چیز لائیں ہیں سو آپ پورا غلہ دے دیجیئے اور ہم کو خیرات (سمجھ کر) دے
دیجیئے بے شک الله تعالیٰ خیرات دینے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے ۔(88)
خواہاں تیرے ہررنگ میں اے یار ہم ہی تھے
یوسف تھا اگر تو خریدار ہم ہی تھے (آتش )
نوح ؑ اللہ سے اپنے بیٹے کی فرمائش کر رہے ہیں:
"وَنَادٰي نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِيْ مِنْ اَهْلِيْ
وَاِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِيْنَ 45قَالَ
يٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ۚ اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ڶ
فَلَا تَسْـــَٔـلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنِّىْٓ اَعِظُكَ
اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ 46قَالَ رَبِّ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِكَ
اَنْ اَسْـــَٔـلَكَ مَا لَيْسَ لِيْ بِهٖ عِلْمٌ ۭ وَاِلَّا تَغْفِرْ لِيْ
وَتَرْحَمْنِيْٓ اَكُنْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ 47 ھود
اور جب نوح علیہ السلام نے رب کو پکارا اور عرض کیا کہ اے میرے رب میرا یہ
بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور آپ کا (یہ) وعدہ بالکل سچا ہے اور آپ
احکم الحاکمین ( اور بڑی قدرت) والے ہیں ۔ الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ
اے نوح علیہ السلام یہ شخص ( ہمارے علم ازلی میں) تمہارے (ان) گھر والوں
میں نہیں (جو ایمان لا کر نجات پاویں گے بلکہ ( یہ خاتمہ تک) تباہ کار
(یعنی کافر رہنے والا ) ہے سو مجھ سے ایسی (محتمل) چیز کی درخواست مت کرو
جس کی تم کو خبر نہیں میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم (آئندہ) نادان نہ بن
جاؤ (یعنی ایسی دعا نادانی کی بات ہے) انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب میں
اس امر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں کہ (آئندہ) آپ سے ایسے امر کی درخواست
کروں جس کی مجھے خبر نہ ہو اور (گزشتہ معاف کر دیجیئے کیونکہ) اگر آپ میری
مغفرت نہ فرماویں گے اور مجھ پر رحم نہ فرما ویں گے تو میں تو بالکل تباہ
ہی ہو جاؤں گا ۔
پسر نوح با بداں بہ نشست خاندان نبوتش گم کردہ سعدی ؒ
ابراھیم ؑ اسماعیل ؑ کے محبت کی وجہ سے کن کن امتحانات میں ڈالے جا رہے ہیں
:
رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ ١٠٠فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ
١٠١فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى
فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى ۭ قَالَ
يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ
مِنَ الصّٰبِرِيْنَ ١٠٢فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ
١٠٣ۚوَنَادَيْنٰهُ اَنْ يّـٰٓاِبْرٰهِيْمُ ١٠٤ۙقَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا
ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ ١٠٥اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ
الْبَلٰۗــــؤُا الْمُبِيْنُ ١٠٦وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ
١٠٧وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ ١٠٨ۖسَلٰمٌ عَلٰٓي
اِبْرٰهِيْمَ ١٠9كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ ١١٠ الصافات
اے میرے رب مجھ کو ایک نیک فرزند دے۔ سو ہم نے ان کو ایک حلیم المزاج فرزند
کی بشارت دی۔ جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ابرھیم علیہ السلام کے ساتھ
چلنے پھرنے لگا تو ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ برخوردار میں خواب میں
دیکھتا ہوں کہ میں تم کو (بامر الہٰی) ذبح کر رہا ہوں سو تم بھی سوچ لو کہ
تمہاری کیا رائے ہے وہ بولے کہ ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہے آپ (بلا تامل)
کیجیئے انشاالله آپ مجھ کو سہار کرنے والوں میں سے دیکھیں گے۔ غرض دونوں نے
(خدا کے حکم کو) تسلیم کر لیا اور باپ نے بیٹے کو (ذبح کرنے کے لیے) کروٹ
پر لٹا دیا۔ اور (چاہتے تھے کہ گلا کاٹ ڈالیں اس وقت) ہم نے ان کو آواز دی
کہ ابراہیم علیہ السلام ! (شاباش ہے) تم نے خواب کو سچا کر دکھایا (وہ وقت
بھی عجیب تھا) ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں ۔ حقیقت میں یہ تھا
بھی بڑاامتحان۔ اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دے دیا۔ اور ہم نے پیچھے
آنے والوں میں یہ بات ان کے لیے رہنے دی۔ کہ ابراہیم علیہ السلام پر سلام
ہو ۔ ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں ۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی حکیم الامت اقبال ؒ
موسی ؑ کی ماں اس کی محبت کی وجہ سے ہی اس کو دریا میں ڈالنے کے مجبور ہو
جاتی ہے :
وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِيْهِ ۚ فَاِذَا خِفْتِ
عَلَيْهِ فَاَلْقِيْهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِيْ وَلَا تَحْـزَنِيْ ۚ
اِنَّا رَاۗدُّوْهُ اِلَيْكِ وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ Ċ القصص
اور (جب موسی علیہ السلام پیدا ہوئے تو) ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ
کو الہام کیا کہ تم ان کو دودھ پلاؤ پھر جب تم کو ان کی نسبت (جاسوسوں کے
مطلع ہونے کا) اندیشہ ہو تو (بے خوف و خطر) ان کو دریا (نیل) میں ڈال دینا
اور نہ تو (غرق سے) اندیشہ کرنا اور نہ (مفارقت پر) غم کرنا (کیونکہ) ہم
ضرور ان کو پھر تمہارے ہی پاس واپس پہنچا دیں گے اور (پھر اپنے وقت پر) ان
کو پیغمبر بنا دیں گے۔
ایمان والوں (مسلمانوں ) کے محبت کرنے کی صفت کو اللہ نے خود سے جھوڑا ہے
اور وہ بھی شدت کے ساتھ :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا
يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ
حُبًّا لِّلّٰهِ ۭ وَلَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ يَرَوْنَ
الْعَذَابَ ۙ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ
شَدِيْدُ الْعَذَابِ ١٦٥ البقرھ
اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو علاوہ خدا تعالیٰ کے اوروں کو بھی شریک (خدائی)
قرار دیتے ہیں ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت الله سے (رکھنا) ضروری
ہے اور جو مومن ہیں ان کو صرف الله تعالیٰ کے ساتھ نہایت قوی محبت ہے اور
کیا خوب ہوتا اگر یہ ظالم (مشرکین) جب (دنیا میں) کسی مصیبت کو دیکھتے (تو
اس کے وقوع میں غور کر کے سمجھ لیا کرتے) کہ سب قوت حق تعالیٰ ہی کو ہے اور
یہ (کہ سمجھ لیا کرتے) کہ الله تعالیٰ کا عذاب (آخرت میں اور بھی) سخت ہوگا
۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ
الْعٰلَمِيْنَ ١٦٢ۙ لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا
اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ١٦٣ الانعام
آپ فرمادیجئیے کے بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور
میرا مرنایہ سب خالص الله ہی کا ہے جو مالک ہے سارے جہان کا ۔ اور اس کا
کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اس کا حکم ہؤ ا ہے اور میں سب ماننے والوں سے
پہلا ہوں ۔ ؎
اس اعتبار سے ہماری اوقات ہی کیا ہے اس محبت اور مذہب کے جنگ میں ۔ ہارون
یحیٰ نے اپنی کتاب " خدا کی محبت" میں "محبت " کے بارے میں لکھا ہے :
Love is one of the greatest blessings that Allah gives to people.
Throughout their life, everyone wants to be with those who they love,
rely on, and are close to. Many of Allah’s blessings and their true
meanings can only be found in an environment where true love and
friendship exist. For example, a person who is enjoying a magnificent
view naturally wants to share his feelings of awe and happiness with
someone whom he loves. In the same way, the most magnificent feast or
the most beautifully furnished house may not seem very attractive if you
are alone. Allah has created people in such a way that they enjoy being
loved and loving others, and are pleased with friendships and closeness.
To be with those who live by the Qur’an’smorals and to have fulfilling
friendships and love with them is, for each believer, more enjoyable
than many other blessings. This is why Paradise, which Allah promises to
those faithful servants whom He loves and with whom He is pleased, is an
extraordinarily beautiful place where true love, friendship, and
closeness are lived with great exuberance.
ہمارے ایک شاعر نے اس کی عمدہ وضاحت کی ہے :
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا
متاع جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا
بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجا ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہوجانا
قدم ہے راہ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا
یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودہ شرط ہے یارو
کوئی آساں ہے کیا سرمدو منصور ہوجانا
نظر سے درو رہ کر بھی تقؔی وہ پاس ہے میرے
کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہوجانا
اوپر کے بیانات سے آپ میرے "نظریہ محبت " سے کچھ واقف ہوگے ہوں گے ۔ پھر
بھی میں کسی کے نظریے کی مخالفت نہیں کرتا مگر میرا نظریہ ہے کہ " مذہب
محبت کے بیچ کی دیوار نہیں، بلکہ محبت ہی مذہب کے بیچ کی دیوار ہے جو کبھی
بھی اس کو حقیقی محبوب سے ملنے نہیں دیتی ۔ اسی وجہ سے اوپر کی آیات میں ان
سب پیغمبروں ؑ کو تنبیہ ہوئی کہ وہ محبت کا حق کسی اور کو دینے لگے تھے ۔
محبت کا سب سے زیادہ حق محبت پیدا کرنے والے کو ہی ہے ۔ اللہ ہم سب کا حبیب
اور ہم اس کے محبوب ہیں ۔ وہ ہم سب کا محبوب اور ہم اس کے حبیب ہیں ۔ مگر
اس محبت کا غلط استعمال اور اس کی صحیح توجیح و مصرف نہ سمجھنے کی وجہ سے
ہم ہمیشہ ہی اس حقیقی محبوب سے دور ہی رہتے ہیں ۔ یہ محبت ہی محبت کی دشمن
ہے ۔ کہ مال کی محبت ، جائداد کی محبت ، کاروبار کی محبت، ڈگریوں کی محبت،
نوکری کی محبت، ماں باب کی محبت، بیوی کی محبت،اولاد کی محبت، عورتوں کی
محبت، شہرت ، جاہ و طلب کی محبت وغیرہ ، غرض یہ اور اسی طرح کی کو ئی نہ
کوئی مصروفیت یا محبت ہمیں حقیقی محبوب سے ہمیشہ دور ہی رکھتی ہے ۔ نمازوں
سے دور ، اللہ کی فرمانبرداری سے دور ،رسول اکرم ﷺ کے مبارک طریقوں سے دور
، قرآن عظیم سے دور ،صحابہ سے دور ، اسلام کے مقدس ، نورانی اور پاکیزہ
طریقوں سے بھی دور رکھتی ہے ۔ کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ ایک چیز کی محبت دوسرے
سے دور رکھتی ہے ۔ پھر " محبت " کا معاملہ تو بعد المشرقین ہے ۔ یہ ہندی کے
36 ہندسے کی طرح ایک دوسرے سے مخالف سمت میں سفر کرتے ہیں ۔ یہ ایک ہی قدم
اٹھاتے ہیں مگر ایک دوسرے سے دو دو قدم دور ہوتے ہیں ۔ اللہ نے محبت اسلئے
پیدا کی ہے کہ وہ اس کے ساتھ کی جائے اور سب سے زیادہ محبت کا حقدار اللہ
ہی ہے اور یہی "ایمان " و مومن کی صفت ہے ۔ "ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ "جس دن مسلمان اس محبت کا صحیح مفہوم کے ساتھ ساتھ
صحیح مصرف بھی سمجھ جائیں گے اسی دن ان کے تمام مسلے حل ہوں گے ۔حضور ﷺ دعا
مانگا کرتے تھے " اللھم انی اسئلکحبک وحب من یحبک ۔"میرے محبوب میں تجھ سے
تیری محبت اور تجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت کی بھیک مانگتا ہوں ۔سبحان
اللہ۔ابخود فیصلہ کیجیے: مذہب محبت کے خلا ف ہے یا محبت مذہب کے خلا ف۔
الحمد للہ میں نے اس کا ایک فیصلہ کر رکھا ہے جو کہ آپ کو سنایا ۔ میں اس
سب عارضی محبت کی دنیا سے نکل کر مذہب( دین ) کی طرف آیا ہوں ۔ لہٰذا میرے
لئے مذہب محبت سے زیادہ اہم ہے ۔ کیونکہ اسی نے مجھے محبت کے حقیقی مفہوم
سے آشنا کیا ۔ ان عارضی محبتوں میں عقل لب بام محو تماشہ ہی رہتی ہے ، مگر
عشق کے مقام میں وہ آگ میں کود جا نے کےلیے تیار ہوتی ہے ، اپنے بیٹے پر
چھری چلانے پر آمادہ کرتی ہے ۔ اپنے محبوب کے سامنے اپنی گردن جھکانےکے لیے
تیار کرتی ہے ۔ میدان جنگ میں اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سب کچھ لٹانے پر
ابھارتی ہے ۔ یہ سب محبت ہی کے " معجزے " ہیں :
میں کب تک نہیں آؤں گا روشنی میں بھٹکوں گا کب تک شب تیرگی میں
حقائق کی دنیا دکھا میرے مولا، نگاہوں سے پردہ اٹھا میرے مولا
حسینوں میں چین و سکوں غیر ممکن تو ہی خالق حسن ہے میرے محسن
اے دنیا ئے فانی تو ہر جائی لیکن تیری ذات ہے باوفا میرے مولا
نگاہوں میں میری سما میرے مولا ، مجھے اپنا بندہ بنا میرے مولا
کیا میں نے اغیار سے دل کو خالی ، میرے خانۂ دل میں آ میرے مولا
برف کی سل کو اگر سر راہ رکھا جائے تو وہ نہ صرف ضائع ہو جاتی ہے بلکہ کیچڑ
پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے راہ چلنے والوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے ان کے کپڑے
خراب ہوجاتے ہیں انہیں بچا کے آہستہ سے چلنا پڑتا ہے ۔ اگر یہی سل کسی ٹب
میں رکھی جائے تو اس کا پانی نہ صرف یہ کہ ضائع ہونے سے بچ جائے ان کو
تکلیف پہنچانے سے گریزاں رہے گا بلکہ یہ لوگوں کی پیاس بجھا کر ان کو ٹھنڈک
پہنچائے گا ، ان کے کئی کام آئے گا ۔ جو چیز جس کا حق ہے وہ اسی کو ملنا
چاہیے اب اگر کوئی یہ بات سمجھ ہی نہ پائے تو اس میں کوئی کیا کر سکتا ہے ۔
غالب نے اسی لیے بطور عاجزانہ دعا کہا تھا :
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور غالبؔ
پچھلے دو تین سالوں سے انٹرنیٹ کی سہولیت کی وجہ سے کشمیر کی اکثر نئی نسل
کو "پاکستانی " ڈرامے اور کچھ فلموں کو دیکھنے اتفاق ہوا جو کہ جنون کی
وادیوں میں داخل ہوا ۔ ان ہی میں کچھ سیریل اور فلمیں ایسی تھیں جن میں
اسلام کے کچھ مقدس اصولوں اوردینی علوم حاصل کرنے والوں (جن کو ہم طنزیہ "
مولوی" کہتے ہیں ) پر خفیف مگر زہر آلود طنز کیا گیا تھا ۔ان کو اس طرح پیش
کیا گیا تھا گویا کہ اسلام ہی ان کو یہ سب کچھ سکھاتا ہو۔ میرے کئی احباب
نے جب ان کو دیکھا تو مجھ سے اس بارے میں کئی عجیب عجیب سوال کئے ۔ ممکن ہے
کہ اس طرح کے کئی سوالات باقی لوگوں کے ذہنوں میں بھی اٹھے ہوں ۔ ان سوالوں
نے مجبور کیا کہ میں اپنی کچھ رائے اس بارے میں دوں بلکہ یہ میرے دل کی کچھ
کیفیات بھی ہیں جن کو میں آپ کے سامنے رکھاھ چاہتا ہوں ۔ان میں فلم "بول ،
خدا کے لیےاور " سیریل "خدا اور محبت " کے بارے میں کچھ گفتگو کرنا چاہتا
ہوں ۔ وہ اس وجہ سے کہ موخرالذکر دو کو میں نے خود دیکھا ۔ اول الذکر کے
بارے میں سنا ۔ "خدا کے لیے اور بول" تو بالکل خارج ازبحث ہے وہ اس وجہ سے
کہ یہ کھلم کھلا سازشی اور متعصب ذہن کی عکاسی کرتے ہیں ۔ ذاتی طو پر مجھے
" جیو " والوں کی " اسلام اور پاکستان دشمنی " پر کوئی شک نہیں اس لیے میرے
اعتراضات زیادہ تر ان پر ہیں ۔ مگر موخرلذکر پر حقائق و اخلاص کےباوجود غلط
پیغام (میسیج ) دے رہاہے ۔ ناول نگار کی میں دل سے عزت کرتا ہوں ممکن ہے کہ
مجھے ہی کچھ غلط فہمی ہوئی ہو اسلیے میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ میری
غلط فہمیوں کو دور کرنے میں میری اعانت کریں ۔ خصوصاً ہاشم ندیم صاحب کے
طرز تحریر سے میں کسی قدر متاثر بھی ہوا نیز "عبداللہ اور خدا اور محبت "
کو اپنی غلط فہمی دور کرنے کے لیے پڑھ کر میں نے ان کو ایک اچھی اسلامی فکر
رکھنے والا ادیب پایا۔اس لیے مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ایک ادیب ہوکر
انہوں نے اس میں تبدیلیوں کی اجازت کیسے دی اور وہ بھی ایسی تبدیلیاں جس سے
ان کے متعلق کئی بدگمانیاں ہوتی ہیں ۔ حالانکہ ناول میں اسلام اور مولوی
صاحبان کے حوالے سے ان کے نظریات ایسے نہیں ہیں پھر فلمانے کے دوران بہت سی
باتوں کو خلط ملط کر کے پیش کیا گیا ہے جیسا کہ " میڈیا والوں " کی عادت
ہوتی ہے ۔ مثلاً: مولوی متشدد و متردد ہوتے ہیں ،مولوی صرف چندہ پر ہی
زندگی گزاتے ہیں ۔ وہ امیروں کے ہی ٹکڑوں پر پل رہے " نیز "تبلیغی احباب
"بھی کچھ اسی طرح کے ہیں ۔مسجدوں ، مدارس اور خانقاہوں کی مرمتیں کمشنروں،
بیروکریٹ ، انڈسٹریالسٹوں اور بڑے لوگوں کی ہی مرہون منت ہے ۔ مولویانہ قسم
کے لوگ بیچارے معاشرے کے گرے پڑے دنیا اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے
محروم ہوتے ہیں ۔ وہ بیچارے نئے معاشرے اور نئے زما نے سے بیگانے کسی اور
ہی دنیا میں گم ہوتے ہیں ۔مولویوں کے بچوں کو اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا
کوئی حق نہیں ہوتا ۔ وہ بہت ہی دب کر زندگی گزارتے ہیں ۔ بالخصوص عورتیں
تونہایت ہی جبریہ زندگی گزارتی ہیں وغیرہ ۔ اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے
کہ جس طرح کےپابند شریعت مولوی کی تصویر اس میں دکھائی گئی ہے اس طرح مولوی
کی بیٹیاں پھر یوں نہیں چلتی ۔ نہ ہی یوں ہوتی ہیں اگر ایسا ہوا تو ان کی
تربیت ادھوری ہی رہی ہے ۔ "ایمان " جتنی سیدھی سادھی شریف زادی سے یہ توقع
ہی نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ اس طرح کی حرکات کا ارتکاب کرے ۔نیز اسلام میں
پردے کا اپنے ایک خاص نظام کے ساتھ ساتھ مفہوم بھی ہے ۔ محض کپڑے کو ہاتھ
سے پکڑ کر چہرہ چھپانا ہی پردہ نہیں !
ساتھ ہی میں اس بات کا اعتراف بھی کرتا ہوں کہ ہاشم ندیم نرم، ملائم اور
کومل جذبات رکھنے والا لکھاری ہے مگر کچھ نفسیاتی پریشانیوں میں بھی مبتلا
ہے!اسی طرح ناول کا کریکٹر حماد بھی بہت ہی معصوم ذہنیت کا انسان ہوتا ہے
اس کے ذہن میں سماج کے اونچ نیچ کا کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ وہ محبت کو ایک
پاکیزہ جذبے کے طور پر لیتا ہے ۔ وہ صرف دل کے جذبوں کی دنیا میں رہنا
چاہتا ہے ۔ مگر کیا ہمارے سماج میں یہ ممکن ہے ؟ہمارے سماج کو ان دو طبقوں
کے درمیان کس نے بانٹ دیا ؟ کس نے یہ تفاوت پیدا کیا ؟کیا حماد کا ایمان کے
ساتھ شادی ہوکے مسلہے حل ہوجاتا ؟کیا اس دنیا میں صرف شادی ، محبت ، پیار
ہی سب کچھ ہے ؟اصل میں ہمارے سماج کا مسلہد اس طرح کا ملن نہیں بلکہ اس طرح
آزادانہ اور جاہلانہ اختلاط ہے !اگر آج کے دور میں اس مجنوں بنا دینے والی
محبت کا جواز ہے ، پھر مجھے خوشی ہے کہ اللہ کی حدود کا اس درجہ خیال رکھنے
والے بندوں کا بھی جواز ہے ۔ اگر دوسری بات پر " کٹھ ملائت" کا الزام لگ
سکتا ہے ۔ تو پہلی بات بھی "دقیانوسی " سے کچھ کم نہیں ۔اس قسم کی دین داری
اگرپندرہ سو سال پرانی ہے تو اس قسم کی محبت اس سے بھی زیادہ پرانی ہے ۔
اسلام دنیا میں انسان کو فطری اور حقیقی انسان بنانے کے لیے آیا ہے ۔ زندگی
لفظوں کی تراش خراش کا نام ہے اور نہ خوابوں ، خیالوں میں گزارنے کا ، میں
خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں جینے کی کوشش کرتا
ہوں وہ اس لیے کہ ساری دنیا کے لوگ اسی کوشش میں جتھے ہوئے ہیں ۔ میں نے آج
تک افسانوں اور ناولوں میں بتائی جانے والی زندگی کا کہیں کوئی نقش بھی نہ
دیکھا ۔اس وقت مجھے اردو افسانوی ادب کے بڑےادیب منشی پریم چند کے وہ جملے
یاد آرہے ہیں جو موتیوں کی طرح پرونے کے قابل ہیں :
"وہ حسن و عشق کی داستانیں جن سے ہمارے رسائل بھرے ہوے ہیں ہمارے لیے بے
معنی ہیں اگر وہ ہم میں حرکت اور حرارت پیدا نہیں کرتے ۔ اگر ہم نے
دونوجوانوں کے حسن و عشق کی داستان کہہ ڈالی ، مگر اس سے ہمارے ذوق حسن پر
کوئی اثر نہ پڑا ، اور پڑا بھی تو صرف اتنا کہ ہم ان کی ہجر کی تکلیفوں پر
روئے تو اس سے ہم میں کون سی ذہنی یا ذوقی حرکت پیدا ہوئی ان باتوں سے کسی
زمانہ میں ہم کو وجد آیا ہو مگر آج کے لیے وہ بیکارہے اس جذباتی آرٹ کا
زمانہ اب نہیں رہا ۔ اب تو ہمیں اس آرٹ کی ضرورت ہے جس میں عمل کا پیغام ہو
، اب تو حضرت اقبال کے ساتھ ہم بھی کہتے ہیں :
رمز حیات جوئی جز درتپش نیابی
بہ آشیاں نہ نشینم زلذت پرواز
در قلزم آرمیدن ننگ است آب جو را
گہے بہ شاخ گلم گاہ برلب جویم ؎
میں کوئی مولوی صاحبان کا معترف نہیں ہوں مگر ایک زمانے سے ان کے خلاف جو
معاندانہ سازشیں رچائی جارہی ہیں اس کا جواب دینا ضروری ہے ۔ مولویوں سے
غلطیاں ہوئی ہیں اس کو نہ ماننے والے حقیقت سے نظریں پھر رہا ہے مگر آج تک
اسلام کی جو بھی حالت ہے اور جس صورت میں بھی وہ باقی ہے وہ انہی حضرات کی
دین ہے ۔ دوسری بات یہ کہ سب ایک جیسے نہیں ۔ جیسے کہ ہمارے ان "اسکالر ،
دانشوروں " کی طرح مغربی ممالک اور جامعات ( صنم کدوں ) سے پڑھ کر ہمارے
کئی حضرات نکلے ہیں ۔ علامہ اقبال ؒ، مولانا محمد علی جوہر ،ڈاکٹر حمید
اللہ ، ڈاکٹرثنا اللہ ، وغیرہ ۔ جنہوں نے اسلام کی شمع ر وشن کی اور
مولویوں کی آغوش میں بیٹھ کر بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ۔ جن تک ہمارے بہت
سے تند مزاجوں کی رسائی نہیں ۔ اپنے ہی دور کی ایک بڑی شخصیت قدرت اللہ
شہاب کا بیان ملاحظہ کیجیے جس سے شکوک کے کچھ پردے ہٹ کر حقائق کی شعاعیں
شاید نظر آنے لگیں:
"برہام پور گنجم کے اس گاؤں کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار میرے دل میں
مسجد کے ملا کی عظمت کا کچھ احساس پیدا ہوا ۔ ایک زمانے میں ملا اور مولوی
کے القاب علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے ( حتی کہ غیر مسلم بھی اپنے نام
کے ساتھ مولوی لکھواتے تھے ، مثلا ً مولوی نول کشور ـــــــ م۔ ا ۔ ا)لیکن
سرکار انگلشیہ کی عملداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی
اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا ، اسی رفتار سے ملا اور مولوی کی تقدس بھی
پامال ہوتا گیا ۔ رفتہ رفتہ نوبت بایں جارسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور
تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے ۔ داڑھیوں والے ٹھوٹھ
اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملا کا لقب ملنے لگا ۔ کالجوں ،
یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رحجان رکھنے والوں کو
طنزو تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا ۔ مسجدوں کے پیش اماموں پر
جمعراتی ، شبراتی ، عیدی ، بقر عیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے
والے قل اعوذ ئے ملّاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں ۔ لو سے جھلسی ہوئی گرم
دو پہروں میں کس کی ٹٹیاں لگا کر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے
کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی
رہتی ہے ، کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو
اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان
اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے ؟ دن ہو یا رات ، آندھی ہو یا طوفان ، امن
ہو یا فساد ، دور ہو یا نزدیک ، ہر زمانے میں شہر شہر ، گلی گلی ، قریہ
قریہ ، چھوٹی بڑی ، کچی پکی ، مسجدیں اسی ایک ملا کے دم سے آباد تھیں جو
خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسہ میں پڑا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھاکر گھر بار
سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کر بیٹھ رہا تھا ، اس کی پشت پر
نہ کوئی تنظیم تھی ، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی ۔ اپنوں کی بے
اعتنائی ، بیگانوں کی مخاصمت ، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے
باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو
چھوڑا ۔ اپنی استعداد اور دوسری توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ،
کہیں دین کا شعلہ ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی ، برہام پور گنجم کے گاؤں
کی طرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہو چکی تھی ، ملا نے اس کی راکھ ہی سمیٹ
سمیٹ کر باد مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا ۔ یہ ملا ہی کا
فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان ، کہیں نام کے مسلمان ، کہیں محض نصف نام کے
مسلمان ثابت سالم و برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں
کے درمیان آبادی کے اعدادو شمار کی جنگ ہوئی تو اب سب کا اندراج مردم شماری
کے صحیح کالم میں موجود تھا ۔ برصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے
مسلمان خصوصا ً ملا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے
کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیادی کو ہر دور اور ہر
زمانے میں قائم رکھا ۔ " ؎
اب ہاشم ندیم صاحب کے کریکٹر کی شرح بہ حقیقت حال سن لیجئے :
"میں ، حماد امجد ، پاکستان کے معروف تاجر خاندان کا چشم و چراغ کہ جس کے
آباو اجدا پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد بھی ، انتہائی اہم
حکومتوں پر فائز رہ چکے تھے تجارت جس کے گھر کی بندی ہے اور ملک کے اہم
سرکاری عمال جس کے گھر شام کی چائے پر طلب کیا جانا اپنے لئے باعث فخر
سمجھتے ہیں ، وہ حماد آج لندن کی اس بھیگتی صبح میں تنہا اور اداس ہیتھرو
ائر پورٹ کے آمد کی لاؤنج میں کھڑا تھا ، کہنے کو تو میری لندن آمد کا مقصد
یہاں کی مشہور کنگسٹن (Kings tone) یونیورسٹی کے شعبۂ معاشیات میں اعلیٰ
تعلیم دو سالہ ڈگری لینا تھا ،"13
"شاید شام کے چار بجے ہوں گے جب میری آنکھ کسی شور سے کھل گئی کامران کا یہ
فلیٹ ساؤتھ لندن ےپوش ایریا میں واقع تھا ۔ یہ دراصل سرخ انیٹوں سے بنے دو
منزلہ اپارٹمنٹس کی ایک لمی سی قطار تھی ، جس میں انتہائی چوڑی سڑکوں کے
درمیان یہ اپارٹمنٹس شاید آٹھ یا دس قطاروں میں بنے ہوئے تھے ، ہر قطار میں
آٹھ دو منزلہ اپارٹمنٹ اس طرح کے ساتھ ساتھ جڑے ہوئے تھے کہ سب مکانوں
کےآگے باغیچہ ایک لمبی سی قطار میں سیدھا چلا گیا تھا ۔"17
" ہمار ا گھرانہ شہر کے انتہائی متمول بااثر گھانوں میں شمار ہوتا تھا ۔
بابا بطور کشمنر ریٹائر ہونے کے بعد باپ داد کی وسیع و عریض زمینوں کے
انتظامات سنبھالتے تھے ۔ ۔۔۔امی خود ایک بہت بڑے زمیندار کی بیٹی تھی اور
ان کے اندر پڑھی لکھی جاگیردارنیوں کی تمام خصوصیات موجود تھیں ۔ ہم تین
بھائی اور ایک بہن سمیت یہ خوش حال گھرانہ زندگی کی مخصوص ڈگر پر رواں دواں
تھا ۔ بابا کے رابطے ملک کے اہم سیاست دونوں سے ہمہ وقت رہتے تھے اور ہمارے
ڈرائنگ روم میں ہر شام بابا کی بیٹھک ملک کے موجودہ حکمران طبقے کے وزیروں
سے رہتی تھی ۔۔۔۔ میری بہن مدیحہ سند کے ایک بہت بااثر خاندان میں بیاہی
گئی تھی ۔۔ مدیحہ بھی اسلام آ باد ہی میں رہائش پذیر تھی ۔ سجاد بھائی کی
شادی بھی پنچاب کے امرا خاندان کی بیٹی سے ہو چکی تھی ۔۔۔ ان کی اور سجاد
بھائی کی خوب جمتی تھی ، کیونکہ سجاد بھائی کو اپنے بزنس اور بیرون ملک کے
دوروں سے ہی فرصت نہیں تھی لہٰذا بھابھی اور امی خود ہی گھر کی پارٹیز اور
تقریبات وغیرہ اہتمام میں جتی رہتی تھیں۔ ۔۔ ہمارے گھر آئے روز کسی نہ کسی
بات کو بہانہ بنا کر پارٹی دی جاتی تھی ۔20۔21
"یا خدا ۔۔۔۔۔ ! یہ کیسا عجیب دن تھا ، کیسی کیسی انہونیاں ہونے کو جا رہی
تھیں ۔ مولوی علیم کی موجودگی میں میں ان کی بیمار بیٹی کے کمرے میں موجود
تھا ۔ ۔۔۔۔ ایمان کے لب ذراسے ہلے ، لیکن کسی کو کچھ سمجھ نہ آیا ۔۔۔ میری
نظریں بس ایمان پر جمی ہوئی تھیں ۔ ایمان نے ایک لحظہ مجھے دیکھا ، اس کے
ہونٹوں پر وہی ہلکی سی کائنات کو زندگی بخش دینے والی جانفزا سی مسکراہٹ
ابھری جو اس کے گالوں میں ہلکے سے گڑھے دال دیتی تھی ۔ اس کی نظر نے ایک
لمحے میں ہی میری نظر سے مل کر ساری کائنات کو تسخیر کر لیا ، کہ جیسے کہہ
رہی ہو کہ " محبت فاتح عالم " اور پھر اس کی آنکھیں بند ہوگئں ۔ میں کچھ
دیر تک اسے ساکت دیکھتا رہا کہ کب دوبارہ آنکھیں کھولے اور کہیں مجھ سے اس
کی کوئی نظر چوک نہ جائے ۔ لیکن اس نازنین کی نیند لمبی ہوتی گئی اور پھر
مجھے کہیں دور خلا میں سے مولوی علیم کی آواز آتی سنائی دی ۔
انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ " 262-263 ؎
اب ایک جھلک ان فلموں ، سیریلوں ، ڈراموں، ناولوں سے ہٹ کر حقائق کی بھی
دیکھ لیجیے :
جرمنی کے ایک مرد مجاہد مراد کرناز کی مشہور کتاب "گونتا نامو میں پانچ سال
"سے ہم کچھ اقتباسات نقل کرتے ہیں ،سن لیجیے :
"مجھے زندگی کے سادہ اور روزمرہ معمولات مثلاً نیند اور کھانے پینے کے قابل
تعریف ہونے کی اہمیت کے متعلق ایک نئی آگہی حاصل ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ
آزادی کی نعمت کی افادیت کے متعلق بھی ایک نئی بصیرت اور ادراک حاصل ہوا ہے
۔
ممکن ہے اب آپ میری زندگی کے منظر نامے کو اس طرح دیکھیں :" میں اب اپنے
کمرے میں بیٹھا ہوا ہوں اور دنیا کی ہر نعمت اور سہولت مجھے حاصل ہے ،
مثلاً انٹرنیٹ ، ٹیلی فون ، ٹیلیویژن ، اور کثیر مقدار میں اشیائے خوردو
نوش ، میں ورزش کرتا ہوں ، مختلف کھیلوں میں حصہ لیتاہوں ۔ لیکن اس وقت کیا
ہوگا جب کوئی میرے کمرے کو تالا لگا دے اور مجھے یہاں قیدکر دے ۔ ایک شخص
اس کمرے میں کتنی دیر تک بند رہ سکتا ہے ؟ چوبیس گھنٹے تو کوئی مشکل بات
نہیں اور پھر ایک ہفتہ بھی کسی مسلئے کا باعث نہیں ہوگا ۔ لیکن اگر یہ
سلسلہ مہینوں تک جاری رہے تو پھر کیا ہوگا اور شاید اب آپ اندازہ کر
سکتےہیں ان قیدیوں کی زندگی کس قدر مشکل ہے جو ابھی تک گوانتا نامو میں قید
ہیں۔
میں ان کی مشکالات اور مصآئب کے بارے (میں ) اکثر سوچتا رہتا ہوں جب میں
یہاں اپنے آرام دہ کمرے میں بیٹھا چاکلیٹ کھا رہا ہوتا ہوں ، مالٹے چھیل
چھیل کر کھا رہا ہوتا ہوں ، تو ان قیدیوں کو مار پڑ رہی ہوتی ہے ، انھیں
بھوکا رکھا جا رہا ہوتا ہے ۔ میں اپنے متعلق بہت کم سوچتا ہوں ۔ لیکن وہ
نوجوان لڑکے میرے تصور میں آجاتے ہیں جنہیں چودہ سال کی عمر ہی میں گرفتار
کر لیا گیا اور انھوں نے اپنی جوانی کے ایام اذیتیں سہتے گزار دیے ۔ میں اب
اسی طرح کھا ، پی اور سو سکتاہوں جس طرح پانچ سال قبل میں کھاتا ، پیتا اور
سوتا تھا۔لیکن میں ان لوگوں کو کبھی بھی نہ (نہیں )بھولتا جنہیں کیوبا میں
مصائب اور اذیتوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ جب میں ان لوگوں کے متعلق
سوچتا ہوں تو غمگین ہوجاتا ہوں۔
اللہ سے دعا ہےکہ وہ جلد رہا ہوجائیں۔ اور یہ قید خانہ بند کر دیا جائے ۔"
؎
ان اذیتوں کی تھوڑی سی تفصیل ایک معصوم قیدی کاشف انصاری کی زبانی سن لیجیے
:
"آنکھیں بند ، منہ بند ، کان بنداور پورے جسم کو زنجیروں میں جکڑ کر لے
جاتے تھے ۔۔۔ جب تحقیق کے لیے لے کر جاتے تب بھی یہی حال کرتے تھے ۔ خاص
طور پر جب گوانتا نامو لے جایا گیا تو بہت ہی تکلیف میں رکھا گیا ۔ کرسی کے
ساتھ بڑی سختی سے باندھ دیا گیا اور تقریباً چوبیس گھنٹے ہم اسی حالت میں
جہاز میں رہے ۔ بعض اوقات سانس بھی بند ہوجاتی تھی لیکن صبر کے سوا ہمارے
پاس کوئی چارہ نہ تھا ۔ نماز کے لیے بھی نہیں چھوڑا گیا ۔ اس لیے ہم صرف
اشارہ سے ہی نماز پڑھتے تھے ۔ وقت کا بھی اگرچہ پتہ نہیں چلتا تھا لیکن ہم
اندازے کے مطابق پڑھتے تھے۔" ؎
"Theprisoners were put like animals in chain-link cages with roofs
oncement pads out in the open—6ft. X 6 ft. X 7 ft.—where they werefully
chained and locked inside the cages. They were subjected tophysical and
mental torture, starved, forced to drink urine, andnot allowed to speak.
Prisoners were detained on “suspicion of terrorism” withoutcharges and
provided with no legal mechanism for appeal, condemning them to
long-term imprisonment.”؎
میرے زنداں کے ساتھی کہیں تم بھول نا جانا
اذیتوں کے کٹہروں میں جو ہم نے دن گزارے تھے
میرے زنداں کے ساتھی انہیں ہم بھول کیوں جائیں
اذیتوں کے کٹہروں میں جو ہم نے دن گزارے تھے
"شادی کی تقریب میری چچی کے مکان کے دالان میں منعقد ہوئی ۔ سیکڑوں لوگوں
نے اس تقریب میں شرکت کی ۔ ہم سب پھولوں سے سجی ہوئی ایک میز کے گرد بیٹھ
گئے۔ ہمارے ساتھ شاہانہ برتاؤ کیا گیا اور ہمیں بے شمار تحائف دیے گئے ۔ ان
تحائف میں ایک قرآن (ایمان کی علامت ) ، ایک موم بتی (روشنی کی نشانی )،
ایک آئینہ (نور اور بصیرت کی علامت) اور چاول ، چینی (زندگی میں خوشحالی
اور خوشی کی علامت) شامل تھے ۔
ہم(فاطمہ اور مراد )نے ایک دوسرے کو انگوٹھیاں پہنائیں جن کے ساتھ سرخ ربن
بندھا ہوا تھا، ہم دونوں خوشی کے عالم میں شرشار تھے ، میری والدہ کی خوشی
ان کے انگ انگ سے پھوٹ پڑ رہی تھی ۔ میرے والد بھی خوش تھے حالانکہ شام کو
بے شمار اخراجات ان کے منتظر تھے ، لیکن اس موقع پر وہ رقم کے معاملے میں
قطعی فکرمند نہ تھے۔۔" ؎
" پھر کسی نے میرا دائیاں ہاتھ اپنی گرفت میں لے لیا اور میر ی اس انگلی کو
جھٹکا دیا جس میں میں اپنی شادی کی انگوٹھی پہنے ہوا تھا ۔ میراخیال تھا کہ
یہ فوجی میرے (میری ) انگوٹھی مجھ سے چھین لینا چاہتا تھا وہ انگوٹھی جس پر
میرے ( میری ) بیوی کا نام کندہ تھا ۔ ان میں سے کسی ایک فوجی نے اس پر
چھپٹا مارا۔ میں نے اپنے بازو کو گولائی کی شکل دے کر اپنے ہاتھ کی مٹھی
بنانے کی کوشش کی ،لیکن میں اس قدر ناتوں اورر کمزور ہوچکا تھا کہ انہوں نے
میری یہ کوشش ناکام بنادی ، پھر میری انگلیوں کو ایک دوسرے سے علیٰحدہ کر
دیا اور پھر پلک جھپکنے میں میری شادی کی یہ انگوٹھی ان کے ہاتھ میں تھی ۔
پھر کسی فوجی نے یہ انگوٹھی زمین پر پھینک دی ۔ یہ انگوٹھی پختہ سڑک پر
چھنچھناتی ہوئی لڑھکتی جارہی تھی اور ساتھ ہی مرا دل بھی۔" ؎
"۔۔۔۔میں جلد سے جلد فاطمہ کو جرمنی لانے کی کوشش کووں گا ۔"
میرے والد نے میری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہےہوں۔ " وہ اب
نہیں آئے گی !"
ان کی یہ بات سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ اگرچہ ہم نے پانچ سال تک
ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا لیکن ہم دونوں بہرحال میاں بیوی تھے ۔ اسے
واپس آنا چاہیے !
"نہیں ، اب وہ واپس نہیں آئے گی !"
"کیوں واپس نہیں آئے گی ، میں اسے بلاؤں گا ، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ میں
اب آچکاں ہوں ۔"
" اس نے تمہیں طلاق دے دی تھی ۔"
میں اب بولنے کے قابل ہی کب رہ گیا تھا ۔ میرے والد بدستور کار چلاتے رہے ۔
پھر میں تمام راستے یہی دعا کرتا رہا کہ جو چیز ہمارے لئے طہتر ہے ، وہی
اللہ ہمیں عطا کردے ۔
٭٭٭
اب میں کیا کر سکتا تھا ۔ فاطمہ نے میری زندگی کی اطلاع نہ ہونے کے باوود
برسوں میرا انتظار کیا ۔ اب وہ مجھے طلاق دینے میں حق بجانب تھی ۔ وہ ابھی
جوان تھی اسے یہ خبر نہیں تھی کہ میں اب واپس بھی آؤں گا یا نہیں ۔ وہ ایک
اچھی خاتون تھی ۔ بعد میں میرے والد نے مجھے بتایا کہ اس نے تین سال تک
میرا انتظار کیا لیکن میرے متعلق اسے کہیں سے بھی ایک لفظ بھی سننے کو نہیں
ملا ۔ میرے والد کہنے لگے کہ اگر اسے معلوم ہوتا کہ تم رہا ہو جاؤ گے تو
پھر وہ ضرور انتظار کرتی ۔۔۔۔ وہ دس سال تک بھی تمہارا انتظار کرتی رہتی
اورآج فاطمہ کے لیے میرے دل میں بہت خوشی ہے ۔ مجھے امید ہے کہ اس نے شادی
کر لی ہوگی ۔ اور خوشگوار و پر مسرت زندگی گزاررہی ہوگی ۔ لیکن اب میرا اس
کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ، اور ماضی کی یاد کی حیثیت سے اب میں اسے بھلا
چکا ہوں۔" ؎
"رہائی پانے والوں میں مالا کنڈ کے ایک چھوٹے سے گاؤں ڈیری اللہ ڈھنڈ کے
پچیس سالہ شاہ محمد بھی ہیں ۔ انہیں معاشی کے ساتھ ساتھ ذہنی مسائل کا بھی
سامناہے شاہ محمد کا کہنا ہے کہ رہائی کے چھ ماہ کے بعد بھی راتوں کو اس
قید خانے کی یاد خوابوں میں تنگ کرتی ہے ۔
۔۔ان کے ہمسائیوں کا کہنا ہے کہ وہ اب ویسا نوجوان نہیں رہا جیسا کہ پہلے
تھا ، وہ اب بہت کم بولتا ہے ، ہنستا بھی کم ہے اور کھویا کھویا رہنے لگا
ہے ۔ جیل میں قید کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ گھرکی فکر اور زندگی سے بے
زاری نے اسے چار مرتبہ اپنی جان لینے پر مجبور کیا ۔" ؎
"خالد مجاہد بوڑھی ماں کی اکلوتی اولاد گھر میں نئی نویلی دلہن ابھی 2/
دسمبر کو پہلی بار ہی اپنے سسرال آئی تھی ۔ 10/ دسمبر کی شام نماز مغرب ادا
کرنے کے بعد خالد مجاہد گھر سے تیل خریدنے نکلے ، اپنے ہی محلہ میں فتح
محمد بلڈنگ کے سامنے منو چاٹ والے کی دکان پر چاٹ کھانے لگے ۔ ایک ٹاٹا
سومو آئی ۔ خالد مجاہد کو زبردستی اس میں سوار کاد اور بڑی ہی برق رفتاری
سے لے بھاگے ۔ وہاں موجود سینکڑوں لوگوں نے اس گاڑی کا تعاقب کیا بھلا تیز
رفتار گاڑی کو کہاں پاتے ، ناراض عوام تھانے پہنچ گئی ۔ اغوا کی رپورٹ درج
کرانے پر اصرار کرنے لگے لیکن رپورٹ درج نہیں کی گئی ۔ 16/ دسمبر کو ہی
راشٹریہ مانو ادھیکار آیوگ دہلی فیکس کیا گیا ۔ اگلے دن 17/ کو مڑیاہوں کے
ہندی اخبار مین یہ سرخیاں لگیں:
ایس ٹی ایف نے چاٹ کھا رہے یووک کا اٹھایا ۔ ( امراجالا، 17دسمبر)
ایس ٹی ایف نے یووک کو اٹھایا ، چھوڑا۔ (امر اجالا، 20/ دسمبر)
17/ دسمبر کو 35، 40 / لوگ چیرمین مڑیاہوں کے ساتھ مقامی تھانے گئے ۔
درواغہ نے بتایا کہ خالد کو س ٹی ایس ایف کے لوگ اٹھا لے گئے ہیں ۔ 15/
لوگوں نے اپنا بیان حلفی داخل کیا ۔ جسٹس نمیش نے اس کی علاوہ 45/ لوگوں سے
بھی بیانات لیے ۔ یہ تمام شاہد خلاد مجاہد کی بے گناہی چیخ چیخ کر بیان کر
رہے ہیں ۔ پھر بھی اس بے قصور کو حد درجہ ٹارچر کیا گیا ۔ جیل میں سڑائے
رکھا گیا ۔ بالآخر فیض آباد سے واپسی کے راستے میں خالد مجاہد کی پر اسرار
طور پر موت ہوگئی ۔" ؎
"8/ ستمبر 2006ء کو مالیگاؤں میں عین جمعہ کی نماز میں دھماکہ ہوا ۔ اس کیس
کا ایک اہم ملزم محمد زاہد مالیگاؤں سے پانچ سو کلو میٹر دور ایک مسجد میں
جمعہ کی نماز کی امامت کر رہا تھا ۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جو شخص اتنی
دور امامت کر رہا ہو وہ عین اسی وقت مالیگاؤں میں دھماکہ بھی کر رہا ہے ۔
اس مسجد کے مصلیان میں سے 215/ افراد نے اپنا بیان حلفی داخل کیا اور ساتھ
میں 75/ ہندوؤں نے بھی اپنا بیان درج کرایا کہ زاہد اس وقت ہمارے یہاں تھا
۔ مسجد میں نماز پڑھا رہا تھا ۔ اتنے لوگوں کی گواہی کے بعد بھی اس بے گناہ
شخص کو سخت ٹارچر ے گزارا گیا۔ 5/ سل ناحق جیل میں رکھا گیا ۔ جس سے اس کی
اپنی معاشرت پوری طرح تباہ ہوگئی ، گھر برباد ہوگیا ۔
درمیانہ قد کا 23 /سالہ نوجوان نورلہدی مالیگاؤں کو صرف دس منٹ کے لیے
مقامی پولیس اسٹیشن بلایا گیا اور واپس لوٹنے میں پورے پانچ سال لگے گیے۔8/
ستمبر 2006ء کو مالیگاؤں میں عین نماز کے وقت دھماکہ ہوتا ہے جس میں 37
مسلمان جاں بحق اور 330 مسلمان زخمی ہوجاتے ہیں اور الزام بھی مسلمانوں کے
سر آتا ہے ۔ مسلم نوجوانوں کو گرفتا کیا جاتا ہے ۔ انہیں میں سے ایک
نورلہدی اپنی داستان سناتے ہوئے کہتے ہیں:
" اس سے ٹارچر سیل میں پوچھا گیا کہ وہ ٹوپی کیوں پہنتا ہے ؟ اس نے ڈاڑھی
کیوں رکھی ہے ؟ وہ پانچ وقت کی نماز کیوں پڑھتا ہے ؟ کیوں نہیں وہ بھی
سلمان خان کی طرح جینس ٹی شرٹ پہتا کلین شیو رہتا! آخر سلمان خان مسلمان
نہیں ہے " ؎
" ۔۔۔۔تیاگی اور وہ لوگ میرے منہ میں پیشاب کرتے تھے اور اسے پینے کے لیے
مجبور کرتے تھے ۔ اگر تھوک دوں تو وہ مجھے پیٹتے تھے ۔۔۔ دن بھر میں ہزاروں
بار پولس والے مجھے ماں ، بہن کی گالیوں سے نوازتے تھے ۔ ۔۔ پھر مجھے فیض
آباد کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں میڈیا والوں نے وکلاء کے ساتھ مل کر
میری زبردست پٹائی کی ۔ ۔۔ محب وطن کو ملک کا غدار ثابت کیا جاچکا تھا ۔۔۔۔
وکیلوں کی ایک پیشی کی فیس دس لاکھ روپئے ہوتی ہے یعنی ہندوستان میں انصاف
کی قیمت دس لاکھ روپئے فی پیشی ہے ۔ ضعیف کہاں سے دے پائیں گے ۔ تب لازمی
ہے کہ غریب کو انصاف نہیں ملے گا۔ ہندوستان کی جیلوں میں 99/فیصد غریب لوگ
ہی تو سڑ رہے ہیں ۔ سارا قانون غریبوں پر ہی نافذ ہور ہا ہے ۔۔۔۔ صدر صاحب
آپ سے گزارش ہے کہ مجھے مرتیو ( مرضی کی موت ) دے دیں بری مہربانی ہوگی ۔ "
؎
عراق کے ابو غریب جیل میں مسلم خواتین کے ساتھ درندانہ تعذیب کی روداد
امریکی فوج کا ہی ایک فرد بیان کرتا ہے ۔ جس کی ڈیوٹی ان بے کسوں پر مظالم
کے پہاڑ ڈھانے کے لیے لگائی گئی تھی:
" عراق میں جب عورتوں کو گرفتار کیا جاتا ہے تو یہ تین ہیبت ناک مراحل سے
گزاری جاتی ہیں ۔ جس کی ابتدا ذلت آمیز سزا اور انتہا عصمت دری پہ ہوتی ہے
۔۔۔ کسی عورت کو گرفتار کر کے ہمارا پہلا کام ان کو جائے حراست پر لے جا کر
ہر ایک فوجی کے ذریعے گندی زبان استعمال کرتے ہوئے تمام جسم کو چھونا ہوتا
تھا ۔۔۔ پھر ان کے سب کپڑتے اتاروا کر آنکھوں پر پٹی باندھتے اور بازوں بند
کر کے تفتیشی آفیسر اپنے معاون فوجیوں کے ساتھ مل کر اس کی عصمت دری کرتے
تھے ۔ سوال و جواب کا مرحلہ (اس کار بد کے ) بعد کا تھا ۔ پھر اس کو توہین
آمیز دھمکیاں دیتیں کہ ہمیں اپنے ضلع کے بارے میں خفیہ اطلاعات فراہم کرو ۔
اگر ایسا نہیں کیا تو تمہارے ساتھ کار بد کی یہ عریاں تصوریریں ہم شائع
کریں گے ۔ جو ہر طرف تمہاری رسوائی کا سبب بنیں گی ۔۔۔۔ اسیری کے ان مہینوں
میں فوج کا ہر ایک تپتیشی آفیسر اور سپاہی اس کی عصمت دری کرتے ہیں۔ بعد
ازاں انہیں التسفیرات جیل میں بھیجا جاتا ہے" ؎
" میرا نام راجہ عطا محمد خان ہے مرری عمر ستر 70 سال ہے ۔ میری پیدائش
تچھہال، بمبیار شمالی کشمیر کے کے علاقے میں ہوئی ۔ میں نے اب تک 235/
نامعلوم افراد کو دفن کیا ہے ۔" ؎
غالب بھی بہ انداز دگر کچھ یہی تو کہہ گئے ہیں :
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورت ہوں گی جو پنہاں ہوگئیں
بس روکا میں نے اور سینہ میں ابھریں پہ بہ پہ
میری آہیں بخیۂ چاک گریباں ہوگئیں
رنج سے خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑی اتنی کہ آساں ہوگئیں ؎
یا یہی غزل :
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام کا نہنگ
دیکھیں کیا گذرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک ؎
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
ممکن ہے کہ تم کہو کہ میرے ان دلائل کا اس سے کیا تعلق ؟ مگر " تعلق ہر شے
کا ہر شے سے ہوتا ہے ۔" ؎ اس لئے میں اوپر کے ان قصوں (جن کے صرف قاش بیان
ہوئے مگر جو کہ زندگی کی کتاب کے اوراق میں بکھرے ہوئے میں نے پڑھے ہیں )
کے درمیان اپنے دل کے جذبات یوں بیان کرتا ہوں:
میں اکثر اس بارے میں سوچتا ہوں کہ کتنے بے گناہ ، بے قصور اسیر لوگوں کی
دلخراش رومانی کہانی ہے جو کہ ابھی تک بیان بھی نہ ہوئی حالانکہ وہ ہماری
ہی طرح انسان ہیں ، جذبات و احساسات ، خیالات و تصورات رکھتے ہیں ۔ ان کی
بھی خواہشیں اور ارمان ہیں ۔ خواب اور ان کی تعبیریں ہیں ۔ان کے بھی والدین
، بھائی ، بہن ، دوست و احباب ، عزیزو رشتہ دار ہیں ۔اس سے بڑھ کر انہوں نے
"عشق " بھی کیا ہے ، ہاں ! اپنی اہلیہ سے ۔ اپنی بیوی سے ۔ جن سے ان کی
شادی ہوچکی ہے ۔ جن سے ان کا نکاح ہو چکا ہے ۔ جنہوں نے پیار کے صحیح مفہوم
کو سمجھا ہے ۔ جسے ہم نے بھی سمجھا ہے ، مگر غلط سمجھا ہے ---- وہ جو ہماری
کہانیوں میں لکھا جا رہا ہے ۔ شاعری میں بیان کیا جا رہا ہے ۔ ناولوں ،
سیریلوں ، فلموں میں دکھایا جارہا ہے اور اس پر انہیں بہت ہی وسیع القلب
اور فراخ دل قرار دیا جار ہے ۔ ہر طرف سے شاباشی دی جا رہی ہے۔ انہیں تمغوں
سے نوازا جا رہے ۔ ستارۂ امتیاز ، آسکر اور نوبل انعامات سے ان کی پذیرائی
کی جاتی ہے ۔
اور جو "سچی محبت "( اسلامی تعلیمات کے مطابق نکاح)کرتے ہیں ان کی ان سب
چیزوں پر پابندی عائد کی جا رہی ہے ۔ نہ صرب پابندی بلکہ ظلم کی چکی میں
انہیں مسلسل پیسا جا رہا ہے ۔ ان کے ان خوابوں ، ان خواہشوں ، ان ارمانوں ،
ان آرزوؤں ، ان جستجووں ، کی کرچیں ہم سمیٹ رہے ہیں سمیٹ کر آپ کے سامنے
پیش کر رہے ہیں ہوسکتا ہے کہ تم بھی میری ہی طرح ان کے کسی درجہ میں اور
کسی طرح "ہمدرد " بن جاؤ ۔ ایسے ہمدرد ۔ جو اپنے اپنےگھروں میں آرام سے
گدیوں پر بیٹھ کر امت کی سر بلندی کے خواب دیکھتے ہیں۔دائیں ہاتھ میں
چائےکی پیالی،بائیں ہاتھ میں سگریٹ ، سامنے رنگین ٹی وی پر امریکی یا
ہندوستانی فلم یا پاکستانی ڈرامہ دیکھ رہے ہوں ! !!
ـــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــــــــــــــــــــــــاور یہ فلمیں یا سیریل دیکھ دیکھ کر ہم نے ہی
محبت کا صحیح مفہوم سمجھا ہے ۔ ہم ہی سارے جذبات کو محسوس کرنے پر قادر ہیں
۔ جو ہم سمجھتے ہیں وہ کسی اور کی سمجھ میں آہی نہیں سکتا۔ جن کو ہم نے
"طالبان، ملا ، مولوی اور دہشت گرد" قرار دیا ہے ۔ وہ سب نہ صرف دل سے بلکہ
جذبات و احساسات سے بھی عاری ہیں ۔ جذبات و احساسات سےلبریز تو صرف"
ایکٹرس" ،"ایکٹریسیز "،"سنگرس "، "ڈائریکٹرس"، "پروڈوسرس" ، "ان کمپنیوں کے
مالکان" ، اور "امیریکہ کے زرخرید غلام " ہی ہیں ۔جذبات صرف وہی ہیں جو یہ
"جناب " رکھتے ہیں ۔ اور "محبت " صرف اسی کا نام ہے جو یہ "حضرات " کرتے
ہیں:
درد~~~~~~~~
ممکن ہے !
کہی اور سے اٹھا ہوگا
جس سے یہ بنتا ہے
وہ گل نہیں رکھتے
ہم !-----صحیح بات ہے
وہ دل نہیں رکھتے
آہ ہوتی ہے کیا ؟
یہ نہیں جانتے
نالہ کہتے ہیں کسے ؟
ہم کو خبر کیا
کیسے کرنی ہے فریاد ؟
یہ نہیں معلوم
ہم تو پتھر سے بنے ہیں
دلِ سنگ ،سنگ دل کا رکھتے ہیں !!!
کوئی جذبہ نہیں کچھ احساس
اور آرزو ، خواب ، خواہشیں مفقود
ارماں ہوتے ہیں کیا ؟ تم بتلاؤ ۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ اوصاف ہیں
جو صرف آپ میں
یہ وہ باتیں ہیں جو تم سے متعلق
ہم نہیں جانتے کچھــــــــــــ
ہم نہیں جانتے !!!
درد~~~~~~~~
ممکن ہے !
کہی اور سے اٹھا ہوگا!!! ؎
~~~~~~~~~ وہبھی ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے ۔ میاں بیوی کے لیے یہ
فطری چیز ہے اور ہونی بھی چاہیے ۔ مگر مقدر نے ان کے ملنے سے پہلے ہی ان کے
درمیان جدائی لکھی تھی ، مگر عجیب بات ہے کہ اس درد جدائی کا کوئی نغمہ ،
کوئی گیت ہی نہیں ، کوئی گلہ کوئی شکوہ ہی نہیں ۔ ایسا کیوں ؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ ان
ناپاک عزائم جو اسلام دشمنی میں پیش پیش ہیں کی پیدا کردہ تھی :
؏ دھول چہرے پے رہی ہم آئینہ صاف کرتے رہے
"ظالموں نے بے قصوروں کو جیلوں میں سڑائے رکھنے کے لیے نئے نئے قانون کا
سہارا لے رکھا ہے ۔ یہ ظالمین پوری دنیا کو یہ باور کرانے میں کسی حد تک
کامیاب بھی ہیں کہ ان تمام سے نہ صرف انہیں بلکہ پوری انسانیت کو خطرہ ہے ؛
اس لیے ضروری ہے کہ انہیں پابند سلاسل کیا جائے ، ان پر پابندیاں لگائیں
جائیں ، جیلوں میں انہیں سخت ٹارچر کیا جائے ، اس لیے کہ یہ انسانیت کے
دشمن ہیں ۔ اسلامی حکومت کا قیام ، اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں ، یہ
قرآن پاک کو دستورِ حیات مانتے ہیں، یہ صرف اللہ کو ہی حاکم اعلیٰ ، حاکم
مطلق ، الہٰ ، رب مانتے ہیں ، ان کی سوچ بڑی خطرناک ہے۔ یہ کلمہ کی بنیاد
پر مسلم امت کو جوڑنا چاہتے ہیں۔ یہ امت کے اندر انتشار کے سخت مخالف ہیں ۔
یہ نہیں چاہتے کہ عورتیں بے پردہ بازاروں میں نکلیں یہ عورتوں کی آزادی کے
دشمن ہیں ۔ یہ ہماری پیاری تہذیب کے مخالف ہیں ۔ یہ نہیں چاہتے کہ زمین پر
جوا ، شراب ، ناچ اور گانا ہو یہ اختلاط مردو زن کے مخالف ہیں ۔ یہ باہمی
رضا مندی سے ہونے والے زنا کے بھی سخت مخالف ہیں …الغرض یہ ہماری پیاری
تہذیب اور ہمارے وضع کردہ دستورِ حیات کو ڈھانا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو
پوری دنیا میں جہاں بھی ہوں ان پر سخت پابندی عائد کی جائے ۔ ان کو سختی سے
کچلا جائے ، ان کو ایسی کال کوٹھریوں میں بند کیا جائے جس کے تصور سے ہی
روح کانپ اٹھے ۔ انہیں ایسی جگہوں پر قید رکھا جائے کہ اس کے تصور سے ہی
وحشت ہو ان پر تعذیب کے ایسے پہاڑ توڑے جائیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہوجائیں
۔ ان کو ایسے ایسے طریقوں سے عذاب دیا جائے کہ پھر اس کی بعد پوری دنیا میں
کوئی دوسرا ایسی فکر و سوچ نہ رکھے۔ " ؎
بہت سے لوگوں کو تو میاں مٹھو کی طرح ایک ہی سبق بڑھایا گیا ہے وہ اسی کو
دہرا رہے ہیں ۔ اسلام "محبت کا دشمن ہے"،"خدا کو محبت ناپسند ہے " نعوذبا
اللہ ۔ " مولوی " ،"مجاہدین"، اور "اسلام پسند" ہمیشہ "دودلوں کے بیچ"
دیورا بن کر حائل ہوئے ہیں ۔ اس لئے ان کے خلاف جتنا بھی پروپیگنڈہ ممکن ہو
سکے کیا جائے ۔ امریکہ، اس کے حواری، عالم کفر ،بڑے بڑے سیاستداں وہ سب تو
معصوم ہیں وہ تو کوئی "گناہ " بھی نہیں کرتے صرف " محبت " کرتے ہیں ۔جبکہ
اول الذکر "محبت " نہیں کرتے فحاشی کو روک کر "گناہ" کرتے ہیں ۔امریکہ اور
اسلام دشمن عناصر نے کتنوں کا سہاگ اجاڑا ، کتنے دلوں کی محبتوں کو ویراں
کیا وہ تو کسی کو نظر نہ آیا اس پر کسی"نام نہاد" ادیب کو ایک صفحہ لکھنے
کی توفیق بھی نہ ہوئی مگر "اسلامیوں " کے خلاف فلمیوں اور سیریلوں کی بھر
مار ہوئی ۔کل تک وہ "مجاہد " تھے کیونکہ وہ امریکہ کے مفاد کے عین مطابق
تھا اور آج وہی دہشت گرد ہیں کیونکہ اب امریکہ کے مفاد کو خطرہ ہے سبحان
اللہ:
؏ میخانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں
ساتھ ہی میرے سامنے روز کتنے چہرے گزرتے ہیں جن چہروں پر ہزاروں خواہشیں
جنم لیتی ہوئی مر جاتی ہیں ۔ جن کے دل میں "محبت " کے نہ جانے کتنے حسین
جذبے پنپ رہے ہوتے ہیں مگر وہ کبھی بھی لب بام تک نہیں آپاتے ۔ جن کا اظہار
بھی نہیں ہوپاتا جو دل ہی میں رہ کر مر جاتے ہیں ۔ کتنے غریب ، کتنے بھکاری
، جھگیوں میں رہنے والے ، جھونپڑوں میں زندگی گزارنے والے ، فٹ پاتھوں پر
سونے والے ، کوڑوں کے ڈھیر سے اپنا رزق نکالنے والے ، صرف ایک روٹی پر
گزارا کرنے والے ، گرے پڑے چیتھڑوں میں اپنا تن چھپانے والے ، بکھرے بالوں
والے ، جلی ہوئی کھالوں والے ، جوانیوں میں ہی بوڑھے ہونے والے ۔وہ صرف اور
صرف " محبت " کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر ان کے دلوں میں چھپی محبت کو کسی نے بھی
ابھی تک دیکھا نہ بیان ہوا ۔نیز زندگی کی کشاکش انہیں ایسا کرنے ہی نہیں
دیتی وہ مجبور ازل ہیں ، انہیں ہر دروزاے سے دھتکارا جاتا ہے ، ہر آنگن سے
نکالا جاتا ہے ۔ تو اس معاملے میں آپ کس "مولوی صاحب " کو قصور وار سمجھیں
گے ۔ میرے ان مذکروہ بالا دونوں منقولہ اقتباسات کی بہترین ترجمانی ساحر
لدھیانو ی کر چکے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ آپ سستی جذباتیت کے بادلوں کو
تھوڑی دیر کے لیے اپنے دل سے چھٹا کر حقائق کے تناظر میں ان کو دیکھ لیں گے
اور خود کو انصاف کافیصلہ سنائیں گے :
تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادئ رنگین سے عقیدت ہی سہی
میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پر الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
میری محبوب پس پردہء تشہیر وفا!
تونے ستوت کے نشاں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
یہ عمارت و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خون
میری محبوب! انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پر جلائی نہ کسی نے قندیل
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش در و دیوار، یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مزاق ؎
مسلمانوں میں اب جو تھوڑی بہت شرم و حیا باقی رہ گئی تھی یہ اس کے جنازہ
اٹھانے کے درپے ہیں ۔ کچھ پاک سیرت عورتیں "شرم کی آخری شمع" کو جلائے رکھی
تھی یہ اس کو بجھانا چاہتے ہیں ۔ اگر واقعی یہ ایسا چاہتے ہیں تو میں جیو
کے مالکان ساتھ ہی ناول میں کام کرنے والوں سے یہ کہتا ہوں کہ کئی " مولوی
صاحبان " نے یہ سریل دیکھ کر اپنا نظریہ بدلا کہ وہ اب آپ کے خاندان و گھر
میں رشتہ کرنے کے لیے تیار ہیں کیا آپ تیار ہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ؟اپنی بیٹی بہن کا رشتہ ان سے کرا دیجیے اور
ان سے بھی رشتہ مانگ لیجیے پھر بیک گراونڈ میں یہ گانا
چلائےــــــــــــــــــــ :
میرے محبوب کی صورت میں رب دیکھوں تو کیا سمجھوں
یہ ایمان ہے ، بغاوت ہے ، جنوں ہے یا حقیقتت ہے
میرا قبلہ تو کعبہ ہے، میرا تعویذ منت ہے
خدا کے روپ میں پنہاں ، میرے دل میں محبت ہے
کروں سجدہ ایک خدا کو پڑھوں کلمہ یا میں دعا دوں
دونوں ہی ایک خدا ور محبت
یہ دل میں کیسی الجھن ہے میں کیا مانگوں خدا جانے
محبت تو گناہ بھی ہے محبت ہی خدا بھی ہے
میں مر جاؤں نہ اس غم میں نہ کہہ پاؤں کہ چاہت ہے
میرا جینا عبادت ہے میرا مرنا محبت ہے
خدا کے نام پہ سجدے میں سر جھکنا عبادت ہے
وہ دل اللہ کا گھر ہے کہ جس دل میں محبت ہے
دونوں ہی ایک خدا ور محبت،"مولوی" اور محبت
میں اپنے دوستوں سے ایک بار کہہ رہا تھا کہ میں Hollywood والوں کو solute
کرتا ہوں ۔ اس وجہ سے کہ انہوں نے مغربی اور انگریز اقوام کی ترقی میں
کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ سائنس کی اہم ایجادات اور پیش رفت سے پہلے انہوں
نے کسی نہ کسی اعتبار سے ان کو بنیاد فراہم کی اور آئیندہ کا لائحہ عمل
بتایا اور آنے والے خطرات سے بھی اپنی قوم کو آگاہ کیا ۔ وہ وقت پر بیدار
ہوئے اور اپنی حفاظت کے تمام تر انتظامات کئے ۔ Bollywood اور اس میں کام
کرنے والوں کو میں ہیچڑا سمجھتا ہوں کہ ان کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں
( مراد یہ کہ کیا کیا کردار ادا کرنے پڑتے ہیں وہ حرکات بھی کر جاتے ہیں جس
کا ایک حساس اور سنجیدہ انسان سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔)یہ بات بھی کہ
وہ کبھی بھی عورت کے چکر سے باہر ہی نہ نکلے ان کی تمام تر کہانیوں کا
مرکزگھما پھرا کر عورت اور ا س کا حصول ہی ہوتا ہے ۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے
یہاں وہ نقل کرنا تطویل کا سبب ہوگا ۔ ہندو پاک کی ترقی میں سب سے بڑی
رکاوٹ یہی ہے یہاں کے عوام کو بالعموم اور نوجوانوں کو بالخصوص اس نے
ناکارہ بنا رکھا ہے جس دن ہندوپاک میں یہ فلمی اور ڈرامائی کلچر بند ہوگا
اس دن ان ممالک کے لیے ترقی کی شاہراہیں کھل جائیں گی۔ انگریزی کے ایک
مشہور شاعر نے اپنی قوم سے ( حالانکہ اس دور میں انہوں نے Isaac newton ,
Hobbes , Frances Bacon , Shakespeare , Milton, Benjamin Franklin جیسی
خلاق ذہنیتیں دنیا کے سامنے پیش کیں ) یہ گلہ تھا :
The French and we still change, but here is the curse
They change for better and we change for worse
John Dryden
تو اس دور میں ہمیں اپنے بارے میں کیا رائے قائم کرنی چاہیے شاید اس کی
طبیعاتی و نفسیاتی تشخیص دانائے راز ، حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ سے
بہتر کوئی نہیں کر سکتا تھا:
ہند کے شاعر و صورت گر ، افسانہ نویس
آہ ان کے اعصاب پے ہے عورت سوار
تعاو نو علی البر و تقویٰ ولا تعاونو علی الاسم و لعدوان
|