نظام سقہ

پاکستانیوں کی خود نمائ اور عوام کے پیسے کا بے دریغ استعمال

ہمایوں (بادشاہ وقت برصغیر ہند) مانگو کیا مانگتے ہو؟
نظام سقہ ’’سرکار مجھے ایک دن کا بادشاہ بنا دو‘‘
خواہش تو بہت بڑی تھی مگر بادشاہ وقت کیلئے انکار بھی ممکن نہ تھا کیونکہ نظام نے ہمایوں کی جان جو بچائی تھی اور اپنی مَشک کے سہارے دریا جو عبور کروایا تھا . خیر بادشاہ نے نظام سقے کو اپنا تاج پہنایا اور تخت پر بٹھایا اور خود محل میں چلا گیا رکیئے !کہانی تو اب شروع ہوتی ہے تخت پر بیٹھنے کے بعد نظام سوچ میں پڑ گیا کہ کروں تو کیا کروں تاکہ تاریخ میں مجھے یاد رکھا جائے اس نے حکم دیا کہ میرے نام کا سکہ رائج کیا جائے درباری بولے سرکار یہ تو لمبا کام ہے اور آپ صرف ایک دن کے بادشاہ ہیں، نظام سقہ! نہیں یہ کام ضرور ہونا چاہے خیر اس کا یہ حل نکالا کہ چمڑے کا سکہ جو ایک دن میں بن کر رائج ہو سکتا تھا وہی کر دیا گیا۔

یہ تو تھی مغلیہ دور کے نظام سقہ کی روداد ہمارے دور میں بھی پاکستان میں بہت سے نظام سقے آئے ہیں، جن کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی، دو فرلانگ کی سڑک بننے سے کئی سال پہلے اس پر کتبہ لگ جاتا ہے کہ سڑک عزت مآب فلاں ..... ایم پی اے کی کوششوں سے یا کی طرف سے اہل علاقہ کو تحفہ ایک ۱۰۰ میٹر کی ایک سڑک کے کتبے کو میں بھی جانتا ہوں جو ہمارے علاقہ کی تھی۔ سڑک تو سڑک کئی بڑے بڑے منوصوبوں کی تختی نہیں تختہ کشائی اور فیتہ کٹوائی (فیتہ کٹوائی سے یاد آیا ملک کے وزیر اعظم فرماتے ہیں جب خوشی ہوتی ہے تو فیتے نہ کاٹیں تو اور کیا کریں) کی تقریب کئی کئی ادوار میں کئی کئی بار ہوتی ہے ،اسلام آبادائیرپورٹ اور لیہ میں ایک پل اس کی زندہ مثال ہے، اور منصوبوں کے بارے میں مت پوچھیں ۔ اگر بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھا اس دور میں لوگوں کو صحت کی سہولیات کے سلسلہ میں صحت کارڈ تقسیم ہوئے تو اس پر’’ پاکستانی نظام سقہ‘‘ کی تصویر نظر آئی اب یہ نہیں پتہ چلتا کہ کارڈ کس کا ہے ا ور دوائی کی ضرورت کس کو؟ اور یہ بھی الگ بات ہے کہ ہسپتال ہیں یا نہیں ہسپتال میں دوائی ہے یا نہیں دوسری سہولیات بھی ہیں یا نہیں۔مذاق تو اب شروع ہوتا ہے جناب ایک طالبعلم محنت کرکے جب پاس ہوتا ہے تو اسکو جو سنند (سرٹیفیکیٹ) ملتی ہے اس پر ’’ پاکستانی نظام سقہ‘‘ کی تصویر ہوتی ہے گورنمنٹ کا کوئی اشتہار دیکھ لیں کسی بھی اخبار میں اس پر کئی کئی ’’ سقوں ‘‘کی تصویر یں ہوتی ہیں عوام کے پیسوں سے۔

جدید دور کے ایک اور نظام سقہ کی کہانی بھی پڑھتے جایئے اس دور کے نظام سقہ نے بہت زیادہ ترقی کی ہے اگرچہ اس دور میں سکے اب ووٹ کہلاتے ہیں جس کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی کما ل ہنر مندی سے ایک خود کار فیکٹری سے حکومت میں تبدیل کیا جاتا ہے اس نظام کے پاس بڑے بڑے ماہرین موجود ہیں جو خاندانی اور پشتینی ہنر مند ہیں اس دور کے ایک سقہ نے تیسری بار وزیراعظم بننے کا بل پچھلی حکومت سے پاس کروا کر تیسری بار جمہوری سقہ بن گیا ،یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان میں بادشاہت جمہوری نظام کے تحت آتی ہے کوئی بھی بچہ جمورا اَن دیکھی طاقتوں کے اشارے پر( ووٹ پر نہیں)، جمہوری بادشاہ بن کر ہر سیاہ و سفید کا مالک بن جاتا ہے، اور شیر شاہ سوری کے نقش قدم چلتے ہوئے ’’موٹر ویز، اورنج ٹرین، جنگلا بسوں اور سڑکوں کا جال (سڑکیں بنا کر اچھا کام کیا) بچھانے کے بعد اور کئی قسم کے بے کار منصوبوں کے بعد سوچ میں پڑ گیا کہ ایسا کیا کیا جائے کہ پاکستانی اور آنے والی نسلیں یاد رکھیں بلکہ ہاتھ لگا لگا کر دیکھیں کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا ! انہوں نے اپنی ’’داستان حیات‘‘چھپوا کر نصابی کتب کے درجے کا نوٹس اور پنجاب کی تمام لائیبریوں میں جاری کروادیا اور داستان حیات رکھوا دی ۔ اللہ سے دعا ہے کہ کوئی درباری ہمارے پاکستانی نظام سقہ کو یہ مشورہ نہ دے دے کی سرکار سکہ رائج الوقت میں تبدیلی کریں گے تو مغلیہ نظام سقہ کے ہم پلہ آئیں گے اورعز ت مآب سچ مچ کہیں قایداعظم کی جگہ اپنی فوٹو نہ چسپاں کروادیں اور لوہے کے سکے بھی رائج کروادیں ۔

Zahid Ikram Rana
About the Author: Zahid Ikram Rana Read More Articles by Zahid Ikram Rana: 9 Articles with 7455 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.