ہے یہ شام زندگی ، صبح دوام زندگی

کہتے ہیں دنیا اور آخرت ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ ضد سے مراد ہے مختلف ہونا، یعنی دنیا اور آخرت دو انتہائی الگ چیزیں ہیں۔

جو سکہ دنیا میں چلتا ہے، وه آخرت میں کسی کام کا نہیں، دنیا عارضی ہے جبکہ آخرت کی ذندگی ہمیشہ رہنے والی ہے،

دنیا دکھوں کا گھر ہے جبکہ آخرت میں ہر دکھ اور تکلیف سے نجات یقینی ہے۔

دنیا میں بھاگ دوڑ ہے، تقابل ہے، تجزیہ ہے، خوف ہے، آخرت میں ابدی سکون اور امن وآشتی ہے ۔

دنیا میں حسد ہے، جارحیت ہے ، جبکہ آخرت میں اخلاص هے، صلح ہے۔
دنیا خواہش ہے، حرص و ہوا ہے، غرض و غایت ہے، ظلم و ایذا ہے ، آخرت ہرخواہش ، ہرلالچ و طمع سے پاک ، روحانیت کی زندگی ہے۔

دنیا میں ہر دن ایک سعئ مسلسل اور آخرت ایک مسلسل ٹھہراو ہے۔

آج، انسان لوگوں میں گھرا ہوا ہے لیکن دلوں میں تنہائ کے ڈیرے ہیں ، اس دنیا کی تگ و تاز نےاس کی روح کو مضمحل کر دیا ہے، دنیاوی دوڑ دھوپ اور مستقبل کے ان گنت خوابوں کی تعمیر نےاس کے اندر توڑ پھوڑ کی بنیاد رکھ دی ہے۔

خواہش کا سفر، اکیلے پن کا سفر ہے، ایک ایسے مہیب اندھیرے کا سفر ہے جس میں دور دور تک اجالوں کا نشان تک نہیں!

زندگی سے بھر پور زندگی گزارنے کے ارمان نے انسان کو اندر تک کھوکھلا کر دیا ہے، ختم کر دیا ہے۔

تمام انبیا علیہم السلام کا مقصود رہا ہے كہ مخلوق خدا کو فانی چھوڑ کہ ابدی اختیار کرنے اور اس کی تیاری کرنے کی تلقین کی جائے۔
آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا،

"جس نے دنیا سے محبت کی، اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا"

مزید فرمایا، " دنیا کی محبت، ہر برائی کی جڑ ہے"۔

ہمارے دل اس دنیا کی محبت کا مسکن ہیں ، اورحضور نبی پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں،

"اللہ نے اس دنیا سے ذیادہ کوئی مبغوض شے نہیں پیدا فرمائی، جب سے اللہ تعالی نے دنیا کو پیدا فرمایا ہے، اس پر نظر تک نہیں ڈالی"۔

تو پھر اس دنیا میں بھیجے جانے کا مقصدکیا ہوا؟
جواب بہت آسان ہے۔ کسی بھی امتحان کو دینے کے لیے آپ کو کچھ عرصے اس کی تیاری کرنی ہوتی ہی، آپ syllabus خریدتے ہیں ، درس گاہ جاتے ہیں ، امتحان میں کامیابی کے لئے جو بن پڑتا ہے، وہ بھی کرتے ہیںں، جیسے راتوں کو جاگ کر تیاری اور اپنے پسندیدہ ٹی وی پروگرام وقتی طور پہ چھوڑ دینا، وغیرہ ۔۔

ایسا ہی ہے نا؟ لیکن ہم ایسا کیوں کرتیے ہیں؟

کیونکہ، اس امتحان کے کامیاب ہونے پر کئ باتوں کا انحصار ہوتا ہے، جیسے آپ کا اگلے لیول میں پروموٹ ہونا ، میرٹ پر آنا اورآ خر میں ایک اچھی جاب یا روزگار کا حصول ۔

بالکل اسی طرح، یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے، اور اس دنیا میں ہمارا کردار ایک سٹوڈنٹ کا ہے، آللہ تعالی کو صرف ہماری کامیابی مقصود ہے، جس کو پیش نظر رکھ کہ، اللہ نے قرآن کی صورت میں ایک مکمل کتاب اتاری، سکھانےکو اپنے نبی بھیجےاورآخر میں نبی پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم کی صورت میں اس ذندگی کو گزارنے کا ایک عملی نمونہ تخلیق فرمایا اورُحجت تمام کر دی۔

اس ُمستعار لی گئی مہلت کا استعمال ہم کس طرح کرتے ہیں؟ یہ اختیار اور فیصلہ ہمارا اپنا ہے، اورکافی حد تک نتیجے کی ذمہ داری بھی!

ُدنیا محض دھوکے کا گھر ہے، اور سچ کی تلاش کے لیے کہیں بہت دور اور باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں، سچ ہمارے دل کے اندر ہے، روح کے اندر ہے۔ میں اور آپ سچ سے جھگڑا تو کر سکتے ہیں لیکن اس سے کسی صورت انحراف نہیں کر سکتے ، اور جس نے اپنے اوپر سچ کے دروازے کھول لئے ، وہ پھر
کبھی سچ سے مدافعت نہیں کرتا، وہ بس تسلیم کرتا ہے۔

آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے تنبیہ فرمائی،

"جو شخص صبح کو اٹھا، اور دنیا ہی اس کی مطلوب و مقصود ہے، تو اللہ تعالی کے ہاں وہ کچھ بھی نہیں، اور اللہ اس کے دل پہ یہ چار آفتیں ڈال دیں گے۔

۱- ایسا غم جس سے کھی چھٹکارا ممکن نہیں
۲- ایسی مصروفیت جس سے کبھی فراغت نہیں
۳- ایسی تنگ دستی جس میں کبھی خوشحالی نہیں
٤- اور ایسی امید جس کی کوئی تکمیل نہیں۔

آپ کےامتحان کی تیاری کیسی جا رہی ہے؟
آپ کو تیاری کی کتنی مہلت دی گئی ہے؟
ایک سوال کا جواب ہر کسی کے پاس ہے اور دوسرے سوال کا جواب کسی کو نہی پتہ۔
اور یہی لاعلمی ہمیں تفکراورعمل کی دعوت دیتی ہے!
 

Aisha mohsin
About the Author: Aisha mohsin Read More Articles by Aisha mohsin: 13 Articles with 27976 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.