جموں وکشمیر ریاست کی سرمائی راجدھانی جموںسے 230کلومیٹر
دور سرحد ی ضلع پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ قدرتی حسن سے مالا مال ہے، یہاں
پرکئی حسین وجمیل علاقے ہیں جن پر قدرت خصوصی طور مہربان رہی ہے۔ پیرکی گلی،
سات جھیلیں(ست سر)، گرجن ڈھوک، رنجاٹی، شاہستار، بہرا م گلہ، مستان درہ،
جموں شہید، نوری چھمب وغیرہ ایسے علاقہ جات ہیں جوکہ اپنی مثال آپ ہیں جن
میں نوری چھمب ہی انتظامی وحکومتی سطح پر جاناپہچانا نام ہے باقی سبھی
علاقے Unexplored Natural Beautyکے ذمرہ میں آتے ہیں۔سرنکوٹ تحصیل میں دریا
سرن کے دونوں اطراف پہاڑوں سے اوپر جاکر پیچھے کی طرف میلوں دور تک سرسبز
میدان ، ہرے بھرے جنگلات، مختلف اقسام کے بکھرے بکھرے پھول، جڑی بوٹیاں،
دیودار اور بیاڑ کے پیڑ ہیں ، ایک عجیب ساسماں پیش کرتے ہیں۔ بیشتر حسین
وجمیل علاقے ایسے ہیں جن سے مقامی لوگ بھی ناواقف ہیں۔ یہاں صرف ہرسال جون
سے اگست ماہ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ جانے والے لوگوں کو ہی معلوم ہے کہ
قدرت کس قدر اس خطہ پر مہربان ہے۔ سرنکوٹ میں بہرام گلہ کے مقام سے اوپر
تقریباً10کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد سرسبز میدان، اونچے اونچے ٹیلوں، شاندار
درختوں اورخوبصورت علاقے کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے جنہیں مجموعی طور گرجن
ڈھوک کے نام سے جانا جاتاہے۔اس علاقہ کے آگے وادی کشمیر کے سیاحتی اعتبار
سے مشہور ومعروف علاقو ں کی شہرت بھی پھیکی ہے۔ گلمرگ، پہلگام، سونہ مرگ،
یوز مرگ اور جموں میں پتنی ٹاپ، بھدرواہ، جائی، پدری جیسے خوبصورت ترین
علاقوں سے گرجن ڈھوک کے نام سے مشہور سرنکوٹ کا یہ علاقہ کسی بھی طرح کم نہ
ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مذکورہ بالا مقامات سیاحتی نقشہ پرلائے جانے کی وجہ
سے عالمی وملکی سطح پر مشہور ہیں لیکن اس بارے مقامی انتظامیہ تک کسی کو
جانکاری نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں سرکار کی طرف سے بنیادی ڈھانچہ قائم
کیاگیا ہے جبکہ سرنکوٹ کے اس خطہ میں بنیادی ڈھانچہ تو دور شاہد کوئی ذمہ
دار افسر کے تصور میں بھی نہ ہوگا کہ اس قدر کوئی خوبصورت جگہیںہوسکتی ہیں۔
فرق صرف اتنا ہے کہ مذکورہ مقامات پراگر آپ جائیں گے تو آپ کو مہنگے مہنگے
ہوٹلوں ، ہٹس میں رہائش پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگے پکوان کھانے ملتے ہیں،
لیکن یہا ں پر آپ کو ہرسوں قدرت ہی قدرت کا جلوہ نظر آئے گا، رہنے کو مال
مویشی لے جانے والے لوگوں کی طرف سے تعمیرکچے گھر اور کھانے کو ، مکی کی
روٹی، لسی یا سبزی ملے گا۔ گرجن ڈھوک جوکہ ہزاروں کنال رقبہ پر مشتمل ہے ،میں
سرنکوٹ کے لسانہ، دھندک، سہڑی خواجہ، سہڑی چوہانہ، سنئی، پوٹھہ، بفلیاز،
مستان درہ، فضل آباد، بونی کھیت، سیلاں، پھاگلہ، ہاڑی مڑہوٹ، ہاڑی بڈھا،
لٹھونگ، پھاگلہ، ملہان ،بچاں والی کے علاوہ مینڈھر، منکوٹ، بالاکوٹ، لورن،
منڈی، ساوجیاں، پونچھ، کھنیتر، چنڈک، کلائی، بینچ، جھلاس، گگڑیاں کے ساتھ
ساتھ راجوری کے متعدد علاقوں سے لوگ جن میں پہاڑی ، گوجر بکروال، کشمیری
وغیرہ سبھی شامل ہیں، گرمائی ایام کے دوران مئی ماہ کے آخری ہفتہ کو اپنے
مال مویشیوں کے ساتھ جاتے ہیں اور وہاں اگست ماہ یا ستمبر ماہ کے پہلے ہفتہ
تک قیام کرتے ہیں۔تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم اس خطہ میں جانے والے
لوگوں کو کئی قسم کی دشواریوں کا سامنا رہتا ہے لیکن ان سب کے باوجود یہاں
جانے والا ہرعمر کاشخص قدرت کے کرشموں اور جلوہ گیری کو دیکھ کر اپنی
ہرمشکل بھول کرایک عجیب وغریب احساس سے محضوظ ہوتا ہے۔ ایک ایسا احساس ،جذبہ
اور سحرزدہ کیفیت جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا ۔ یہ صرف وہاں پر
جانے والا ہی محسوس کر سکتا ہے ۔امن وسکون، صحت افزا ماحول، تازہ آب وہوا،
صاف وشفاف پانی، پھولوں کی مہک میں انسان زندگی کی بھاگ دوڑ کو مکمل طور
بھول کر خود کو ایک ایسی جگہ پاتاہے جہاں پر نہ کوئی غم، دکھ، پریشانی،
مصیبت، ذمہ داری وغیرہ کا احساس نہیں ہوتاہے، جہاں کوئی سرحد، کوئی ذات،
کوئی بندش، کوئی مذہب، کوئی رنگ اور نہ امیری ، غریبی کا فرق نظر آتاہے۔یہ
جگہ ڈاکٹر سر محمد علامہ اقبال کی اس خواہش کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے جس
کا اظہار انہوں نے ایک نظم میں کیا ہے جس کے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں۔
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقدیر بھی فدا ہو
آزاد فکر سے ہوں، عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو
مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اسکے کٹھکا نہ کچھ میرا ہو
ہو دلفریب ایسا کوہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذان
میں اسکا ہم نوا ہوں وہ میری ہم نوا ہو
کانوں پے ہو نہ مرے دیر و حرم کا احسان !
روزن ہی جھونپڑے کا مجھ کو سازنما ہو
مال مویشیوں کے ہمراہ جانے والے لوگ بہرام گلہ تک گاڑیوں میں سازوسامان
لاتے ہیں اور وہاں سے آگے پیدل مشکل بھرا (Full of Adventures)سفر شروع
ہوتا ہے۔لوگ کپڑے، سردی سے بچنے کے لئے بستر اور دیگر ضروری سامان کندھوں
یا پھر گھوڑوں کے ذریعہ اپنی اپنی منزل تک پہنچاتے ہیں ۔ ضروری ادویات اور
مرہم پٹی وغیرہ کا بھی انتظام لوگ ایڈوانس میں ہی اپنے ساتھ رکھتے ہیں تاکہ
ضرورت پڑنے پر اس کو استعمال کیاجائے۔اگر کوئی شخص زیادہ ہی بیمار ہوجاتاہے
تو اس کو بہرام گلہ تک کندھوں پراٹھاکر لایاجاتاہے اور وہاں سے آگے کسی
نزدیکی ہیلتھ سینٹر یا پھر زیادہ ہی نوبت آپڑے تو سب ضلع اسپتال سرنکوٹ یا
ضلع اسپتال پونچھ لایاجاتاہے۔المعروف ’گرجن ڈھوک‘میں گلی آلہ، گودریاں جہاں
پر بہت بڑا میدان ہے اور ٹیلے ہیں، کے علاوہ شیطا ن پہڑا، کافی کٹھہ، پیر
پنجال زیارت، پرنالہ، چئیی، چھپر نالہ وغیرہ علاقے ہیں۔گودریاں میں ایک
مسجد بھی ہے ، یہیں پر کھلے میدان میں لوگ عید کی نماز بھی ادا کرتے ہیں
اور عید کے ہی دن گھڑ سواری اور بھینسوں کا آپس میں مقابلہ کرایاجاتاہے۔بڑی
تعداد میں نزدیکی ڈھکوں،بہکوں سے یہاں پر لوگ جوق درجوق جمع ہوکرسائنس
وٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی اس تیز ترار ، مسابقتی اور نفسانفسی والی زندگی
سے یہاں قرب الہٰی سے لطف اندوز ومحضوظ ہوتے ہیں۔ اس علاقہ میں مختلف اقسام
کی جڑی بوٹیاں، کنڈور، کتل اور ہَند کی سبزی ملتی ہے۔ دودھ، مکھن ،لسی،
گوشت وغیرہ بھی مال مویشیوں کے ہمراہ گئے لوگوں سے دستیاب ہوتاہے۔ اس علاقہ
میں بہت کم جگہ موبائل فون چلتا ہے۔ روشنی کے لئے آگ کے علاوہ لوگ سولر
لائٹ کا استعمال کرتے ہیں ۔ریاست جموں وکشمیر یا ملک کے دیگرحصوں میں
سکولوں میں جب موسم گرما کی چھٹیاں ہوتیں ہیں تو والدین اکثر پورے اہل خانہ
کے ساتھ سیروتفریح کے لئے گھر سے نکلتے ہیں ۔ ان کنبہ جات کی زیادہ ترجیحی
ہماچل پردیش ، وادی کشمیریا پھر ہندوستان کی جنوبی وشمال مشرقی ریاستوں کے
صحت افزا مقامات کی طرف رہتی ہے۔ اگر سرنکوٹ کے گرجن ڈھوک، سات جھیلیں(ست
سر)، جموں شہید، شاہستار، رنجاٹی جیسی دلفریب اور دلکش جگہوں پر جس قدر
قدرت مہربان تھی، ٹھیک اتنی ہی حکومت یا انتظامیہ ہوتی تو وثوق سے کہہ سکتا
ہوںکہ ہر شخص کی پہلی ترجیحی سرنکوٹ کی یہ حسین وجمیل وادیاں ہوتیں، جہاں
آکر وہ حقیقی معنوں میں نہ صرف ذہنی وقلبی سکون پاتے بلکہ یہاں کے شفایاب
ماحول میں کچھ دن گذارنے کے بعد کئی امراض سے بھی نجات پاتے مگر افسوس ہے
کہ سیاسی، حکومتی وانتظامی سطح پر یہ خط سیاحتی اعتبار سے یکسر نظر انداز
رہا۔ شاہد اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سرزمین سرنکوٹ پرشیخ محمد
عبداللہ، فاروق عبداللہ، بخشی غلام محمد، جی ایم صادق، غلام نبی آزاد، مفتی
محمد سعید اور عمر عبداللہ جیسا سیاسی لیڈر نہ پیدا ہوسکا۔صوبہ جموں میں
خطہ پیر پنجال (راجوری اور پونچھ)، وادی چناب (کشتواڑ، ڈوڈہ، رام بن اور
ریاسی)کے علاوہ کٹھوعہ اور اودھم پور وغیرہ میں موجود خوبصورت ترین
علاقوںکو سیاحتی نقشہ پر لاکر ان کی ترقی کے لئے مخلصانہ کوششیں کی گئیں
ہوتیں تو لاکھوں نہیں کروڑو ں کی تعداد میں ملکی وغیرہ ملکی سیاہ قدرت کی
جلوہ گیری سے محضوظ ہونے یہاں آتے۔جموں وکشمیر میں سیاحت کی جب بات آتی ہے
تو ہر ایک کے ذہن میں پہلا خیال وادی کشمیر کا آتا ہے ۔وادی چناب یا خطہ
پیر پنجال اعلیحدہ سے سیاحتی طور ملکی سطح پر اپنی پہنچان نہ بناسکے
ہیں۔جموں کو اعلیحدہ سے سیاحتی ترجیحی نہیں دی گئی۔یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں
جب جب امن وقانون کی صورتحال پیدا ہوئی تو ریاست میں آنے والے سیاحوں کی
تعداد یکایک گھٹ گئی ۔پچھلے چند سالوں میں ہربرس موسم گرما کے دوران کشمیر
میں حالات خراب ہونے کے سبب سیاحتی صنعت کو کافی دھچکا لگا ہے۔ یہ ایک
مسلمہ حقیقت ہے کہ سیاحتی شعبہ کو ترقی دینے کے معاملہ میں حکومت وانتظامیہ
کی زیادہ توجہ کشمیر کی طرف ہی مرکوز رہی ہے جس کی زیادہ ذمہ دار صوبہ جموں
خاص طور سے خطہ پیر پنجال اور وادی چناب کی مقامی سیاسی قیادت بھی رہی ہے
جنہوں نے صحیح معنوں میں لوگوں کی نمائندگی کاحق ادانہ کیا اور ان کی سیاست
کا دائرہ اختیار (پانی، بجلی، سڑک، راشن کارڈ، پولیس تھانہ، کورٹ کچہری سے
باہر تک ہی محدود رہا وہیں اس کے برعکس کشمیر میںسیاحتی صنعت کو فروغ دینے
کے لئے ہرکوئی انفرادی واجتماعی طور پر اپنا رول ادا کر
رہاہے۔ایڈونچرٹورازم میں دلچسپی رکھنے والے سیاحوں، ریسرچ
سکالروں،یونیورسٹی کالجوں کے طلبا اور مقامی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چاہئے
کہ وہ سرنکوٹ کی ان گمنام وادیوں کا دورہ کر کے ان کی ویڈیوگرافی یا تصویری
عکاسی کر نے کے ساتھ ساتھ اس کے بارے میں لکھیں اور سوشل میڈیا کے ذریعہ
باہری دنیا کو اس بارے بتائیں۔ |