اولاد والدین کے آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا سرور اورازدواجی
زندگی کا ثمرہ اور زندگی میں خوشیوں کے چشموں میں سے ایک چشمہ ہے۔ والدین
کے لیے اولاد زندگی کی زینت اور الہی انعام ہے، قرآن مجید میں صاف الفاظ
میں کہا گیا : مال اور اولاد زندگی کی زینت ہے۔ انسان کے پاس چاہے جتنا بھی
مال وزر اور دولت جمع ہوجائے اسے اُس وقت تک خوشی نہیں ملتی جب تک کہ وہ
اپنی اولاد کو خوشحال نہ دیکھ لے، لیکن وہ والدین قابل تعریف ہیں جن کی یہ
خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد نیک وصالح اور فرماں بردار بنے، خدا کی عبادت
کرنے والی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اتباع کرنے والی بنے۔
اللہ تعالی کا بھی یہ اصول رہا ہے کہ نیک گھرانوں سے نیک وصالح اولاد کا ہی
ظہور ہوتا ہے، ایک گھر کا نیک ہونا پورے خاندان اور کنبے کے نیک وصالح ہونے
کی علامت ہے، لیکن کبھی کبھی اللہ تعالی کا یہ اصول اور قاعدہ بدلتا بھی
ہے، جس طرح نوح علیہ السلام اور ان کے بیٹے کے قصے سے معلوم ہوتا ہے۔یہ اس
لیے کہ لوگ اس بات کو جان لیں کہ ہدایت اور اصلاح اللہ رب العزت کے ہاتھ
میں ہے، لہذا اولاد کی ہدایت، اصلاح اور دینی کامیابی کے لیے والدین کی
دعائیں اور کوششیں انتہائی ضروری ہیں۔اللہ تعالی سے لینے اوراپنی امنگوں،
امیدوں اور خوابوں کی تکمیل کے لیے دعا سب سے بڑا دروازہ ہے، اللہ تعالیٰ
وہ کریم ذات ہے جسے پسند ہے کہ بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور اپنی
ضروریات مانگے۔
الله يغضب إن تركت سؤاله .......... وبني آدم حين يسأل يغضب
(سوال چھوڑنے پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے، اور بنی آدم کا حال یہ ہے کہ
جب کوئی اس سے سوال کرتا ہے تو ناراض ہوجاتا ہے)
ایک مسلمان کی زندگی میں عموما اور اولاد کی اصلاح کے سلسلے میں خصوصا دعا
کی بڑی تاثیر اور اہمیت ہے، کیونکہ والدین کی اولاد کے حق میں دعا قبول
ہوتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : تین دعا قبول ہوتی ہیں
: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والد کی اپنی اولاد کے لیے دعا (رواہ ابن
ماجہ والترمذی وحسنہ ).
تاریخ کے صفحات ایسی مقبول اور سچی دعاؤں سے ُپر ہیں، جن کی وجہ سے گمراہوں
کو ہدایت ملی، بے راہ کو راستہ ملااور فاسق وفاجر کی اصلاح ہوئی، قرآن مجید
ہماری رہنمائی کرتا ہےکہ ہم اولاد کے لیے دعا کریں ، یقینا دعا ایک ایسا
راستہ اور طریقہ ہے جس کے ذریعے لوگوں کی اصلاح ہوئی، انھیں ہدایت کا نور
ملا اور والدین کو اس طریقے کے ذریعے اپنی اولاد کی تربیت کرنے میں کامیابی
ملی۔
یہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں، آپ کی عمر اس لائق نہیں تھی کہ
انھیں اولاد ہوتی، لیکن اُمید خدا برقرار تھی، بڑھاپے کی عمر میں اللہ
تعالی کے سامنے ہاتھ اٹھایا اور اولاد کی خواہش ظاہر کرتےہوئے کہا :
رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِين (اے میرے رب مجھے نیک اولاد عطا کر)
(الصافات:۱۰۰)
نتیجہ یہ ہوا کہ آسمان دنیا سے اعلان ہوا : فبشرناه بغلام حليم (ہم نے
انھیں ایک بردبار بچے کی خوشخبری دی)
خوشخبری لیے فرشتے آپ کے دربار میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : إنا نبشرك
بغلام عليم(ہم آپ کو ایک صاحب علم فرزند کی بشارت دیتے ہیں)، اور سورہ ہود
میں اس منظر کو اس طرح بیان کیا گیا :
{ ان کی بیوی جو کھڑی ہوئی تھی وه ہنس پڑی، تو ہم نے انھیں اسحاق کی اور
اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی }(سورہ ھود:۷۱).
ابراہیم خلیل اللہ نے اولاد کے حق میں صرف اس دعا پر ہی اکتفا نہیں فرمایا
بلکہ ان کے لیے برابر دعا کرتے رہے : آپ دعا کرتے تھے :
{رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن
نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ}(سورہ ابراہیم:۳۵)، اے میرے پروردگار! اس شہر کو
امن والا بنادے، اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناه دے۔
آپ یہ دعا بھی کرتے تھے: {رب اجعلني مقيم الصلاة ومن ذريتي ربنا وتقبل
دعاء}(ابراہیم:۴۰) اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری
اولاد سے بھی، اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما ،
اسی طرح آپ نے اپنی اولاد کے لیے یہ بھی دعا فرمائی :
{رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً
مُّسْلِمَةً لَّكَ}(البقرہ:۱۲۸). اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے
اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ ۔
یہ اللہ کے پیارے نبی زکریا علیہ السلام ہیں، آپ نے بھی اولاد کے لیے رب
تعالیٰ سے یہ دعا کی:
{رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ
الدُّعَاءِ}(آل عمران:۳۸). اے میرے پروردگار! مجھے اپنے پاس سے پاکیزه
اولاد عطا فرما، بے شک تو دعا کا سننے والا ہے۔
اللہ تعالی نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا اور یہ خوشخبری سنائی : اے زکریا!
ہم تجھے ایک بچے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحيٰ ہے، ہم نے اس سے پہلے
اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا ۔(سورہ مریم:۷)، ساتھ میں اللہ تعالی نے
اس بچے کی خوبیاں بھی اس طرح بیان کردی : (اے یحيٰ ! میری کتاب کو مضبوطی
سے تھام لے اور ہم نے اسے لڑکپن ہی سے دانائی عطا فرما دی۔ اور اپنے پاس سے
شفقت اور پاکیزگی بھی، وه پرہیزگار شخص تھا۔ اور اپنے ماں باپ سے نیک سلوک
کرنے والا تھا وه سرکش اور گناه گار نہ تھا۔ اس پر سلام ہے جس دن وه پیدا
ہوا اور جس دن وه مرے اور جس دن وه زنده کرکے اٹھایا جائے۔)یحی علیہ السلام
کو یہ ساری خوبیاں اور انعامات ان کے والد کے دعاوں کے نتیجے میں ملی ہیں۔
ما ں کی اولا د کے لیے دعا :
باپ کے ساتھ ساتھ اولاد کے حق میں دعائیں کرنے میں ماں کا بھی اہم کردار
ہے، قرآن مجید نے ہمارے لیے ایک منفرد مثال بیان کی ہے ، جس میں ایک خاتون
نے اپنی اولاد کے حق میں نیک دعا کی تھی،یہ مثال مریم علیہا السلام کی
والدہ اور حضرت عمران کی اہلیہ کی ہے، حضرت عمران کی اہلیہ اپنے پیٹ میں
موجود جنین کے لیے دعا کرتی تھیں کہ وہ اپنی ہونے والی اولاد کو رب تعالیٰ
کے گھر کی خدمت کے لیے وقف کردیں گی۔ قرآن نے اس دعا کو نقل کیا ہے :
إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ
إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ( اے میرے رب! میرے پیٹ میں جو کچھ
ہے، اسے میں نے تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مانی، تو میری طرف سے قبول فرما!
یقیناً تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے) (آل عمران:۳۵)۔ لیکن
حضرت عمران کے گھر میں جب بیٹی کی ولادت ہوئی، تو بھی ان کی اہلیہ نے اولاد
کے حق میں دعا کرنا نہیں چھوڑا بلکہ رب تعالی سے دعا کی کہ اس ہونے والی
بیٹی کی حفاظت فرمائے اور اس سے اچھی اولاد عطا کرے بلکہ اس سے بڑھکر یہ
بھی دعا کرلی کہ :
وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وِإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا
مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (آل عمران:36).( میں نے اس کا نام مریم رکھا،
میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناه میں دیتی ہوں۔)
اللہ تعالی نے اس ماں کی دعا کو قبول فرمایا، اس کی بیٹی میں برکت عطا کی
اور ماں کی دعا پر اس بیٹی کو دنیا کی تمام خواتین پر فضیلت سے نوازا، یہی
نہیں بلکہ بغیر باپ کے ان کے بطن سے حضرت عیسی علیہ السلام کو پیدا کرکے اس
بیٹی کو اپنی نشانیوں میں سے ایک عظیم نشانی کے طور پر بھی منتخب کرلیا اور
مریم علیہا السلام اور ان کے فرزند کو شیطان سے محفوظ کرلیا ، اور یہ سب
نیک ومبارک ماں کی دعاوں کی برکت سے ہوا۔
اب آئیے ہم سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر ڈالتے ہیں، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک ادا اور سنت ہر طرح کے خیر وبھلائی کی عملی مثال
ہے، آپ ﷺ اپنی بیٹی فاطمہ، ان کے شوہر حضرت علی ؓبن ابی طالب اور اپنے
نواسوں حسن وحسینؓ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ آپ
نے انس بن مالک ؓکے حق میں دعا کی تھی کہ اللہ تعالی ان کے مال اور اولاد
میں برکت دے تو حضرت انس لوگوں میں سب سے زیادہ مالدار ہوگئے تھے، اور اس
دعا کی برکت سے ان کی اولاد کی تعداد تقریبا ۱۰۰ کے قریب ہوئی تھی، نہ صرف
یہ بلکہ ان کی زراعت میں بھی اس قدر برکت ہوئی تھی کہ سال میں دومرتبہ وہ
اناج نکالا کرتے تھے۔
مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بچوں کو لایا کرتے
تھے، آپ ان کی تحنیک یعنی کھجور چباکر انھیں کھلاتے، ان کا نام رکھتے اور
ان بچوں کے لیے برکت کی دعا فرماتے تھے۔
ہر والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے دعا ئیں کرتے رہا کریں، ان کے
حق میں دعا کرنے میں کبھی بخل سے کام نہ لیں، خصوصا مبارک اوقات میں اپنی
اولاد کو دعاؤں میں ضروریاد رکھیں۔حدیث کی مشہور کتابیں بخاری ومسلم میں
رسول اللہ ﷺکی یہ حدیث موجود ہے کہ : ’’کوئی شخص جب اپنی اہلیہ کے پاس (ہم
بستری کے ارادے) سے آئے تو کہے : باسم الله، اللهم جنبنا الشيطان، وجنب
الشيطان ما رزقتنا، (اس دعا کے پڑھنے کے بعد ) اگر ان دونوں کی اس ہم بستری
کے نتیجے میں اولاد ہوئی تو اسے کبھی شیطان نقصان نہیں پہچاسکے گا۔(متفق
علیہ)
قرآن مجید میں نیک لوگوں کی یہ خوبی بتائی گئی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے
یہ دعا کرتے ہیں :
{ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ
أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا}(سورہ فرقان:۷۴). اے ہمارے
پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور
ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔
اللہ تعالی نے بندوں کو یہ دعا سکھائی ہے اور اس میں اولاد کے صرف آنکھوں
کی ٹھنڈک ہونے کی ہی دعا پر اکتفا نہیں کرایا گیا بلکہ اس سے آگئے بڑھ کر
اللہ تعالی نے یہ بھی سکھایا ہے کہ اولاد کے لیے بھی اور خود کے لیے متقی
وپرہیزگار لوگوں کا امام وپیشوا بنائے جانے کی بھی دعا کرو۔ لہٰذا اپنی
دعاؤں میں اپنی اولاد کو کثرت سے یاد کیجیے اور اولاد کی دنیا وآخرت میں
کامیابی کے لیے خاص طور پر دعا کرتے رہا کیجیے۔
اللہ تعالی ہماری اور تمام مسلمانوں کی اولاد کی اصلاح فرمائے اور انھیں
شیطان کے شرور اور فتنوں سے محفوظ رکھے۔ آمین
تحریر: مبصرالرحمن قاسمی |