قال اللہ تعالیٰ ’’ و لکل امۃ جعلنا منسکالیذکروا اسم
اللہ علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام ،فالٰھکم الٰہ واحد فلہ اسلموا و بشر
المخبتین ‘‘ ( الحج : ۳۴)
ترجمہ :۔ اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کے طریقے مقر ر فرمائے ہیں ، تاکہ
وہ ان چو پائے ، یعنی جانوروںپر اللہ کا نام لیں جواللہ نے انھیں دے رکھے
ہیں ،سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان
بن جائو، عاجزی کرنے والوں کو خو شخبر ی سنا دیجئے ۔
تشریح ـ:۔ منسکا ’’ نسک ینسک ‘‘ کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں اللہ کے تقر ب
کے لیے قربانی کرنا ،اسی طرح ذبیحہ ( ذبح شدہ جانور ) کو بھی ’’نسیکہ‘‘ کہا
جاتا ہے ، جسکی جمع ’’نسک ‘‘ ہے ۔ اس کے معنی اطاعت و عبادت کے بھی ہیں
کیونکہ رضائے الہی کیلئے جانور کی قربانی دینا بھی عبادت ہے ،اسی لئے غیر
اللہ کے نام پر یا ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کر نا غیر اللہ کی عبادت
ہے ۔
’’ قربانی ‘‘ عید الاضحی ( ۱۰ ذی الحجہ ) اور ایام تشریق ( ۱۱، ۱۲، ۱۳ ذی
الحجہ ) میں بندہ اپنے رب کی رضا اور خو شنودی کے لیے اللہ کے نام پر جن
جانوروں کو ذبح کر تا ہے اسے’’ قربانی‘‘ کہتے ہیں ۔ قربانی کی تاریخ بہت
پرانی ہے ابو البشر دادا آدم ؑ کے زمانے سے ہی یہ طریقہ چلا آرہا ہے کہ
لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے اپنے جان ومال کی قبرنیاں پیش
کیا کرتے تھے ،چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد حضرت ابراہیم علیہ
السلام کی سیرت طیبہ میں بھی قربانی کا واضح ثبوت ملتا ہے ،جیسا کہ ارشاد
ربانی ہے’’ ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب
العالمین‘‘(انعام:۱۶۲)ترجمہ: آپ کہ دیجئے کہ بالیقین میری نماز اورمیری
(قربانی)ساری عبادت اور میراجینا اورمیرامرنایہ سب خالص اللہ ہی کے لئے ہے
جو سارے جہان کامالک ہے۔ ، چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ اوراسماعیل ؑکی یہ ادا
اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ ان کے اس طریقے اور سنت کو زندہ
رکھنے کیلئے امت محمدیہ میں بھی جاری کردیا ۔
محترم قارئین ! قربانی ایک سنت موکدہ عمل اور عبادت ہے، ہر صاحب استطاعت
کیلئے بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنے مالک حقیقی کو راضی او رخو ش کرنے کے
لیے اپنے حلال مال سے جانور خرید کر اس کے راستے میں قربان کریں اور اس کا
تقر ب حاصل کرنے کی کو شش کریں ۔ ایک جانور (قربانی )گھر کے تمام افراد کی
طرف سے کافی ہے چنانچہ قربانی میں صرف انہیںجانوروں کا استعمال کیا جانا
چاہیے جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ ٰ و لکل
امۃ جعلنا منسکالیذکروا اسم اللہ علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام۔۔۔۔۔ ‘‘ (
الحج : ۳۴) اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کے طریقے مقر ر فرمائے ہیں ،
تاکہ وہ ان چو پائے ، یعنی جانوروںپر اللہ کا نام لیں جواللہ نے انھیں دے
رکھے ہیں، اس آیت کریمہ کے اندر اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ صرف
انہیں جانوروں کی قربانی کی جاسکتی ہے جن کا اطلاق’’ بھیمۃ الانعام ‘‘ پر
ہوتا ہے ، چنانچہ دوسری آیت کے اندر اللہ تعالیٰ نے چوپائے جانور اور ’’
بھیمۃ الانعام ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’ ثمٰنیۃ ازواج من
الضان اثنین و من المعز اثنین ۔۔۔ ‘‘ پیدا کئے آٹھ نر اور مادہ یعنی بھیڑ
میں دو قسم اور بکری میں دو قسم ۔ نیز دوسری آیت میں اونٹ اور گائے کا
تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’ و من الابل اثنین و من البقراثنین ۔۔۔۔
۔‘‘ (الانعام : ۱۴۳۔۱۴۴ ) اور اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دو قسم (نر اور
مادہ )۔ اس طرح چاروں کے نر اور مادہ ملا کر آٹھ ہو جائیں گے ، جسے ’’
بھیمۃ الانعام ‘ کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ انہی جانوروں کی قربانی جائز اور
افضل ہے ۔
رہی بات بھینس کی قربانی کی ،تو اس کے بارے میں فقہاء اور اہل علم کے
درمیان اختلاف پایاجاتا ہے ،بعض لوگ بھینس کی قربانی کو جائز مانتے ہیں اور
بھینس کو گائے کی صنف اور جنس سے مانتے ہیں اور گا ئے پر اس کو قیاس کرتے
ہوئے اس کی بھی قربانی کو جائز سمجھتے ہیں ، جب کہ یہ بات صحیح اور درست
نہیں ہے۔ کیونکہ دونوں کے رنگ روپ ، دودھ اور مزاج وغیرہ میں بہت نمایاں
فرق ہے۔ اور جن لوگوں نے بھینس کی قربانی کو درست نہیں مانا ہے انہوںنے ’’
بھیمۃ الانعام ‘ سے استدلال کرتے ہوئے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ ’’ بھیمۃ
الانعام ‘ کا اطلاق بھینس پر نہیںہوتا ہے ۔ اسی طرح صاحب مرعاۃ المفاتیح
علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ و الاحوط عندی ان
یقتصر الرجل فی الاضیحۃ علی ما ثبت بالسنۃ الصحیۃ قولا و فعلا و تقریرا
،ولا یلتفت الی مالم ینقل عن النبی ﷺ ولا الصحابۃ والتابعین رضی اللہ عنھم
‘‘ ( مرعاۃ المفاتیح : ۲ ۔ ۳۵۴) یعنی میرے نزدیک زیادہ احتیا ط ا سی میں ہے
کہ صرف ان جانوروںکی قربانی پر اکتفا کیا جائے جن کا ثبوت صحیح حدیثوں سے
قولا و فعلا اور تقریرا واضح ہو ، اور ایسے جانوروں کی قربانی کا ارادہ نہ
کیا جائے جن کی قربانی نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓو تابعین عظام ؒ سے
منقول اور ثابت نہیں ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نصوص شرعیہ اور اقوال سلف سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ
بھینس کی قربانی جائزاورثابت نہیں ہے، البتہ اس کا گوشت کھانا جائز اوردرست
ہے ۔
اس لئے ان جانوروں کی قربانی کرنی چاہئے جن کا اطلاق ’’ بھیمۃ الانعام ‘ پر
ہوتا ہے ( جس میں بھیڑ ،بکری ،اونٹ اور گائے ۔ نر و مادہ شامل ہیں ) اور
افضلیت کے اعتبارسے پہلے اونٹ ،پھر گائے ،پھر دنبہ او رآخرمیں بکر ا کی
قربانی کرنا چاہئے ، اس لیے کہ حدیث میں ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت
کرکے سب سے پہلے مسجد میں آئے تو اسے اونٹ کی قربانی کا ثواب ملے گا اور
جو دوسری گھڑی میں آئے گا اسے گائے اور جو شخص اس کے بعد آئے گا اسے دنبہ
کی قربانی کاثواب ملے گا ،اسی طرح بعد میں آنے والوں کے ثواب کا تذکرہ کیا
یہاںتک کہ خطیب منبر پربیٹھ جائے ( اسے بخاری ومسلم ؒنے روایت کیا ہے ) ۔
اس حدیث سے فقہاء نے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ حسب ترتیب اور حسب
استطاعت ( اونٹ ،گائے ،دنبہ اور بکر ے کی )قربانی کرنی چاہیے ،جبکہ گائے و
اونٹ کی قربانی ایسے مقامات پر نہیں کرنا چاہئے جہاں اجازت نہ ہو اور
فسادات و اختلافا ت کا خوف ہو ،اسلئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں احسان
اور امن و امان پید اکرنے کا حکم دیا ہے ،چہ جائیکہ ہم گائے ذبح کرکے سماج
و ملک میں فساد پھیلانے کا سبب بنیں ۔ لہذا ہمیں بھی صرف بھیمۃ الانعام
(اونٹ ،گائے ،دنبہ اور بکرے )کی قربانی کا اہتمام کر ناچاہئے نیز بھینس اور
دیگر جانوروںکی قربانی سے اجتناب کرنا چاہئے ۔ جن کا ثبوت نص صریح سے واضح
نہیںہے ۔
دعا ہے کہ اللہ ہمیںاخلاص نیت کے ساتھ یوم النحر اور ایام تشریق میں حلال
مال سے جانور خرید کر اپنی راہ میں قربان کرنے کی تو فیق عطا فرما۔ ا ٓمین
۔ |