مرے چارہ گرکو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب ہم نے چکا دیا۔
اب تقریباً ایک مہینہ ہونیوالا ہے لیکن اس جیت کی گھن گرج جاری ہے۔
کرکٹ چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کا اپنے روائتی حریف بھارت کو ہرانا
ناممکنات میں سے تھا اور پھر ایسے کر وفر سے ہرانا واقعتا کچھ کرشماتی لگ
رہا تھا ۔بقول ایک بھارتی کمنٹیٹر کے "ہمارے کھلاڑیوں کا یہ حال تھا کہ تو
چل میں آیا"
انکے سارے مشہور بلے باز ریت کا ڈھیر ثابت ہوئے ۔ ۱۸۰ رنز کی عبرت ناک شکست
۔ پاکستان اور پاکستانیوں کا خون بڑھانے ، گرمانے انکا وقار اور خود
اعتمادی بحال کرنے کے لئے ایک نسخہ کیمیا ثابت ہوئی ۔
شمالی امریکہ کے مشرقی زون کے وقت کے مطابق سحری اور نماز فجر سے فراغت کے
کچھ دیر بعد ہی میچ شروع ہوا تھا اٹھارہ جون کی یہ مبارک صبح تھی کہ کھیل
کا آغاز ہوا ۔بھارت نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی اور پھر
پاکستانی کھلاڑیوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی ۔میں تو پچھلے کچھ عرصے سے یہ
بھی نہیں جانتی تھی کہ پاکستان کی موجودہ ٹیم کے کھلاڑیوں کے کیا نام ہیں ؟
انگلینڈ کو سیمی فائنل میں جب شکست ہوئی تو مجھے سمجھ میں آیا کہ " سرفراز
دھوکہ نہیں دیگا" کے کیا معنی ہیں ۔ اسکے بعد سوشل میڈیا پر ایک سے بڑھ کر
ایک دلچسپ پوسٹ آنے لگے سب سے اچھا تو وہ لگا کہ "سرفراز سے حلفیہ بیان
لیاجائے کہ ٹرافی جیتنے کے بعد وزیراعظم بننے کی ضد نہیں کریگا۔۔"
مسلمان کی شان کے مطابق کھلاڑی جیت کے بعد اپنے رب کے حضور سر بسجود ہوئے۔
کئی برس پیشتر ۱۹۹۲ کے رمضان میں ہی عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے
کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا تھا جسکی گونج ابھی تک باقی ہے ۔ اسکے بعد کرکٹ تو
جیسے تیسے چلتی رہی لیکن کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ پےدرپے
مختلف واقعات کی بناء پر اور خاصکر سری لنکن ٹیم پر حملے کے افسوسناک واقعے
کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ مقابلوں کے کھیلنے پر پابندی لگ گئی اور
کرکٹ ٹیم کا معیار کافی گھٹ کیا ۔ بھارت نے تو ایک طرح سے اس بحران کا بھر
پور فائدہ اٹھایا ۔ پھر انتہا پسند ہندؤوں نے پاکستانی ٹیم کی بھارت آنے
اور کھیلنے کی سخت مخالفت کی ۔پھر پاکستان کے میدانوں کے بجائے دوبئی اور
شارجہ کے میدانوں میں کرکٹ پروان چڑ ھی۔
پاکستان کا مقبول عام ، گلی گلی کھیلا جانے والا کھیل پھر پاکستان سپر لیگ
یا پی ایس ایل کی صورت میں سامنے آیا۔ اس سے کھیل کی شان و شوکت میں اضافہ
ہوا اس کھیل کے امسالہ لاہور میں کھیلنے والے فائنل کے کامیاب انعقاد نے
شائقین اور کھلاڑیوں کا اعتماد بحال کیا ۔یہ فائنل بہت سوچ بچار کے بعد سخت
حفاظتی اقدامات کے تحت کھیلا گیا ۔ٹیموں کے بیرون ملک سے آنے والے کئی
کھلاڑیوں نے لاہور میں کھیلنے سے انکار کر دیا ۔اسکے کامیاب انعقاد کے
بعدبین الاقوامی کرکٹ کمیٹی بھی پاکستان میں کھیل کو سنجیدگی سے لینے لگی ۔
اب اتنے طویل عرصے کے بعد چیمپئنز ٹرافی جیتنا اور وہ بھی بھارت کو بری طرح
ہرا کر ،ایک قابل فخر اور تعریف کارنامہ ہے۔
اس ٹرافی کیلئے پاکستان کی ٹیم کا بڑھنا یا کوالیفائی کرنا پہلا معجزہ تھا
۔ پہلا میچ بھارت سے ہارنا حوصلہ شکن ضرور تھا لیکن پھر بعد کی جیتیں اور
خاصکر سیمی فائینل میں انگلینڈ کو ہرانا پاکستان کرکٹ ٹیم کے وقار کو
بڑھانےاور اعتماد کو بحال کرنے کیلئے بھر پور ثابت ہوا ۔ بھارت کی اس شکست
سے ہم سب پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہوا ۔
اب ہر پاکستانی اس جیت سے خوش ہے ۔ہمارے کھلاڑیوں کو انعام و اکرام سے
نوازا جا رہا ہے ۔ اورہمیں قوی امید ہے اور ہماری دعا ہے کہ پاکستان کی ٹیم
اسی طرح کی فتوحات سے سرفراز کی قیادت میں سرفراز رہے۔۔
|