ہر درد کی دوا ہے صل علی محمد ﷺ

☘☘☘☘☘☘☘☘☘☘
دھیرے دھیرے ان سے دل کا رابطہ ہو جائے گا
جب درودوں کا زباں پر سلسلہ ہو جائے گا
خود ہی قدموں پر ملائک پرَ بچھائیں گے سبھی
جب زباں پر ہر گھڑی صلِّ علیٰ ہو جائے گا

رب کریم نے عالم انسانی کو اپنے حبیب کے جلووں سے نوازا اور اس نعمت کی عطا کو احسان عظیم فرمایا
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ(ال عمران:164)
بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا
.اپنے حبیب کو ذہن ودل میں بسانے کاحکم فرمایا بایں صورت کے مدام ان پر درود بھیجتے ہوئے،کہ ہر گھڑی جب درود کاورد رہے گا تو جلوۂ حبیب پیش نظر ہوگا

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا(الاحزاب، 56)
بيشك اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو

ان کے مولا کے ان په کروڑوں درود
ان کے اصحاب و عترت په لاکھوں سلام

یہ آیت اس بات پر دلیل ہیکہ رب کائنات اپنے حبیب پر برابر درود کا نزول جو اس کی جانب سے رحمت ہے نازل فرماتا رہتا ہے پھر اس نے اپنے مومن بندوں کو بھی اس کا حکم دیا تاکہ وہ بھی اس کے شرف وفضل وکمال سے بہرہ مند ہوجائیں ورنہ تو درود بھیجنے کو اس کی ذات ہی کافی ہے،عربی زبان میں (صلوٰۃ) چند معانی، مدح و ثنأ ، تعریف ، رحمت ، دُ عا اور استغفار وغیرہ کیلئے استعمال ہوتا ہے
لسان العرب میں ابن الأَعرابي سے منقول ہے( الصلاةُ من اللهِ رحمةٌ ومن المخلوقين الملائكةِ والإنْسِ والجِنِّ القيامُ والركوعُ والسجودُ والدعاءُ والتسبيحُ والصلاةُ من الطَّيرِ والهَوَامِّ التسبيح ) وكذلك في تاج العروس للزبيدي،
اس آیتِ مبارکہ میں اﷲ رب العالمین کی طرف صلوٰۃ کی جو نسبت ہے، اس سے مرادﷲ تعالیٰ کا فرشتوں کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنأ اور تعریف و توصیف شرف و منزلت کا بیان کرنا ہے اور ان پر اپنی رحمتِ مخصوصہ نازل فرمانا ہے۔اور فرشتوں کی طرف سے صلوٰۃ ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے دُ عائے رحمت و مغفرت کرنا ہے۔ اور ایمان والوں کی طرف سے صلوٰۃ کا مفہوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنأ اور تعریف و توصیف اور رحمت کی دُ عا کرنا اور رکوع وسجود ہے جبکہ چرند وپرند کی طرف سے صلوۃ کا مفہوم تسبیح کرنا ہے۔ اور یہ سب سے افضل عبادت ہے کیونکہ اولا رب تعالی اور اس کے ملائکہ درود بھیجتے ہیں پھر انسانوں کو حکم ہے، رب تعالی نے درود پاک کے علاوہ اپنے کسی عمل میں مخلوق کو شریک نہ فرمایا، اور یہ کتنا اچھا اور آسان عمل ہیکہ جو رسول پر درود پڑھے خدائے قدیر اس پر اپنی رحمتوں کا نزول فرماتا ہے،ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ،
صَلُّوْا عَلَیَّ فَإِنَّہُ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ صَلاَۃً صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہٖ عَشْرًا)[مسلم: ۳۸۴]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ “‏ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا ‏"‏ (صحيح مسلم حديث ٤٠٨)
’’ مجھ پر درود بھیجو ، کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں بھیجتا ہے ( یا دس مرتبہ اس کی تعریف کرتا ہے)۔‘‘

بلکہ ایک روایت میں آیا،
عن عبد الله بن عمرو بن العاص قوله: “من صلى على النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ واحدة صلى الله عليه وملائكته سبعين مرة” (رواه أحمد بإسناد حسن).
جو شخص نبی پاک پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے ،ﷲ رب العالمین اس پر ستر رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ اور فرشتے ستر مرتبہ دُ عائے رحمت کرتے ہیں ۔
بلکہ یہ عمل اپنے دوام کے مطابق رحمتوں کے متواتر نزول کو لازم ہے
عن عبد الله بن عامر بن ربيعة عن أبيه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :من صلى علي لم تزل الملائكة تصلي عليه ما دام يصلي علي فليقلل من ذلك العبد أو ليكثر (ابن ابی شیبہ،ج2ص،342، ابن ماجه،أحمد)
رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:جب تک کوئی مسلمان مجھ پر درود شریف بھیجتا رہتا ہے ، اس وقت تک فرشتے اس کیلئے دُ عا ئے رحمت کرتے رہتے ہیں ، اب جو چاہے کم پڑھے جو چاہے زیادہ پڑھے

حضرت امام ابو عبداﷲمحمد بن سلیمان جزولی رحمۃ اﷲ علیہ ’’دلائل الخیرات شریف ‘‘ میں فرماتے ہیں
وقيل لرسول الله صلي الله عليه وسلم ارءيت صلٰوة المصلين عليك ممن غاب عنك ومن يأتي بعدك ما حالهما عندك، فقال:اسمع صلٰوة اهل محبتي واعرفهم وتعرض علي صلٰوة غيرهم عرضاً( مطالع المسرات، دلائل الخيرات، 208)
۔ حضور تاجدار مدینہ ، سرور قلب و سینہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے عرض کیا گیاکہ جو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر غائبانہ درور شریف پڑھتے ہیں یا وہ لوگ جو ابھی پیدا نہیں ہوئے اور وہ لوگ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود شریف پڑھیں گے تو اُن کا آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاں کیا حال ہے؟ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل محبت کا درود شریف میں خود سنتا ہوں اور ان کو پہچانتا ہوں اور اُن کے علاوہ کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔
سرکار مدینہ، سرور قلب و سینہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان عالیشان ہے کہ،’’ بے شک اﷲ تعالیٰ نے ایک فرشتہ میری قبر پر مقرر فرمایا ہے پس قیامت تک جو کوئی مجھ پر درود پاک پڑھتا ہے تو وہ مجھے اُس کا اور اُسکے باپ کا نام پیش کرتا ہے۔کہتا ہے ،فلاں بن فلاں نے آپ پر اس وقت درود پاک پڑھا ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد ،ج10،ص251،رقم الحدیث 17291)

عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من صلى علي صلاة واحدة صلى الله عليه عشر صلوات وحطت عنه عشر خطيئات ورفعت له عشر درجات (أحمد،11587،نسائي،1297اللفظ للنسائی، ابن حبان،903،حاكم،1/550)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔‘‘

آیت مقدسہ، ان اللہ وملائکتہ یصلون.... کے حکم پر عمل کےلیے علماء نے عمر میں کم از کم ایک مرتبہ پڑھنا فرض قرار دیا ہے تفسیر قرطبی میں اسی آیت کی تفسیر میں ہے
ولا خلاف في أن الصلاة عليه فرض في العمر مرة ، وفي كل حين من الواجبات وجوب السنن المؤكدة التي لا يسع تركها ولا يغفلها إلا من لا خير فيه الزمخشري فإن قلت : الصلاة على رسول الله -صلى الله عليه وسلم - واجبة أم مندوب إليها ؟ قلت : بل واجبة ، ( قرطبی ج14،ص،211،زمخشرى الكشاف ج،5،ص93 )
محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي صاحب تفسیر قرطبی لکھتے ہیں کہ اس میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ بندۂ مومن پر عمر میں ایک مرتبہ حضور علیہ السلام پر درود بھیجنا فرض ہےاور دیگر واجب اوقات میں سنن موکدہ کے وجوب کی طرح ایسا واجب ہیکہ جس کے ترک کی گنجائش نہیں اور اس سے غافل وہی رہتا ہے کہ جس کی قسمت میں خیروبھلائی نہ ہو امام زمخشری فرماتے ہیں اگر حضور علیہ السلام پر درود بھیجنے کہ مستحب یا واجب ہونے کے تعلق سے پوچھا جائے تو میں کہوں گا کہ یہ واجب ہے

حبُّ النبي على الأنام فريضةٌ
لا تنس ذكر الهاشمي الأكرمِ
إن الصلاة على النبي وسيلةٌ
فيها النجـاةُ لكل عبد مسلمِ .

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جائے تو ذکرکرنے اور سننے والے دونوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا چاہیے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ)
’’اس آدمی کی ناک خاک میں ملے جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔‘
(أحمد، ج 2 ح،7444 ابن حبان،ج3،ح908،ترمذي ج5،ح،3545 )
ایسے شخص کو بخیل کہا گیا ہے جو ذکر رسول کے باوجود آپ پر درود نہ پڑھے
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُــولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (( الْبَخِيلُ الَّذِي مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ (أحمد،1/201،تاريخ الكبير،5/148، ترمذی : ۳۵۴۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخیل وہ ہے جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘‘
(مَنْ نَسِیَ الصَّلاَۃَ عَلَیَّ خَطِیَٔ طَرِیْقَ الْجَنَّۃِ) [ صحیح الجامع : ۶۵۶۸]
’’ جو شخص مجھ پر درود بھیجنا بھول جائے وہ جنت کے راستے سے ہٹ گیا۔

کل بروز قیامت حضور علیہ السلام پر درود کی کثرت کرنے والے اسی اندازہ پر قرب خاص میں ہونگے
عن ابن مسعود رضي الله عنه قال قال رسول الله صلی الله علي وسلم:أَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَکْثَرُہُمْ عَلَیَّ صَلاَۃً، (ترمذي ح ،446،ابن أبي شيبة في مصنفه ،32447 ، ابن حبان في صحيحه991)
’’حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! جو شخص مجھ پر بکثرت درود شریف پڑھتا ہے ، قیامت کے روز وہ سب سے زیادہ میرے قریب ہو گا ‘‘

يا إلهي يا قدير أسعد العبد الفقير
في جنان الخلد أحظى صحبة الهادي البشير
لكل قلب حبيـــــــب يُستهَـام بــــه
لكن حبيبي رســـول الله احتســـــب

درود پاک کی مجلسوں کی برکت:

عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال، قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أن لله سيارة من الملائكة إذا مروا بحلق الذكر قال بعضهم لبعض اقعدوا فإذا دعاء القوم فأمنوا على دعائهم فإذا صلوا على النبي - صلى الله عليه وسلم - صلوا معهم حتى تفرقوا ثم يقول بعضهم لبعض طوبي لهؤلاء يرجعون مغفور لهم.(القول البدیع، ج،1،ص123)
رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ کےزمین میں سیاحت کرنے والے فرشتے ہیں، جب وہ کسی ذکر کی مجلس پرگذرتے ہیں تو آپس میں کہتے ہیں، بیٹھ جاؤ پھر جب لوگ دعا مانگتے ہیں تو ان کی دعا پر آمین کہتے ہیں اور جب وہ حضور علیہ السلام پر درود بھیجتے ہیں تو یہ بھی ان کے ساتھ درود بھیجتے ہیں حتی کے جب مجلس ختم ہوتی ہے تو آپس میں کہتے ہیں ان لوگوں کےلیے خوشبختی ہو یہ لوگ بخشش سے شاد کام لوٹ رہیں ہیں

يا من هُديتم بالنَّبي محمدٍ
سِيروا بهدي نبيكم تعظيمًا
وإذا سَمعتم ذكره فِي مجلسٍ
صَلوا عليه وسَلموا تسلِيما

فعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يَذْكُرُوا اللَّهَ فِيهِ وَلَمْ يُصَلُّوا عَلَى نَبِيِّهِمْ إِلَّا كَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةً فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُمْ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُمْ(2)الترمذي ح،3302،وقال حديث حسن صحيح،ابو داؤد)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ جو لوگ کسی مجلس میں اکٹھے ہوں ، پھر وہ اللہ کا ذکر اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے بغیر( جدا جدا ہوجائیں) تویہ مجلس ان کے لیے عیب اور نقص کا باعث ہو گی۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو انھیں عذاب دے گا اور اگر چاہے گا تو انھیں معاف کردے گا۔‘‘

عن بعض الصحابة رضوان الله عليهم أجمعين أنه قال : ( ما من مجلس يصلى فيه على محمد صلى الله عليه وسلم إلا قامت(الا نمت) منه رائحة طيبة حتى تبلغ عنان السماء فتقول الملائكة هذا مجلس صلي فيه على محمد صلى الله عليه وسلم ( بستان الواعظین، 1/277)
بعض صحابۂ کرام سے مروی ہیکہ جس محفل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جاتا ہے اس سے ایک خوشبو دار مہک اٹھتی ہے جو آسمان تک جا پہنچتی ہے پھر فرشتے کہتے ہیں یہ وہ محفل ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا گیا ہے

حَدِيثٌ : " زَيِّنُوا مَجَالِسَكُمْ بِالصَّلاةِ عَلَيَّ ، فَإِنَّ صَلاتَكُمْ عَلَيَّ نُورٌ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " (مقاصد حسنة،ح،528، الديلمي )
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنی مجلسوں کو مجھ پر درود بھیج کر زینت بخشو، کیونکہ تمھارا مجھ پر درود پڑھنا قیامت میں تمھارے لیے نور ہوگا
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :
إِنَّ الدُّعَائَ مَوْقُوْفٌ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأرْضِ لَا یَصْعَدُ مِنْہُ شَیْئٌ حَتّٰی تُصَلِّیَ عَلٰی نَبِیِّکَ ﷺ [ ترمذی : ۴۸۶)
’’بے شک دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے اور کوئی دعا اوپر نہیں جاتی یہاں تک کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں۔‘‘

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- والذي فيه:مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلاَةً كَتَبَ الله لَهُ قِيرَاطًا، وَالْقِيرَاطُ مِثْلُ أُحُدٍ. ( مصنف عبدالرزاق، ص،8،/110)

وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: ((مَنْ صَلَّى عَلَيَّ حِينَ يُصْبِحُ عَشْرًا، وَحِينَ يُمْسِي عَشْرًا، أَدْرَكَتْهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ)).
’’جو آدمی صبح کے وقت دس مرتبہ اور شام کے وقت دس مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے ، اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی
ابن أبي عاصم، 61، والطبراني ،سيوطي رقم (86)
العراقي في المغني،1/ 314،صحيح الترغيب،659،صحيح الجامع،6357

قَالَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْهَا؟ قَالَ: «مَا شِئْتَ» قَالَ: الرُّبُعُ؟ قَالَ: «مَا شِئْتَ، وَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ» قَالَ: النِّصْفُ؟ قَالَ: «مَا شِئْتَ وَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ» قَالَ: الثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ: «مَا شِئْتَ وَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ» قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَجْعَلُهَا كُلَّهَا لَكَ؟ قَالَ: «إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ، وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ(حاکم، 3578، ترمذی ۲۴۵۷) وفي رواية عند الطبراني بإسناد حسن: “إذا يكفيك الله ما أهمك في أمر دنياك وآخرتك”.
حضرت ابی بن کعب رضی اﷲٰ عنہ کہتے ہیں میں عرض کیا: یا رسولﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں کثرت سے درود شریف پڑھتا ہوں ، اپنی دُ عا میں سے کتنا وقت درود شریف کیلئے وقف کروں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! تم جتنا چاہو، میں نےعرض کیا: اپنے وظائف میں سےایک چو تھائی صحیح ہے ؟، آپﷺنے فرمایا تم جتنا چاہواور اگراس سےزیادہ پڑھو گےتو وہ تمھارے لیے بہتر ہے، میں عرض کیا : نصف وقت مقرر کروں؟ ،آپﷺنے فرمایا: تم جتنا چاہواور اگراس سےزیادہ پڑھو گےتو وہ تمھارے لیےبہتر ہے،میں عرض کیا : دو تہائی مقرر کروں ؟آپﷺنے فرمایا تم جتنا چاہواور اگراس سےزیادہ پڑھو گےتو وہ تمھارے لیے بہتر ہے،میں نےعرض کیا:پھر تو میں اپنی تمام دعا کے بدلےآپ پر درود ہی بھیجتا رہوں گا(میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں تو )؟آپﷺنے فرمایا: پھر تمھارا یہ مجھ پر درود پڑھنا تمھارے تمام غم دور کردے گا، اور تمھارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔طبرانی کی روایت میں ہے :تب تمھیں اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت کی پریشانیوں سے بچا لے گا۔

ہر دم درود سرورعالم کہا کروں
ہر لمحہ محو روئے مکرم رہا کروں​
اسم رسول ہوگا ، مداوائے درد دل​
صل علی سےدل کےدکھوں کی دواکروں

عن عاصم عن زر عن عبد الله قال كنت أصلي والنبي صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وعمر معه فلما جلست بدأت بالثناء على الله ثم الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم ثم دعوت لنفسي فقال النبي صلى الله عليه وسلم سل تعطه سل تعطه قال وفي الباب عن فضالة بن عبيد - (ترمذی ص 489 ،ح593)
حضرت عبد ا ﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما تشریف فرما تھے۔ میں (دُ عا کیلئے) بیٹھا تو پہلے اﷲ رب العالمین کی حمد و ثنأ کی پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجا، پھر اپنے لئے دُ عا کی تو امام الانبیاء رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! اﷲ سے مانگو ضرور دئیے جاؤ گے ، اﷲ سے مانگو ضرور دئیے جاؤ گے ۔

​ ان پہﷺ درود پڑھ کے معطر ہوئی حیات
جب ان ﷺ کا ذکر آیا تو مصائب پلٹ گئے

عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:((إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ عَلَيْهِ السَّلَام وَفِيهِ قُبِضَ وَفِيهِ النَّفْخَةُ وَفِيهِ الصَّعْقَةُ فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرَمْتَ أَيْ يَقُولُونَ قَدْ بَلِيتَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمْ السَّلَام(تفسير بن كثير،ج3،ص514،النسائي كتاب الجمعة ،ح،1357، ابو داؤد :۱۰۴۷)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تمھارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا ہےاسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی اور اسی دن ان کی روح قبض ہوئی اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن دوبارہ اٹھایا جائے گا، لہذا تم اس دن مجھ پر زیادہ درود بھیجا کرو ، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ ( قبر میں آپ کا جسدِ اطہر ) تو بوسیدہ ہو جائے گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر یہ بات حرام کردی ہے کہ وہ انبیا کے جسموں کو کھائے۔‘‘

یہ قانون قدرت ہے اور اس حقیقت سے کوئی انسان انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا میں ہر امیر غریب،نیک و بد کو آزمائشوں میں دکھ،غم اور پریشانیوں سے کسی نہ کسی شکل میں ضرور واسطہ پڑتا ہے،لیکن وہ انسان خوش قسمت ہے جو اس غم،دکھ اور پریشانی کو صبر اور حوصلہ کے ساتھ برداشت کرتا ہے
دکھوں ،غموں اور پریشانیوں کا ایک بہتریں علاج نبی کریمﷺپر کثرت سے درود شریف کا اہتمام ہے۔
نبی کریمﷺپر درود و سلام بڑی اہم نیکی ہے، گناہوں کی معافی کا سبب، درجات کی بلندی، غم و پریشانی سے نجات ، دعا کی قبولیت کا وسیلہ، تزکیہ نفس،اجر میں مثل احد قیراط کا ثواب، غلام آزاد کرنے، شفاعت رسول کے واجب ہونے، مال ومنال میں اضافے، دنیا میں ہی موت سے قبل جنت میں اپنا مقام دیکھنے، دشمنوں پر فتح یابی کاسبب اور بہت سارے فوائد کے حصول کا ذریعہ ہے اہل محبت اپنے حوائج رسول کریم کے صدقے ہی رب کریم سے پاتے ہیں لہذا اپنی بساط بھر درود کا اہتمام کریں اور فوائد دین ودنیا سے مستفیض ومستنیر ہوں،
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
(اعلیٰ حضرت)
 

Irfan raza misbahi
About the Author: Irfan raza misbahi Read More Articles by Irfan raza misbahi: 15 Articles with 34446 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.