جاہلیت کا دور لوگ بتوں کو پوجتے ہر قبیلے کا الگ بت,
خانہ کعبہ میں بتوں کے انبار ,چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کے گردنیں
کاٹنا, عورتوں کو زندہ دفنا دینے کا رواج عام تھا,اس دور جاہلیت میں بھی
کچھ ایسے لوگ موجود تھے جو ان عقائد و رسم ورواج سے تنگ تھے.ان میں سے ہی
ایک شخص جسے دیکھنے کے لیے لوگ ترستے رہتے,ایک بار جو کپڑا زیب تن کرتے تو
دوبارہ وہ کپڑا نہ پہنتے,بہترین سے بہترین گھوڑے, ایسے خوشبو کا استعمال
کرنا کہ کئی سے اگر صبح گزرتے تو شام تک خوشبو نہ جاتی,سرخ و خوبصورت چہرہ,
اس شہزادے کو دیکھنے کے لیےعرب کی شہزادیاں بھی انتظار میں رہتی ہے کہ کب
معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ یہاں سے گزرے تو اس شہزادے کی دیدار ہو.معصب بن
عمیر رضی اللہ عنہ دارارقم حضور مہربان صلی اللہ علہ والہ وسلم سے ملنے
جاتے اور اپنی والدہ و قوم کے خوف سے ایمان چپھائے رکھا ,ایک دن ان کے
چچیرے بھائی عثمان بن طلحہ نے انہیں دیکھ لیا تو یہ خبر ان کی والدہ خناس
بنت مالک تک پہنچھ گئی.وہ مشرکہ تھی.اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معصب رضی
اللہ عنہ کو ایک ستون سے باند دیا اور انہیں برابر قید میں رکھا گیا.حضرت
معصب بن عمیر کا شجرہ نصب قصی بن کلاب پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے
شجرہ نصب پر جا ملتا ہے.اسلام کی قبولیت کے بعد حضرت معصب رضی اللہ عنہ کو
ان کی والدہ نے جائیداد سے حاق کردیا . آپ رضی اللہ تعالی نے بہت سا وقت
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں گزارا اور قرآن کی تعلیم
و دین کے علم میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب
مدینہ میں چند قبیلوں کے لوگ اللہ کے نبی پر ایمان لے آئے تو انہوں نے
درخوست کی کہ کسی فرد کو یمارے ساتھ بیجھے جو مدینے کے لوگوں کا اللہ کی
دین کوسمجھانے اور دین کے دعوت کے لیے کسی فرد کو بھیجے تو نبی مہربان صلی
اللہ علیہ والہ وسلم نے معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں بھیجا ,
ایک روایت کے مطابق مدینے میں پہلا جمعہ بھی حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ
عنہ نے پڑھائی ہے.(2 ھجری)غزوہ بدر میں مسلمانوں کا سفید علم آپ رضی اللہ
عنہ کے ہاتھوں میں تھا معرکہ فرقان میں مسلمانوں کو عظیم الشان فتح ہوئی
اور اسی کے دوران آپ رضی اللہ عنہ کے سگے بھائی ابو عزیز مسلمان کے ہاتھوں
گرفتار ہوئے تو وہاں سے آپ رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا تو اپبے سگے بھائی کو
دیکھ کر کہا اسے سختی سے باندے اس کی ماں بہت دولت مند خاتون ہے اس کے بدلے
بہت زیادہ فدیہ ملے گا , ابو عزیز نے کہا بھائی جان کیا میرے حوالے سے
تماری یہی وصیت ہے , کہا ہاں تم نہیں یہ انصاری میرا مسلمان بھائی ہے. اس
طرح (3ھجری) غزوہ احد میں بھی علم آپ رضی اللہ عنہ کے ہی ہاتھوں میں تھا ,
جنگ کے دوران ابن قمئہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا.حضور صلی اللہ علیہ
والہ وسلم نے جنازہ پڑھایا .آپ رضی اللہ عنہ کے جنازے کو ڈھانپنے کے لیے
صرف ایک چادر تھی جب آپ سر ڈھانپتے تو پیر نظر آتے پیر ڈھانپتے تو سر نظر
آتا نبی مہربان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کہا , ان کی پیروں پر ازکار
گھاس رکھ دو.سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :ہم رسول اللہ صلی اللہ
علیہ والہ وسلم کے ساتھ مسجد نبوی میں بیٹھے تھے کہ حضرت معصب بن عمیر رضی
اللہ عنہ آئے ان کے جسم پر ایک چادر کے علاوہ کوئی کپڑا نہ تھا جس پر
پوستین کے پیوند لگ ہوئے تھے(ترمزی).آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم روپڑے
کیونکہ وہ نا و نعم میں پلے ہوئے تھے اور آج وہ کس حال میں تھے. حضور صلی
اللہ علیہ والہ وسلم حضرت معصب بن عمیر کی زمانہ خوش حالی کو یاد کر کے
فرماتے,میں نے مکہ میں معصب بن عمیر سے زیادہ عمدہ زلفوں والا , اعلی لباس
پہننے والا,اور زیادہ خوش حال کسی کو نہ دیکھا(مستدرک حاکم)....... |