فضائوں سے نفرت و تعصب کی بو آرہی ہے، مٹی خون سے
رنگین ہے، دھوپ نکلتی ہے تو سورج کی تپش مسلمانوں کے قلوب پر خوف و ہراس کی
شدت میں اضافہ کرتی ہے، رات آتی ہے تو تاریکی سناٹا مسلمانوں کے جذبات و
احساسات پر اثر انداز ہوتا ہے، سفر کی گھڑیاں صدیاں محسوس ہوتی ہیں، ہر
لمحہ قلب کو گراں بار کرتا ہے، قدموں کو بوجھل اور ذہن کو خوف زدہ کرتا ہے۔
مسلمان، دلت ان احساسات کو اپنے قلب میں محسوس کرتا ہے، زمانہ بدل چکا ہے،
پیار محبت کے دعوے جھوٹے ہوگئے، کثرت میں اتحاد باقی نہیں رہا، لوگوں کے
قلوب میں پکتا نفرت کا لاوا پھٹ پڑا ہے، نہ جانے کب نفرت ذہن و دل پر حاوی
ہو جائے،اور جنونی بھیڑ اکٹھی ہو انسانیت کا قتل کر ڈالے، ہم غم و اندوہ
اور تکلیف کے سمندر میں غوطہ زن ہوجائیں، اخلاق کے قاتلوں کی ہمت افزائی نے
اس وبا کو عام کردیا ہے، جب ان کے ذہنوں میں حیوانیت جاگتی ہے، قلوب سے
انسانیت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ ہاتھ جنبش کرنے لگتے ہیں، اور انسان کی کھال
میں بھیڑیا اپنی جگہ بنا لیتا ہے، اس وقت ان کے قلوب میں یہ احساس پیدا
نہیں ہوتا، کہ میں انسانیت کا قتل کررہا ہوں، آدمیت کو شرمسار کر رہا ہوں،
حیوان بن چکا ہوں، وہ اپنے آپ کو مجرم خیال نہیں کرتے، بلکہ اس قتل کو
عبادت خیال کرتے ہیں، اس جرم کو باعث انعام گردانتے ہیں، اور ماضی کے
جھروکھوں سے ان یادوں کو اٹھا لیتے ہیں، جو ان کی ہمت کو جوان اور جذبات کو
آگ بگولہ کردیتی ہیں، اخلاق کے قاتل کو سزا نہیں دی گئیتھی، اس کا اکرام
کیا گیا، ملک کی آبرو اس کی شان ترنگے کو اس کا کفن بنایا گیا تھا، اہل
خانہ کے غم میں شریک ہوا گیا تھا، ان کی ہمت اور ڈھارس بندھائی گئی تھی۔
وہیں دوسری طرف شہید اخلاق کے گھر میں رکھے گوشت کی کئی مرتبہ جانچ ہوئی
تھی، اور اسے مجرم ثابت کرنے میں کوئیکسر نہیں چھوڑی گئی تھی، اور جب یہ
تدبیر کارگر نہیں ہوئی، معاوضہ کا نام دے کر اس کی لاش کی قیمت لگا دی گئی،
یہ وہ عمل تھا، جس نے ملک کی فضا ہی بدل دی،نفرت سے بھرا ہوا ذہن رکھنے
والوں کے حوصلہ بلند کردئے، اب ان کے دلوں میں خوف و دہشت نہیں ہے، نہ
کوئیمنصوبہ نہ کوئیتدبیر، بہانہ ملا اور مسلمان کو قتل کر ڈالا، پہلو خان،
حافظ جنید، علیم الدین انصاری، انیس احمد جھارکھنڈ کے نعیم اور اس طرح
واقعات کثیر ہیں، اور پس منظر ایک، کہیں بہانہ تھا، کہیں بنا لیا گیا، حافظ
جنید کا قتل سیٹ کو لے کر ہوئی گفتگو قتل کی تمہید بن سکتی ہے کوئی سوچ بھی
نہیں سکتا، کسی کے حاشیہ خیال پر بھی یہ عبارت نہیں آسکتی، مگر زمین و
آسمان گواہ ہیں، ایک بے گناہ کو اتنی بے رحمی سے قتل کیا گیا جیسے صدیوں
کی دشمنی ہو، چاقوں کے زخم قاتل کی ذہنی کیفیت کو بیان کررہے تھے اور عیاں
ہوگیا مسلمانوں کے خلاف کتنی نفرت اکثریت کے قلب میں پیدا ہو چکی ہے، جو
ہندوستان کے لئے خطرناک ہے، جمہوریت کے لئے خطرناک ہے، اور یہ سلسلہ رُکنے
نام ہی نہیں لے رہا ہے، میرٹھ میں ایک کشمیری طالب سے اس کا نام پوچھ کر
اسے زدو کوب کیا گیا، اور مسلم نام ہونا باعث سزا گردان لیا گیا، ادھر وزیر
آعظم گؤ رکشکوں کی غنڈہ گردی کو مسترد کررہے تھے، انہیں قانون ہاتھ میں
نہ لینے کی صلاح دے رہے تھے۔ ادھر دربھنگہ میں ایک شخص کو قتل کردیا،
گوہاٹی میں جانور لے جارہے ڈرائیوروں کو پیٹ دیا گیا، حالانکہ ان کے پاس
قانونی دستاویز موجود تھی، مگر نوجوانوں نے کچھ نہیں سنا، اور ان پر
لاٹھیاں برسادیں، اور وزیرآعظم کے بیان کا کوئی اثر ان پر ظا ہر نہیں ہوا،
صورت حال اتنی بھیانک ہوچکی، اور مختار عباس نقوی اسے اب بھی سیاسی کھیل
سمجھ رہے ہیں، میڈیا ٹرائل بھی اس شدت کے ساتھ نظر نہیں آرہے، سیاسی
لیڈران کی زبانوں پر بھی تالے پڑے ہوئے ہیں، ایسا لگتا ہے، مسلمانوں کا خون
خون نہیں پانی ہے، اسے بے دریغ بہا دیا جائے، اور نفرت کی ان دیواروں پر
سیاسی محل تعمیر کردیا جائے۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہئے، جذبات ایک لہر کی
ماند ہوتے ہیں، اور جس دن یہ لہر گذر گئیاس پر تعمیر ہوا محل بھی زمین دوز
ہوجائیگا، اور اس خیال کے پجاری سر پٹخنے پر مجبور ہونگے، اور مسلمانوں کے
قاتل آنسو بہائیں گے، اور اپنے کئے پر شرمندہ ہونگے، ان مشکل ترین حالات
میں جو سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے، وہ ہے خاموشی پورا ملک اس مسئلہ پر
خاموش ہے، ملی قیادت خاموش ہے، سیکولر خیال کئے جانے والے رہنمائوں کی
زبانیں گنگ ہیں، ایسا لگتا ہے، جیسے انہیں سانپ سونگ گیا ہو کل یہی ریلیوں
میں چلا چلا کر مسلمانوں کی حفاظت کے دعوے کیا کرتے تھے، اپنے سیکولر ہونے
کی قسمیں کھاتے تھے، مگر اب انکی زبانوں پر وہ الفاظ نہیں ہے، مسلمانوں کے
زخم بھرنے والے وہ مرہم نہیں ہے۔ ہمارے وزیر اعظممسلم ماؤں کے حقوق کی
گفتگو کرتے تھے، اب ان کے جیالوں کے اٹھتے جنازے کیوں ان کی آنکھوں کو نم
نہیں کررہے ہیں، کیوں ان کے حقوق نہیں دئے جارہے، ان کے بیٹوں کے قاتلوں کو
کیوں سزا نہیں دی جاری ہے، کیوں وہ مجرم آزاد گھوم رہے ہیں، اور بلا خوف
خطر جرم کر رہے ہیں بھید بھاؤ کیسا، کیا وہ حقوق طلاق تک محدود تھے، کیا
وہ سیاسی حربہ تھا، کیا وہ تدبیر جس کا فائدہ حاصل کیا جاچکا ۔ ان سوالات
کے جواب ہمارا دل جانتا ہے، یہ سب کیا تھا۔ بہرحال ملک میں پسری یہ خاموشی
مجرموں کے حوصلیں بلند کرتی رہے گی، اور انہیں جان لینے پر اکساتی رہے گی،
ورنہ ہمارے ملک میں کھیل کی حفاظت کی خاطر تملناڈو کے باشندے سڑکوں پر نکلے
تھے، اور انہوں نے راستے بند کر دئے تھے، گاڑیاں نذر آتش کردی تھیں، پوری
ریاست جل اٹھی تھی، پولیس کو لاٹھیاں برسانی پڑیں تھیں، اور ریاست کی حالت
دیکھ کر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے تھے، اسی طرح جاٹوں نے ریزرویشن تحریک
میں دکانیں توڑدیں تھیں، سامان باہر پھینک دئے تھے، ریل کی پٹریاں اکھاڑ
دیں تھیں، گاڑیوں کو نذر آتش کردیا تھا، اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے
دوسروں کے حقوق پامال کردئے تھے، کسانوں نے اپنا حق حاصل کرنے کے لئے اپنی
جانوں تک کو قربان کردیا تھا، اور بھوکے رہ کر اپنے حقوق کو حاصل کیا تھا،
حکومت نے گھٹنے ٹیک دئے تھے، مگر مسلمان اور مسلمانوں کی قیادت اب بھی
خاموش ہے، جان عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر بھی ہماری زبانوں کا روزہ نہیں
ٹوٹا، ہم یہ نہیں کہتے مسلمانون کو بھی قانون ہاتھ میں لے لینا چاہئے،
گاڑیاں جلا دینی چاہیئں، خود کو آگ لگا لینی، نہیں بلکہ قانون کے دائرے
میں رہتے ہوئے، اپنی خاموشی کو توڑنا چاہئے، اپنے حق کے لئے آواز بلند
کرنی چاہئے، اور اپنا دکھ ظاہر کرنا چاہئے، اپنے لبوں کو جنبش دینی چاہئے،
ہمارے ملی رہنماؤں کو اس سلسلہ میں غور و فکر کرنی چاہئے، معاوضہ دلا
دینا، اور کیس لڑنا ہی کافی ہے، یہ اس سمت کچھ اور بھی اقدام کئے جائیں ۔
’ناٹ ان مائی نیم‘ اس ٹائیٹل کے ساتھ سوشل میڈیا سے ایک تحریک پیدا ہوئی
ہے، جو ظلم کے خلاف آواز بلند کررہی ہے، اور گائے کی حفاظت کے نام پر ہور
رہے قتل کے خلاف آواز بلند کررہی ہے، سیکولر طبقہ اس سے وابستہ ہورہا ہے،
اور بہت لیڈران بھی اس جانب جھک رہے ہیں، دیکھنا باقی ہے، یہ تحریک کس حدتک
کامیاب ہوگی، ملی قیادت کی خاموشی کب تک جاری رہے گی، کیا ہماری قیادتیں اس
تحریک کا ساتھ دیں گی، کیا وہ کوئی اور تدبیر کریں گی،یا مسلمانوں کا خون
بھی ان کی زبانوں متحرک نہیں کرسکے گا، وقت ان سوالات کے جوابات فراہم
کردیگا، مگر یہ روز روشن کی طرح عیاں مسلمانوں پر جب مشکل وقت پڑا ہے،
ہمارے بزرگ ہمیشہ آگے آئے ہیں، جنگ آزادی اس کی گواہ ہے، اور تاریخ کے
صفحات ان کے کارناموں سے بھرے پڑے ہیں، ہم امید کرسکتے ہیں، آج بھی یہ
محبین خدا اس مسئلہ کا حل ضرور تلاش کر لینگے، اور پہلو خان، جنید، اخلاق
احمد، علیم الدین انصاری کے قاتلوں کو ضرور سزا ہوگی ۔ یہ مصنف کی ذاتی
رائے ہے۔ |