روئے ارض پر انسانی پیدائش کی تاریخ جتنی قدیم ہے اتنی ہی
قدیم تاریخ بات کرنے کی بھی ہے۔ انسان کی پیدائش اور گفتگو دونوں ہم عمر
ہیں۔ قرآن مجید میں تخلیق آدم کے فوری بعد حضرت آدم کے بولنے کا ذکر آیا
ہے۔’’فرمایا ! اے آدم ان چیزوں کے نام بتادو، پھر جب آدم نے انہیں ان کے
نام بتادیئے فرمایا ،کہا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور
زمین کی چھپی ہوئی چیزیں جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپا تے
ہو اسے بھی جانتا ہوں۔‘‘(القرآن33:2 )۔اس آیت مبارکہ سے جہاں حضرت آدم علیہ
السلام کی تخلیق کے فوری بعد آپ کے بات کرنے کا ہمیں علم ہوتا ہے وہیں پتہ
چلتا ہے کہ زبان اﷲ تعالی کی عطاکردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ اﷲ
تعالی ہی نے انسانوں کو اعجاز نطق سے سرفراز فرمایا ۔نبی اکرم ﷺ نے گفتگو
کے فن کو معراج عطا کی۔آپ ﷺ کو جوامع الکلم سے سرفرازکیا گیا تھا۔ایمان کی
دولت سے مالا مال اور نبی اکرم ﷺ کی محبت سے سرشار انسانوں کے لئے ضروری ہے
کہ وہ گفتگو کے آداب سیکھیں کیونکہ الفاظ و محاورات بھی انسا ن کے لباس کی
طرح شخصیت کے عکاس ہوتے ہیں۔الفاظ و محاورات کی حرمت سے واقف آدمی کو دنیا
میں وقار و تمکنت حاصل ہوتاہے۔الفاظ و محاروں کا غیر مناسب استعمال انسانی
کردار کو مسخ کردیتا ہے۔انسان گفتگو کے ذریعے اپنے احساسات و جذبات کا
اظہار کرتا ہے۔گفتگو کے لئے بہتر الفاظ کا استعمال آدمی کو جہاں بلند و
بالا مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے وہیں غیر مناسب الفاظ کے استعمال سے آدمی کی
عزت گھٹ جاتی ہے اور معاشرے میں وہ اپنی حیثیت گنوا بیٹھتا ہے۔حضرت لقمان
سے ان کے آقانے کہاکہ ایک بکری ذبح کرو اور اس میں سے جو سب سے اچھی چیز ہے
اس کو پکا کر لاؤ۔حضرت لقمان نے بکری کو ذبح کیا اور اس کے دل اور زبان کو
پکا کر اپنے آقا کوپیش کیا۔دوسرے دن بادشاہ نے پھر سے حضرت لقمان کو ایک
بکری ذبح کر کے اس میں سے سب سے بدترین چیز کو پیش کرنے کو کہا۔آپ نے اپنے
آقا کے حکم کے مطابق پھر ایک بکری ذبح کی اور اس میں سے پھر ایک بار دل اور
زبان پکاکر پیش کی۔یہ دیکھ کر ان کا مالک انھیں تعجب سے دیکھنے لگااور
پوچھا یہ کیا ہے؟میں نے جب آپ کو ذبح کردہ بکری سے بہترین چیز پکا کر لانے
کو کہا توآپ نے دل اور زبان لا کر دی اور جب میں نے بدترین شئے کو لانے کو
کہا تب بھی آپ نے دل اور زبان ہی پیش کیئے۔بھلا یہ کیا بات ہوئی؟اس پر حضرت
لقمان نے فرمایاجناب اگر یہ دونوں چیزیں صحیح ہوں تو یہ بہترین چیزیں ثابت
ہوتی ہیں اور اگریہ دونوں چیزیں خراب ہوں تب ان سے بدتر کوئی اور ہو ہی
نہیں سکتا۔
اکثر آدمی اپنی گفتگو یعنی کہ زبان کی وجہ سے کرب و اذیت اور ہلاکت کا شکار
ہوجاتا ہے ۔زبان کی جب حفاظت کی جاتی ہے تب انسان ناگہانی مصائب سے خود کو
محفوظ رکھتا ہے۔انسانی جسم میں گوشت کا ایک ایسا لوتھڑا زبان ہی ہے جو اسے
پستی سے بلندی اور بلندی سے پستی تک پہنچا دیتا ہے۔زبان کے صحیح استعمال سے
انسان جہاں سرخرو اور کامیاب ہوجاتا ہے اور اس کا شمار نیکو کار وں میں
ہونے لگتا ہے وہیں بدزبانی کی وجہ سے وہ معاشرے کا سب سے غیر پسندیدہ شخص
گردانا جاتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ’’ پہلے تو لو پھر بولو‘‘۔ بالکل یہ
ایک حقیقت ہے کہ زبان میں ہڈی نہیں ہوتی ہے لیکن یہ انسان کی ہڈیاں باآسانی
تڑواسکتی ہے۔ انسان کی گفتگو اس کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔اچھی اور پر
اثر شخصیت کے لئے پر اثر انداز گفت و شنید بھی بے حد ضروری ہے۔آدمی بات
کرنے سے پہلے غور و فکر کرے اور الفاظ کے انتخاب و استعمال میں محتاط
رہے۔گفتگو کے دوران آواز دھیمی رکھے اور لہجہ بھی مناسب رکھے۔اسلام ایک
مکمل ضابطہ حیات ہے۔زندگی کے ہر موڑ پر شریعت اسلام ہماری رہنمائی و رہبری
کے لئے کافی ہے۔زندگی کے تمام معاملات کی طرح اسلام گفتگوکرنے کے بھی ہمیں
آداب ،طور ،طریقے سکھاتا ہے۔ سنت رسول ﷺ سے ہر گھڑی ہمیں کب،کہاں ،کیا اور
کیسے بات کرنا ہے ،رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔گفتگو کی وجہ سے آدمی لوگوں کے
دلوں میں اترتا ہے یا پھر لوگوں کے دل سے اترجاتا ہے۔اﷲ تعالی نے انسان
کوزبان و بیان کی عظیم صلاحیت سے نوازا ہے ۔انسان اپنی زبان کی وجہ سے جہاں
کامیاب و کامران ہوتا ہے وہیں اپنی زبان کی وجہ سے ذلت و رسوائی اس کا مقدر
بن جاتی ہے۔ اسلاف نے تعلیم و تربیت کا جو منہج اختیار کیا تھاوہ انسان کو
فوز و فلاح کی جانب گامزن کرنے والا تھا۔ معاشرہ جدیدیت کے نام پر اسلاف کے
انداز تعلیم و تربیت سے انحراف کرتے ہوئے آج تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا
ہے۔ آج تعلیم کے حصول کے لئے والدین بہت زیادہ سرگرم نظرآتے ہیں لیکن تربیت
کے شعبے میں والدین تو کجا اساتذہ بھی تن آسانی سے کام لینے لگے
ہیں۔دانشوروں کا کہنا ہے کہ پرندے جال میں دانے اورانسان اپنی زبان سے پھنس
جاتے ہیں۔جو انسان اپنی زندگی خوشی و عافیت سے بسر کرنے کے متمنی ہیں ان کے
لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زبانوں پر قابو رکھیں اور گفتگو کرنے کے طور
طریقوں سے خود کو متصف کریں۔
ارسطو کے مطابق گفتگو تین قسم کی ہوتی ہے۔:Ethos(1)گفتگو کی وہ قسم ہے جو
یقین و سچائی سے پر ہوتی ہے۔کہنے او ر سننے والے کے مابین اعتماد کی فضاء
پیدا ہوجاتی ہے۔یہ گفتگو واضح ، بامعنی اور پر اثر ہوتی ہے۔با ت کرنے والا
مقابل کی ذہنی حیثیت سے بخوبی واقف ہوتا ہے اور اس کی ذہنی صلاحیت کو مد
نظر رکھتے ہوئے گفتگو کرتا ہے جس کی وجہ سے گفتگو بے یقینی اور تشکیک سے
بالکل پاک ہوتی ہے۔ Pathos(2)؛ ۔ اس قسم کی گفتگو میں سننے اور کہنے والے
کے بیچ ایک جذباتی تعلق پایا جاتا ہے۔یہ گفتگو جذباتی عنصر کو اپنے اندر
سموئے رہتی ہے۔Logos(3)؛۔یہ حقائق اور منطقی عناصر پر مبنی گفتگو کی تیسری
قسم ہے جو تجزیاتی فکر،مشاہدے اور حکمت عملی پر منحصر ہوتی ہے۔دور اندیش
اور عقل مند لوگ بولنے سے پہلے سوچتے ہیں جبکہ بے وقوف لوگ بات کرنے کے بعد
سوچتے ہیں اور اس طریقہ کار میں سوائے تاسف اور افسوس کے کچھ ہا تھ نہیں
آتا۔کسی بھی ملک و معاشرے کی خوشحالی، نظم و ضبط کی پابندی و باقاعدگی کی
اہم وجہ شہریوں کے گفتگو کا معیار ہوتا ہے۔کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک عظمت
کی معراج کو نہیں پہنچ سکتا جب تک اس کے افراد کی زبانوں سے ادا کیئے جانے
والے الفاظ سے کسی کی دل آزاری نہ ہو،کسی کی عزت نفس کو ٹھیس نہ
پہنچے۔گفتگو خوشامد اور خودستائی پر مبنی نہیں ہونی چاہیئے۔لفظوں کی حساسیت
اور حرمت کا احساس جس معاشرے میں نہ ہو وہ بدحالی ،بد اخلاقی اور معاشی
ابتری کا مرقع بن جاتے ہیں۔جب کسی معاشرے میں افراد سچائی،یقین ،معیار
واقدار سے متنفرو عاری ہوں وہاں معاشی اور اخلاقی آسودگی کسی بھی طور نہیں
پائی جاسکتی ۔معاشرے کی خوشحالی و آسودگی کا راست تعلق گفتگو سے ہوتا ہے۔اس
مضمون میں گفتگو کو موثر و مدلل بنانے کے طریقوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
نبی اکرم ﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل ہم کو گفتگو کے آداب و سلیقے سے
آراستہ کیا ۔آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’لوگو ں میں سب سے محبوب اور آخرت
میں مجھ سے زیادہ قریب اچھے ا خلاق والے لوگ ہوں گے‘‘(سنن الترمذی)۔ اچھے
اخلاق والے افراد وہ ہوتے ہیں جن کی گفتگو فحش گوئی ،جھوٹ ،افترا،چغل خوری
اور کذب بیانی سے پاک ہوتی ہے ۔اﷲ تبارک تعالی فرماتے ہیں’’لوگوں سے اچھی
باتیں کہو‘‘(القرآن)۔ قرآن ایمان والوں کو اپنی آواز پست رکھنے کا حکم دیتا
ہے،چیخنے چلانے سے سخت منع کرتا ہے ۔’’اپنی رفتار میں میانہ روی(اعتدال)
اختیار کرو اور اپنی آواز کو پست رکھو،یقینا آوازوں میں سب سے بدتر آواز
گدھوں کی آواز ہے۔‘‘)القرآن(۔نبی ا کرم ﷺ نے فرمایا کہ فضول گفتگو سے سکوت
بہتر ہے۔’’جو شخص اﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اس کو چاہیئے کہ
اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔‘‘(بخاری)یاوہ گوئی اور لایعنی گفتگو سے
خاموشی بہتر ہوتی ہے کیونکہ خاموشی کو نجات اور فضول گفتگو کو تباہی قرار
دیا گیا ہے۔اسلام پاک گوئی اور صالح گفتگو کو رواج دیتا ہے۔اﷲ تعالی گالی
گلوچ اور بیہودہ گفتگو سے پاک معاشرے کو پسند فرماتے ہیں کیونکہ جنت کا ذکر
کرتے ہوئے اﷲ تعا لی فرماتے ہیں’’وہاں نہ بے ہودہ باتیں سنیں گے اور نہ
گالی گلوچ۔‘‘(القرآن)۔ اسلام گفتگو کو گالی گلوچ سے پاک رکھنے کا حکم دیتا
ہے کیونکہ ایمان والے کبھی لغو اور فحش گوئی سے کام نہیں لیتے ہیں۔آپﷺ نے
فحش اور بے ہودہ گفتگو کو سخت نا پسند فرمایا ہے ۔آ پ ﷺ نے فرمایا ’’مسلمان
کو گالی دینا بڑا گناہ ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔‘‘(بخاری)۔اس حدیث
کی آڑ میں ہم کسی غیر مسلم کی دل آزاری و دل شکنی ہر گز نہیں کر سکتے ہیں
کیونکہ ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں برائی کو بھی اچھائی سے دور کرنے کا حکم دیا
ہے۔گالی دینا بہت بڑا گناہ ہے۔گالی دینے والا کامقصد گالی دے کر دوسرے
انسان کی تحقیر و تذلیل کرناہوتا ہے جو اﷲ تعالی کو سخت ناپسند ہے۔’’اور
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ
لوگوں کو اﷲ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں۔یہی و ہ لوگ ہیں جن کے
لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔‘‘(القرآن)رسول اکرم ﷺ کا انداز تکلم تمام
انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے آپ ﷺ کی گفتگو صاف اور واضح ہوتی تھی جسے ہر
سننے والا سمجھ لیتا تھا(سنن ابوداؤد)۔نبی اکرم ﷺ کے انداز تکلم سے ہمیں
درس ملتا ہے کہ ہماری گفتگو صاف واضح ہونے کے ساتھ مختصر اور جامع ہو۔بات
کرتے وقت ہم کو ٹھہر ٹھہر کر بات کرنی چاہیئے تاکہ سننے والے ہماری بات
آسانی سے سمجھ پائیں۔طویل گفتگو سے پرہیز کی آپﷺ نے ہم کو تلقین فرمائی
ہے۔.’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ گفتگو میں توسط اختیار کروں کیونکہ درمیانے
انداز میں ہی خیر ہے۔‘‘(سنن ابو داؤد)۔آپ ﷺ نے گھوما پھرا کر بات کرنے سے
بھی منع فرمایا ہے۔’’لہذا انہیں اﷲ سے ڈرتے رہنا چاہیئے اور جو بات کر یں
صاف اور سیدھی بات کریں۔‘‘(القرآن)۔گفتگو میں ضد ،ہٹ دھرمی سے ہر گز کام
نہیں لینا چاہیئے۔بحث و مباحث کے وقت بات دلیل اور شعور سے کریں،کسی کی عزت
نہ اچھا لیں۔سیرت رسول ﷺ ہم کو دوران گفتگو الجھنے سے منع کرنے کے علاوہ
جہلا کو قائل کرنے کے بجائے ان سے احسن طریقے سے اعراض کر نے کی تعلیم دیتی
ہے۔’’ اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب
جاہل لوگ ان سے(جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں(سلام کر کے گزر
جاتے ہیں)‘‘۔(القرآن)۔اس ضمن میں رسول اکرمﷺ نے لوگوں کے عقلی معیار اور
رتبے کے مطابق گفتگو کرنے کی ہم کو تعلیم دی ہے۔لوگو ں کو اکتا ہٹ سے محفوظ
رکھنے اور اپنی گفتگو میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے مخاطب کے معیار کا لحاظ
رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔لوگوں کو اتنی ہی باتیں بتانے چاہیئے جس قدر ان
کو ضرورت ہوتی ہے۔گفتگو انسان کی پہچان ہوتی ہے ۔بالمشافہ گفتگو و شنید کے
ذریعے پچاس فیصد سے زائد مسائل از خود ختم ہوجاتے ہیں۔
اچھی گفتگو خوش خلقی کا ایک بنیادی وصف ہے اسی لئے اﷲ رب العزت نے حکم دیا
ہے کہ’’لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آؤ‘‘(القرآن)۔خوش خلقی معاشرے کو امن کی
مضبوط بنیادیں فراہم کرسکتی ہیں۔آج معاشرے کا امن و چین ایک دوسرے کے خلاف
زبانی محاذ آرائی،برے الفاظ و القاب کے استعمال کی وجہ سے مکدر ہوگیا
ہے۔دینی مجالس ہو یاسماجی تقریبات یا نجی محفلیں اجتماعی بات چیت کے بجائے
گروہی گفتگو کی وباء عام ہوچکی ہے جہاں مخالفین پر کیچڑ اچھا لا جاتا ہے
اور ایسی تقریر یا گفتگو کو بہتر سمجھا جارہا ہے جس میں مخالفین پر زیادہ
سے زیادہ کیچڑا اچھالا جائے۔ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ گفتگو کرتے وقت
ہر انسان کی ضرورت اور معاشرتی امن کا خاص خیال رکھے۔کسی کو خوش کر نے کے
لئے کسی پر فقرے کسنا دانائی و دانشوری نہیں ہے۔الفاظ کے انتخاب کے متعلق
مشہور نقاد لونگنس(Longinus)اپنی شہرۂ آفاق تصنیف "On the sublime"میں رقم
طراز ہے’’آپ کے خیالات و تصورات کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں جب تک آپ کے پاس
صحیح اور موزوں الفاظ نہ ہو تو آپ اپنی تحریر و تقریر کو رفعت عطا نہیں کر
سکتے۔‘‘بعض لوگ کہتے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے اور اسی مقولہ کی آڑ میں بد
تمیزی اور بد اخلاقی کا مظاہر ہ کرنے لگتے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو بیشتر
موقعوں پر سچ کڑوا نہیں ہوتا ہے بلکہ سچ بولنے کا انداز کڑوا ہوتا ہے۔کڑوی
سے کڑوی بات بھی اگر سلیقے ،تہذیب و شائستگی سے کی جائے تب یہ بھی کانوں
میں شہد کھول دیتی ہے ۔اگر سچ بولنے کی آڑ میں مخاطب کی دل آزار ی ہے تب یہ
سچائی کی تبلیغ نہیں بلکہ ہماری خباثت ،تکبر کا پرچار اور انا کی تسکین کا
ایک حیلہ ہے۔سلیقہ مند گفتگو کی ایک بہترین مثال خلیفہ ہارون رشید کے دیکھے
گئے خواب کی تعبیر کے بیان میں دیکھنے میں آتی ہے۔خلیفہ ہارون رشید نے خواب
میں دیکھا کہ اس کے تمام دانت ٹو ٹ گئے ہیں اس نے تعبیر کے لئے ایک درباری
کو طلب کیا جس نے کہا کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے تمام رشتے دار ہلاک
ہوجائیں گے۔اس تعبیر سے بادشاہ بہت ملول ہوا اور ناراض ہوکر تعبیر بتانے
والے کو دربار سے نکال باہر کیا۔دوسرے شخص کو تعبیر کے لئے طلب کرنے پر اس
نے بتا یا کہ بادشاہ کوبہت طویل عمر ملے گی اور آپ کا انتقال خاندان میں سب
سے آخر میں ہوگا۔بادشاہ بہت خوش ہوا اور تعبیر بتانے والے کو انعام و اکرام
سے نوازا۔اسی لئے سچ کڑوا ہوتا ہے کہنے کے بجائے ہمیں سچ کو پیش کرنے کا
سلیقہ سیکھنا چاہیئے۔گفتگو کے دوران ہمیں چند باتو ں کا خاص خیال رکھنے کی
ضرورت ہوتی ہے جیسے زبان سے خیر کا کلمہ ہی نکالیں،کسی کی غلطی کی اصلاح
میں حکمت کا پہلو ہر گز نہ چھوڑیں،مخاطب کی قابلیت کا لحاظ رکھتے ہوئے بات
کریں،ہمیشہ حق ،سچائی و صداقت کو اپنا شعار بنائیں،بے جا بحث سے اجتناب
کریں،حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑے سے اجتناب کریں، گفتگو کو تکلف و تصنع سے
پاک رکھیں،درمیان میں کسی کی بات نہ کاٹیں،باچھیں کھول کر یعنی چیخ چیخ کر
بات نہ کریں اور غیبت و چغل خوری سے بہر صورت بچیں۔گفتگو میں تاثیر پیدا
کرنے کے لئے ضروری ہے کہ گفتگو کے ماحول کا خیال رکھ کر بات کریں۔گفتگو
کرنے کے لئے مناسب و موضوع وقت کا انتخاب انتظار کریں۔بات کرنے سے پہلے
سننے والی کی طبیعت و مزاج یعنی موڈ کا خیال رکھیں۔بات کرتے وقت یا بات
کرنے سے پہلے سننے والے کو ذہنی طور پر تیار کریں۔گفتگو کے وقت مناسب پوسچر
(انداز نشست و برخاست)آپ کی شخصیت کا تعارف پیش کرتاہے اسی لئے گفتگو میں
تاثیر و وزن پیدا کرنے کے لئے لب و لہجے اور پوسچر کا خاص خیال رکھیں۔
گفتگوسلیقے سے کریں ۔بے جا تنقید اورتنقید برائے تنقید سے پرہیز کریں۔ہر
بار اپنے مسائل اور پریشانیوں کو موضوع گفتگو نہ بنائیں۔گفتگو میں تنوع
پیدا کر یں اور ایک ہی موضوع پر باربار بات نہ کریں۔گفتگو کو موثر بنانے کے
لئے بولنے سے زیادہ سننے کی عادت ڈالیں۔الفاظ کے انتخاب میں احتیاط برتیں
کیونکہ الفاظ بے جان نہیں ہوتے ہیں ان میں روح اور زندگی ہوتی ہے۔تقریر ہو
یا تحریر دونوں بھی الفاظ کے محتاج ہوتے ہیں۔الفاظ شخصیت کے ہی نہیں بلکہ
حالات اور روایات کے بھی آئینہ دار ہوتے ہیں۔الفاظ زندگی بناتے بھی ہیں اور
زندگی برباد بھی کرتے ہیں ۔ جہاں الفاظ کسی کے اشتعال کو بڑھا تے ہیں وہیں
غصہ کم کرنے میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔ہمارے زبان سے نکلے ہوئے لفظ
کسی کے دل کو مجروح کرسکتے ہیں تو وہیں کسی کے غم کے مداوے میں نمایا ں
کردار ادا کرتے ہیں۔گفتگو اور الفاظ کا انتخاب انسان کے باطنی حسن کو اجاگر
کرتا ہے اسی لئے گفتگو اور الفاظ کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینے کی شدید
ضرورت ہوتی ہے۔گفتگو کو نشتر نہ بنائیں کیونکہ اﷲ نے ہم کو دلوں کو جوڑنے
کے لئے پیدا کیا ہے نہ کہ دلوں کوتوڑنے کے لئے، میر انیس کے شعر پر اپنی
تحریر کو ختم کرتا ہوں۔
خیال خاطر احباب چاہیئے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
|