غالب بنام ستم ظریف

صاحب!واللہ شہرخاص کاگڑبڑی لال سوختہ ؔ بلائے آسمانی ہے،آفت یزدانی ہے شامت لاسانی ہے۔ ہرچیزمیں مبالغہ آرائی کاتڑکہ نہ لگائے،کھاناہضم نہیں ہوتا ۔ بات سے بات نکالنے میں اسے یدطولیٰ حاصل ہے۔ ادھارمانگنے کے جھوٹے بہانے بناناان کے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے ۔ حقے کے لمبے لمبے کش لگالگاکرخبر زینہ کدل بنانا ، اَناپ شناپ ہانکنا ، بے پرکی اُڑاناکوئی اُن سے سیکھے۔کافی دن تک یہ بول بول کرغریب کوڈراتارہا:مرزا!آنے دو ۸ ؍ اور ۱۳؍ جولائی کو،سب کونانی یادآئے گی،ملک ِ کشمیرمیں نامساعدحالات کاسفینہ مزیداُلٹ پلٹ ہوجاوئے گا، سنہ سولہ جیساانقلاب آئے گا، دن قیامت رات محشر ہوگی۔ اب کی بار دلی چھوڑے کشمیر آنے کا زندگی بھر افسوس نہ ہوا تو کہنا سوختہؔ تم نادان و مجنون ہو۔۔۔ میں ٹھہرا سیاست ِدوران سے نا واقف ،امورِ سلطنت سے نابلد ، گردشِ زمانہ سے غافل، پکا اناڑی، سو فی صد غبی ۔ سوختہ ؔ کی زبانی گولے سن سن کر خوف اور ڈر، تشویش اور خدشات کے بحر بیکراں میں تادیر غوطے مارتارہا۔ خلوت میں دعا کے لئے نہیں صرف ماتھا پیٹنے کے لئے ہاتھ اُ ٹھتے رہے ، خود کی بہت ملامت کی کہ یہ کس ظالم نے دلی کی بہشت سے نکل کر کشمیر کے جہنم میں دھکیل دیا۔ یہ قیاس کر کے کہ سنہ سولہ کی تاریخ کا اعادہ ہو گا، گناہ گار نے قرضہ اٹھاکر اپنی کٹیا میں مہینوں کام آنے والاسودا سلف ذخیرہ کیا، دودھ سبزی تمباکو آب وخور کا سارا سامان لاچھپایا تاکہ فاقہ مستی سے پالاپڑے نہ زندگی گراں گزرے ۔۔۔ اور جب۸؍ جولائی کی صبح طلوع ہوئی اور شام بھی ڈھل گئی اور سوختہؔ کی ساری پیش بینی کذب بیانی کا پلندہ ثابت ہوئی تو خون کھول اٹھا۔ کشمیر میں امن غارت ہو ا نہ آشتی درہم برہم ہوئی۔ گناہ گار نے راحت کی سانس لی مگر سوختہؔ کے قیاسات پر پارہ اوپر چڑھا ،تہیہ یہ کیا سوختہ ؔ نظر آئے توکچا چبا جاؤں گا ، خواہ مخواہ خوف وخطر کے طور ما ر باندھ کر میرے دماغ کی گھنٹی بجا تا رہا ۔ کم بخت خراماں خراماں کٹیا میں آ ٹپکا، دیکھا تواس کا مذاق اڑایا : اَبے عقل کے دشمن! دیکھا کہیں کوئی پتہ بھی نہیں ہلا ، دور کی کوڑیاں لالاکر میری نیند اُچاٹ دی ۔ وہ اپنی افلاطونی زبان میں بولا: مرزا! صبر صبر، میں کوئی ریڈیو نہیں کہ اصل خبر کو قبر میں اُتارکر نقلی خبر کی تشہیر کروں ، میں کوئی ا کادمی بھی نہیں کہ کشت وخون کی فضا میں رقص وسرور کی بے حجاب مجلسیں سجاکر نارملسی کی شہنائی وادن کروں، میں سڑک چھاپ ہوں، پورا شہر گھوم آیا، مشاہدے کی آنکھ پر سیاسی عناد کی پٹی باند ھ لی نہ احساس کے آئینے پر مفاد کی زنگ چڑھا ئی۔ ناگفتہ بہ حالات کا ہر رنگ میں نظارہ کیا ۔ آپ اسے سیاسی کرامت کہئے ، عوامی مزاج کااُلٹ پھیر مانئے، زعفران ومفتیان کا مشترکہ کرشمہ سمجھئے، حریت کی دانش مندی گردانئے، رحمت ِخداوندی کا پرتو جانئے، جو پسند آئے سو بولئے مگر ہزاربار شکر خدا وند کا کہ یومِ برہان بخیر گزر ا، آندھی چلی نہ طوفان آیا، حالات بگڑے نہ دلخراش واقعات اپنے اخبارات کے عنوان ہوئے۔ خانہ خراب کیا کہئے کہ پانپور تا سوپور، ترال تا بانہال کشمیر فوجی چھاؤنی لگی، بستیاں محصور ، لشکرہند کے سامنے خلقت معذور ، بازار ٹھپ ، آدم کہیںنہ آدم زاد،سڑکیں ویران ، گلی کوچے سنسان، دوکانیں مقفل ،نقل وحرکت مسدود، زندگی ساری کی ساری نابود۔ انگاروادی کے مکینوں میں غم تھا، غصہ تھا، بے اطمینانی تھی، بے کلی تھی، ستم گرپانی پی پی کر حاکمانِ وقت کے نام صلوٰاتیں سناتے ، مغلظات بک بک کر دل کا بوجھ ہلکا کر تے ، شکرصد شکر ہلچل مچی نہ گڑ بڑ ہوئی۔ مجھے بھی اعتراف ہے ؎
کل جس سے رگ وپے میں خروشاںتھا تلاطم
گونجی ہوئی اب دل میں وہ آواز نہیں ہے

مرز ا جی! آپ ہی انصاف کیجئے، کیا بندوق کی نالی پر نافذ سکوتِ جبر کا نام امن وامان ہے ؟ کہاں گزشتہ سال ِرفتہ کا ۸؍ جولائی، کہاں سالِ رواں کا ۸ ؍ جولائی۔ ۔۔وہ آہ وبکا ، یہ سکوتِ جبر ، وہ خون خرابہ، یہ مجروح جذبات ، وہ جوش کا شعلہ ،یہ وحشت کا لاوا۔ اس بار پرندے کو بھی پرمارنے اجازت نہ تھی ۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے برہان کی یاد میںخلق ِ خدا ناشاد بھی پائی مغموم بھی دیکھی مگر مجبور و بے دست وپا اور پابہ زنجیر ، جگہ جگہ کایہی احوال وکیفیات دیکھیں ؎
خاک پر نوحۂ پیہم کی لگی ہیں مہریں
زیست پہ دیدۂٔ پُرنم کی لگی ہیں مہریں
دفتر عیش پہ بھی غم کی لگی ہیں مہریں
ذرے ذرے پہ جہنم کی لگی ہیں مہریں
پھر بھی کشمیر پہ ہے جنت کا گماں کیا کہنا

سوختہ ؔ کی باتوں میں اپنا دم اوروزن تھا۔ میں نے اس کی بات نہ کاٹی کیونکہ۸ ؍ جولائی کے سکوت سے کم ازکم جا نی ومالی نقصان اٹھانے سے مظلومین بچ گئے۔ یہ سب ہانک کردل جلاسوختہ چلم کودھواں دھواں کر کے چلتا بنا ۔ اگلے روز سرشام دوڑے دوڑے ہانپتا کانپتا پھرچلا آیا ، سانس پھول رہی تھی ، بدن کانپ رہا تھا، زبان لرزاں تھی ، میں نے فرض کیا کوئی قرض دار تقاضا کر نے آیا ہو ،اس لئے حسب ِعادت کچھ اُکھڑاُکھڑا لگتا ہے ۔ میں نے کہا سوختہ ؔ خیریت ہے، کوئی لالہ جی گھر آگیا کیا ؟ بولامرزا! قیامت آئی قیامت ، اُف توبہ! کشمیر میں بجز غم و اندوہ کوئی شئے دوامی نہیں، کل یُگ ہے کل یُگ !!! میرے کچھ پلے نہ پڑا تو ازراہِ تجسس سوختہ ؔ سے کہا: بولئے نا حضور ہوا کیا ؟ آپ اتنے پریشان کیوں ؟ کسی بستی میں ویرسینا اپنی بہادری کی دھاک بٹھارہی ہے؟ کسی ماں کا جگرگوشہ چھینا جارہا ہے ؟ کسی معصوم کی زندگی میں سناٹا لانے کے لئے چھروں سے آنکھیں پھوڑی جارہی ہیں ؟ کسی محلے کو خاکستر کیا جارہاہے ؟ کسی بزرگ کی تذلیل، کسی خاتون کی بے حرمتی کی جارہی ہے ؟ بولا:مرزا! وہ سب تو روز کا رونا ہے ، آپ کس دنیا میں رہتے ہیں ؟ یہ بھی نہیںسناابھی ابھی امر ناتھ یاتریوں پر حملہ ہوا؟ سات جانیں تلف ہوگئیں ، درجن بھر زخموں سے چُور پڑے ہیں۔۔۔ یہ منحوس خبر سن کر میرا ماتھا ٹھنکا، سوچنے لگا کیا پتہ اب اس کا بدلہ کن نہتوں سے لیا جائے گا ع
نئے فتنوں میں اب چرخ ِ کہن کی آزمائش ہے

سوختہ نے دم سنبھال کربولا:حضرت!انسانیت زندہ ہے،ہربارکی طرح اس دلد وز المیے دل شکن سانحے پرروحِ کشمیر چیخ اٹھی ۔ جنت آنسو بہائے،و اویلا مچائے، سینہ کوبیاں کرے ، ا پنا زخم پس پشت ڈالے اغیار کا زخم سہلائے، جنت میں کرب کی لہر دوڑے، درد کی ٹیس اٹھےتو کیا کہیں ع
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

لیکن ذرا سااُدھر جھانکئے ! یہ ہند وستان ہے یعنی جمہوریت کا نرالاگلستان ، انسانیت کا گل خندان، گنگا جمنی تہذیب کا گلدان۔۔۔ مگر حیف صد حیف کہ ہر مسلمان کے لئے یہ ملک کھلاقبرستان ،گائے ماتا کے نام پر کلمہ گوؤں کا دشمن جان، نفرتوں کا آتش فشان، رام بھگتی کے سائے میں مسجدومحراب پر نامہربان، اسرائیل سے بے جوڑدوستی مسلمان سے دشمنی پر بصد جان قربان ۔۔۔ مسلمانوں کی جانیں لینے ، داڑھیاں نوچنے، پردہ نشین خواتین سے دست درازیاں کر نے، بچوں کو تہ ِتیغ کر نے ، گھروں کو اُجاڑنے کو دیش بھکتی کا پوتر نام دیتا جائے۔ اپنے رام چندر جی اوتار اور دیوتا تھے، دیا لوتھے، مانوتا کے پرچارک تھے، پریم اور آدر کے پیکر تھے اور یہ نام کے رام کے بھگت ہیں ۔ان کے اند راؤن بسا ہے ۔اس لئے ہم ایسوں کا حال بقول اکبرؔ یہ بنا ہے ؎
یہ داغ پر داغ دل کے اندر یہ ناتوانی یہ جانِ مضطر
مرے مشاغل کی کچھ نہ پوچھو اداس رہنا اور آہ کرنا

میں نے کہا :سوختہؔ !یاتریوںکی پُر اسرار ہلاکت پر کشمیر کاسوگوارہو جانا ،عام خام کا دل فگار ہونا، چہار سُوواویلا مچ جانا ،ہر طرف ماتم بپاہونا ، یہی اہل کشمیر کی آدمیت ، یہی متاعِ گراں مایہ ، یہی جینے کی راہ ، یہی جیت کی امید، یہی انفرادیت و پہچان ہے ۔ واللہ مجھے گلشنِ کشمیر پر فخر ہے ، کشمیر کا ہر بندہ بجا طور دعویٰ کر سکتا ہے ؎
اوہام کے نزلے میں گرفتار نہیں
صد شکر کہ مرادماغ بیمار نہیں
ہاں ہاں میں آسمان کا ہوں باغی
حاشا کہ زمین کا خطاوار نہیں

جناب من!دوایک دن میں یہ المیہ بھی تاریخ کے ملبے تلے دفن ہوناتھا، سوہوا۔ دفعتاً سارا موضوع ِ گفتگو ہی بدلا۔اب۱۳؍ جولائی کی صبح آئی، حریت نے کشمیر بند کی باغیانہ رسم منائی ، حکومت نے اپنی حاکمانہ رِ یت نبھائی، شہرخاص زیرمحاصرہ آیا، عذاب وعتاب کا نیا باب رقم ہو ا، ہڑتال فقیدالمثال ہوئی، محاصرہ لاثانی رہا، سحر تا مسا دونوں طرف سے روایات کی تقلید ہوئی۔ شہر خاص کے لئے یہ اہتمامِ شوق کوئی نئی بات تھی نہ یہ طرزِ ستم نیا تھا ۔ نہ جانے سوختہؔ بچتے بچاتے، گلی کوچوں سے چھپتے چھپاتے ، دیواریں پھلاندتے میری کٹیا میں کیوں آدھمکا ۔ میں نے خوش آمدید کہی ۔ کرفیو توڑ کر دیدار دینے کی وجہ پوچھی ، بولا:گھر محصور نہ ہوں ، گلیاں رنگروٹوں کی تحویل میں نہ ہوں ، دل کی دھڑکنوں پر سنگینو ں کا پہرہ نہ ہو تو ۱۳؍ جولائی کا مزا کیا ؟ یہ سب ہو اور مرزا نظروں سے دور ہوں تو بھی کیا خاک مزا ! ارادہ کر لیا قصر غالب آکر اپنا غم غلط کروں، دونوں کو وقت گزاری کا بہانہ ملے۔ میں نے اس کرم فرمائی پر اظہارِ تشکر کے طور چلم سلگائی اور یہ پوچھنے کی غلطی کر بیٹھا حضور کو کا ہے کا غم ہے ۔ سوختہ ؔبولا شریمتی جی کا اصرار تھا کہ اتنے ماہ وسال بیت گئے ،ایک بار بھی مرزا صاحب اوربیگم جی کی دعوت نہ کی ، آج فرصت ملی ہے، انہیں گھر بلایئے۔ میں کس منہ سے کہتا شریمتی جی جیب میں پھوڑی کوڑی بھی نہیں ، آپ سے کچھ نئے قرضہ کی توقع یہاں کھینچ لائی ۔ وعدہ ٔ رائے شماری اور جی ایس ٹی کی قسم! سابقہ مع تازہ قرضہ عنقریب پائی پائی چکادوں گا ،اس بار میری عزت آپ کے ہاتھ۔ مابدولت کے پاس تلخ مسکراہٹ کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا ۔ کیسے اس کوتاہ بین اور قلیل العقل مشٹنڈے کو سمجھاتا’’ننگی نہائے کیا نچوڑے کیا ‘‘ مجھ پر ہی صادق آؤے ہے ۔ سوختہ ؔ میری مسکراہٹ کو رضامندی سمجھ کر گپ شپ میں لگا۔ بولا :مرزا! ملکِ کشمیر پر خلقِ خدا نازاں، تعریفوں میں رطب اللسان ، فخر سے کہیں یہ جنت کاپائیدان، زمین سوناچاندی آسمان۔۔۔ خانہ خراب کا ہے ایمان شہر خاص کشمیرکی شان، ملک کی انمول پہچان، اس کی رگِ جان، یہ شہر بے اَمان انقلابات ِ دہرکا دارالامتحان، ابتلاؤں کی شربت گاؤ زبان ، تحریک آزادیٔ کشمیر کی اقامت و اذان، مزاحمت ومقاومت میں گاماپہلوان ، شہیدوں کا وسیع قبرستان، پیلٹ پاوا کا پاندان، سنگ بازی کا طوفان ، اشک وآہ کا نرپرستان ، بات بات پر اسیر زندان ، پولیس کے لئے جنگ کا میدان ، عوام کے لئے بلائے جان ، مملکت خدادا د اس کے جذبوں پر قربان، دیارِ ہند اس پر قہر مان، ہل زبانی زبانی اس کا قدردان، قلم دوات اس سے بہت پریشان، ہاتھ کا یہاں نام نہ نشان ، کنول اس کی دشمنِِ جان ۔ سمجھ نہ آؤئے وہ مٹی بھی ہے کیا جس پر شہرخاص کی اُٹھا ن ہوئی کہ بغاوت اس کی سرشت ،رندی فطرت ، پار سائی طبیعت بنی ہے، لیکن ا تقدیرسے نالاں نہ قسمت سے شکوہ زن، شانِ بے نیازی میں مست قلندر اکبرؔ کا نغمہ گنگائیں ؎
ہے دوروزہ قیامِ سرائے فنا نہ بہت کی خوشی ہے نہ کم کا گلا
یہ کہاں کا فسانۂ سودوزیاں، جو گیاوہ گیا ، جو ملا وہ ملا
نہ بہار جمی نہ خزاں ہی رہی کسی اہل نظر نے یہ خوب کہی
یہ کرشمۂ شان ِ ظہور ہیں سب، کبھی خاک اُڑی کبھی پھول کھلا

مرزا جی !خواجہ بازار میں آستانِ نقشبندیہ کے بغل میں یوم شہدائے منایا گیا، تیسرے برس بھی صاحبہ نے گل باری کی رسم اکیلے نبھائی، قطب جموی نے ٹھینگا دکھایا ۔ صاحبہ کا بھی جواب نہیں، دلی جائیں تو اوما بھارتی جیسا لباس، شہر خاص آئیں توسبز عبایہ ۔ صبح تڑکے نیلے آسمان کی اُڑتی ابابیلوں کو سلامی دی، نرمل ساتھ تھا نہ گنگا، نہ کوہلی، بس اکیلی آئیں اکیلی گئیں۔ سنگھی بھلا شہدائے کشمیر کی تقدیس وتکریم کے لئے کیوں حاضری دیتے؟، شہدا ء کی پاک روحیں انہیں اپنے پاس پھٹکنے بھی دیتیں ؟وہ تو دوقومی نظریہ کے مہارتھی ہیں ، مہاراجہ ہری سنگھ کی اسی طرح جے جے کار کر تے ہیں جیسے مودی مہاراج نتین یاہو کی بلا ئیں لیتا ہے، ٹرمپ کو گلے لگاتا ہے ۔۔۔ مرزا! یہ بھی کیا تضاد ہے کہ یا تریوں کی ہلاکت پر اہل کشمیر کے اظہارِرنج والم کو سنگھ نے کشمیریت کہہ کر اس کا خیرمقدم کیا، مگر ۱۳؍ جولائی کے شہداء پر چپ سادھ لی۔ کیاوہ جلیاں والے باغ کے ہلاک شدہ گان کی مانندنہتے انسان نہ تھے؟ کیاان کا خون سرخ نہ تھا؟ کیاوہ جابر و ظالم شخصی را ج سے دو دوہاتھ کرنے کی سز ا نہ پائے تھے ؟ سنگھ نے ہمیشہ بزبانِ حال بتلایا ہم فرقہ پر ست ہیں ، تنگ نظر ہیں ، کسی منشور اتحاد کو نہیں مانتے ۔۔۔فاروق کوبھی شہداء یا دآئے مگر ان کی قبروں پرپھول کم بھاجپا پر زیادہ تنقید کے پتھر برسائے۔ معلوم نہیں اس لن ترانی کا مطلب کیا ہے ؟ کیا ہل والوں نے گجرات کے قتل عام پر سنگھ پریوار کا ساتھ نہ چھوڑکر ۴۷ء کی یاد نہ دلائی جب جموں کے لاکھوں مسلمانوں کی منظم کشی کے باجود مہاراجہ بہادر سے اُف تک نہ کیا ؟ مرزا ! باتیں خوب ہوئیں ،اب تھوڑا سا اُدھار چاہیے ۔ مر تا کیا کرتا ، میں نے خستہ ؔ سے کہا: چلو درابو کے جی ایس ٹی خزانے پر ڈاکہ مارتے ہیں ۔ ا للہ نے چاہا تو اتنا بڑاہاتھ ماریں گے کہ اٹونومی کی سات پشتیں فاقہ مستی سے نجات پائیں۔ یہ کہہ کر دونوں نامعلوم منزل کی جانب ڈاکہ ڈالنے چل دئے۔
سات پشتوں کے لئے امارت کا طالب
غا لب

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 391018 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.