مکول پائیں حادثہ کو گذرے ایک سال کے لگ بھگ کا عرصہ
ہوچکا ،انسانیت شرمسار وشرناک ہے ،سترہ سالہ عنبرین کو جس درندگی اور بے
باکی کے ساتھ گاڑیوں میں باندھ کر زندہ جلایا گیا ،اس کے زخم آج بھی تازہ
ہیں ،تیس اپریل دو ہزار سولہ کے اس واقعہ پر پورا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا
سراپا احتجاج تھا لیکن آج تک اس واقعہ کے ملزموں قرار واقعی سزا نہیں سنائی
گئی ،زیادہ سے زیادہ یہ کہ جرگہ کو اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھرایا گیا جس کی
ایماء پر یہ سانحہ رونما ہوا تھا ۔ایبٹ آباد کے سینے پر یہ بدنما داغ اور
دھبہ کیا کم تھا کہ ایک اور اندوہناک واقعہ سفاکیت اور بربریت کو اپنے جلو
میں لیے رونما ہوگیا ،تفصیلات کے مطابق حویلیاں کنگڑ میرا میں ایک جنونی
اسی سالہ بوڑھے نے سات سالہ مزمل کی جان لے لی ،مکئی کے کھیت میں معصوم بچہ
اپنے گدھے کو ہانکنے کیا گیا ایک معمر جنونی شخص نے کھیت میں بیل کے ساتھ
بچے کو باندھا اور دوڑاتا رہا جس کے باعث مزمل جان کی بازی ہار گیا ،اس
واقعہ کو محض ایک واقعہ نہ سمجھیں ،ایک حادثہ نہیں ،ایک معمول کی کارروائی
نہیں بلکہ یہ اس بے رحم معاشرے کی تصویر کا ایک رخ ہے ، جس میں برداشت ،تحمل
اور بردباری سبھی عنقاء ہو چکی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم چائلڈ رائیٹس کمیٹی نے اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے
سخت برہمی کا اظہار کیا ہے مزید خو ش آئند یہ کہ اس تنظیم نے بچے کا کیس
مفت لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے تما م حقائق سامنے لانے اور ملزم کو قرار
واقعی سزا دینے کی ٹھان لی ،بات اگر صرف ایک بوڑھے کی ہوتی تو کہا جا سکتا
تھا کہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہیں ہوں گے لیکن یہاں بات بہت آگے نکل چکی
ہے ،یہاں کے پنجاب میں کسان چودھریوں اور وڈیروں کے ظلم کا نشانہ بنے ہوئے
ہیں ،کبھی تو سنتے ہیں کہ وڈیرے نے مظلوم کسان کو رسیوں سے باندھ کر تشدد
کیا تو کبھی اس کوبرہنہ کرکے شہر بھر میں گھمانے کی خبریں گردش کرتی ہیں ،کہیں
سنگدل باپ اپنے ہی بچوں کا قاتل ہے تو کہیں ماں بچوں کو ٹرین کے نیچے
پھینکتی نظر آتی ہے ،کسی جگہ سنتے ہیں کہ باپ کو بیٹے نے موت کے گھاٹ اتار
دیا تو کسی جگہ نافرمان بیٹے نے ماں کو موت کی وادی میں اتار دیا ،کہیں حوا
کی بیٹی عصمت و عفت گنوا بیٹھتی ہے تو کہیں جبر و قہر کا نشانہ بنتی نظر
آتی ہے ،اس سب کو اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے ہم اپنی اقدار
اور تاریخ کھو چکے ہیں ،ہم اسلام اور اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ہوچکے
ہیں ،اسلام سے وابستگی اور تعلق ہوتا تو بوڑھا شخص اپنی عزت ،قدر اور تکریم
برقرار رکھتا ،اسے معلوم ہوتا کہ اسلام نے اس کو کیا عزت بخشی ہے ،جس کے
سفید بالوں خدا تعالی بھی شرم کرتا ہے ،جسکے بارے میں کہا جاتا ہے اﷲ کی
بزرگی میں سے یہ بھی ہے کہ بوڑھے شخص کا اکرام کیا جائے ،لیکن یہی بوڑھا جب
اپنے مقام سے گرتا ہے تو حرص و ہوس کا پجاری بن بجاتا ہے ،انسانیت کو شرما
جاتاہے ،رعونت اور تکبر میں آخری حدود کراس کر جاتا ہے ،گھر ہو یا باہر سب
کے لیے وبال جان اور معاشرے پر بوجھ بن جاتا ہے ،کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ
بوڑھا اپنے مقام کو جانتا ۔۔؟اسلام سے تعلق ہوتا تو بچی گھر سے بھاگنے کی
بجائے والدین کی رضا پر مت مٹتی ،گھر سے قدم باہر نہ رکھتی ،کوئی جوان اپنی
جنت کو اپنے ہاتھوں برباد نہ کرتا ،اور کوئی والد رحمت و شفقت کو ترک نہ
کرتا ،گھر میں موجود تلخ لہجے اور من مانیاں والدین سے اولاد کو باغی بنا
رہی ہیں ،وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خلاف ادبی کے مرتکب ہوجاتے ہیں ،والدہ اگر
بچوں کے پالنے کے اجر وثواب کو جانتی تو کبھی اپنے گھ چلتی ٹرین کے آگے بچے
نہ پھینکتی ،جی ہاں ضرورت ہے سوچنے کی ،فکر کی اور غور کرنے کرنے کی آیا ہم
اسلام اور اسلامی اقدار سے باغی تو نہیں ہوچکے ۔۔۔؟ہر شخص شریعت کے مقرر
کردہ حقوق ادا کرے تو ہمارا معاشرہ جنت نظیر بن جائے ،ہمارے حکمران عمر بن
عبد العزیز ہوں گے اور ہم اسلامی فلاحی ریاست کے مزیگھر سے لوٹیں گے ،تو
آغاز کیجیے ،اپنے سے ،گھر سے ،اہل و عیال سے ،اگر نہیں تو عنبریں جیسی
ہزاروں کی عصمت پامال ہوتی رہے گی ،بوڑھے سفاک بن کر بچوں کو بیلوں کے ساتھ
باندھ کر قتل کرتے رہیں گے اور ہم مذمت ۔۔۔۔؟ |