میرے ایک دوست کے درمیانے درجے کے سکول ہیں، کرایہ
کی عمارتوں میں قائم ہیں، سڑک اور سکول کی عمارت کے درمیان مناسب جگہ موجود
ہے۔ وہ درخت اور پودے وغیرہ لگانے کا شوق بھی رکھتا ہے، پودوں سے وہ اس لئے
بھی محبت کرتا ہے کہ دیگر خصوصیات کے علاوہ درخت اور پودے اﷲ تعالیٰ کے
سامنے سجدہ ریز ہیں۔ وہ درختوں سے سایہ بھی حاصل کرتا ہے، یہ پودے آکسیجن
کی بحالی (اور پیداوار )کا ذریعہ بھی ہیں، خوبصورتی کا سبب بھی ہیں، پھول
اپنی حُسن و خوبی کے ساتھ ساتھ ماحول کو معطر بھی کرتے ہیں۔ مگر میرا دوست
اس معاملہ میں ذرا چالاک واقع ہوا ہے، وہ پودوں سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ
یہ اﷲ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں، یوں وہ اﷲ کی مخلوق سے پیار کرکے
ثوابِ دارین کا مستحق قرار پانے کا امیدوار بھی ہے۔ وہ پودوں کے پاس بیٹھتا
ہے، ان سے باتیں کرتا ہے، ان کی صفائی اور خوراک وغیرہ کا خیال رکھتا ہے۔
اُس کی اِس عادت کا نتیجہ ہی ہے کہ اس کے سکول کے ملازم بھی ’مالی‘ بن چکے
ہیں، وہ بھی پودوں کی دیکھ بھال نہایت جوش وجذبے سے کرتے ہیں۔
اُس نے گزشتہ موسم بہار میں اپنے ایک سکول کے سامنے دس پودے لگائے، جو نئے
حالات کے مطابق بہت قدآور بھی نہیں اور اتنے چھوٹے بھی نہیں کہ سایہ بھی نہ
دیں۔ پودے لگوانے کے بعد ان کے گرد اینٹوں کی دیواریں چُنیں گئیں، جن سے
ہوا اور روشنی کے اندر جانے کا اہتمام تھا۔ایسے ہی چار پودے اس نے عمارت کے
اندر موجود گراؤنڈ میں لگائے۔ ایک روز وہ مجھے بھی اپنے پودے دکھانے لے گیا،
تمام پودے کونپلیں نکال رہے تھے، اس نے ایک ایک پودا مجھے دکھایا ، ساتھ
ساتھ وہ اپنے جذبات کا اظہار بھی کر رہا تھا، اس کی خوشی دیدنی تھی، وہ
شاداں تھا کہ کچھ عرصہ قبل یہاں خشک ماحول دکھائی دیتا تھا، اور کچھ ہی
عرصہ بعد یہاں سڑک پر سے گزرنے والے سرسبز ماحول دیکھیں گے تو اُنہیں بھی
خوشی اور تروتازگی کا احساس ہوگا، اگلے برس جو بچے اس سکول میں داخل ہوں گے
وہ بھی آنکھوں میں ٹھنڈک کے احساس کے ساتھ ہی آئیں گے۔ پودوں کی بڑھوتری کی
بنا پر اسے اپنے خوابوں میں رنگ بھرتا نظر آتا تھا، اسی لئے وہ خوشی سے
پھولا نہیں سماتا تھا، پودوں کے پتوں کو ہاتھوں سے سہلاتا تھا۔ اس نے مجھے
بتایا کہ مارچ میں پھوٹنے والی کونپلیں جولائی اگست کے موسمِ برسات تک
مضبوط شاخوں کا روپ دھار لیں گی، اور یہ پودے پانچ چھ ماہ میں واضح طور پر
دکھائی دینے لگیں گے۔
گزشتہ روز میری اپنے دوست سے کئی روز بعد ملاقات ہوئی، وہ نہایت افسردہ اور
پریشان تھا، کسی چیز کے چِھن جانے کا غم اسے کھائے جارہا تھا، میں اس کی
پریشانی بھانپ کر کوئی سوال کرتا ، وہ خود ہی اپنی رودادِ غم سنانے لگا۔ اس
نے بڑے دکھی لہجے میں بتایا کہ فروری کے آخر میں اس نے مذکورہ بالا پودے
لگائے تھے، مارچ میں وہ جڑیں پکڑ چکے تھے، اپریل میں کونپلیں پھوٹنے لگی
تھیں۔ مئی کے اواخر میں گرمی کی چھٹیاں ہوگئیں۔ وہ کبھی کبھار سکول کا چکر
لگا کر پودوں کو دیکھ آتا تھا، ورنہ سکول کا ملازم ، جوکہ مالی کے فرائض
بھی سرانجام دیتا تھا، ان کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اب برسات کا موسم کہ جو
پودوں کی بڑھوتری میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، یوں جانئے کہ پودوں کو
نئی زندگی ملتی ہے، بارش کاپانی سبزے کے لئے آبِ حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔
مگر ․․․ یہ بیان کرتے ہوئے اس کا دم گھٹنے لگا، گویا کلیجہ منہ کو آنے لگا
․․․ تمام پودے گلی محلہ میں پھرنے والے شرارتی بچوں نے اکھاڑ دیئے تھے،( یہ
بھی اس کا گمان ہی تھا) اب شکستہ دل کے ساتھ دوبارہ پودے لگائے جائیں گے،
ان کی حفاظت کے لئے اینٹوں کی دیواریں تعمیر ہونگی، اوپر کانٹوں بھری شاخیں
رکھی جائیں گی۔ تین ماہ بعد خزاں کا موسم شروع ہو جائے گا، نامعلوم پودے جڑ
پکڑ سکیں گے یا نہیں۔ میں اپنے دوست کے غم اور پریشانی میں برابر کا شریک
ہوں، کیونکہ میں موسمِ بہار کی شجر کاری میں اس کی خوشی میں برابر کا شریک
تھا، اس کے جذبات کو دیکھ کر ہی مجھے بھی اس مخلوق سے محبت کا ادراک ہوا۔
ہم لوگ شجر کاری کے مسائل کو روتے ہیں، مگر یہاں تو شجراکھاڑی کا سلسلہ بھی
نہیں رکتا، چھوٹے پودوں کو بچے اکھاڑ دیتے ہیں اور اگر وہ درخت بن جائیں تو
’’ٹمبر مافیا‘‘ اپنا کام دکھا جاتا ہے۔ |