گزشتہ سال جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ’ اسلام کانفرنس
‘کے دس سال پورے ہونے کی ایک تقریب میں دعوت نامہ ملنے پر شرکت کی تھی۔برلن
تقریباََ180اقوام پر مشتمل شہر ایک ایسے گلدستے کی طرح ہے ، جہاں تمام
قومیت ایک گلدستے کی مانند رہتی ہیں۔ایڈولف ہٹلر کے ملک جرمنی کے شہربرلن
میں قدم رکھتے وقت میرے ذہن میں دوسری جنگ عظیم کے وہ افسانوی تاریخ تھی جس
کے گرد ہولناک تباہیاں اور ہولو کاسٹ کی کہانیاں گھوم رہی تھیں۔ جرمن جیسی
قوم کو مفتوح کرنے کے بعد امریکہ، برطانیہ ، فرانس اور سوویت اتحاد نے کچھ
اس طرح تقسیم کرلیا تھا کہ برلن شہر بھی چار حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔میرے
لئے جرمن کا یہ شہر ایک افسانوی کردار کی طرح تھا جس نے دنیا کو ثابت کردیا
تھا کہ اگر ایک قوم بن کر کوئی تحریک بڑھائی جائے تو اس دیوار کو بھی توڑا
جا سکتا ہے جیسے استعماری قوتوں نے ایک قوم کو جدا کرنے کیلئے قائم کی تھی
۔
ایڈولف ہٹلر کے شہر میں اسلام کانفرنس کی ایک دہائی پر مشتمل ایک تقریب میں
شرکت کے موقع پر مجھے وولفگانگ شوذیلے( سابق وزیر داخلہ ) کی تقریر کا ایک
جملہ ہمیشہ یاد رہے گا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ "اسلام جرمنی اور یورپ
کا حصہ ہے ۔ یہ ہمارے ماضی کا حصہ تھا اور مستقبل کا بھی حصہ رہے گا۔"جرمنی
میں کرش ڈاگ کے نام سے بھی عیسائی جو دراصل جرمن پروٹسٹٹ چرچ کی اسمبلی ہے
۔مسیحیت میں مذہبی ’اصلاحات ‘کے عمل کے بعد 500سال پورے ہو نے پر بھی
تقاریب منعقد کی جاتی ہیں یہ عموماََ ہر دو سال بعد منعقد ہوتی ہے ، ہزاروں
مندوبین ان تقاریب میں شرکت کرتے ہیں۔ تاہم گزشتہ سال اسلام کانفرنس میں
جہاں ریاست اور مذہب کے درمیان مسائل کو زیر بحث لایا گیا وہاں ایسے اجلاس
حکومت اور مسلمانوں کے درمیان مکالمے کا مرکزی ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ جرمنی
نے شام وعراق میں خانہ جنگی کے بعد بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو پناہ بھی دی
لیکن دوسری جانب مہاجرین کی آمد کے ساتھ ہی کچھ ایسے پرتشدد واقعات بھی
ہوئے، جس کی وجہ سے جرمنی میں رہنے والے مسلمانوں کو تنقید و مشکلات کا
سامنا بھی ہے۔ جرمنی میں دہشت گردی کے واقعات بڑھنے کے بعد مسلم کیمونٹی کے
مسائل میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے ، جس میں سمندر کے راستے آنے والے
ایسے مہاجرین کو روکنے کیلئے مہاجرین کے مخالفین کی جانب سے سمندری گشت بھی
شامل ہے تاکہ کوئی مہاجر سمندری راستے کے ذریعے جرمنی میں داخل نہ ہوسکے ۔
اسی طرح مسلم کیمونٹی پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ وہ انسداد دہشت
گردی کے خلاف موثر آواز نہیں اٹھاتی، جس پراعتدال پسند مسلم کیمونٹی کے
اماموں نے ’انسداد دہشت گردی مارچ ‘ برلن کو اپنا دوسرا پڑاؤ بنایا اور اس
’کرسمس مارکیٹ ‘کے مقام پر بھی گئے جہاں دہشت گردوں نے عوام کو نشانہ بنایا
تھا۔یہ آئما کا گروپ فرانس ، جرمنی اور بیلجیم کے دورے پر تھا جو ان مقامات
پر گئے جہاں دہشت گردی کی کاروائیاں ہوئیں تھیں۔ یہ ایک مثبت دورہ تھا جس
سے ایک اچھا پیغام گیا۔
سن 2015 میں یورپ میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد محض ایک برس کے
اندر اندر جرمنی میں مقیم غیر ملکیوں کی تعداد میں پندرہ لاکھ مزید نفوس کا
اضافہ ہوا جب کہ سن 2016 میں بھی مزید پانچ لاکھ غیر ملکی جرمنی آ کر آباد
ہوئے۔ یوں صرف ان دو برسوں کے دوران جرمنی میں دو ملین (قریب تئیس فیصد)
مزید غیرملکیوں کا اضافہ ہوا۔یوروسٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو
برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانی شہریوں نے بھی مختلف یورپی ممالک
میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ جرمنی اور اٹلی پاکستانی تارکین
وطن کی پسندیدہ منزل رہے ہیں۔لکسمبرگ میں قائم یورپی یونین کے دفتر شماریات
یوروسٹَیٹ نے گزشتہ برسوں کے دوران پاکستانی شہریوں کی درخواستوں پر سنائے
گئے فیصلوں سے متعلق اعداد و شمار بھی جاری کیے ہیں، جن کے مطابق سن 2015
اور سن 2016 کے دوران یورپی یونین کے اٹھائیس رکن ممالک میں حکام نے مجموعی
طور پر51ہزار سے زائد پاکستانی تارکین وطن کی درخواستوں پر فیصلے سنائے۔ ان
نصف لاکھ سے زائد پاکستانی باشندوں میں سے قریب ساڑھے دس ہزار کو باقاعدہ
طور پر مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دے دی گئی، جب کہ چالیس ہزار پاکستانیوں
کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ملک بدری یا رضاکارانہ وطن واپسی ایک مشکل
موضوع ہے، جرمنی میں موجود تارکین وطن اس پر بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔
لیکن بہتر معاش کی تلاش میں یورپ کا رخ کرنے والے اکثر تارکین وطن پناہ کے
فیصلوں پر طویل انتظار، جرمن زبان سے عدم واقفیت اور روزگار کے مواقع نہ
ملنے کے بعد مایوس ہو کر وطن لوٹنا چاہتے ہیں۔اس کے لئے جرمن حکومت کی جانب
سے رضا کارانہ واپسی پر مالی معاونت بھی ملتی ہے جو500 یورو سے لیکر1200
یورو تک ہے۔پاکستانیوں کی ہجرت کی بنیادی وجہ ایک بہتر مستقبل کی تلاش
کیلئے غیر قانونی راستہ اختیار کرنا تھا, ، ورنہ پاکستان سے ہجرت کا رجحان
کی کوئی دوسری وجہ نہیں۔پاکستان مسلسل چار دہائیوں سے دہشت گردی اور پراکسی
وار کا کسی نہ کسی شکل میں سامنا کررہا ہے ۔ موجودہ حالات میں پاکستان میں
سب سے بڑا خطرہ فرقہ واریت کے تناظر میں تیزی کے ساتھ بڑھنے والی مذہبی
منافرت ہے ۔ جس کی وجہ سے پاکستان کو آنے والوں ادوار میں فرقہ واریت کے اس
عفریت کو روکنے کیلئے مثبت اقدامات کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ اس وقت دہشت گردی
اور انتہا پسندی کی جس جنگ سے ہم نبر الزما ہیں ، وہ بیرونی سازشوں کا کا
شاخانہ ہے ، لیکن اس میں اندورنی عناصر ہی بیرونی منصوبہ سازشوں کے آلہ کار
اور سہولت کار بنے ہوئے ہیں ۔ جس کی وجہ سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے
سیکورٹی فورسز کو دشواریوں کا سامنا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس
حوالے سے باقاعدہ کوئی عملی قدم بھی نہیں اٹھایا گیا کہ مختلف مسالک کو ان
نکات پر یکجا کیا جاسکے جس میں باہمی اختلافات ، اجتماعی مفاد پر غالب نہ
ہوں اور بیرونی شر پسند عناصر کو ایسے مواقع میسر نہ آسکیں جس بنا پر
پاکستان کے مسلمانوں کے درمیان ایک ملت وقوم کے تصور کو پنپنے دیا جاسکے ۔
ذاتی مشاہدے میں یہ بات دیکھی ہے کہ غیر مسلم ریاست کی پالیسیاں چاہے کسی
بھی مسلم ملک کے خلاف جتنی بھی سخت ہوں ، لیکن اپنی ریاست میں امن کے قیام
کے لئے خارجہ پالیسی میں واضح فرق ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلم ممالک ہی
خانہ جنگی میں مبتلا ہیں اور ان خانہ جنگیوں سے متاثرہ مہاجرین کی بڑی
تعداد کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جنگ سے دور ایسے ملک میں امن کے ساتھ رہ سکیں
جہاں انھیں سکون کے لمحات میسر آسکیں ۔ لیکن ایسا ہونا ناممکن ہوتا ہے ۔
مسلم ممالک زیادہ تر ترقی پذیر معیشت کے ساتھ اپنی مملکت کے شہریو ں کو
بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہوتی ہیں تو دوسری جانب مہاجرین کا
سیلاب ایسے ممالک کے لئے کمر توڑ ثابت ہوتا ہے ۔ پاکستان میں اس وقت بھی
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 23لاکھ اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق
چالیس لاکھ کے قریب مہاجرین ہیں ۔جو گزشتہ چالیس سالوں سے پاکستانی معیشت
اور امن و امان کے حوالے سے بوجھ بن چکے ہیں ۔
جرمنی ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجود مہاجرین کا بڑا بوجھ اٹھانے کیلئے
پریشانی کا سامنا کررہا ہے یہاں تک کہ ریاست کو مہاجرین کی بحالی کیلئے
جرمن کے کاروباری اداروں کو اعلان کرنا پڑا ۔جرمنی میں ملازمتوں کے وفاقی
ادارے (بی اے) نے زور دیا ہے کہ جرمن کاروباری ادارے ملک میں مقیم زیادہ سے
زیادہ مہاجرین کو روزگار فراہم کرنے کے لیے مزید ہمت کا مظاہرہ کریں۔اوفن
باخ کے جاب سینٹر کے سربراہ ماتھیاس شلزے کے مطابق زبان سکھانے اور فنی
تربیت کے پرگرام کام کیساتھ ساتھ جاری رکھنے سے مہاجرین کیلیے ملازمتیں
حاصل کرنے کے کا عمل آسان ہو پائے گا۔لیکن اس کیلئے زبان سیکھنے کا عمل
انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان میں مہاجرین اسی لئے بہت جلد کاروبار سے وابستہ
ہوگئے تھے کیونکہ ان کی لسانی زبان پاکستان میں با آسانی بولی و سمجھی جا
سکتی تھی ۔ چار عشروں سے رہنے کی وجہ سے دیگر مقامی سیکھنے میں نئی نسل کو
کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا ۔ گو کہ مہاجرین کی واپسی کا عمل
نہایت سست روی کا شکار ہے باوجود اس کے اثرات پاکستان پر تادیر تک قائم
رہیں گے ۔ پاکستانی حکام و اداروں و منصوبہ ساز وں کو پاکستان میں بیرونی
عناصر کی پراکسی وار کوروکنے کیلئے ’ اسلام کانفرنس ‘ کی طرز پر ایسی مربوط
پلاننگ کی ضرورت ہے جس میں مذہبی منافرت کے رجحان کو کم کیا جاسکے اور فرقہ
واریت کے جس اژدھے نے پھن پھیلانا شروع کیا ہوا ہے ایسے مزید پھیلنے سے
روکنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ایک غیر مسلم ملک میں
مختلف مذاہب کے افراد باہمی ہم آہنگی کیلئے یکجا ہوسکتے ہیں تو پاکستان میں
مسلم مسالک کیوں نہیں ہوسکتے ۔ |