بول کے لب آزاد ہیں تیرے

ہم 21ویں صدی میں جی رہے ہیں اس صدی کی ایک بہت خوبصورت تخلیق عورت ہے۔ عورت ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہے لیکن افسوس قدرت کے اس خوبصورت شاہکار کو ابھی بھی وہ مقام حاصل نہیں جو اسے ملنا چا ہئے اب وہ دور نہیں جس میں صرف تمام گھر کی ذمہ داریاں مرد پر عائد ہوتی تھیں اب عورتیں مرد کے شانہ بشانہ مختلف کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں جس کے لئے انہیں محفوظ چاردیواری سے باہر نکلنا پڑتا ہے جبکہ باہر نکلنے پر لوگ اسے جینے نہیں دیتے ،ایساکیوں ہے ؟ایک اندازے کے مظابق شہری آبادی کی70 فیصد خواتین نہ صرف گھریلو خدمات انجام دے رہیں ساتھ ہی ساتھ ملازمت ، تعلیم اور مختلف کارہائے منصبی کے لئے اپنے گھروں سے نکلتی ہیں جہاں انہیں ہراسمینٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔یہ ہراسمینٹ کیا ہے ؟،باحیااورباصفا خواتین کوبرے القابات سے پکاریاجانا ، فقرے کسنا،جنسی طور پر ہراساں کرنا ،واک کرتے ،شاپنگ کرتے، دوران ملازمت ٹچ کرنا ِ ،ملازمت کے دوران تنگ کرنے کو زیادہ ورک لوڈ ڈال دینا،معصوم لڑکیاں جو کہ انتہائی مجبوری میں گھروں سے نکلتی ہیں اور ا کثر اوباش نظروں کا سامنا نہ کر سکنے کی وجہ سے تعلیم کو خیر آباد کہ دیتی ہیں کوئی بھی ذی ہوش اورذی شعور انسان آج تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ پبلک ٹرانسپورٹ ،اور ورک پلیس پر غلیظ نظروں کا استعمال ایسی کون سی لمحے بھر کی تسکین دیتا ہے جس سے کسی کا مستقبل خراب ہو جائے ۔ہراسمینٹ کی ایک قسم دفاتر میں پائی جاتی ہے جو لڑکی ادارے کے کرتا دھرتا کی منظور نظر ہو اسے ایک بہترین پیکیج حاصل ہوجاتا ہے جبکہ دوسری قسم کے لئے ترقی کا سفر روک دیا جاتا ہے انہیں جائز سہولیات اورمراعات سے محروم کرکے دیوار سے لگادیاجاتا ہے جو بسااوقات ان کے حوصلے کو مزید پست کر دیتا ہے ۔گھروں میں کام کرنے والی بچیاں اکثر مالکان کے ہاتھوں جنسی ہوس کا شکار ہوتی ہیں لیکن خاموشی سے ظلم کو برداشت کرتی اورسلگتی ہیں ظلم کی ایک اور قسم حالیہ ایک مشہورخاتون اینکر کے اپنے گھر کی داستا ن ہے جنہوں نے ایک معصوم بچی کو حبس بے جا میں رکھا ہوا تھا ۔بس میں موجود ایک بچی نے مجھے بتا یا کہ دو ران سفر میرے پیچھا بیٹھا شخص مستقل نازیبا حرکات کرتا رہا اور چاقو کی نوک سے اسے ڈراتا بھی رہا عزت اور خوف جیسی ملی جلی کیفیت کی وجہ سے وہ چپ رہی اور کالج جانا چھوڑ دیا میں بھی اپنے زمانہ طالبعلمی میں اس خوف سے گزر رہی تھی جب مجھے میری ایک کزن نے جن کا تعلق بھی میڈیا سے ہے بتایا کہ میں ہر جگہ اکیلی رکشے پر آتی جاتی ہوں میں نے پوچھا آپ کو ڈر نہیں لگتا ؟کہنے لگیں رکشے والے دی ہمت مینوں چک کر لے جائے اور میں قائل ہوگئی کہ واقعی کسی کی ہمت کے کسی کو اٹھا کر لے جائے ہیں میرے لئے وہیں سے آگہی کے ایک سفر کا آغاز ہوا کہ اگر کوئی لڑکی نہ چاہے تو اسے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا اگر وہ چاہے تو ہر جگہ ہر فورم پر آواز بلند کر سکتی حکومت وقت کے اس سلسلے میں اقدامات قابل تعریف ہیں ۲۰۱۶ دسمبر میں قائم ہونے والی پہلی سائبر ہراسمینٹ ہیلپ لائن اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے تحت 080039393 پر کال کی جا سکتی ہمارا انٹرنیٹ سے ایک سال پہلے شروع ہونے والی اس ہیلپ لائن کو نگہت اور ان کی ٹیم نے لانج کیا جس کے مطابق اسٹو ڈنٹس کو کالجز اور یونیورسٹیز میں جا کر ہراسمینٹ سے بچنے کی تربیت دی گئی اس مسلئے سے نبٹنے کا دوسرا طریقہ ایف آئی اے کو رپورٹ فائل کرنا ہے جس کے زریعے بنا گھر والوں کے علم میں لائے اس مسلئے سے چھٹکارا پایا جا سکتا ۔دوسری طرف ڈالفن فورس کا قیام بھی اسٹریٹ ہراسمینٹ کو روکنے میں کافی فعال ثابت ہوا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین اپنے اندر سے اس ڈر کو جھٹک دیں کے وہ کمزور ہیں ایک بہادر عورت ہی ایک مکمل معاشرے کو تکمیل کرتی ہے اور اس تکمیل کے لئے لبوں کا آزاد ہونا بہت ضروری ہے بقول شاعر

بول کے لب ٓزاد ہیں تیرے
بول زبان اب تک تیری ہے
بول کے تھوڑا وقت بہت ہے
جسم وزبان کی موت سے پہلے
بول کے سچ زندہ ہے اب تک
بول جہ کچھ کہنا ہے کہ لے
 

Amina Usman
About the Author: Amina Usman Read More Articles by Amina Usman: 24 Articles with 17690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.