آبادی کے اعتبار سے ہندوستان کے تیسرے سب سے بڑے صوبہ ’’بہار‘‘
میں گزشتہ ہفتہ ایک ایسا سیاسی بھونچال آیا کہ شاید ہی آزادی کے بعد ستر
سال میں ایسا واقعہ رونما ہوا ہو۔ چوبیس گھنٹے میں صوبائی حکومت بھگوا رنگ
میں تبدیل ہوگئی، 243 سیٹوں میں سے صرف 53 ممبران والی بی جے پی بہار کی
صوبائی حکومت کا اہم حصہ بن گئی اور لالو یادو کی پارٹی سب سے بڑی پارٹی
ہونے کے باوجود اپوزیشن میں بیٹھ گئی۔ اس واقعہ کے بعد ملک کی مختلف
پارٹیوں کی جانب سے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار پر لعن طعن جاری ہے مگر
شاید انہوں نے اپنے اس فیصلہ سے اپنی نسلوں کے لیے بہت کچھ حاصل کرلیا ہو۔
ہاں اُن کے اس قدم سے اُن کی سیاسی زندگی پر ایک ایسا دھبہ ضرور لگ گیا جس
کو سیکولر لوگ عرصۂ دراز تک بھول نہیں سکتے ۔ نیز سیاسی مبصرین کا خیال ہے
کہ اس فیصلہ سے نتیش کمار کا سیاسی قد چھوٹا ہی ہوا ہے۔ بی جے پی کے ہمراہ
بنی نتیش کمار کی نئی حکومت میں صرف ایک مسلمان ’’خورشید احمدعرف فیروز
عالم‘‘ کو وزیر بنایا گیا ہے جنہیں اقلیتی فلاح کی وزارت دی گئی۔ اس ذمہ
داری کا حلف لینے کے بعد انہوں نے جو بیان میڈیا میں دیا تھا وہ صرف قابل
مذمت ہی نہیں بلکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ
ایسی گفتگو سے ایمان بھی خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ اُنہوں نے جس انداز اور جن
الفاظ کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کی وہ اسی فتوی کے مستحق تھے جو مفتی سہیل
احمد قاسمی نے ان کے متعلق دیا تھا، جس کی امارت شرعیہ بہار نے تایید بھی
کی۔ مزید افسوس کی بات یہ رہی کہ فتوی آنے کے بعد بھی انہوں نے نہ اپنے
بیان پر ندامت کا اظہار کیا اور نہ ہی اپنے قول سے رجوع کیا بلکہ اپنے موقف
پر اڑے رہے، حالانکہ مسلمان ہونے کے ناتے انہیں چاہئے تھا کہ مرنے کے بعد
والی ہمیشہ کی زندگی کو سامنے رکھ کر فوراً توبہ واستغفار کرتے۔ نتیش کمار
نے اپنی پارٹی کے اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے تمام ممبران اسمبلی کو
اپنے اعتماد میں لینے کے لیے ایک میٹنگ کا انعقاد کیا جس میں اقلیتی وزیر
کے بیان پر کافی ہنگامہ مچا۔جب نتیش کمار نے دیکھ لیا کہ اُن کے تنہا مسلم
وزیر ’’خورشید عرف فیروز احمد‘‘کے حالیہ بیان سے مسلمان ناراض ہوسکتے ہیں،
جو بہار کی مجموعی آبادی کا تقریباً ۱۷ فیصد ہیں تو نتیش کمار نے انہیں
فوراً توبہ کرنے کے لیے کہا، جس پر موصوف نے امارت شرعیہ بہار پہنچ کر اپنے
قول سے رجوع کرکے توبہ واستغفار کیا اور ایمان کی تجدید کے لیے کلمہ شہادت
پڑھا۔ اس وقت ہمیں ان کے بیان اور اس کے بعد اُن کے رجوع نامہ پر مزید کوئی
گفتگو نہ کرکے بس ان کے لیے اور اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے ایمان پر ثابت قدم
رہنے کی دعا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الزمر آیت 53 میں ارشاد فرماتا
ہے: کہہ دو کہ ’’اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کررکھی ہے،
اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف
کردیتاہے۔ یقیناًوہ بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔‘‘ اسی طرح فرمان رسول ﷺہے:
اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ دن میں گناہ کرنے والا رات
کو توبہ کرے اور دن کو اپنا دست قدرت پھیلاتے ہیں تاکہ رات کو گناہ کرنے
والا دن کو توبہ کرے۔ مسلم اس موقع پر چند باتیں مسلمانوں خاص کر نوجوانوں
سے کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اس وقت پوری دنیا میں باطل طاقتوں کا زور ہے اور
مسلمان کافی کمزور ہیں۔ دنیا کے شرق وغرب میں کسی بھی طریقہ سے اچھا منصب،
مکان، گاڑی اور زیادہ سے زیادہ مال کا حصول ہی زندگی کا بنیادی مقصد بن گیا
ہے اور تعلیم گاہوں میں تربیت کا فقدان ہے، بلکہ وہ اب تجارت گاہیں بن گئی
ہیں۔ اِن دِنوں دیگر ممالک کے مسلم بھائیوں کی طرح ہندوستانی مسلمان بھی
متعدد مسائل سے دوچار ہیں، حتی کہ بھگوا تنظیموں اور نام چار کے گاؤ
رکھشکوں کی گھناؤنی حرکت سے ہندوستان کا سیکولر کردار بھی خطرہ میں پڑ گیا
ہے۔ اگر جلدی ہی ان حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ہندوستان کے بعض علاقوں
میں مسلمانوں کے لیے اپنے دین پر چلنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ نیز اس وقت
تعلیمی نظام اور میڈیا کے اہم ذرائع دیگر حضرات کے قبضہ میں ہیں۔
یقیناًہمارے بچے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کریں لیکن ہمیں
چاہئے کہ ہم اپنا اور اپنے بچوں کا تعلق مساجد اور علماء سے مضبوط کریں۔ ہم
اپنے بچوں کو عصری علوم کی تعلیم ضرور دیں لیکن انہیں قرآن وحدیث کی بنیادی
تعلیم سے آراستہ کرکے اُن کے ایمان کی حفاظت کرنا ہمارے اوپر فرض ہے۔ جس کے
لیے ہمیں اپنی اولاد کو بتانا ہوگا کہ انس وجن کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ
کی عبادت کرنا ہے، جو تن تنہا پوری کائنات کا مالک ہے۔ ہماری دنیاوی زندگی
کیسے عبادت بنے، اس کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو منتخب فرماکر نبی
ورسول بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ نبی ورسول کے پاس اپنے احکام
نازل فرماتا ہے کہ کیا کام کرنا ہے اور کیا کام نہیں کرنا، کیا کھانا ہے
اور کیا نہیں کھانا۔ نبی ورسول اپنے قول وعمل سے لوگوں کو رہنمائی کرتا ہے۔
نبیوں کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر حضرت ابراہیم، حضرت
موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام جیسے جلیل القدر انبیاء کرام سے ہوتا
ہوا حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ختم ہوگیا کیونکہ آپ ﷺ کی نبوت کسی قبیلہ یا
علاقہ یا وقت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ آپ ﷺ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا۔ اسی
طرح ہمارا یہ ایمان ہے کہ اس دنیاوی زندگی کے ختم ہونے کے بعد اخروی زندگی
شروع ہوتی ہے، جہاں کی کامیابی کا دارومدار دنیاوی زندگی میں نیک اعمال
کرنے پر ہے جیسا کہ قرآن وحدیث میں بار بار ذکر کیا گیا کہ کامیاب لوگ جنت
میں جائیں گے جہاں اللہ تعالیٰ نے راحت وسکون کے ایسے انتظامات کررکھے ہیں
کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اور ناکام لوگ جہنم کی دہکائی ہوئی آگ میں ڈالے
جائیں گے، جہاں کی آگ کی گرمی دنیاوی آگ سے ۷۰ گنا زیادہ ہے۔ قرآن وحدیث کی
روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ اخروی زندگی میں کامیابی کے لیے
بنیادی شرط اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور ایمان کے ساتھ اس دنیا
سے رخصت ہونا ہے۔ چونکہ ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے
ہیں، لہذا ہم دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا احترام ضرور کریں مگر ہماری
پیشانی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنی چاہئے۔ دوسرے مذہب کے ماننے
والے لوگ اپنی عبادت گاہ میں جاکر اپنے مذہب کی روایت کے مطابق عبادت کریں
لیکن ہمیں صرف اور صرف شریعت اسلامیہ کے مطابق ہی عبادت کرنا اور صرف اللہ
تعالیٰ سے ہی اپنی ضرورتوں کو مانگنا فرض ہے ۔ |