انسان کہا ں پیدا ہوتا ہے اور روزی اسے کہاں سے کہا ں لے
جاتی ہے اسکا اسے اندازہ تک نہیں ہوتا ۔ پس وہ بہتر سے بہتر زندگی کی تلاش
میں آگے بڑھتا ہی جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ سب کچھ آگے ہے پیچھے صرف اندھیرا
مشکلات و مسائل ہیں۔ یہ سوچ و فکر اسے اپنے وطن و ہموطنوں سے بعض اوقات
کوسوں دور لے جاتی ہے۔ اسے پیچھے مڑ کر دیکھنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔
حالانکہ اس کی میٹھی و انمول یادیں آگے نہیں پیچھے ہوتی ہیں۔ آگے تو صرف
ایک اندیکھی دنیا اور اسکے سہانے خواب ہوتے ہیں ۔ انسان کے خواب بڑھتے اور
زندگی گھٹتی جاتی ہے ۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ اسکا سب
کچھ پیچھے ہے۔ وہ ایک دم ماضی کی ہر چیز کو گلے لگاناچاہتاہے ۔مستقبل کی
فکر چھوڑ کر وہ ماضی کی آغوش میں جانا چاہتا ہے۔ ماضی کی ہر بات و ہر چیز
اسے اہم و پیاری لگتی ہے۔ زندگی کی شام جب اسے نظر آتی ہے تو وہ واپس اسی
جگہ لوٹنا چاہتا ہے جہاں سے وہ چلا تھا۔ یہی خوائش میری نوے سالہ آخری
پھوپھی صندل بیگم کی ہے۔ پھوپھیوں اور ماسیوں کے رشتے بڑے میٹھے اور بے لوث
ہوتے ہیں۔ میں بھی بہتر زندگی کی تلاش میں بچپن میں ہی د یار غیر میں چلا
گیا اور پھر آزادی وطن کی محبت میں جتنی زندگی بائر گزاری اتنی ہی دیار غیر
کی جیل میں گزر گئی۔ اس دوران میری والدہ بھائی۔ماموں دو پھوپھیوں سمیت کئی
قریبی رشتہ دار دنیا سے چل بسے۔ بزرگوں میں صرف ایک آخری پھوپھی رہ گئی ہیں
۔ ان کا وجود میرے لیے ایک ایسی غیر مرتب تاریخ ہے جسکا ایک ایک لفظ و لمحہ
میرے لیے اہم و قیمتی ہے۔ یہ غیر مرتب تاریخ میری پھوپھی کی وہ تلخ و شیریں
یادیں ہیں جومیری ذاتی۔خاندانی و تحریکی زندگی سے گہرا تعلق رکتھی ہیں۔ اگر
میں جیل میں مر جاتا یا وہ میری رہائی سے پہلے فوت ہو جاتیں تو مجھے ان کے
سینے میں بند حقائق کا کبھی پتہ نہ چلتا۔ میری پھوپھی تقسیم کشمیر کی چشم
دید گواہ ہیں اور میرے خاندان کی سب سے معمر خاتون ہیں۔ انسان جب کسی ایسی
معلومات کی تلاش میں ہو جس کے زرائع ناپید یا کم ہوں تو پھر محقق کے لیے بے
زبان پتھر بھی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں جبکہ میری پھوپھی تو ماشااﷲ ہر قسم
کی معلومات کا وسیع زخیرہ رکتھی ہیں۔ میں ان سے متحدہ کشمیر اور اپنے
خاندان سے چھبیس سال کی طویل جدائی کی خاص خاص باتیں سننا چاہتا تھا لیکن
اب مجھے انکی گفتگو اسی طرح سپر د قلم کرنی ہے جس طرح انہوں نے بیان کی۔
میں پھوپھی صاحبہ کو کار میں بٹھا کر گھر لا رہا تھا۔ راستے میں انہوں نے
ایک جگہ مجھے کہا بیٹا کار آہستہ چلاؤ۔ میں نے سوچا شاید خستہ حال سڑکوں پر
جمپ لگ رہے ہیں مگر انہوں نے کہا نہیں بیٹا یہ وہ راستے ہیں جن پر میں شادی
کے بعد ایک طویل عرصہ پیدل چل کر ماں باپ سے ملنے جاتی رہی۔ کئی کئی گھنٹے
سفر کرنا پڑتا تھا۔ میں ہر اس درخت کو دیکھنا چاہتی ہوں جس کے نیچے بیٹھ کر
ہم تازہ دم ہو کر دوبارہ اپنی منزل کی طرف چلتے تھے۔ میر اجی چاہتا ہے میں
وہ کنویں بھی دیکھوں جن سے ہم پانی پیا کرتے تھے۔ بیٹا بگھو موڑہ والے بیر
کے درخت کسی نے کاٹے تو نہیں ہیں۔ (بھگو موڑہ ہماری موروثی زمین کا ایک حصہ
ہے) بچپن میں گرد و نواح کی ساری لڑکیاں بیر کھانے آیا کرتی تھیں۔ ہم سب
سہلیاں وہاں پینگ لگایا کرتی تھیں ۔ وہ درخت دیکھے ہوئے عمر بیت گئی ہے۔
بیٹا مجھے آج وہاں لے چل۔ مجھے پتہ ہے وہاں کار نہیں جاتی اور میں چل کر
وہاں پہنچ نہیں سکتی لیکن تم نے مجھے وہاں کسی طرح لے جانا ہے۔ وہاں انجیر
اور جامو کے درخت بھی ہوا کرتے تھے ۔ پھوپھی کی یہ خوائش پوری کرنا میرا
مشن بن گیاجس کی تکمیل کے لیے میں زہنی پلان بنا رہا تھا کہ انہوں نے ایک
اور جذباتی واقع کا تذکرہ شروع کر دیا۔ کہنے لگیں بیٹا پہلے میرے دو جوان
بھائی فوت ہو گے ۔ ایک کی عمر ستائیس اور دوسرے کی اٹھارہ سال تھی تم ابھی
پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ پھر میرے لالہ یعنی تیرے پاپا فوت ہو گے ان اموات
نے میرے والد کی کمر اور ماں کا دل توڑ دیا۔ تم سب بہن بھائی کم عمر تھے
مگر تیری والدہ نے تم سبکی باوقار طریقے سے پرورش کی۔ تم کمانے کے قابل
ہوئے تو تمارا کشمیر تمیں جیل لے گیا۔ پتر میں وہ دن نہیں بھول سکتی جب
ادھر ادھر سے لوگ بتانے لگے کہ ریڈیو نے خبر دی کہ راجہ قیوم ایک سیاسی قتل
میں انگلینڈ میں پکڑا گیا۔ میں اس وقت منجوال اپنے گھر تھی۔ تماری بوڑھی
مان زہن میں گھومنے لگی ۔ یا اﷲ پتہ نہیں اسے کوئی کس طرح خبر سناے گا اور
سن کر اسکا کیا رد عمل ہو گا۔ میں نے ایک دم تیار ہو کر تماری ماں کے پاس
پہنچ کر انہیں خود آرام سے خبر سنانے کا فیصلہ کیا۔ میں جس حالت میں تھی چل
پڑی۔ راستے میں ایک ہی سوچ میرے زہن میں گردش کرتی رہی اور وہ یہ کہ کیامیں
ا پنے پتر قیوم کودوبارہ ان رستوں پر چلتے دیکھونگیـ یا نہیں؟ پہلے میں
راستہ بدل کر بیوے گل نور(بڑی بہن) کے پاس گئی انکو ساتھ لیا اور تماری ماں
کے پاس پہنچی۔ انکو ہم کیا خبر سناتیں وہاں تو پہلے ہی ہزاروں لوگ جمع تھے۔
ہر کوئی اپنے اپنے حساب سے باتیں کر رہا تھا۔ کوئی تماری ماں کو مبارک
بادیں دے رہا تھا کہ اس کے بیٹے نے کشمیر کے لیے بہت بڑا کام کیا اور کوئی
یوں ہی تسلیاں دے رہا تھا مگر ہمارے زہن میں تو ایک ہی سوال تھا کہ بچہ
دوبارہ کب ملے گا؟ بیٹا یہ تو میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن میرا
ریاض ولایت جائے گا اور وہ مجھے بلائے گا اور میں اپنے پیارے بھتیجے سے
ملنے جیل جاؤنگی۔ اس موقع پر پھوپھی صاحبہ پہلے خوب ہنسیں اور پھر کہا بیٹا
یاد ہے میں نے تمیں جیل میں مل کر کیا کہا تھا؟ پھر خود ہی فرمانے لگیں میں
تمیں جیل میں دیکھنے سے پہلے تماری صحت بارے بہت فکر مند تھی لیکن جب تم
دوسری طرف سے مسکراتے ہوئے وارد ہوئے تو میرے منہ سے نکل گیا ابھی تو بچہ
شادی کے قابل ہے۔ پھر ایک دم انکا چہرا مرجھا گیا اور کہنے لگیں پتر تماری
ماں کہا کرتی تھی میرے قیوم کی چائے کتنی عمر ہو جائے وہ بری ہو کر آئے گا
اور میں اسے ضرور شادی کرواؤنگی۔ آہ ہا۔۔۔ بیٹا تماری شادی تو ہو گئی مگر
ماں نے دیکھ نہ سکی۔ چلو جیسے اﷲکی مرضی۔ میں اور میری اہلیہ چپ چاپ پیاری
پھوپھی کی پیاری باتیں سن رہے تھے کہ انہوں نے میری اہلیہ کا ہاتھ پکڑکر
اسے کہا تماری کس کو خبر تھی۔ تمارا روزی پانی یہاں لکھا تھا۔ بس میرے بیٹے
کو خوش رکھنا۔ میرا دل نہیں چاہتا کہ میں یہاں سے جاؤں۔ یہ بچیاں بچے میرے
بھائی کی نشانیاں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے یتیم ہو گے تھے۔ دادا اور ماں نے انکو
پالا۔ اس دن دنیا بہت روئی جس دن میری ماں کا اس گھر سے جنازہ نکلا تو میرے
پاپا نے آواز دی سید۔ ممتاز اور مولداد (پہلے دو میرے چچے اور آخری والد
تھے)۔ آؤ ماں کی چارپائی کو کندھا دو مگر وہ کیسے آتے۔ وہ تو ماں کو چھوڑ
کر کئی سال پہلے جا چکے تھے۔ میں جو یہ سوچکر پھوپھی کو لایا تھا کہ ان سے
تقسیم کشمیر کی کہانی سنوں گا میں انکی اپنے گھر کی کہانی سنکر اتنا دکھی
ہوا کہ میں نے اپنی اہلیہ کو کہا اب باقی کہانی تم ہی سنوں۔ میرا بلڈ پریشر
بڑھتا جا رہا ہے۔ مجھ سے مزید کچھ نہیں سنا جاتا! سننے کا جو شوق تھا وہ
سنا گیا! |